پروفیسر خوشی محمد خان(جرمنی)
(پروفیسر ڈاکٹر خان ایک عرصہ سے جرمنی میں مقیم ہیں۔یہاں کی یونیورسٹیز میں تیسری دنیا کی اقتصادیات، سوشو اکنامیکل حوالے سے پڑھا چکے ہیں۔اب ریٹائرہو چکے ہیں۔ان کا ایک افسانہ جدید ادب کے شمارہ مئی ۲۰۰۰ء میں شائع کیا گیا تھا۔ آپ اِس وقت اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ اور اپنی یادوں کو ترتیب دے رہے ہیں۔ ذیل میں ان کا ایک نایاب افسانہ ’’ازل سے ابد تک‘‘پیش کیا جارہا ہے۔یہ افسانہ اسلامیہ کالج چنیوٹ کے کالج میگزین’’ البصیر‘‘ کے شمارہ دسمبر ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند تحریک کی ادبی یلغار کے باوجود میرزا ادیب اور دوسرے رومانوی افسانہ نگاروں کی رومانویت پسندی بھی اردو افسانے کا اہم جزو تھی۔اس افسانے میں رومانویت پسندی کے ان اثرات کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔اپنا یہ نایاب افسانہ فراہم کرنے پر ادارہ جدید ادب ان کا شکر گزار ہے۔حیدر قریشی)
کتنی بہاریں آئیں،بھنوروں نے مدھر گیت گائے۔شاخوں پر کلیاں پھوٹیں۔دھرتی کے سینے سے کائنات کے ذرے ذرے میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔عشق نے محبت کو حسن کی بارگاہ میں پیش کیا۔ساکن زندگی میں نغموں نے جنم لیا اور پھر یہ بہاریں بھی بیت گئیں۔پھول مرجھا گئے،شدت کے الاؤ سرد پڑگئے۔تند ہواؤں نے ہر چیز کو پامال کرکے رکھ دیا۔سازوں میں نغمے ٹھہر گئے،ڈوب گئے یا کہیں کھو گئے۔سبزے مرجھا گئے۔اور زرد سایوں نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔بہاریں آتی ہیں اور خزاؤں کو جنم دے کر چلی جاتی ہیں۔کسی اَن جانے دیس کو ،شاید اُفق کے اس پار جہاں نہ پت جھڑ ہے نہ تند ہوائیں،نہ زرد سائے ہیں نہ چیخیں! اور میں ہوں کہ بس دیکھتی ہوں کچھ سوچتی رہتی ہوں۔ذہن کی ساکن سطح پر غیر واضح لکیریں اُبھرتی ہیں،پھیلتی ہیں اور پھر مٹ جاتی ہیں۔محبت انسان کو جنم دیتی ہے۔محبت ہی کے سایہ میں انسان پروان چڑھتا ہے۔محبت محبوب کا سایہ اوڑھ لے تو انسان ایک ہمہ گیروسعت اختیار کر لیتا ہے اور جب یہ محبت سماج کی ظالم زنجیروں میں جکڑ لی جائے تو وسعتیں سمٹ جاتی ہیں۔اندھیرے پھیل جاتے ہیں اور انسان مر جاتا ہے اور جب اتھاہ تاریکی ہر چیز کو نگلنے لگتی ہے تو ہم ماضی کا سہارا لیتے ہیں۔ماضی جو حال کو جنم دیتا ہے،جس سے ہم کبھی علیحدہ نہیں ہو سکتے۔جسے ہم بھول جاتے ہیں لیکن ہمیں کبھی نہیں بھولتا،کبھی نہیں چھوڑتا۔جس کے لمبے سائے حال کی حدود سے لے کر مستقبل کی وسعتوں تک پھیلے پڑے ہیں۔اور بعض لمحے ایسے بھی آتے ہیں جب ذہن پیچھے کی طرف پلٹ جاتا ہے۔وقت ٹھہر جاتا ہے اور غیر ارادی طور پر ہم روندی ہوئی راہوں میں کھوجاتے ہیں۔
