ڈاکٹرمحبوب راہی(اکولہ)
اونگھتے دن، چیختی راتوں سے بچنا چاہیے
وقت کی بے کیف سوغاتوں سے بچنا چاہیے
ہر تکلف ، دلنشیں باتوں سے بچنا چاہیے
مخلصو! اخلاص کی گھاتوں سے بچنا چاہیے
اپنی بے لوثی کا جو اظہار کرتے ہیں سدا
ایسے لوگوں کی ملاقاتوں سے بچنا چاہیے
ملتے ہیں اکثر منافق دوستوں کے روپ میں
کیسے آخر ایسے بد ذاتوں سے بچنا چاہیے
ملک و ملّت کی انہیں ہاتھوں میں ہے اب باگ ڈور
ملک اور ملّت کو جن ہاتھوں سے بچنا چاہیے
جیت کے نشّے میں سرشارانہ قال و حال سے
جیتنے کے بعد کی باتوں سے بچنا چاہیے
آج وہ جانیں جو دنیا کے لیے ہیں ناگزیر
ماں کہاں کرتی تھی ’’ان باتوں سے بچنا چاہیے‘‘
گھاؤ دل پر جھیل کر بے مہریٔ احباب کے
دشمنوں کی مرہمی گھاتوں سے بچنا چاہیے
شعر کی توقیر کا راہیؔ جو رکھنا ہو بھرم
تو اسے نقّاد کی نگاہوں سے بچنا چاہیے
٭٭٭
ڈاکٹرمحبوب راہی
روشنی کی ترجماں میری غزل
زندگی کی رازداں میری غزل
نور افشاں، درخشاں میری غزل
کہکشاں در کہکشاں میری غزل
تشنگی فکر و نظر کی لب بہ لب
چشمۂ آب رواں میری غزل
دے کے وسعت ہر زمین تنگ کو
چھو رہی ہے آسماں میری غزل
کچھ ہے آپ اپنی حکایات جنوں
کچھ حدیث دیگراں میری غزل
جگمگاہٹ میں ستاروں سے سوا
رشک ماہ و کہکشاں میری غزل
سوہنی مہیوال سے تاجوئے شیر
داستاں در داستاں میری غزل
سوز میرؔ، اقبالؔ کا جذب دروں
اور غالبؔ کا بیاں میری غزل
صرف ا سکا تذکرہ مقصود ہے
اب کہاں وہ اور کہاں میری غزل
ہر گھڑی سرسبز ہے شاداب ہے
ہوں بہار یں یا خزاں، میری غزل
معنویت کا لیے ہر شعر میں
ایک بحر بیکراں میری غزل
سلسلے مفہوم در مفہوم کے
اک جہاں اندر جہاں میری غزل
جدّت و ندرت کی جلوہ سازیاں
کچھ عیاں ہے کچھ نہاں میری غزل
جیسے اک وحشت زدہ زخمی ہرن
ناقدوں کے درمیان میری غزل
آگ تھی اے بے بصیرت ناقدو
ہوگئی آخر دھواں میری غزل
میرؔ و غالبؔ ہوئے جہاں راہیؔ وہاں
میں بھلا کیا اور کہاں میری غزل
ڈاکٹر محبوب راہی
چلیں گے تھوڑا دم لے کر ذرا سورج نکلنے دو
بدلنے دو ذرا منظر، ذرا سورج نکلنے دو
صف ماتم بچھی ہے قتل شب پر بزم انجم میں
بپا ہے عرصۂ محشر ذراسورج نکلنے دو
اندھیرے چند لمحوں میں بساط اپنی اٹھالیں گے
بہے گا نور سڑکوں پر ذرا سورج نکلنے دو
ابھی چہروں کے خد و خال دھندلائے ہوئے ہو ں گے
نہیں واضح کوئی پیکر ذرا سورج نکلنے دو
ہمیں تعبیر بھی تو دیکھنی ہے اپنے خوابوں کی
مرے ہمدم، مرے دلبر ذرا سورج نکلنے دو
سنپولے تیرگی کے سرسراتے پھر رہے ہوں گے
ابھی ہر سمت رستوں پر، ذرا سورج نکلنے دو
کہاں ہیں وہ نئی صبحوں کی تعبیروں کے سوداگر
کہا کرتے تھے جو اکثر ذرا سورج نکلنے دو
سکڑتے بڑھتے سایوں کے، پھر اپنوں اور پرایوں کے
بدلنے والے ہیں تیور ذرا سورج نکلنے دو
ابھی کھل جائے گا راہیؔ بھلا کیا ہے بُرا کیا ہے
وہ رہزن ہے کہ ہے رہبر ذرا سورج نکلنے دو
٭٭٭
میری آشفتہ مزاجی کا سبب جانتا ہے
کوئی جانے کہ نہ جانے مرا رب جانتا ہے
اجنبیت میں کوئی مصلحت ہوگی اس کی
ورنہ وہ شخص مرا نام و نسب جانتا ہے
