حمد نما غزل
خادم رزمیؔ(کبیر والا)
شمار مت کر اسے فقط ہست وبُود میرا
ترا بھی نام و نمود ہے یہ وجود۔۔میرا
جو تونے بھیجا نہیں تو پھر میں کہاں سے آیا؟
یہ کس کی خواہش ہے اس زمیں پر ورود میرا
تری ہی تخلیق ہوں تو کیوں کر الگ ہے تجھ سے؟
ترے جہاں میں کوئی زیاں ہو کہ سُود میرا
اسی پہ موقوف کیا نہیں ہے؟ترا بھی ہونا
یہ نغمہء زندگی! یہ سازوسرود میرا
تجھی سے منسوب کیا نہیں ‘میرا جلنا بجھنا؟
ترا دیا ہوں تو پھر کہاں ہے یہ دود میرا
نہیں ہوں میں ہی کوئی اکیلا صدا میں اپنی
فقط مرا ہی نہیں یہ شوقِ نمود میرا
انہیؐپہ تو بھی تو بھیجتا ہے سلام اپنا
طواف کرتا ہے جنؐ کے در کا ،درود میرا
اسے بھی اک بے کلی سی کیوں گھیرتی ہے رزمی!
وہ جس کے در پر اگر نہ ہولے سجود میرا
خادم رزمیؔ
رزق بھی کم دے ہمیں ‘دادِ عطا بھی ہم ہی دیں
پھر حساب اس کا کڑا ‘روزِ جزا بھی ہم ہی دیں
یہ وفا کی کون سی ہے قسم؟بتلائے کوئی
وہ ستائے بھی ہمیں ‘اس کو دعا بھی ہم ہی دیں
کس نے بخشا ہے ہمیں یوں زیست کرنے کا مزاج!
خود جلیں جس آگ میں ‘اس کو ہوا بھی ہم ہی دیں
یہ بھی اس کا حکم ہے جائیں ہمی ملنے اسے
وہ نہ بولے گر تو پھر اس کو صدا بھی ہم ہی دیں
یہ نہیں کہ وہ جو ظلمت دے ،کرم سمجھیں اسے
خون سے اپنے جلا کر اک دیا بھی ہم ہی دیں
کونسی ہے قِسم یہ انصاف کی ؟اے منصفو!
ہوں ہمی مقتول بھی ،اور خوں بہا بھی ہم ہی دیں
دُور رکھا جائے اس کی خوشبوؤں سے بھی ہمیں
جس بیاباں کو گلابوں کی رِدا بھی ہم ہی دیں
چاہے اپنا خون ہی رزمیؔ،نہ کیوں دینا پڑے
جو سوا ہے اس کو رنگِ ماسوابھی ہم ہی دیں
خادم رزمیؔ
نجانے کس بے خودی کے زیرِ اثر تھا میں بھی
ملال یہ ہے کہ خود سے کیوں بے خبر تھا میں بھی
مگر یہ قصہ ہے تب کا ،جب ایک چھت تھی مجھ پر
مہک بھری کچھ سجل صداؤں کا گھر تھا میں بھی
بکھر رہی ہو جو چارسُواِک غبار صورت
کھلا ہے مجھ پر یہ اب کہ ایسی خبر تھا میں بھی
ملی نہیں ہے یونہی مجھے یہ کُلاہِ ہستی
نہیں زیادہ تو اس قدر معتبر تھا میں بھی
اُتار لیتے ہیں پات بھی جس کے ،ساتھ پھل کے
ہوس پرستوں کے درمیاں وہ شجر تھا میں بھی
خوشی سے واپس کیا جو اذنِ رہائی ہنس کر
کوئی تو ہے جس کا یوں اسیرِ نظر تھا میں بھی
یہ اب کھلا ہے اسی کی جانب رواں تھے سارے
لگا ہوا جس سراب کی راہ پر تھا میں بھی
خادم رزمی
رات کا پچھلا پہر ،ڈھلا مہتاب ،ہوا
میں ،تنہائی،آنکھوں میں اک خواب،ہوا
برسوں کے بچھڑے جو کبھی ملاتی تھی
ہوتی ہے محسوس وہ اب نایاب ہوا
پھر کُرلاتے پتّے ،چیختی شاخیں ،شب!