وہ سرما کی ایک خنک ترین رات تھی۔کھانے کے بعد سبھی لوگ بڑے کمرے میں اپنی مخصوص جگہوں پر آبیٹھے۔ابا میاں منہ میں حقہ لئے اخبار دیکھنے لگے۔امی گڈو کے لئے پُل اوور تیار کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گئیں۔آپا کوثر حسبِ معمول آرام کرسی پر نیم دراز نہ جانے کس دیس کی سیر کو چل نکلیں۔اور مجھے حسبِ عادت نیند آنے لگی۔مگر ابھی تو دو روزہ رپورٹ پیش کرنی تھی،ہدایات لینی تھیں۔لیکن ابا میاں کمال اشتیاق سے اخبار میں محو تھے۔ابھی اونگھنے ہی لگی تھی کہ خوشخبری ملی،اگلے روز ماسٹر جی آرہے تھے۔انہوں نے وقت کی پابندی کے لئے خاص تاکید کی تھی۔گرمیوں کی چھٹیوں کے لئے اسکول سے اتنا کام ملتا تھا کہ پڑھائی سے نفرت ہونا لازمی بات تھی۔اور ابا میاں برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ ہمیں پڑھائی سے ذرا بھی نفرت ہو۔لہٰذا ٹیوٹر کا انتظام کر دیا گیا تھا۔
اور اگلے روز ابھی تیار بھی نہ ہو سکے تھے کہ اطلاع ملی ماسٹر جی بڑے کمرے میں ہمارے منتظر ہیں۔اور پھر پانچ منٹ کے وقفہ میں اُن کا تیسرا بلاوا آچکا تھا۔کہاں تو میں نے اصرار کے ساتھ پرائیویٹ ٹیچر کا انتظام کروایااور کہاں اب گھبرا رہی تھی۔نہ جانے سخت طبیعت کے ہوں۔اگر ڈانٹ ڈپٹ ان کی عادت ہوئی تو کیسے برداشت ہو گا۔نوکر چوتھی مرتبہ آچکا تھا اور آپا کوثر کتابیں لئے میری منتظر تھیں۔ہم دونوں دسویں جماعت میں پڑھتی تھیں۔مجھے فوراَ یاد آگیاکہ اُنہوں نے وقت کی پابندی کے لئے خاص تاکید کی تھی۔جلدی جلدی تیار ہو کر بڑے کمرے کی طرف بڑھیں۔دروازہ بند تھا۔ہم رُک گئے۔
’’وہ کپڑے بدل رہی ہیں‘‘گڈو کہہ رہی تھی۔
’’انہیں کہو جلدی آئیں‘‘ ماسٹر جی کی آواز تھی۔
اچانک دروازہ کھلا اور گڈو ہمیں اندر کھینچنے لگی۔اتنی نڈر تھی کہ ہر اجنبی سے فوراَ گھل مل جاتی۔ہم اندر جاتے ہوئے شرما رہی تھیں۔وہ بھانپ گئے۔کہنے لگے۔’’آجائیے! طالب علموں کے وقت کا ہر لمحہ بہت قیمتی ہوتا ہے‘‘
ہماری رُکی ہوئی سانسیں پھر سے چلنے لگیں اور میرا سارا مبہم خوف جاتا رہا۔ہم اندر داخل ہوئے ۔وہ اخبار دیکھ رہے تھے۔گیبرڈین کی پینٹ کے ساتھ سفید قمیص پہن رکھی تھی،جس نے ان کے سانولے رنگ کو گہرا بنا دیا تھا۔یہی ۲۰۔۲۱سال کے ہوں گے۔بال نہایت سلیقہ سے بنے تھے اور ان کا بھرا بھرا چہرہ نہایت سنجیدگی سے اخبار پر جھکا تھا۔مجموعی طور پر انہیں خوبصورت تو نہیں کہا جا سکتا تھا لیکن بد صورت بھی نہیں تھے۔
’’بیٹھ جائیے‘‘ انہوں نے اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔جس میں ادب ذرا بھی نہ تھا۔میں تو ان کے تحکمانہ طرز گفتار پر چڑ سی گئی۔ہم بیٹھ گئے اور وہ کئی منٹ تک اخبار دیکھتے رہے۔کجا تو کئی مرتبہ نوکر بھیج چکے تھے۔
ایک عدد نصیحت بھی فرما چکے تھے اور اب اخبار میں یوں محو تھے جیسے اور کوئی کام ہی نہیں تھا۔اور جب ہم بور ہو کر اونگھنے لگیں تو انہوں نے ایک اچٹتی نگاہ سے ہمیں دیکھااور نام پوچھے۔کتابوں کاپیوں پر ایک سرسری سی نظر ڈالی۔کچھ ہدایات دیں اور چلے گئے۔اور پھر وہ روزانہ آنے لگے۔وقت کے غیر معقول حد تک پابند تھے۔بارش ہو رہی ہے،گلی میں پانی ہی پانی پھیل چکا ہے۔لیکن ہاتھوں میں جوتے اٹھائے وہ وقتِ مقررہ پر دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔بہت کم گو تھے،جو کچھ کہتے مجھے تو کم ہی سمجھ میں آتا تھا۔