وہ بڑا آدمی ، لاکھوں میں ہے شہرت جس کی
ہم اسے جانتے ہیں وہ ہمیں کب جانتا ہے
میرے مالک کے کرم کا کوئی اندازہ بھی ہے
ہر ضرورت مری ، ہر میری طلب جانتا ہے
جس کی دہلیز کے دربان ہوں چاند اور سورج
ظلمت شب کو وہ کب ظلمت شب جانتا ہے
کس کو ہوتاہے مصیبت کا کسی کی احساس
جس پر جب آن کے پڑتی ہے وہ تب جانتا ہے
اپنے سر پیر کا تک ہوش نہیں ہے اس کو
بات یوں کرتا ہے جیسے کہ وہ سب جانتا ہے
وہ تو ہے حسن کا دیوانہ شب و روز کو وہ
سایۂ زلف سیہ ، سرخیٔ لب جانتا ہے
ماسوا شان کریمی ترا بندہ مولا
تیرا غصّہ نہ ترا قہر و غضب جانتا ہے
من و تو پر نہیں موقوف کہ سارا عالم
عظمت و مرتبۂ خاک عرب جانتا ہے
اک یہی با ت کہ میں دن کو بھی دن کہتا نہیں
شہر کا شہر مجھے شخص عجب جانتا ہے
گامزن اس پہ ہوں چالیس برس سے راہیؔ
مجھ کو ہر نقش رہ شعر و ادب جانتا ہے
ڈاکٹر محبوب راہی
قید کی معیاد گھٹتی جارہی ہے
وقت کی چادر سمٹتی جارہی ہے
روز و شب کی مستقل یکسانیت سے
کچھ طبیعت بھی اچٹتی جارہی ہے
دھیرے دھیرے کھلتے جاتے ہیں دریچے
رفتہ رفتہ دھند چھٹتی جارہی ہے
ڈھہ رہی ہیں درمیاں کی سب فصیلیں
بیچ کی ہر کھائی پٹتی جارہی ہے
پھیلتے جاتے ہیں سایے جیسے جیسے
دھوپ گھٹتی اور سمٹتی جارہی ہے
ایک آدم ایک حوّا کی یہ دنیا
ان گنت خانوں میں بٹتی جارہی ہے
سامنے کے راستے مسدود پاکر
آگہی پیچھے پلٹتی جارہی ہے
دن نکلنا ہے نکل کر ہی رہے گا
رات کو کٹنا ہے کٹتی جارہی ہے
راستوں کی گرد کی مانند راہیؔ
یاسیت مجھ سے لپٹتی جارہی ہے
٭٭٭
نہ دھوپ جیسا نہ چھاؤں سا ہے
مزاج اس کا ہواؤں سا ہے
تمامتر کربلاؤں سا ہے
یہ گاؤں بھی میرے گاؤں سا ہے
کہاں فضائیں وہ وادیوں سی
کہاں وہ منظر گپھاؤں سا ہے
ہر ایک چہرے پہ اجنبیت
ہر ایک شخص آشناؤں سا ہے
وہ بھولی الھڑ سی لڑکی اس میں
کہاں بھلا کچھ اداؤں سا ہے
در آیا ہے شہر اس کے اندر
کہاں کوئی گاؤں، گاؤں سا ہے
نہیں ہوں گلفام سا اگر میں
تووہ بھی کب مہ لقاؤں سا ہے
اگرچہ اولاد نا خلف ہے
سلوک ماؤں کا ماؤں سا ہے
دلار ہے ماں کی گھڑکیاں بھی
غضب بھی اس کا دعاؤں سا ہے
نہیں ہے بندوں سا کوئی بندہ
ہر ایک بندہ خداؤں سا ہے
وہ کارخانوں ، مِلوں کا مالک
دِل اس کا جو ہے گداؤں سا ہے
سریلا سنگیت بات اس کی
سکوت اس کا صداؤں سا ہے
نفس نفس بد دعائیں راہیؔ
غزل کا لہجہ دعاؤں سا ہے
ڈاکٹر محبوب راہی
(برزمین غالب)
لاکھ پھر ہوں شکستہ پا کیا ہے
چل پڑے ہیں تو سوچنا کیا ہے
زندگی کا مآل پوچھتے ہو
موت ہے! اس کے ماسوا کیا ہے
کرکے ہر شے سے بے نیاز مجھے
پوچھتے ہیں کہ مدّعا کیا ہے
کہنے والا ہے کون مت دیکھو
صرف دیکھو کہ کہہ رہا کیا ہے
زخم احساس، رشک خوں کے سوا
زندگی سے مجھے ملا کیا ہے
قبل از مرگ اے مرے مولا
یہ عذابوں کا سلسلہ کیا ہے
غمزہ پھر کس بلا کو کہتے ہیں
عشوہ کیا چیز ہے ادا کیاہے
جس کا دنیا میں کوئی حل ہی نہ ہو
کونسا ہے وہ مسئلہ کیا ہے
گونگے بہروں سے پوچھتے کیا ہو
واقعہ کیا، معاملہ کیا ہے
کوئی پوچھے تو اس کو بتلائیں
ذہن و دل میں ہمارے کیا کیا ہے
