ڈاکٹربلند اقبال (کینیڈا)
محمد شجا ع دبے پا وٗ ں کمر ے میں داخل ہوا ، کمر ے میں ہمیشہ کی طر ح ا ند ھیرا تھا ، ایک لمحے کے لیے اُسے خیال آیا کہ بتی جلائے مگر پھر اس خیال سے کہ با با کو رو شنی سے و حشت سی ہو تی ہے اُس نے اپنا ارادہ تر ک کر د یا ۔ با با ہمیشہ کی طر ح چا ر پا ئی پہ بیٹھا سر جھکا ئے ز مین کو تک ر ہا تھا ۔ کند ھوں پہ سفید سو تی چا د ر سر کو ڈ ھکتی ہو ئی چا ر پائی کے کنا روں کو چھو ر ہی تھی۔کمر ے میں کہنے کو ایک گہر ی خامو شی تھی مگر ماحول میں سکو ن کم ، و حشت ز یادہ تھی ، ایسی وحشت جو کسی کے مر نے سے پہلے یا فو راً بعد ہو تی ہے۔ محمد شجا ع ،با با کے قر یب آیا اور اُس کی چا ر پائی کے قر یب اُکڑوں ہو کر بیٹھ گیا اور پھر اُس نے آ ہستگی سے با با کے جھر یوں بھرے کا نپتے ہوئے ہا تھو ں پر اپنے دو نوں ہا تھ ر کھ دیے ۔ ’با با میری مد د کر و نا‘ ۔ وہ آ ہستہ سے بڑ بڑا یا ۔ ’دیکھو نا بابا میں کتنا پر یشان ہوں ، یہ مجھے کیا ہو گیا ہے ۔ کیسی عجیب سی بیما ری مجھے ہوگئی ہے جس کا علاج کسی حکیم کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں اور جب بھی میں کسی سے اس کا تذکرہ کر تا ہوں تو لو گ مجھ پہ ہنستے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جیسے میں اُن سے مذاق کر ر ہا ہوں ‘۔ با با’ مگر تم تو میرے باپ ہو نا ، تم تو مجھے بچپن سے جا نتے ہو ، اب تومیں بھی پچا س بر س کا ہو چلا ہوں ۔ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو ر ہا ہے ‘۔ تمھے پتہ ہے با با ، محمدشجاع نے اپنے باپ کے کان میں سر گو شی کی ، ’میر ے اندر ایک کا ر ٹون ر ہتا ہے ۔ ہاں با با ایک کا ر ٹون ، جیتا جا گتا کا رٹون ، نا چتا گا تا ، اچھلتا پھا نگتا ، مجھے منہ چڑانے والا کا ر ٹون ۔ با با وہ کا ر ٹون ہو بہو میری شکل کا ہے۔ میرا جیسا ناک نقشہ ، میری ہی جیسی اد ائیں ۔ وہ اچانک مجھ میں سے نمودار ہوتا ہے ۔تمھیں پتہ ہے بابا پہلی با ر میں نے اُسے کب دیکھا تھا ۔ میں مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہا تھا ، میرے ہا تھو ں میں تمھا ری ہی دی ہوئی تسبیح تھی جس کے دا نوں کو پڑ ھتا ہوا میں گھر آرہا تھا کہ اچانک یہ کا ر ٹون مجھ میں سے نکل کر میر ے سا منے آکھڑا ہوا اور پھر مجھے د یکھ کر زور زور سے تا لیاں بجانے لگا ۔ مجھے یوں لگا جیسے اُس کی دم لمبی ہو گئی ہے اور شکل بند ر جیسی اور پھر ا یسے لگا جیسے کہہ ر ہا ہو یہ ساری نمازیں پڑھ کر بھی تو مجھے بند رجیسا لگتا ہے ۔ ہاں با با یہ ٹھیک ہے میں ضر و ر توں اور خو اہشوں کا محتاج ہوں ، میں بھی مصلحتوں کا ما را ہوا انسان ہوں ، آ سا ئشوں کا طلب گا ر ہوں ، مجھ میں نما ئش ہے ، ظاہر داری ہے ، میں غیبت بھی کرتا ہوں ، ر شوت بھی لیتا ہوں اور جو وقت پڑ ے تو دوسروں کا مال بھی کھا جاتا ہوں ۔ مگر با با پھر میں دن رات عبا دتیں بھی تو کر تا ہوں ، اور ہاں با با تمھیں پتہ ہے جب میں روز صبح قرآن شریف کی تلاوت کرتا ہوں ، تو یہ کم بخت کا ر ٹون مجھ میں سے نکل کر کسی طو طے کی شکل میں ڈھل جاتا ہے اور پھرمجھ سے ٹیں ٹیں کر کے کہتا ہے توکتاب پڑھ کر بھی طو طے جیسا لگتا ہے کیو نکہ تو اُسے طو طے ہی کی طر ح تو پڑھتا ہے‘ اور پھر و ہ اپنی کر یہہ آ واز سے زور زور سے دُ ہر ا تا ہے ۔۔’