البتہ آپا کوثر یوں سر ہلاتیں جیسے سب کچھ سمجھ رہی ہوں۔حالانکہ گھر والوں کی نظروں میں،میں زیادہ ذہین تھی۔ہر سال اچھے نمبروں میں پاس ہوتی اور آپا کوثر دو مرتبہ فیل ہو چکی تھیں۔سبق سناتے وقت جب کبھی رُک جاتی تو اُن کے لبوں پر دبی دبی مسکراہٹ پھیل جاتی اور میں جھنجھلا ہی تو اٹھتی۔جی چاہتا کتاب پھینک کر زور زور سے چیخوں اوراس طرح امی کسی اور ماسٹر کا انتظام کردیں۔اور سونے سے پہلے جب آپا کوثر کہتیں ’’وہ بہت اچھا پڑھاتے ہیں،بی اے کر چکے ہیں نا!‘‘ تو میں جھگڑ پڑتی۔اور بحث کرنا آپا کے بس کا روگ نہ تھا۔اور پھر جب مجھے سبق یاد ہونے لگے تو میری تعریف میں بھی کبھی کبھار ایک فقرہ کہہ دیتے۔ان کی دبی دبی مسکراہٹ دیکھ کر ایسے لگتا کہ بس یونہی کہہ رہے ہیں۔
آپا کوثر کی انہوں نے کبھی تعریف نہ کی۔جب کوئی لفظ بھول جاتا اور وہ ادھر اُدھر نظریں دوڑاتیں جیسے کچھ ڈھونڈ رہی ہوں اور وہ بھانپ جاتے۔مطلب سمجھاتے وقت اُن کی نظریں کچھ لمحوں کے لئے آپا کوثر کے چہرے پر رُک جاتیں اور آپا کا چہرہ گلاب کے پھول کی طرح سُرخ ہوجاتا۔مجھے اپنی طرف متوجہ پاکر پوچھتے
’’سبق یاد ہورہا ہے نا!‘‘
اور میں سوچنے لگتی کہ وہ بچوں کا سا سلوک کیوں کرتے ہیں؟مجھ سے باتیں کرتے وقت بھی سنجیدہ کیوں نہیں ہوجاتے؟مجھے کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں؟اور کبھی کبھار آپا اُوٹ پٹانگ سوال کر بیٹھتیں تو میں اور چِڑ جاتی۔بھلا ایسے بے تکے سوالوں کی کیا ضرورت تھی۔’’نہ جانے زندگی کیا ہے؟‘‘آپا دھیرے دھیرے گنگناتیں۔
’’کوئی بھی تو نہیں جانتا ہم کون ہیں،کہاں جا رہے ہیں اور کب تک ساتھ رہیں گے‘‘وہ جواب دیتے۔
’’موت سے آگے کیا ہے؟‘‘آپا پھر پوچھتیں
’’اتھاہ تاریکی کے علاوہ شاید کچھ بھی نہ ہو‘‘وہ اُسی لَے میں جواب دیتے۔
’’لوگ مل کر بچھڑ کیوں جاتے ہیں؟‘‘نہ جانے آپا اتنے سوال کہاں سے اکٹھے کر لاتیں۔
’’ہم ملتے ہی بچھڑنے کے لئے ہیں‘‘اُن کی آنکھیں دیوار پر ٹنگے ہوئے کلاک پر رُک جاتیں۔
’’مثلاََ شاید ہم پھر کبھی نہ مل سکیں؟‘‘آپا پھر دھیرے دھیرے گنگناتیں۔
’’اکثر تو یہی ہوتا ہے‘‘ وہ فضا میں نظریں پھیلا دیتے۔
’’میں بتاؤں زندگی کیا ہے؟‘‘آپا اچانک کہتیں
’’جی! ‘‘وہ کہیں دور سے جواب دیتے۔
’’ایک ادھورا خواب۔‘‘آپاپُر اعتماد لہجے میں جواب دیتیں۔اور اُن کی نظریں پھر آپا کے چہرے پر رُک جاتیں۔جیسے کچھ تلاش کر رہی ہوں،کچھ ڈھونڈنے کی فکر میں ہوں۔اور آپا کا چہرہ پھر سے گلاب کے پھول کی طرح سرخ ہوجاتا۔مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر وہ پھر پوچھتے’’سبق یاد ہو رہا ہے نا؟‘‘
اور میں نظریں جھکا کر پھر سوچنے لگتی کہ وہ مجھ سے بچوں کا سا سلوک کیوں کرتے ہیں۔ایسی باتیں کرتے وقت مجھے کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں؟ اور مجھے ان سے نفرت سی ہونے لگی۔
