مسعود منور(ناروے)
عشق کیا ، عشق کا سخن کیا ہے
درمیانِ لب و دہن کیا ہے
نرگسِ ناز بر گلاب اندام
یہ ترا نین سا بدن کیا ہے
آنکھ کیا،آنکھ کا فسوں کیا ہے
رنگِ رُخسار کی پھبن کیا ہے
زلف کے خم میں کیا اشارہ ہے
ابروؤں بیچ کی شکن کیا ہے
حرف میں راز،راز میں اغماض
یہ تماشا مری سجن کیا ہے
یہ زنخداں کا سیب یہ گردن
صندلیں قوس کیا،کرن کیا ہے
کنجِ ابرو میں تل ہے یا دل ہے
اوردل میں ترے چبھن کیا ہے
آگ سی جل رہی ہے کیا من میں
سچ بتا دے کہ یہ جلن کیا ہے
اے زلیخاؔ! مجھے خریدو گی؟
جانتی ہو زرِ ثمن کیا ہے
جانِ مسعودؔ کیسے عشق کروں
کون سا مُلک ہے زمن کیا ہے
مسعود منور
بے گھروں،اُجڑے ہوؤں ، بے آسروں کے درمیاں
میں بدن آباد کی تنہائیوں کا حکمراں
اگلے وقتوں کے رسولوں کی یہ تازہ اُمتیں
دوزخوں کی آگ میں جلتی سُلگتی لکڑیاں
اپنے عملوں کی سیاہی میں ہیں سب غرقِ عذاب
اپنے اپنے قید خانے ہیں یہ اِینٹوں کے مکاں
کھا گئیں زر کے ذخیرے،پی گئیں بہتے بحور
یہ سیاسی مچھلی گھر کی بے مُروّت مچھلیاں
اپنی اپنی پڑ گئی سب کو مچی ہے کھلبلی
ہورہی ہے مسجدوں میں شامِ محشر کی اذاں
کھُل گئے اعمالنامے عدل کے بازار میں
پک گئیں ایک ایک کی خاطر سزا کی روٹیاں
سارے رشتے،سارے ناتے رنجشوں میں جل گئے
کچھ نہیں باقی بچا مسعودؔ بہرِ داستاں
مسعود منور
خواب دیکھا نہیں تعبیر کہاں سے آئی
یہ میرے پاؤں میں زنجیر کہاں سے آئی
کورے کاغذ پہ سیاہ حرف تھے لیکن اِن میں
یہ میرے یار کی تصویر کہاں سے آئی
سب فقیہوں نے محبّت پہ دیا ہے فتویٰ
ورنہ اِس جرم کی تعزیر کہاں سے آئی
تو نہ قاتل ہے ،نہ شاعر ہے نہ فوجی جرنیل
تیرے قبضے میں یہ شمشیر کہاں سے آئی
میں عناں گیر نہ جانے کی اُسے جلدی تھی
بول، اِس باب میں تاخیر کہاں سے آئی
آسمانوں سے تو اُتری تھی محبّت کی کتاب
اُس کی نفرت بھری تفسیر کہاں سے آئی
یار مسعودؔ ، اماوس کا لگا ہے پہرا
اِس سیاہ رات میں تنویر کہاں سے آئی
مسعود منور
وہ مفادات کو جب پاسِ وفا کہتا ہے
کچھ سمجھتا بھی ہے کم ظرف کہ کیا کہتا ہے
یہ خیالوں کا تراشا ہوا معبود اُس کا
وہ خُدا ہے ہی نہیں جس کو خُدا کہتا ہے
نظریہ اُس کا محبّت تو عمل نفرت ہے
کیسا صوفی ہے جو کینے کو صفا کہتا ہے
وہ خریدے گا زرِ زہد سے ستّر حوریں
دین میں ایسی تجارت کو روا کہتا ہے
خشمگیں چہرے پہ لٹکے ہوئے قلاش سے ہونٹ
اِس یبوست کو عبادت کا صلا کہتا ہے
جو مری گوشہ نشینی کو عداوت سمجھا
اب مرے صبر کو اک طرفہ گِلا کہتا ہے
پہلے مسعودؔ کو کہتا تھا زمیں کا غدّار
اب وہ غدار کو زندیقِ سما کہتا ہے