نسرین نقاش(سری نگر)
عظمت وہ زندگی کی بڑھاتے ہوئے مَرے
جو دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہوئے مَرے
کانٹوں کا زہر پھیل گیا جسم میں تو کیا
خوش ہیں لہو گلوں کو پلاتے ہوئے مَرے
پتھر تو موم ہو نہ سکے، جان بھی گئی
ہم قاتلوں کے ناز اٹھاتے ہوئے مَرے
واپس ہوئے نہ دوریٔ منزل سے ڈر کے ہم
منزل کے پاس،راہ میں جاتے ہوئے مَرے
ہم آگے میں جلے تو جلے وہ بھی دوستو
وہ گھر ہمارے آگ لگاتے ہوئے مَرے
کچھ لوگ زندگی کو سدا کوستے رہے
ہم زندگی گلے سے لگاتے ہوئے مَرے
اپنا مکاں جلا تو جلا،آہ تک نہ کی
ہم دوسروں کی آگ بجھاتے ہوئے مَرے
نسرینؔ وجہِ موت بنا اس کا سامنا
دیکھا اُسے تو ہوش گنواتے ہوئے مَرے
نسرین نقاش(سری نگر)
رُوٹھے ہوئے کو یوں بھی منانا پڑا مجھے
دل چِیر کے کسی کو دکھانا پڑا مجھے
سینے میں جیسے دل کی خوشی آگ بن گئی
بارش میں آنسوؤں کے نہانا پڑا مجھے
صد شکر! اس کے غم سے میں پتھر کی ہو گئی
رونا پڑا مجھے، نہ رُلانا پڑا مجھے
بربادیاں کچھ ایسی ہوئیں مجھ پہ مہرباں
بربادیوں کا جشن منانا پڑا مجھے
طوفان غم کا جب مِرے سر سے گزر گیا
رو رو کے ،دل کے ساز پہ گانا پڑا مجھے
وہ تھا انا پرست کہ ضد پر اڑا رہا
میں منکسر تھی ،سر کو جھکانا پڑا مجھے
پوچھا جو اس نے کس کے لئے ہو اداس تم
شیشے میں اس کا چہرہ دکھانا پڑا مجھے
نسرینؔ جب وہ زعم میں فرعون ہو گیا
اوقات اس کی کیا ہے بتانا پڑا مجھے