پھر ایک شام زور کی بارش ہوئی۔ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جھکے ہوئے بادل کبھی نہ چھٹیں گے۔ہماری گلی نشیب میں تھی۔اس میں پانی اکٹھا ہو گیا۔رات کی تاریکی میں بھیانک سناٹا پھیلتا گیا۔ٹھنڈی ہوا کے تند جھونکے جسم میں کپکپی پیدا کرنے لگے۔ابا میاں کسی کام سے لاہور گئے تھے۔امی کھانے کے بعد ہی سو گئی تھیں اور بچے لحافوں میں دبکے پڑے تھے۔آپا کوثر اور میں سبق یاد کر رہی تھیں۔گلی میں سے ننگے پاؤں گزرنے والے چھپل چھپ۔چھپ چھپل کرتے سنائی دے رہے تھے۔اچانک ایسا شور ہوا جیسے کوئی گرا ہے یا گرتے گرتے بچا ہے۔
’’کیچڑ میں ننگے پاؤں چلنے میں کتنی راحت محسوس ہوتی ہے‘‘ یہ ماسٹر جی کی آواز تھی۔
’’عجیب احمق ہو ۔ایسا راستہ تھا تو مجھ پر تو رحم کیا ہوتا‘‘یہ شاید ان کے کسی دوست کا اظہار ناراضگی تھا۔
آپا کوثر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ میری طرف دیکھنے لگیں۔بھلا اس میں مسکرانے کی کونسی بات تھی۔ایک پڑھا لکھا انسان کتنی حماقت کر رہا تھا ۔دل تو چاہا کہ ان کی اس حرکت پر روؤں اور کہوں کہ کیچڑ میں کبھی راحت نہیں مل سکتی۔لیکن وہ ماسٹر جی تھے اور آپا تو پاگل ہی تھیں جو فضا کو تکتے بس مسکرائے جا رہی تھیں۔صبح امی سے ذکر کیا تو کہنے لگیں’’کہیں ضروری کام سے جا رہا ہوگا۔بہت نیک لڑکا ہے‘‘
امی بھی کبھی کبھار بے تکی بات کر جاتیں۔ذکر تھا کیچڑ کا اور لے بیٹھیں سیرت کو۔جیسے انہیں برسوں سے جانتی ہوں یا انہیں اپنے ہاتھوں سے کھلایا ہو۔مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ لوگ لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے محروم رکھ کر انسانیت پر بہت بڑا ظلم کرتے ہیں۔
ہمارا ملازم اکرم ’’ہندوستانی پاگل‘‘ تھا۔بلاضرورت ،بے مقصد اور پاگلوں کی طرح ادھر اُدھر وقت ضائع کیا کرتا۔دنیا جہان کے ذاتی معاملات کا اُسے پورا علم ہوتا۔غیرمتعلق انسانوں کی زندگی میں خاص دلچسپی کا اظہاراُس کا محبوب مشغلہ تھا۔ ہوٹلوں کے بیرے،چھابڑی والے،پوسٹ مین اور اسکول کے ماسٹر اس کے حلقۂ احباب میں داخل تھے۔گیا ہے بچوں کی دوائی لینے اور کمپاؤنڈر دوست سے گپیں ہانکنے میں وقت ضائع کرکے لوٹ رہا ہے۔بھیجا ہے کہ دوپہر کے لئے گوشت لے آئے اور کسی چھابڑی والے سے دنیا بھر کی بحث کرکے تیسرے پہر خالی واپس آرہا ہے۔عذر یہ کہ قصابوں نے ہڑتال کر رکھی ہے یا ملول چہرے سے جواب ملتا،نتھو کباب فروش مل گیا تھا ۔ذرا دو باتیں کرنے بیٹھ گئے۔
ابا میاں اکثر دھمکاتے کہ اگر نوکری کرنی ہے تو انسانوں کی طرح کام کرنا ہوگا لیکن اس کے خاندان کی مفلسی کو مد نظر رکھتے ہوئے امی آڑے آجاتیں۔ایک دو دن ٹھیک رہتا پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔کسی زمانے میں آٹھویں پاس کر چکا تھا۔اگر کسی روز گھنٹوں غائب رہتا تو بلا شبہ کسی کتب فروش کی دوکان پر نئی کتابوں کی فہرست دیکھتا پایا جاتا۔اسکول کے تقریباَ ہر ٹیچر سے مشورے کر چکا تھا کہ میٹرک کرنے کے لئے کون سا طریقہ بہتر رہے گا۔کون کون سی کتابیں مناسب رہیں گی۔اور جب سے ہمارے ہاں نئے ماسٹر آئے تھے ان کی تعریف میں نہ جانے کیا کچھ کہتا پھرتا۔اور پھر اختتام یہی ہوتا کہ نئے ماسٹر جی نے اسے یقین دلایا ہے کہ وہ میٹرک پاس کرائے گا۔اور پرانی کتابوں کے کئی دوکاندار اس ابدی گاہک سے اور بھی تنگ آ گئے۔
