سہیل احمد صدیقی
کائنات کا تمام تر حسن جلوہ ہائے رنگ رنگ سے عبارت ہے۔ صبح کی سپیدی ہو یا رات کی تاریکی‘ سبزہءِ صحرا کی دل پذیری ہو یا نیلگوں سمندر کی بے کرانی…… جدھر نظر اٹھائیے فطرت کے سات بنیادی رنگ ہزارہا رنگوں کی صورت میں منعکس نظر آتے ہیں البتہ تخلیقی عمل کا سلسلہ ذرا مختلف ہے۔ رنگ احساسِ جمال ہو یا بے رنگیءِ خیال …… وہ ہر کیفیت میں ایک نئی رنگ آمیزی کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ تخلیقی نظر مظاہر اور محسوسات کے درمیان ایک جمالیاتی اور معنیاتی نظام قائم کرتی ہے اور نئے خیال کشید کرتی ہے…… سہیل احمد صدیقی کی مندرجہ ذیل خوبصورت ہائیکو میری نظر سے گزری تو مجھے کچھ ایسا ہی خیال آیا:
خوش کن ہے پت جھڑ
برگِ سرخ یہ کہتا ہے
اک بوسہ مجھ پر
پت جھڑ کا تصور ہماری ادبی و سماجی روایت میں عمومی طور پر غم و اندوہ کی کیفیت اور زرد رنگ کی علامت کے طور پر موجود ہے لیکن سہیل احمد صدیقی کی یہ ہائیکو ایک نئی معنویت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ سرخ رنگ ہمارے سماج میں زندگی کے نئے پہلوؤں اور نئے رنگوں سے آشنائی کا مظہر ہے اور یوں بھی سرخ رنگ ہمارے جسم میں لہو کی صورت زندگی بن کر گردش کررہا ہے…… اس حوالے سے پت جھڑ کی کیفیت ہمیں زندگی کے نئے پہلوؤں سے آشنائی کی نوید سناتی ہے۔
ممتاز شاعر ‘ ادیب اور نقاد ڈاکٹر ابوالخیر کشفی اپنے مضمون ’’ پہلا اور آخری نغمہ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ ہائیک ‘ جھرنے کی آواز ‘ برف کی سفیدی ‘ پہاڑ کی چوٹی پر تازہ ہوا کا نام ہے۔ہائیک ‘ سردی کی چاندنی رات ‘ غروبِ آفتاب سے کچھ پہلے پرندے کی اڑان اور پتے پر شبنم کی لرزش کا نام ہے۔۔۔۔۔۔ جس میں یارا ہو وہ ہائیک کہے ‘ ہائیک تین مصرعوں کا نام نہیں ‘ فطرت کے ساتھ انسان اور جذبات کی قلم لگانے کا نام ہے۔‘‘
اس اقتباس کی روشنی میں جب ہم سہیل احمد صدیقی کی ہائیکو کا مطالعہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ فطرت کے ساتھ انسان اور جذبات کی قلم لگانے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ان کی شعوری کوشش یہ رہی ہے کہ ہائیکو کی شناخت کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے ‘ اسی لیے ان کی تخلیق کردہ ہائیکو میں فطرت کی علامتیں تازہ کاری کے ساتھ موجود ہیں مثلاَ
٭ خوشبو لہرائی ٭ جھرنے گرتے ہیں ٭ مٹی مہکی ہے ٭ اڑتی ہے بس دھول ٭ مست ہوا ساون تیری آمد ہے یا پھر گوری تیرے قدموں میں اب کے ساون میں کھل کر یاد بگولہ ‘ دل میرا زلف گھٹا میں پوشیدہ
فصل گل آئی موتی رلتے ہیں چڑیا چہکی ہے اک پژمردہ پھول اس کا سیمیں تن
٭ کیسا افسوں ہے ٭ سورج سرگوشی ٭ مئے گوں تھے گل نار ٭ دل بھی کیسا ہے ٭ بس شرمندہ ہے
برف پڑی ہے چوٹی پر شرماتی ہے برفیلی مست ہوا بھی شوریدہ خواہش کے دریا پی کر اک بھونرے کے بوسے سے
چہرہ گلگوں ہے چوٹی شا گوری مجھ سے بچھڑا یار بالکل پیاسا ہے گل افسردہ ہے
