ڈاکٹر رشید امجد(اسلام آباد)
جنازہ ایک بار پھر گم ہو گیا تھا‘
برسوں پہلے بھی یُوں ہی ہوا تھاکہ جب اُسے سولی سے اتار کر چارپائی پرڈالاگیا اورہجوم قبرستان کی طرف روانہ ہوا تو درمیان میں کہیں جنازہ گم ہوگیا‘لوگ اُس کی تلاش میں سڑکوں اور گلیوں میں پھیل گئے اور جب جنازہ نہ ملا توایک دوسرے سے الجھ پڑے ‘جنازہ اب پھر گم ہوگیاتھا لیکن اِس بار صورتِ حال کچھ مختلف تھی ۔دیکھنے میں وہ اگرچہ ٹھیک ٹھاک تھالیکن اند ر ہی اندر کوئی شے اُسے کھوکھلا کیے جا رہی تھی‘لوگ اُس کی صحت کی باتیں بھی کرتے تھے اور اُس کی موت کے منتظر بھی تھے چنانچہ جب اُسکی موت کا اعلان ہوا تو لوگوں کو کچھ زیادہ تعجب نہ ہوا۔
جنازہ اُٹھنے کے وقت کے آگے پیچھے جمع ہونا شروع ہوگئے۔ٹولیوں اور گروہوں کی شکل میں گلیوں اور سڑکوں میں پھیلے لوگ اُسی کی باتیں کر رہے تھے‘اُس کی اچھائیاں اور بُرائیاں ‘دفعتاً کسی کو احساس ہوا کہ بہت دیر ہوگئی ہے اور جنازہ ابھی نہیں اُٹھا‘ایک نے دوسرے سے اور دوسرے نے تیسرے سے پُوچھا:کسی نے کہا جنازہ تو اُٹھ چکااور اب قریبی مسجد میں نماز کی ادائیگی ہو رہی ہے یا ہو نے والی ہے۔لوگ مسجد کی طرف چل پڑے‘مسجدیں تو کئی تھیں ،کسی نے پُوچھا —–اُس کا عقیدہ کیا تھا ؟جنازہ کس مسجد میں گیا ہے ؟اُس کا عقیدہ کیا تھا‘یہ سوال ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے اور چوتھے تک پہنچا‘معلوم نہیں‘ایک نے دوسرے سے اور دوسرے نے تیسرے سے کیا کہا۔اب انہوں نے ایک ایک مسجد دیکھنا شروع کی‘ہر مسجد کے دروازے پرکسی نہ کسی مسلک کی تختی لگی ہوئی تھی اور جنازہ وہاں موجود نہیں تھا۔
ایک بے یقینی کی فضا پر پھیلائے چاروں طرف منڈلا رہی تھی ‘ایک نے دوسرے سے پوچھا —-’’کچھ معلوم ہے؟‘‘
دوسرے نے نفی میں سر ہلایا——’’کچھ نہیں‘‘
کسی نے کسی سے سوال کیا ——’’کچھ پتہ ہے؟‘‘
’’نہیں ‘‘اُس نے تیسرے کی طرف دیکھا‘تیسرے نے منہ دوسری طرف کرلیا‘
تلاش اور لاتعلقی ساتھ ساتھ چل رہے تھے ‘قدم سے قدم ملائے‘
’’ہوا کیا؟‘‘
’’کچھ معلوم نہیں ‘‘
’’تو پھر ————‘‘
چُپ پتھرائے چہرے ‘خاموش سوال کرتی آنکھیں!