اُس شام بلا کی سردی تھی۔دوپہر کی شدید بارش کے باوجود مطلع ابر آلود تھا۔سبھی لوگ باورچی خانے میں آگ تاپ رہے تھے ۔اکرم دوپہر سے کہیں غائب تھا۔امی آج اپنے قطعی فیصلے کا اظہار فرما چکی تھیں کہ اسے ملازمت سے علیحدہ کر دیا جائے گا۔گڈو بھول بھوک سے بلبلا کر دودھ کے لئے رونے لگی تو امی نے اپنے قطعی فیصلے کو زور دار الفاظ میں دہرایا۔اسی وقت اکرم سر جھکائے آپہنچا اور دروازے میں ہی ٹھہر گیا۔
’’میں تو سمجھی تھی کہیں مر ہی گئے آج‘‘امی پہلی مرتبہ چیخیں۔
’’مرنے والے کے جنازہ کو کندھا دینے گیا تھا‘‘ اس نے سر اُٹھائے بغیر جواب دیا۔
’’بد تمیز کیا بکتا ہے؟‘‘امی غصے اور حیرت سے بولیں۔
’’ماسٹر جی کے چھوٹے بھائی چھت سے گر کر شہید ہو گئے ہیں‘‘وہ اسی انداز سے بولا۔آپا کوثر کے ہاتھ سے سلائی کا رومال چولہے میں جا گرا۔اور انہوں نے دیوار کا سہارا لیا۔میرا دل بیٹھ سا گیا۔امی کے سرخ چہرے پر زردی کی ہلکی ہلکی لکیریں بکھریں اور ان کی آنکھوں میں مامتا کا پانی پھیل گیا۔آپا جلے ہوئے رومال کو سمیٹنے لگیں۔
’’بڑا ظلم ہوا۔اس کی امی کا کیا حال ہوگا؟‘‘امی نے انتہائی دردناک لہجہ میں کہا۔
’’وہ تو پچھلے سال انتقال کر گئی تھیں‘‘اکرم ایک ہی لَے میں بولے جا رہا تھا۔اور امی کی آنکھوں میں پھیلا ہوا پانی ٹپ ٹپ بہنے لگا۔آپا کوثر چولہے میں زور زور سے پھونکیں مار کر دوپٹے سے آنکھیں مسلنے لگیں اور مجھے چکر سا آنے لگا۔’’ماسٹر جی وہیں تھے؟‘‘نہ جانے میں نے کیسے کہہ دیا
’’ننھے بھائی کو بازار سے وہی اٹھا کر لائے تھے‘‘
’’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟‘‘گنگنانے والی آپا نے مجھے پہلی مرتبہ ڈانٹا۔
’’نہیں تو! چارپائی پر لیٹے ہوئے بھائی کو چپ چاپ تکتے رہے اور جب چھوٹے بچے چیخنے لگے تو کرک کر بولے’جانے والا توجا چکا۔تمہارے چیخنے سے لوٹ تو نہیں آئے گا‘‘ہم سب سہم گئے تھے۔
’’میت کو دفناتے وقت وہ بالکل خاموش تھے۔واپسی پر مجھے آہستہ سے کہا :دو تین روز تک نہیں آسکیں گے‘‘
اور پھر اکرم بچوں کی طرح رونے لگے۔امی ساتھ دینے لگیں۔آپا کوثر چولہے میں اور زور زور سے پھونکیں مار رہی تھیں۔مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ جلتی ہوئی آگ کو بجھانے کی ناکام کوشش میں مصروف تھیں اور آگ تیزتر ہوتی جا رہی تھی۔
کئی روز بعد ماسٹر جی آئے تو ہم سہمے سہمے پاس آکر بیٹھ گئیں۔’’لائیے سبق کہاں چھوڑا تھا‘‘انہوں نے کہا۔
اور ہم بے حس بیٹھے تھے۔
’’آئیے باقی ماندہ سبق بھی ختم کر لیں‘‘انہوں نے پھر کہا۔ہم پھر بھی بے حس تھے اور انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس کے ساتھ سر جھکا لیا۔
’’زندگی کتنی غیر یقینی ہے!‘‘آپا کوثر دھیرے دھیرے گنگنائیں۔
’’پھر بھی اس سے چمٹے رہنے کی خواہش ہمیشہ زندہ رہتی ہے‘‘
’’یہ بے ہودگی ہی تو ہے‘‘آپا پھر بولیں۔
’’ایسی بے ہودگی جو عام ہو کے رہ گئی ہے‘‘انہوں نے اپنے مخصوص لہجے میں جواب دیا۔اور پھر ایک لمبی چُپ!