[ شا گوری دنیا کی دوسری بلند ترین پہاڑی چوٹی کے۔ٹو[K-2] کا بلتی زبان میں نام ہے]
٭پھول جو رویا ہے ٭ سناٹا بولا ٭ بادل آئے ہیں ٭بے موسم خواہش ٭ آنکھ میں در آئی
شبنم نے اس کا مکھڑا رات کی رانی مہکی جو بن بارش کیوں یکجا ہیں تجھ بن کیسے بھیگوں میں ننھی تتلی چپکے سے
خوب ہی دھویا ہے دل میں درد اٹھا چھاگل لائے ہیں گرما کی بارش دل میں اتر آئی
سہیل نے حمدیہ اور نعتیہ ہائیکو میں بھی ممتاز شعراء سے فطرت نگاری سے بھرپور کلام لکھوایا اور خود بھی ایسے ہائیکو تخلیق کئے: ٭ جلوہ کو بہ کو ٭ ہر دم‘ ہر ساعت ٭ مصروفِ تحمید
چنبیلی ہو یا چمپا ندی‘ دریا‘ چشمے سب خاروں‘ کہساروں میں بھی
جنگلی پھول میں تو مشغولِ مدحت تیری ہی تمجید
٭ سارا عالم دھول ٭ کیسے نظّارے ٭ سید و سرور (ﷺ)
آقا ( ﷺ) کے آجانے سے خاکِ مدینہ آئینہ ہے بزم علاء میں جھکتے ہیں
کھل گئے ہر جا پھول ذرّے ہیں تارے سب شاہوں کے سر
سہیل احمد صدیقی ہائیکو میں پانچ ۔سات۔پانچ کے قائل ہیں اور پنجاب کے مکتب مساوی الاوزان کو درست نہیں سمجھتے ‘ اگرچہ مدیر کی حیثیت سے اپنے رسالے میں ان کا کلام ضرور شائع کرتے ہیں۔ اردو زبان کے دیگر شعراء کی طرح وہ بھی ’’غزل زدہ‘‘ ہائیکو سے مکمل اجتناب تو نہیں برت سکے لیکن انھوں نے اردو کی رائج اور اصل جاپانی ہا ئیکو کا امتزاج ضرور پیش کیا ہے۔ذرا دیکھئیے مندرجہ ذیل غیر مقفیٰ ہائیکو جو جاپانی رنگ کی مظہر ہیں:
٭ داؤدی کا پھول ٭ چاندنی چھٹکی ہے ٭ جھیل میں جوں سارس ٭ مینھ جو برسا ہے ٭ کان میں رس گھولے
جس کو دیکھ کے یاد آئے دل کے ویراں کھنڈر میں ہر دم یوں رہتا ہوں میں کچھ کچھ بدلا ہے جانم ڈالی ڈالی رس چوسے
الھڑ‘ نازک نار میلہ لگتا ہے تیری یاد میں گم اند ر کا موسم اک نیلی چڑیا
٭ پھر کب دیکھوں گا ٭چیری مہکی تو ٭ پیتم تیری یاد ٭ دونوں کا غم ایک ٭ منظر پُر اسرار
برکھا رت میں یہ منظر میں نے یہ جانا دلبر میگھا چھم چھم برسے ہے مشرق میں رخشاں تارا جنگل کے سناٹے میں تارے اور بادل رت وہ بیت گئی آنکھوں سے دن رات اور میں بھی تنہا مینڈک کی آواز
سہیل اگرچہ اپنی ہائیکو میں سندھی ‘ پنجابی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے لیکن خاص طور پر اپنے کلام میں ہندی زبان کی کوملتا اور فارسی زبان کی شیرینی کو سمونے کی کوشش ضرور کرتے ہیں …… اس طرح انھوں نے جن لفظیات اور تراکیب کا استعمال کیا ہے ان کی بدولت ان کے ہائیکو میں ایک قسم کی غنائیت اور موسیقیت بھی پیدا ہوگئی ہے اور ساتھ ساتھ گیتوں کا رس اور سادہ جذبات و محسوسات کی عکاسی بھی ان میں موجود ہے:
٭ ڈولے میرا من ٭ آئینہ ہے دل ٭ دل بہلاؤ نا! ٭ ساحل پہ ہر شام ٭ اس کے پیار کی دھوپ
کس کس کو پرچائے گا نین کنول کی برکھا اور یاس کے صحرا میں آکر گیلی ریت پہ لکھتی ہے چہرے کو نرمائے ہے
کس کس کو پرچائے گا تاروں کی جھلمل پھول اگاؤ نا! پگلی تیرا نام شام کو اس کا روپ
٭ سپنوں کی تعبیر ٭ دل کش اور غم ناک ٭ ہر دم تیرا خواب ٭ چہرہ ہے گل فام ٭ مت دکھلاؤ خواب