’’خیریت———–؟‘‘
’’نہیں ‘خیریت تونہیں‘‘
’’تو پھر———‘‘
’’کچھ معلوم نہیں ‘‘
رینگتی سرگوشیاں گھٹنوں کے بل اُٹھیں اور دبے پاؤں چاروں طرف پھیل گئیں‘دبی دبی رونے کی آوازیں آہستہ آہستہ بین میں اور پھر کہرام کی صورت نمایاں ہونے لگیں‘کئیوں کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کیوں رورہے ہیں لیکن رو سب رہے تھے اور آہیں بھی بھر رہے تھے‘
’’ہوا کیا ہے؟‘‘کسی نے کسی سے پوچھا
’’معلوم نہیں ‘‘
’’تو پھر————‘‘لیکن رونے کا سبب پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی‘ بَین کی آوازوں نے ایک ایسا دائرہ بنا لیا تھا جس نے پورے ماحول کو اپنی بُکل میں دبا لیا تھاکچھ دیر بعد رونے کی شدت میں ذرا سی کمی ہوئی تو ایک نے دوسرے سے پوچھا——’’مرنے والا کون تھا؟‘‘
’’تمہیں نہیں معلوم‘‘اُس نے غصہ سے اُسے گھورا——اور پھر اُسے خیال آیا——–’’واقعی مرنے والا کون تھا؟‘‘
’’مجھے تو نہیں معلوم‘‘اُس نے دھیمی آواز سے کہااور آگے والے سے پوچھا—–’’مرنے والا کون تھا؟‘‘
’’تم نہیں جانتے ‘‘اُس نے بھی غصہ سے گھورا‘لیکن لمحہ بعد ہی وہ بھی سوچ میں پڑگیا۔
’’مرنے والے کے ساتھ میرا کیا رشتہ ہے؟‘‘پہلے والے نے سوچا‘اُسے کچھ یاد نہ آیا‘اُس نے ساتھ والے سے پوچھا’’مرنے والے سے تمہارا کیا رشتہ ہے؟‘‘
’’میرا————‘‘ساتھ والے نے جواب کے لیے منہ کھولا‘لیکن خود ہی چُپ ہوگیااور سوچنے لگا کہ مرنے والے سے اُسکا کیا رشتہ ہے‘سوال ایک سے دوسرے تک ‘دوسرے سے تیسرے ،چوتھے سے ہوتا ہوا سڑکوں اور گلیوں میں پھیل گیا ‘روتے ‘بین کرتے لوگوں نے ایک لمحہ کے لیے سوچا‘جواب نہ ملا تو پل بھر کے لیے چُپ ہوئے اور پھر رونا شروع کردیا۔
’’تو تم اُسے جانتے تھے؟‘‘ کسی نے کسی سے کہا .
’’جانتا تو تھا لیکن ‘‘
’’لیکن کیا ؟‘‘
’’جانتا تو تھا لیکن پھر بھی ہر بار‘‘
’’کیا ہر بار‘‘
ہر بار وہ مجھے اپنی دلفریب باتوں میں الجھا لیتا تھا‘‘
’’تو وہ تمہارا ساتھی نہیں تھا ‘‘
’’تھا یا شاید نہیں تھا‘‘جواب دینے والے نے بے یقینی سے کہا،بہت دیر چُپ رہا پھر بولا———-’’شاید وہ میں ہی تھا ‘‘
’’شاید میں بھی تھا‘‘دوسرے نے سوچتے ہوئے کہا‘
ہجوم گلیوں اور سڑکوں پر بکھرا ہوا تھا اور جنازے کی تلاش جاری تھی‘ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا جارہا تھا‘
’’یہاں تو نہیں؟ ‘‘
’’نہیں یہاں بھی نہیں‘‘
گھر تو سارے ایک جیسے تھے ‘گلیاں اور سڑکیں بھی ایک سی تھیں ‘تو پھر اُسے کہاں ڈھونڈا جائے‘
’’اور ہم میں سے ہر کوئی بھی تو اُسی جیسا ہے‘‘
’’تو————‘‘
ایک کو لگا اُس کا دم گھُٹ رہا ہے‘دوسرے کوبھی یہی احساس ہوا‘
’’ہم سبھی تو کہیں نہیں مر رہے؟‘‘
’’اور ہمارے جنازے————–؟‘‘
شہر کا شہر ہی ایک جنازہ تھا اور کہیں گم ہوگیا تھا۔
’’شہر بھی کہیں گم ہوتے ہیں؟‘‘
’’کبھی کبھی ہو بھی جاتے ہیں‘‘
’’روشن دان اور دریچے بند ہوجائیں تو اندھیرا ہوجاتا ہے‘‘