’’یہاں کوئی کسی کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا‘‘آپا نے دکھی لہجے میں کہا۔دروازے کی آڑ سے امی غم کا اظہار کرنے لگیں،صبر کی تلقین۔وہ چپ چاپ سنتے رہے ۔ غم سے بوڑھے دکھائی دے رہے تھے۔
اور پھر وہ دن۔۔۔جب وہ ایم اے کے لئے لاہور جا رہے تھے اور انہیں مختصر سی الوداعی پارٹی دی جا رہی تھی۔وہ وقتِ مقررہ پر تھکے تھکے سے آئے اور چپ چاپ بیٹھ گئے۔جب میں نے بتایا کہ آپا کوثر کو بخار ہے اور ڈاکٹر نے انہیں مکمل آرام کا مشور ہ دیا ہے،شاید وہ نہ آسکیں تو ان کی اداس سی نظریں میرے چہرے پر گڑ ہی تو گئی تھیں۔کہنے لگے’’آپ کے کہنے سے آجائیں گی۔مجھے کل ہی تو چلے جانا ہے۔‘‘اور مجھے اٹھنا ہی پڑا۔امی کی مرضی کے خلاف آپا میرا ہی سہارا لئے آئیں۔اُن کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا اور سانس بھی معمول سے زیادہ تیز تھی۔اس شام ماسٹر جی نے بہت کم باتیں کیں۔میں نے رُکنے پر اصرار کیا تو کہنے لگے۔
’’زندگی میں برے فرائض کو سرانجام دینے کے لئے بعض ایسی بھی ہیں جنہیں اپنی مرضی کے خلاف کرنا ہی پڑتا ہے‘‘
وہ ایسی ہی باتیں کرتے جو بطاہر مہمل ہوتیں۔مثلاَ ’’ایک تھا مزدور۔۔۔۔۔‘‘اور پھر خاصی لمبی کہانی سنا دیتے۔
’’کیا سمجھیں؟‘‘انہوں نے مجھ سے اچانک پوچھا۔
’’مستقل مزاجی‘‘
’’بالکل ٹھیک‘‘انہوں نے زور دے کر کہا’’تم اچھے نمبر لے کر کامیاب ہوگی۔یاد رکھنا‘‘
اور مجھے ان پر رحم سا آنے لگا۔آپا کی نیم وا آنکھیں اُن کے چہرے پر لگی ہوئی تھیں۔اور پھر جاتے وقت وہ اورتھکے تھکے نظر آنے لگے۔جیسے کچھ دیر آرام کرنا چاہتے ہوں۔یا کسی کشمکش میں مبتلا ہوں۔پھر اُٹھے۔کچھ منٹ کمرے کی تصویروں کو گھورا۔ کچھ سوچا اور پھر سب پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے چلے گئے۔
کئی ماہ بیت گئے!
اور پھر ایک روز اکرم کی معرفت اچانک اطلاع ملی کہ وہ دو ہفتہ کے لئے گھر آئے ہیں۔روزانہ شام کو پڑھانے آیا کریں گے۔امی اکرم پر برس ہی تو پڑیں۔نئے ٹیچر کی موجودگی میں صرف دو ہفتہ کے لئے اُن کی کونسی خاص ضرورت تھی۔اُس سے کس نے کہا تھا کہ لوگوں سے یونہی ملتا رہے اور اُن کے یکطرفہ پیغام گھر پہنچانے لگے۔ٹیچر آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔بن بلائے مہمان کی طرح چمٹ تو نہیں جایا کرتے۔میں نے امی کا خوب ساتھ دیاآپا کوثر چپ چاپ سوئیٹر بنتی رہیں۔کبھی کبھار دزدیدہ نگاہوں سے میری طرف دیکھ لیتیں۔اچھی طرح بات کرنا تو وہ جانتی ہی نہ تھیں۔اس کے علاوہ وہ کرتیں بھی تو کیا؟اور پھر ایک روز گھر کی فضا یکلخت مکدر ہو گئی۔ماسٹر جی کا عید کارڈ ابا میاں کے ہاتھ لگ گیا۔کارڈ کیسے آیا؟کیسے بھیجا گیا؟امی اور ابا میاں میں کئی روز یہی تلخ بحث ہوتی رہی۔ابا میاں کے لہجے میں بے حد ناراضگی تھی۔ان کے چہرہ پر نفرت اور غصہ کے آثار تھے۔اکرم کو گھر آنے سے منع کردیا گیا۔اور پھر ایک روز امی نے بتایا کہ اگلے ہفتہ خالہ کے ہاں سے آپا کوثر کی بارات آرہی ہے۔یہ سب کچھ ایسے ہو رہا تھا جیسے کسی روحانی فرض کی ادائیگی کی جا رہی ہو۔ایک اداسی مسلط تھی۔دبی دبی سرگوشیاں تھیں۔مبہم مبہم اشارے تھے اور آپا کوثر کے ہونٹوں پر ابدی چپ تھی۔نہ جانے کیوں مجھے پہلی مرتبہ یہ اہساس ہونے لگا کہ بہاریں بیت چکی ہیں۔پت جھڑ کا آغاز ہوچکا ہے اور طوفان آنے والے ہیں۔
