تبسم کاشمیری(جاپان)
زمیں پہ پھول نہ پتہ دکھائی دیتا ہے
جدھر بھی جاؤں میں صحرا دکھائی دیتا ہے
فقط نہیں ہوں میں تنہا اداس بستی میں
میں جس کو دیکھوں وہ تنہا دکھائی دیتا ہے
یہ شہر کیسا ہے جس میں کہ ریت اگتی ہے
یہاں پہ پھول ،نہ پتہ دکھائی دیتا ہے
چلے چلو کہ ابھی دور اپنی منزل ہے
ابھی تو شام ہے،رستہ دکھائی دیتا ہے
ابھی فُرات پہ ابنِ زیاد اترا ہے
ابھی یزید کا دستہ دکھائی دیتا ہے
عجب زماں ہے کہ ہر شخص ٹوٹا پھرتا ہے
میں جس سے ملتا ہوں خستہ دکھائی دیتا ہے
ابھی چراغ سا جلتا ہے چلمنوں کے ادھر
ابھی وہ جاگتا پھرتا دکھائی دیتا ہے
تبسم کاشمیری
مثالِ شعلۂ مشتاق رات بھر جلنا
مثالِ آئینہ حیرت میں ڈوبتے جانا
کسی نگاہ کے تیغے کا وار سہنے کو
سرِ جنوں کو ہتھیلی پہ چومتے جانا
ہوائے ابر میں بادہ کشی سے خوش ہونا
حصارِ گل کی تمازت میں جھومتے جانا
کسی کے پھول لبوں کی مہک سے کھل اُٹھنا
کسی کے جسم کی خوشبو میں جھولتے جانا
اترنا آئینہ خانہ میں اور گم ہونا
مدام منظرِ حیرت میں ڈوبتے جانا
کسی کے چاند بدن پہ گلاب رکھ دینا
کسی کے پھول سے جامے کو کھولتے جانا
تبسم کاشمیری
ہواؤں میں کوئی یہ چیخ سی ہے
فضاؤں میں کوئی یہ چیخ سی ہے
کوئی روتا ہے اپنے گھر کی چھت پر
نواؤں میں کوئی یہ چیخ سی ہے
کوئی سجدے میں گریہ کر رہا ہے
دعاؤں میں کوئی یہ چیخ سی ہے
کنارِ دجلہ کوئی آگ سی ہے
ہواؤں میں کوئی یہ چیخ سی ہے
فغاں اک ،بادلوں سے اُٹھ رہی ہے
گھٹاؤں میں کوئی یہ چیخ سی ہے
ہوائے دشت کیوں روتی ہے لیلیٰ
صداؤں میں کوئی یہ چیخ سی ہے
زمینِ نجد مجنوں کی خبر لے
فضاؤں میں کوئی یہ چیخ سی ہے
بدن ہے یہ کہ ہے یہ کوئی نوحہ
قباؤں میں کوئی یہ چیخ سی ہے
شمر نے آج پھر نیزہ ہے مارا
بلاؤں میں کوئی یہ چیخ سی ہے
کوئی سمجھے نہ سمجھے شعر میرا
ہواؤں میں کوئی یہ چیخ سی ہے
تبسم کاشمیری
ہم تیری زلف کے بندے تھے تری زلف کی راہ میں فقیر ہوئے
ترے رستے میں سب کچھ کھو کر ہم پہلے سے بھی امیر ہوئے
جس ماتھے پہ چاند اترا تھا،جس آنکھ میں تارہ چمکا تھا
اس آنکھ کا جادو جادو تھا،جس آنکھ سے سب تسخیر ہوئے
کل ابر تھا تیری چھت اوپر،کل مہتابی پر ماہ بھی تھا
ہم چپ چپ ماہ کو تکتے تھے کیا کہیے کیوں دلگیر ہوئے
اب کون اٹھائے ناز ترے؟اب کون نبھائے رسمِ وفا
جو عاشق تھے جاناں تیرے وہ سب کے سب شمشیر ہوئے
اک راہ تھی مسجد کو جاتی اک رستہ تھا میخانے کو
ہم چھوڑ کے مسجد کا رستہ میخانے کے راہگیر ہوئے
کیا زور تھا بازوئے قاتل میں،کیا تیزی اس کے وار میں تھی
دیکھا جو اس کے کوچے میں،عشاق سبھی نخچیر ہوئے
جو اس کے قصے کہتے تھے،جو اس کی باتیں کرتے تھے
وہ ہم جیسے ہی عاشق تھے یا ہم سے پہلے میرؔ ہوئے
اب نکلو بھی میخانے سے اور دَیر میں جا پرنام کرو
اب عہدِ جوانی بیت چکا لو صاحب اب تم پِیر ہوئے