ڈاکٹر ولی بجنوری(دہلی)
اِس وحشی بستی سے راتوں رات گذرنا ہے
رک جائے وہ جس کو موت سے پہلے مرنا ہے
اپنے آپ کو اپنا مخالف کرنا ہے پہلے
پھر اس پاگل دل کو بھی صف آرا کرنا ہے
یہ بھی کر گذریں گے اس ملنے کی خاطر
آگ کے ہر دیا سے اب کے پار اترنا ہے
تازہ سرخ گلابوں رُت آئے تو، طے ہے
مرجھائے پھولوں سے اپنا دامن بھرنا ہے
خود سے خوف زدہ بھی ہم کو رہنا ہوگا اب
اور پھر اپنے اپنے سائے سے بھی ڈرنا ہے
پھول بدن کیسے ہوتے ہیں، دیکھیں تو ان کو
اک شب تیری جنت میں بس یونہی ٹھہرنا ہے
ریت کے اُس ٹیلے کو حاصل کرنے دھن میں
پانی کے اک ریلے آگے خود کو دھرنا ہے
ڈاکٹر ولی بجنوری
مہک رہے ہیں جسم و جاں نہ جانے کس خیال سے
ابھی میں آشنا نہیں ہوا ترے وصال سے
تمام ہوچکا ہے گفتگو کا اب معاملہ
کہ بولنے لگے ہیں آئینے ترے جمال سے
جو بات پوچھتی ہے وہ، خلوصِ دل سے پوچھ لے
اداس ہو نہ جاؤں میں ترے کسی سوال سے
ہزاروں سورجوں کو پی کے اڑ رہا ہوں چرخے پر
سفر مرا طویل ہے میں کیوں ڈروں زوال سے
تسلیوں سے میرا دل بہلِ نہ پائے گا کہ اب
کرے وہ مطمئن مجھے کسی عجب مثال سے
نہ خاک و خوں کے موسموں کا ذکر چھیڑ ہمنشیں!
خوشی کا پل عظیم ہے یگوں کے اُس حلال سے
اگرچہ سایہ بن کے اُس کے ساتھ چل رہے ہیں ہم
پتا نہیں وہ بے خبر ہے کیوں ہمارے حال سے
ڈاکٹر ولی بجنوری
غم مسلسل ہوں عطا اک سلسلہ یہ بھی سہی
وہ رہیں مجھ سے خفا اک سلسلہ یہ بھی سہی
پھر اسے میں ڈھونڈ کے لاؤں دیارِ غیر سے
پھر وہ ہوجائے جدا اک سلسلہ یہ بھی سہی
وہ مجھے دیتا رہے سب نفرتیں، سب تہمتیں
کم نہ ہو کوئی سزا اک سلسلہ یہ بھی سہی
چاند نکلے جب اُدھر، مہکیں حسین چہرے اِدھر
آسمانوں کے خدا اک سلسلہ یہ بھی سہی
کوئی موسم ہو ولیؔ تانے رہے سر پر مرے
اپنی زلفوں کی ردا اک سلسلہ یہ بھی سہی
ڈاکٹر ولی بجنوری
بجھتے دلوں میں درد کی شمعیں جلاؤں میں
اہلِ خرد کو ہوش کی باتیں سکھاوں میں
پہلے سجاؤں سبز جزیروں میں وحشتیں
پھر دشتِ بے چراغ میں سورج اگاؤں میں
جس میں کوئی پڑاؤ نہ ہو وہ سفر چنوں
سَر پر جہاں فلک نہ ہو خیمے لگاؤں میں
لکھے ہیں سب لبوں پر فسوں کار قہقہے
آیاتِ غم سناؤں تو کس کو سناؤں میں
کوئی مجھے بتائے حقیقت ہے کیا مری
آئینہ اپنی ذات کو کیسے دکھاؤں میں
سینے پہ اسکے نام کا کتبہ لکھے پھروں
آنکھوں میں انتظار کے موسم سجاؤں میں
دیکھوں نہ خود پرستوں کی دہلیز کی طرف