شادی سے ایک رات پہلے آپا کوثر مجھے اپنے کمرے میں لے گئیں۔وہ نڈھال سی نظر آرہی تھیں۔پیشانی سرخ تھی۔چال میں گہری تھکن کے آثار تھے۔اندر سے دروازہ بند کرکے انہوں نے سرہانے سے ایک آسمانی رنگ کا خط اٹھایا اور مجھے دے دیا۔’’اسے پڑھ لو‘‘ وہ بہت آہستہ گنگنائیں۔
یہ ماسٹر جی کا خط تھا جو انہوں نے آپا کے پہلے اور شاید آخری خط کے جواب میں بھیجا تھا۔ساتھ ہی آپا کا خط تھا۔چند سطریں تھیں۔
’’میرے کندھے ابھی اپنا بھی بوجھ نہیں اٹھا سکتے کوثر۔جذباتیت میں بہہ کر تمہارے مستقبل کو تاریک نہیں کر سکتا۔زندگی کے ہر قدم پر میری دعائیں تمہارے ساتھ رہیں گی۔تمہاری شادی کی اس اہم تقریب پر ،تمہاری مستقبل کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لئے ،تمہاری امانت لوٹا رہا ہوں۔اس سے قیمتی اور کوئی چیز نہیں جو پیش کر سکوں۔اسے ہی تحفتاََ قبول کر لینا۔‘‘
تحریر میں گفتار سے بھی زیادہ سنجیدگی تھی۔اپنے متعلق کچھ بھی تو نہ لکھا تھا۔آپاکوثر دیوار کا سہارا لئے کھڑی تھیں۔ان کا سر مینٹل پیس پر جھکا ہوا تھا۔چہرے پر گہری زردی تھی۔انکی پیشانی پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے ابھر آئے۔انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے پھول مرجھا گئے ہوں،تند ہواؤں نے مناظر کی جوانی لوٹ لی ہو،سازوں کے نغمے رُک گئے ہوں۔
آپا کوثر نے مجھے کچھ ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں’’تمہارے سوا مجھے کوئی بھی تو نہیں جانتا۔ہمیں ایک ہی ماں نے جنم دیا ہے۔تم اتنی سطحی تو نہیں ہو سکتیں۔میرے دکھ درد میں شریک ہو جاؤ۔یہ بجھتے دئیے تمہاری موجودگی میں جلے تھے۔ان پھیلتے اندھیروں میں اب ساتھ نہ چھوڑ جاؤ۔‘‘
میں لرز اٹھی تھی۔نفرت و بیگانگی کا وہ جذبہ جسے ابھی تک یونہی پال رکھا تھا،یکلخت بدل گیا۔دل میں ہمدردی کی شدید لہروں کو میں نے پہلی مرتبہ محسوس کیا اور زندگی میں پہلی دفعہ ایک نیا احساس ،ایک نیا جذبہ اور ایک نئی چبھن لئے اپنی آپا سے یوں لپٹ گئی جیسے مدت سے بچھڑی ہوئی تھیں یا جیسے ہمیشہ کے لئے بچھڑ جانا ہو۔
وداع ہوتے وقت آپا کوثر کے چہرے پر زردی کی گہری تہیں تھیں۔آنکھوں میں جان سوز تلخیاں تھیں۔امی سے چمٹتے وقت سسکیاں بھرنے لگیں ۔ابا سے بغلگیر ہوتے وقت ہلکی ہلکی چیخیں سنائی دیں اور مجھ سے لپٹتے وقت سسکیاں رک گئی تھیں۔گرم اور موٹے موٹے آنسوؤں کی روانی انتہا پر پہنچ چکی تھی۔وہ یوں کانپ رہی تھیں جیسے روح سے علیحدہ ہوتے وقت جسم لرز اٹھتا ہے۔اور پھر باجوں کے شور میں ،گیتوں کی لہروں پر امنگوں کی لاشوں سمیت وہ بھی چلی گئیں۔
کتنی بہاریں آئیں۔کتنے بھنوروں نے مدھر گیت گائے۔شاخوں پر کلیاں پھوٹیں۔دھرتی کے سینے سے کائنات کے ذرے ذرے میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔عشق نے خود کو حسن کی بارگاہ میں پیش کیا۔ساکن زندگی میں نغموں نے جنم لیا اور پھر یہ بہاریں بھی بیت گئیں۔پھول مرجھا گئے۔حدت کے الاؤ سرد پڑ گئے۔تند ہواؤں نے ہر چیز کو پامال کرکے رکھ دیا۔سازوں میں نغمے ٹھہر گئے،ڈوب گئے یا کہیں کھو گئے۔سبزے مرجھا گئے اور زرد سایوں نے ہر چیز کو اپنیلپیٹ میں لے لیا۔