تجھے معنی مطلب سے کیا مطلب ، تجھے معنی مطلب سے کیا مطلب ‘۔۔۔ ’اور با با جب میں ر و زے ر کھتا ہوں تو یہ کا ر ٹون میر ے پیٹ کا کیڑا بن جا تا ہے اور اندر سے میرے خالی پیٹ کو ڈھول کی طرح بجاتا ہے اور کہتا ہے جیسا دماغ ویسا پیٹ ، با با تمھیں کہو اگر میرے پڑوسی بھوکے سوتے ہیں تواس میں میرا کیا قصور ، میں تو روزے کی پیاس جنت میں دُودھ کی نہر و ں سے بجھاناچاہتا ہوں ۔ با با مجھے بتاؤ نا ، آخر یہ کارٹون مجھ سے کیا چاہتا ہے ، تمھیں پتہ ہے با با کل رات اس نے کیا حرکت کی ؟ کل رات یہ کہیں سے ایک تر ا ز و لے آیا اور و ہ بھی ایک پلڑے کا ۔ اور پھر مجھ سے چیخ چیخ کر کہنے لگا تیری زندگی محض ایک پنسا ری کی دوکان ہے اور پھر مجھے دیکھ کر پیٹ پکڑپکڑ کر ہنستا اور قلا بازیاں کھاتا ہوا اچانک نظروں کے سا منے سے غائب ہوگیا ۔ اور پھر یکا یک کو ئی بھوت بن کر آ گیا اور چیخ کر کہنے لگا ۔۔ ترازو کے ایک پلڑے پہ تیری عبا دتیں اور دوسرا پلڑا جیسے بھوت ۔۔ با با مجھے بہت ڈر لگتا ہے ۔ کچھ کہو نا با با میں کیا کروں ؟کیسے اس کم بخت کا ر ٹون سے نجات پاؤں‘۔ ا ور یہ کہہ کر محمد شجاع د ھاڑیں ما ر مار کر رونے لگا ۔ کچھ دیر بعد با با نے آہستہ سے اپنا سر اُٹھایا ۔ محمد شجاع نے دیکھا با با کی سفید پلکوں پہ آنسو چمک ر ہے تھے ، اُس کا چہرہ جیسے کسی اندرونی کرب سے کانپ ر ہا تھا ۔ با با نے روتے ہوئے کہا ۔’ بیٹا تو مجھ سے کیا پو چھ ر ہا ہے میں تو خود ہی ایک ۔۔۔۔۔
اور محمد شجاع کو ا چا نک لگا جیسے اُس کے باپ کی روتی ہوئی شکل ہو بہو اُس کے کا ر ٹون جیسی ہی تو ہے ‘۔
٭٭٭
’’اصل میں مجھے باقر مہدی کے اپنے بارے میں مختلف بیانات پڑھ کر یہ اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے گوناگوں تعصبات کے چکر میں کسی ایک کھونٹے سے باندھ دینا چاہتے ہیں۔ مجھے خوب احساس ہے کہ جب سے ہمارے ادب میں تحریکوں کی وبا پھیلی ہے ادیب کسی ایک کھونٹے سے بندھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔اس میں فریقین کو سہولت رہتی ہے۔بندھے ہوؤں کو بغیر تگ و دو کے مشین سے کٹا چارہ میسر آجاتا ہے۔دوہنے والے آسانی سے دودھ دوہ لیتے ہیں۔مگر میں کسی تحریک کا ڈنگر نہیں،کوئی نظریاتی جانور نہیں۔نظریوں سے مجھے دلچسپی ہو سکتی ہے۔کسی مرغوب نظریے کی تبلیغ کی خواہش بھی ہو سکتی ہے۔مگر اس خواہش نے مجھے کبھی اتنا حیوان نہیں بنایاکہ افسانے کو پروپیگنڈے کی سطح پر لے آنے پر تل جاؤں۔میں افسانے میں نظریے کے کاندھے پر بندوق رکھ کر نہیں چلاتا۔میرے لئے تجربے کی غلیل بہت ہے۔افسانہ اس حقیر فقیر پر خیالاتِ عالیہ کی صورت میں نازل نہیں ہوتا،واردات بن کر گزرتا ہے۔باقر مہدی نے مجھے نئے افسانے کا تمغہ عطا نہیں کیا،ٹھیک کیا۔میں اس اعزاز کا مستحق نہیں ہوں۔میں تو ماقبل تاریخ زمانوں میں بھٹکتا پھر رہا ہوں اور ان بزرگوں سے کہانی کا فن سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جن کا فکشن کی تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔‘‘ انتظار حسین کا خط ’نئے افسانہ نگار کے نام‘