’’اور اندھیرے میں چیزیں گم ہو جا تی ہیں‘‘
اُنہوں نے آنکھیں پھاڑپھاڑ کر اِدھر اُدھر دیکھنے کی کوشش کی ۔کچھ نظر آیا،کچھ نظر نہ آیا‘ بس یہ لگا ایک بے قابو ہجوم ہے جو ہاتھ پیر مار رہا ہے‘افسوس کے نعرے لگا رہا ہے اور پھولی سانسوں کے ساتھ سڑکوں اور گلیوں میں کچھ تلاش کر رہا ہے۔
’’ہم کسے تلاش کر رہے ہیں ؟‘‘ایک نے دوسرے سے پوچھا’’تمہیں نہیں معلوم‘‘دوسرے نے قدرے تلخی سے کہا
’’نہیں مجھے نہیں معلوم‘اِسی لیے تو تم سے پوچھ رہا ہوں ‘‘
’’ہم——-‘‘دوسرے نے جواب دینے کے لیے منہ کھو لا‘لیکن لفظ نا مکمل رہ گئے———–’’ہم کسے تلاش کر رہے ہیں ‘‘اُس نے خود سے سوال کیا مگر اُسے اپنے سوال کا کوئی جواب نہ ملا‘اُس نے کن انکھیوں سے پہلے کی طرف دیکھااور خاموشی سے سر جھکا لیا۔سوال کرنے والا کچھ دیر تو چُپ رہا‘پھر اُس نے یہی سوال کسی اور سے کیا ‘لیکن وہ بھی کوئی جواب نہ دے سکا‘اُلٹا سوچ میں پڑ گیا کہ وہ کسے تلاش کر رہے ہیں ۔
’’اب تو یاد بھی نہیں رہا ‘‘ایک نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا ’’ہم نکلے کب تھے اور کس لیے‘تمہیں کچھ پتہ ہے؟‘‘اُس نے ساتھ والے سے پُوچھا۔اُس نے نفی میں سر ہلایا ۔
’’شاید اُسی کو پتہ تھا جس کا جنازہ وہ ڈھونڈ رہے ہیں‘‘
’’تو سارا اتہ پتہ وہ اپنے ساتھ ہی لے گیا‘‘ایک نے دوسرے سے کہا
’’اور خود بھی گم ہوگیا ‘‘دوسرا ہنسا
’’تم ہنسے کیوں‘‘پہلے نے دوسرے کو گھورا۔
’’ہنسی آئی ،ہنس پڑا‘‘دوسرے نے اُسے گھورا’’تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے‘‘
’’میں‘‘
’’ہاں تم‘‘
میں تم ———تم میں ———-دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگئے ‘سارا ہجوم ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگیا۔سڑکوں ‘گلیوں اور گھروں میں سب ایک دوسرے سے اُلجھ پڑے۔جو جس کے ہاتھ میں آیا ‘اُٹھا کر‘دوسرے کو مارنے دوڑ پڑا ۔چیخیں ‘————-سسکیاں ‘آہیں ‘کسی کو کسی کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔کسی کو کسی کی بات سمجھ نہیں آرہی تھی ‘ایک ہنگا مہ تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا ۔شہر کا شہر میدانِ جنگ بن گیا تھا‘شہر سے باہر قبرستان میں گورکن تازہ کھدی ہوئی قبر کے کنارے بیٹھابا ربار شہر سے آنے والے راستے کو دیکھے جا رہا تھا قبر کھدے دیر ہو چکی تھی اور قبر ایک بار کھد جائے تو کسی نہ کسی کو اِس میں دفن ہونا ہی ہوتا ہے ۔
شہر میں ہنگامے اب اپنے عروج کو پہنچ چکے تھے ۔ سڑک کے کنارے پڑا جنازہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نہ اُس میں سے اُٹھنے والی بُو کسی کو محسوس ہورہی تھی !
٭٭٭
نوٹ از ایڈیٹر: ا س سلسلے کی پہلی کہانی ۱۹۸۰ء میں لکھی گئی تھی اور جدید ادب کے شمارہ فروری
۱۹۸۰ء میں شائع ہوئی تھی ۔اب بھی یہ کہانی ’’جدید ادب ‘‘میں ہی سب سے پہلے شائع ہو رہی ہے۔