آپا کوثر چند روز کے لئے گھر آتی ہیں تو دوپہر کو پلنگ پر دراز ہو کر پوچھنے لگتی ہیں’’ریڈیو کی آواز میں تھر تھراہٹ سی کیسی ہے؟‘‘اور میری نظریں سامنے پڑے ہوئے خالی صوفے کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔جہاں وہ روزانہ بیٹھا کرتے تھے اور نغمے تھرتھراتے محسوس ہوتے تھے۔مجھے ایک بھیانک خاموشی کا احساس ہونے لگتا ہے۔
مینٹل پیس پر مزین شیشہ اسی طرح پڑا ہے جہاں وہ کبھی کبھی بال سنوارا کرتے تھے۔برسات کی بھیگی رات کو جب گلی میں پانی ہی پانی پھیل جاتا ہے اور ننگے پاؤں گزرنے والے چھپ چھپل۔چھپل چھپ ،کرتے سنائی دینے لگتے ہیں تو آپا یکلخت خاموش ہو جاتی ہیں۔ شاید منتظرہوتی ہیں کہ ابھی کوئی کہے گا ’’کیچڑ میں ننگے پاؤں چلنے سے کتنی راحت محسوس ہوتی ہے‘‘اور کوئی ساتھی ناراضگی سے جواب دے گا’’عجیب احمق ہو۔ایسا راستہ تھا تو مجھ پر تو رحم کیا ہوتا‘‘لیکن ایسی کوئی بھی آواز نہیں آتی۔گلیاں سنسان ہیں۔ایک بھیانک سناٹا ہے اور شدید تنہائی ہے۔
نہ جانے ماسٹر جی زندگی کے کن کٹھن راستوں پر تنہا بھٹک ہو رہے ہوں۔شاید ان کے ساتھ کوئی نہ ہو جو ننگے پاؤں چلنے میں راحت محسوس کر سکے۔یا شاید انہیں خود ہی ننگے پاؤں چلنے سے کراہت آنے لگی ہو ۔ فضائیں اُن کے مختصر سے فقروں کی ابدی مسرتوں سے محروم ہو چکی ہیں۔ اس بیٹھک میں اُن کے درد بھرے الفاظ کی چاشنی ابھی تک موجود ہے۔اس صوفے میں ان کے جسم کا لمس ابھی تک پنہاں ہے۔آپا کوثر کو ان سیڑھیوں سے خوف آنے لگا ہے اور اس فرش پر یوں چلتی ہیں جیسے قدم قدم پر کانٹے ہوں۔
’’کوئی بھی تو نہیں جانتا کہ ہم کون ہیں ،کہاں جارہے ہیں اور کب تک ساتھ رہیں گے‘‘
میرے کانوں میں کوئی زور زور سے چیختا ہے ۔
بہاریں آتی ہیں اور خزاؤں کو جنم دے کر چلی جاتی ہیں۔کسی اَن جانے دیس کو شاید افق کے اُس پار جہاں نہ پت جھڑ ہے،نہ تند ہوائیں۔نہ زرد سائے ہیں نہ خاموش چیخیں۔میں ہوں کہ بس دیکھتی رہتی ہوں اور سوچتی رہتی ہوں!
چند روز سے ماسٹر جی ہمارے محلے سے گزرنے لگے ہیں۔بے ترتیب سے کپڑے پہنے ہوتے ہیں۔ہمارے دروازے کے قریب آتے ہی ان کے قدم یوں سست پڑ جاتے ہیں جیسے ابھی رُک جائیں گے۔جیسے سفر ختم ہو چکا۔اب منزل آگئی ہے۔پھر ہماری دہلیز کو گھورتے ہیں اور یکلخت تیز تیز قدم اٹھاتے چلے جاتے ہیں۔جیسے ان کا کیا تعاقب کیا جا رہا ہو۔یا جیسے ابھی اور سفر باقی ہو۔اور میرا جی چاہتا ہے کہ وقت کو واپس گھما دوں اور جب وہ قریب سے گزرنے لگیں تو ان کو آواز دوں:
’’آئیے !ہم کب سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔آپا کوثر کو آج بالکل بخار نہیں‘‘
لیکن ایسا بھی کبھی ہوا ہے؟ایسا کبھی ہونے دیا گیا ہے؟
گلی میں بچے شور مچاتے کھیل رہے ہیں۔دودھ والے کی دوکان پر سلگتی لکڑیوں سے اُٹھتا دھواں فضا میں دھندلکوں کے جال سے بُن رہا ہے۔ سرمئی رنگ کے بے رنگ سے اور غیر واضح۔۔۔جو ہواؤں کے دوش پر بیکراں وسعتوں میں سما جائیں گے۔
آپا کوثر کی شادی ہوئے کئی برس گزر چکے ہیں۔
نہ جانے کتنے ماسٹر جی زندگی کی اداس راہوں میں تنہا بھٹک رہے ہوں۔مخصوص جگہوں پر ان کے قدم رُکتے رُکتے پھر یوں تیزی سے حرکت کرنے لگتے ہوں جیسے ازل سے یہ قدم یونہی چلتے آئے ہیں اور ابد تک یونہی چلتے رہیں گے۔