گوری کیسے دیکھے گی مست غزال آنکھیں ویراں من ساگر میں مچلے ہے گوری پل پل تڑپے ہے مجھ کو زندہ رہنا ہے
خواب اس کی جاگیر نیلم کی پوشاک اک موجِ بے آب کب ہو مولا شام جوں ماہی بے آب
سہیل احمد صدیقی نے موضوعاتی ہائیکو میں بھی اثر انگیزی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے ‘ مثلّا پاکستان اور جاپان کی دوستی کے پچاس سال کی تکمیل پر ان کی طبع زاد ہائیکو ملاحظہ کیجئے:
٭ گیت سہانے ہیں ٭ دکھ سکھ سانجھا ہو
کے۔ٹو [k2]اور فوجی۔یاما { Fujiyama} ساون رت ہو یا پت جھڑ
میت پرانے ہیں راضی رانجھا ہو
یا نیو میلینئیم [New Millennium] کے حوالے سے یہ ہائیکو:
٭ کوشش یہ کرلیں ٭ نئے ہزارے میں
بدلے پت جھڑ کی یہ رت آؤ مل کر دنیا میں
نئے ہزارے میں انساں کو ڈھونڈیں
﴿ سہیل نے یہ لفظ فارسی کی جدید لغات سے اخذ کیا ہے﴾
اسی طرح ملکی حالات اور وادیءِ کشمیر کے حوالے سے بھی ان کے یہاں دلکش ہائیکو موجود ہیں‘ مثالیں ملاحظہ کیجئے:
٭ کتنی غربت ہے ٭ چاروں اور ہے گرد ٭ گولہ اور بارود ٭ رنگیں ہے تصویر ٭ سیاچن کہتا ہے
آبِ گُم آکر دیکھیں وحشت ساماں ہے موسم ہائے ہم سے چھوٹ گئے خون کے سچے رنگوں سے میرے پھولوں کی خاطر
کس کو فرصت ہے سایہ بھی ہے زرد مشک و عنبر ‘ عود وادیءِ کشمیر جھگڑا رہتا ہے
سہیل احمد صدیقی نے ۱۹۹۸ء میں جنوبی ایشیا کے پہلے اور واحد کثیر لسانی [multi-lingual] ہائیکو جریدے ‘ ہائیکو انٹرنیشنل کا بطور مدیر و ناشر اجراء کیا۔اب تک اس کے کئی شمارے منظر عام پر آچکے ہیں‘ جن میں چار مشاہیر یعنی محسن بھوپالی ‘ وضاحت نسیم ‘ اقبال حیدر اور رئیں علوی پر خصوصی نمبر شائع ہوئے ہیں…… خاص طور پر اقبال حیدر نمبر اس حوالے سے ضرور فتح مندی کا اعلان ہے کہ جب کسی ایک صنف سخن کے مخالف کئی لشکر صف آرا ہوں تو اس پر بیک وقت کئی زبانوں میں کام کرکے اس کے فروغ کی راہ ہموار کرنا جی داری کی علامت ہے……اور اگر مدیر محترم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ہائیکو کے فروغ کے لیے کوشاں بر صغیر کا اولین کثیر لسانی جریدہ ہے تو یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ ایسی صداقت ہے جو روزِ روشن کی طرح آشکار ہے۔ اقبال حیدر نمبر اپنی ضخامت اور ہائیکو کے حوالے سے وقیع مواد کی بناء پر اہل فکر و نظر کی توجہ کا مرکز بنا‘ اس کے دو ایڈیشن شائع ہوئے جن میں شاعر کا کلام ‘ مشاہیر کے مضامین اور اقبال حیدر کے تراجم کے علاوہ پندرہ زبانوں میں مواد شامل ہے…… جاپان سمیت کسی ملک میں ہائیکو کے حوالے سے اتنی زبانوں میں کام کہیں نہیں ہوا۔