سر اپنا اپنی ذات کے آگے جھکاؤں میں
ڈاکٹر ولی بجنوری
نذ رِ غالب
بارشِ سنگ و خشت جاری ہے
خوف دیوار و در پہ طاری ہے
زخم سینے کے کھول کر بیٹھو
’’آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے‘‘
خوش بہت ہیں تجھے بھُلا کر ہم
کیا عجب سادگی ہماری ہے
اپنے بیمار کی خبر لینا
آج کی رات اُس پہ بھاری ہے
سننے والا نہیں کوئی فریاد
کس لئے پھر یہ آہ و زاری ہے
چین آتا نہیں کسی صورت
اس قدر دل کو بے قراری ہے
کیوں بتاتے نہیں ولیؔ صاحب
کس کی خاطر یہ اشکباری ہے
ڈاکٹر ولی بجنوری
زخمی سماعتوں کا نہ چرچا کیا کریں
آنکھوں سے ایک دوجے کی باتیں سنا کریں
جاگی ہوئی ہو ہجر کی سفّاک رات جب
ہمراہ چاند تاروں کو لے کر اڑا کریں
یہ معجزہ بھی ہم کو محبت دکھائے اب
تحریر اس یدن کی یہ پوریں پڑھا کریں
جب لوگ اپنے اپنے جلانے لگیں دیئے
کچھ دل کے داغ ہم بھی تو روشن کیا کریں
ہم وحشیوں کو دیتا ہے صحرا یہ مشورہ
دامن کو تارتار کریں اور سیا کریں
یہ عشق روگ کیا ہے، مسیحا ہمیں بتائے
مرجائے ہے مریض اگر ہم دعا کریں
اب کس کے پاس جاؤں بجھا جارہا ہے دل
جلدی سے میرے دل کی ولیؔ جی دوا کریں
ڈاکٹر ولی بجنوری
جسموں سے لپٹے ہیں سبز سنہرے سائے
اس بستی میں ایسے لوگ کہاں سے آئے
فطرت کی آوازوں سے موسیقی جاگی
پُر اسرار جزیروں نے جب ساز اٹھائے
اُس کی خاطر آگ کے دریاؤں سے گذرے
آندھی آگے ہم نے برسوں دیپ جلائے
ہم نے بھی روکر کاٹی ہیں ہنستی راتیں
اُس نے بھی تو درد کے کتنے چاند اُگائے
پوریں تجھ کو چھوکر روشن ہوجاتی ہیں
کون ہے تو، تجھ سے مل کر یہ دل گھبرائے
تعبیریں سورج کی کرنوں پر لکھتا ہے
دل دیوانہ چاندنگر میں خواب سجائے
رنگوں کو بس دور ہی سے دیکھا کرتے ہیں
اڑتی تتلی چپکے چپکے کہتی جائے
ڈاکٹر ولی بجنوری
ہمارے بہتے سفینوں کے سَر جلے ہیں ابھی
تمام تو نہیں، ہاں کچھ سفر جلے ہیں ابھی
چھتوں پہ برسے گی بارُود دیکھتے رہتا
مچا ہے شور کہ دیوار و در جلے ہیں ابھی
نگر میں آگ کا سیلاب آنے والا ہے
نکل چلو، یہاں دوچار گھر جلے ہیں ابھی
ابھی تو جسموں میں اتریں گے تیر آ آکر
اڑانیں بھرتے پرندوں کے پر جلے ہیں ابھی
یہ حکم جاری ہوا ہے سیاہ آندھی کو
دئے گلابوں کے دیکھے کدھر جلے ہیں ابھی
یہاں بھی بونے ہیں کچھ خاک و خون کے موسم
یہاں بھی روشنیوں کے شجر جلے ہیں ابھی
ہمیں بھی جلتے الاؤ کا سامنا ہے ولیؔ
ہمارے شہر کے کچھ نام ور چلے ہیں ابھی