اکبرؔحمیدی ( اسلام آباد)
کب تلک وقت ٹالنا ہوگا
راستہ تو نکالنا ہوگا
اگلی نسلوں کو کفر سازی کے
چکّروں سے نکالنا ہوگا
نئی دنیا کے جگمگانے کو
نیا سورج اچھالنا ہوگا
عقل بھی عشق کرنا جانتی ہے
خود کو بس اعتدالنا ہوگا
زندگی کی ہے ایک شرط یہی
اِک نہ اِک روگ پالنا ہوگا
جس طرح سے بھی ہومگر اکبرؔ
بُرے وقتوں کو ٹالنا ہوگا
اکبر حمیدی
مجھے تُوہی نہیں سارا زمانہ چاہیئے ہے
کہ اِک گوہر تو کیا پورا خزانہ چاہیئے ہے
گذشتہ عمر تو اِس خبط میں ہم نے گنوائی
محبت کے لیے اچھا گھرانا چاہیئے ہے
غزا لوں کے شکاری تجھ کو یہ بھی سوچنا تھا
شکاری کو بہت کچھ دام ودانہ چاہیئے ہے
جہاں شاہ وگدا‘ اپنے پرائے ایک سے ہوں
حقیقت میں ہمیں اِک بادہ خانہ چاہیئے ہے
بغیر اس کے نہیں آئے گا اس میں لطف کوئی
حقیقت کو بھی کچھ رنگِ فسانہ چاہیئے ہے
یہ دنیا تم کو حسن وعشق کی مورت لگے گی
پر اندازِنظر بھی عاشقانہ چاہیئے ہے
جسے سنتے ہوئے خود کو فقط انسان سمجھیں
ہمیں اکبرؔوہ انسانی ترانہ چاہیئے ہے
اکبر حمیدی
خواب اب چبھنے لگے آنکھوں میں
وہ بھی دن تھے کہ سجے آنکھوں میں
میں نے دیکھا اُسے سب زاویوں سے
اُس کے سب رنگ پڑے آنکھوں میں
تن بدن اُس کے بھی کلیاں چٹکیں
میرے بھی پھول کھلے آنکھوں میں
وہ مناظر تھے حواس اُڑنے لگے
پھر مرے بارہ بجے آنکھوں میں
دل کے آنگن میں نہ کھل پائے تھے جو
سب کے سب کھلنے لگے آنکھوں میں
وہ الاؤ جو کبھی ذہن میں تھے
اُس کو دیکھا تو جلے آنکھوں میں
جو نہ اکبرؔ کبھی لکھ پایا اُسے
سب خطوط ایسے لکھے آنکھوں میں
اکبر حمیدی
گئی گذری کہانی لگ رہی ہے
مجھے ہر شے پُرانی لگ رہی ہے
وہ کہتا ہے کہ فانی ہے یہ دنیا
مجھے تو جاودانی لگ رہی ہے
یہ ذکرِآسماں کیسا کہ مجھ کو
زمیں بھی آسمانی لگ رہی ہے
ہر ایک نوخیز کی مغروریوں میں
تری کافر جوانی لگ رہی ہے
بہت خوش معنی سی تحریر ہے وہ
کسی کی خوش بیانی لگ رہی ہے
وہ اِس حُسنِ توجہ سے ملے ہیں
یہ دنیا پُر معانی لگ رہی ہے
غزل دنیا میں رہتا ہوں میں اکبرؔ
یہ میری راجدھانی لگ رہی ہے