ہائیکو انٹرنیشنل اب تک پچیس سے زائد زبانوں میں ہائیکو اور اس سے متعلق مواد شائع کر چکا ہے جو یقینا ایک عالمی ریکارڈ ہے اور ہائیکو سے محبت کرنے والوں کے لیے باعث فخر بھی۔ سہیل احمد صدیقی نے اردو اور انگریزی میں متعدد ہائیکو نگاروں کی تخلیقات پر روشنی ڈالنے کے علاوہ ان دونوں زبانوں نیز سندھی میں بعض تکنیکی معاملات پر قلم اٹھایا ہے……کراچی کے کئی شعراء نے ان کی تحریک و ترغیب سے ہائیکونگاری شروع کی۔ ان کی ادبی و صحافتی تحریروں کی تعداد (طبع زاد و تراجم) اردو اور انگریزی میں ساڑھے تین سو سے زائد ہے……انھوں نے اب تک فرینچ ‘ انگریزی ‘ فارسی اور سندھی کے متعدد منظوم اور منثور تراجم براہ راست کئے ہیں ‘ اردو سے انگریزی اور فرینچ میں بھی منظوم اور منثور تراجم کرچکے ہیں۔ اقبال حیدر کی ہائیکو کا آزاد فرینچ ترجمہ بہت مشکل کام تھا جو انھوں نے انجام دیا۔ وہ غالباْ پہلے شاعر ہیں جن کی دو انگریزی نظموں کو تین مرتبہ (۱۹۹۲ء ‘ ۱۹۹۴ء اور ۲۰۰۲ء میں) امریکا کی نیشنل لائیبریری آف پوئیٹری ‘ انٹرنیشنل لائیبریری آف پوئیٹری اور انٹرنیشنل سوسائٹی آف پوئیٹس کے عالمی انتخاب کلام میں شامل کیا جاچکا ہے۔
ماہنامہ ’صریر‘ (۲۰۰۱ء) میں مطبوعہ ’’ ادب کہانی۔۱۹۹۸ء‘‘ میں ڈاکٹر انور سدید نے ہائیکو کا جائزہ لیتے ہوئے ہائیکو انٹرنیشنل کو دینی ہائیکو کی اشاعت کے حوالے سے منفرد قرار دیا۔
اسی طرح ڈاکٹر انور سدید نے ماہنامہ ’تخلیق‘ (لاہور) میں اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا:
’’ سہیل احمد صدیقی ہائیکو کا انٹرنیشنل روپ نکھارنے کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں۔ وہ ہائیکو کے فروغ میں وہی کردار ادا کررہے ہیں جو انشائیہ میں ڈاکٹر وزیر آغا نے ادا کیا اور اب ماہیا میں حیدر قریشی ادا کررہے ہیں…… سہیل احمد صدیقی کی اپنی ہائیکو میں فطرت سے موانست کا زاویہ نمایاں ہے اور وہ اردو ہائیکو کو جاپانی ہائیکو کے مماثل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
الغرض اس سفر میں بے شمار مسائل اور مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود سہیل احمد صدیقی جس حوصلے اور توانائی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہائیکو سے ان کی محبت ضرور رنگ لائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہر صنف سخن کی طرح ہائیکو نظم بھی اپنی ایک شناخت رکھتی ہے۔اسے اردو میں رائج کرتے ہوئے اس
کی پہچان اور ہئیت کی پاسداری بھی ضروری ہے ورنہ ہائیکو بہ حیثیت ایک صنفِ سخن اردو شاعری میں
مقام حاصل نہیں کر سکے گی۔ڈاکٹر رفعت اختر نے ہائیکو کے اوزان کا تعین کرکے بڑاکام کیا ہے۔ہائیکو
کا پہلا اور تیسرا مصرعہ ہم وزن اور درمیانی مصرعہ نسبتاَ طویل ہوتا ہے۔ایک یا دو رکن زیادہ۔جاپانی شاعری
کے ضوابط کی مکمل پیروی اردو شاعری میں ممکن نہیں جس کی نشاندہی ڈاکٹر رفعت اختر نے اپنے مضمون
’’اردو ہائیکو ‘‘میں کی ہے۔لیکن اس کے ارکان کی کمی بیشی اور آخری مصرعے کی اہمیت کے ساتھ ہائیکو کی
مخصوص شناخت بڑی آسانی سے برقرار رکھی جا سکتی ہے۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ادا جعفری کے پیش لفظ ’ ’ہائیکو۔تنقیدی جائزہ ‘‘پر ایک نظر۔سے اقتباس
بحوالہ کتاب ہائیکو ۔تنقیدی جائزہ از ڈاکٹر رفعت اختر مطبوعہ ۱۹۹۳ء)