پھر پیڑوں پر لائی ایک عذاب‘ہوا
ایک مدار میں قید رکھے ہیں کیوں جانے!
رات،دیے کی لرزاں لَو،محراب،ہوا
میں انسان ہوں‘ تونے پتھر سمجھا تھا
ٹوٹ رہے ہیں یوں جو مرے اعصاب ،ہوا!
ایک الاؤ میرے اندر دہک اُٹھے
اب تو جب بھی چلتی ہے برفاب ہوا
کیسی صورت ہے ،جس کا ہے کھوج اُسے
صدیوں سے کیوں پھرتی ہے بے تاب ہوا؟
اس میں آکر لوگ ، نجانے کیا ہوجائیں !
جیسے ہو یہ کوئی پرِ سرخاب ہوا
اپنی ساری عمر کٹی کچھ یوں رزمیؔ!
سیلِ ہجر کی لمبی رُت،گرداب،ہوا
خادم رزمیؔ
پہچان ہمیں گردشِ حالات! وہی ہیں
ہم لوگ وہی ،تیری عنایات وہی ہیں
دن رات کے اس سیلِ بلاخیز میں اب بھی
دیوانوں کے احوال ومقامات وہی ہیں
ہم اہلِ نظرہیں ،ہمیں معلوم ہے سب کچھ
بے دھول سہی‘پھر بھی یہ دن رات وہی ہیں
کوڑوں سی ہوا پر بھی کوئی پات نہ بولے
اس بار بھی موسم کی ہدایات وہی ہیں
ہوتے ہیں جواں بیٹیوں والے کے جو دل میں
ہر شاخِ ثمردار کے خدشات وہی ہیں
اک زہر مگر پیڑکو پھلنے نہیں دیتا
شاخیں ہیں وہی گرچہ ہرے پات وہی ہیں
الفاظ ہی بدلے ہیں فقط اہلِ ہوس نے
رسمیں ہیں وہی ان کی روایات وہی ہیں
رِندوں سے کسی صلح کی امید نہ رکھے
گر حضرتِ واعظ کے خرافات وہی ہیں
پہلے جو بیاں سچّے صحیفوں میں ہوئے ہیں
اس شہر کے مٹنے کے نشانات وہی ہیں
دن جلتا ہوا دشت ہے ،شب خوف سرا سی
اس تازہ،نئی رُت کے بھی دن رات وہی ہیں
ماتھے پہ ہیں اُس کے بھی وہی سلوٹیں،رزمیؔ !
اور تیرے لبوں پر بھی سوالات وہی ہیں
خادم رزمی
اب وہ بھی سب میرے دھیان میں رہتے ہیں
جتنے لوگ بھی اِ ک انسان میں رہتے ہیں
جن کی آنکھیں دیکھتی ہیں ملبوس مرا
وہ ناکام مری پہچان میں رہتے ہیں
چاہے سوچ کی حد تک ہی وہ کیوں نہ ہو
پر بستہ بھی ایک اُڑان میں رہتے ہیں
سوچ نہیں رکھتے ہیں لیکن اک جیسی
یوں تو ہم سب ایک مکان میں رہتے ہیں
ابر آتے ہیں بن برسے چھٹ جاتے ہیں
تشنہ لوگ یونہی ہیجان میں رہتے ہیں
آدھی عمر اُصول بناتے کٹتی ہے
آدھی تک ان کے بطلان میں رہتے ہیں
سچ ہی اپنا دین وایماں ہے رزمیؔ!
اور مگن ہم اس ایمان میں رہتے ہیں