گرد آلود، تند، زہریلی
چل رہی ہے جو یہ ہوا کیا ہے
اک ہیولا یہ آدمی جیسا
اصل میں آدمی ہے یا کیاہے
ہے مسلّط جو مجھ پہ اے راہیؔ
ؔشاعری ہے کہ اک بلا کیا ہے
شعر گوئی کے ماسوا راہیؔ
دوسرااپنا مشغلہ کیا ہے
محبوب راہی
نہیں جو ذوق عمل کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
ابد ہے کچھ نہ ازل کچھ، نہیں ہے کچھ بھی نہیں
حیات ازل تا ابد نام اک تسلسل کا
اجل کا کیا ہے اجل کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
پیام دیتا ہے ہر ڈوبتا ابھرتا دن
جو کچھ ہے آج ہے، کل کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
ارادے ہوں متزلزل، نہ دل میں ہو ہل چل
تو ہاتھ پاؤں کا بل کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
بلند تاڑ کے مانند جو ہوئے بھی تو کیا
نہ سایہ ہے نہ ہے پھل کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
خدا ہے وہ، وہ ہر افتاد ٹال سکتا ہے
کہ اس کے آگے اٹل کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
کوئی حکیم بہت خوب کہہ گیا ہے کہ عشق
دماغ کا ہے خلل کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
سوائے موت کے کیا اے خدائے عز و جل
ہماری زیست کا حل کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
خلوص جنس تجارت نہیں عزیز مرے
کہ اس کا نعم بدل کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
ہمارا آئینۂ دل شفاف ہے جس میں
کپٹ ہے اور نہ چھل کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
مری غزل کے وہ تیور بھی دیکھ لیں راہیؔ
جو کہہ رہے ہیں غزل کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
غزل جو ہوتی ہے آزاد، جو بھی ہو راہیؔ
وہ نظم ہے نہ غزل کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
٭٭٭
ہر کوئی ہے کہ خدا خود ہی ہوا چاہتا ہے
اور ہوتا تو وہی ہے جو خدا چاہتا ہے
آنکھ بھر روشنی ، اک سانس ہوا چاہتا ہے
اور کیا اس کے سوا تیرا گدا چاہتا ہے
میرے اندر سے رہا کوئی ہوا چاہتا ہے
جسم بارود کی مانند پھٹا چاہتا ہے
میں نے حلیہ ہی نہیں رکھا تھا سائل جیسا
مجھ سے کس طرح کوئی پوچھتا کیا چاہتا ہے؟
ٹیس پھر درد کی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے
زخم دیرینہ کوئی پھر سے چھلا چاہتا ہے
اب دعاؤں پہ کسی کا بھی بھروسہ نہ رہا
جو کوئی چاہتا ہے صرف دوا چاہتا ہے
جو بھی بویا ہے اسے کاٹنا ہوگا پیارے
کر بھلا اوروں کا خود کا جو بھلا چاہتا ہے
ہم نے جس درد سے کل پائی تھی مر مرکے نجات
آج سینے میں وہی درد اٹھا چاہتا ہے
پھڑپھڑاتا ہے مسلسل رگ جسم و جاں میں
طائر روح بہ ہر لمحہ اڑا چاہتا ہے
میری سوچوں کا بدن، پیکر تخیئل مرا
شعر تازہ کوئی، ملبوس نیا چاہتا ہے
چاہتا ہے دل پُر شوق کوئی چوٹ نئی
جذبۂ شوق کوئی زخم نیا چاہتا ہے
کوئی بھی آج نئی راہوں کا متلاشی نہیں
ہر کوئی نقش کف پا پہ چلا چاہتا ہے
شعر کاحسن تو بس رمز میں ہے اے راہیؔ
اور قاری ہے کہ ہر شعر کھلا چاہتا ہے