(کلام کا جائزہ)
اقبال حیدر کی ہائیکو نگاری پر اس غیر روایتی جائزے کی ابتدا روایتی انداز میں کی جارہی ہے تاکہ اس کی غیر روایتی شاعری فطری طور پر اُبھر کر سامنے آجائے۔ اس سے پہلے چند مشہور اور معیاری مثالیں اس کی تخلیقات کی منطقی تقسیم کے مطابق پیش کی جاتی ہیں۔ پہلے حمد و نعت کا اسلوب دیکھئے:
حمد
تو ہی صاحب کُن
کائنات کا ہر ذرّہ
گائے تیرے گُن
نعت
صادق اور امین
میرے آقا کو مانیں
وہ بھی جو بے دین
ایک ملی ہائیکو
پیارے پاکستان
تو میری پہچان ہے اور
میں تیری پہچان
یہاں ہائیکو کے فن زبان اور اسلوب کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ صنف اب تعریف و تعارف سے آگے نکل گئی ہے اس کا مقبول ترین فن پہلے پہل (۵۔۷۔۵) کے ارکان میں ظاہر ہوتا ہے جس کااستعمال عام ہے۔ اقبال حیدر کا بہتر کلام اسی میں ظاہر ہوتاہے جس سے موضوع اور مزاج کی انفرادیت ظاہر ہے۔ بچوں کی اہمیت اور ا ن سے محبت کااندز یہ ہے۔
ویراں اور بے خواب
وہ گھر گھر ہی نہیں جس میں
بچے اور نہ کتاب
٭٭٭
جاگ رہی ہے رات
کھیل رہے ہیں کچھ جگنو
اک بچے کے ساتھ
٭٭٭
رشتہ سچا ہے
اک بوڑھے کی بانہوں میں
ننھا بچہ ہے
مضامین کی ندرت اور احساس کی نزاکت جذبے کی صداقت کے ساتھ دیکھئے:
پھر نادانی میں
میں نے اس کا نام لکھا
بہتے پانی میں
تم کو کیا ڈھونڈیں
ہم تو اپنے آپ کو بھی
ڈھونڈ نہیں پائی
پہلا ہائیکو متداول ردیف کی رعایت کے ساتھ ہے اور دوسرا ہائیکو اس سے عاری مگر بے ساختگی اور زبان کی سلاست اس کا احساس ہی نہیں ہونے دیتی وہ فطری طور پر قدرت سے قریب اور مناظر کے دلدادہ مگر محض برائے منظرنگاری نہیں۔
اکثر شام ڈھلے
میری آنکھیں تکتی ہیں
دور سمندر کو
٭٭٭
بادل کے اس پار
اک معصوم پرندے سے
بچھڑ گئی ہے ڈار
دوسرے ہائیکو میں بیان کا انوکھا اور موثر انداز ہے صاف ظاہر ہے کہ کونجوں کی ڈار کا ذکر ہے مگر عمداً پرندے کا نام نہیں لیا ہے اور ذہن از خود اس طرف چلا جاتا ہے۔پڑھنے اور سننے والا جانتا ہے کہ ذکر کونج کا ہے جو بچھڑ گئی ہے‘ پر شاعر کہتے ہیں کہ ڈار بچھڑ گئی ہے۔
اقبال حیدرنے ہائیکو میں تجربے بھی کیے ہیں اور مسلسل ہائیکو بھی کہے ہیں۔ کراچی شہر سے متعلق تاثرات اس شہر کے باسی کی اس سے محبت اور اس کے متعلق فکر مندی کا اظہار اس طرح ہے گویا یہ شہر ان کی شخصیت کاحصہ ہے اوروہ اس شہر میں گم ہے مگر غافل نہیں۔ پہلا مصرع جو خطابیہ ہے ‘سب میں مشترک ہے۔
اے شہروں کے شہر
کہیں پہ خوشیاں ناچیں اور
کہیں پہ ٹو ٹے قہر
اے شہروں کے شہر
ٹھنڈے دل سے سوچ ذرا
کیوں پھیلایہ زہر
کچھ مسلسل ہائیکو موسم کے تاثرات اور بالکل ذاتی احساسات کے آئینہ دار ہیں اور پروین شاکر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کہے گئے ہیں۔ لیکن نئے زاویئے اور ماحولیات کے متعلق دو فن پارے اپنے موضوعات کے اعتبار سے ایسے ہیں کہ ان سے گزر جانا شاعر کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
نیا جہاد کرو
نئے ہزاریئے کا پیغام
ذہن آزاد کرو
٭٭٭
شہر ہو یا گاؤں
سر پر باقی رہنے دو
پیڑوں کی چھاؤں
اس سلسلے میں جاپانی آرائش گل کے فن اور حالات حاضرہ کے موضوع قابل قدر ہیں ۔چند ہائیکو سے شگفتہ مزاجی کا اظہار ہوتا ہے۔
ایک پہیلی ہے
سابق شوہر کی بیوی
اس کی سہیلی ہے
٭٭٭
دنیا داری ہے
اندھے لنگڑے کا قصہ
اب بھی جاری ہے
یہ ہائیکو کی عام اور رسمیہ شاعری ہے جو اپنی سحرکاریوں کی وجہ سے مقبول ہورہی ہے۔ اور کم و بیش سارے ہائیکو کے شاعر اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ لیکن کچھ ۵۔۷۔۵ وزن کے پابند نہیں ہیں مگر اقبال حیدر کا کلام جو نمایاں خوبیاں رکھتا ہے وہ ایک جگہ کم نظر آئیں گی لیکن جائزے میں میں ان کے غیر رسمی کلام کا ذکر خاص طور پر کرنا چاہتا ہوں۔ جس کی طرف عام طور پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔ سب سے پہلے نثر کے ہائیکو کا دو نمونے دیکھئے:
تیز بارش تھم گئی ہے
تمام سنگ میل اکھڑ چکے ہیں
مسافر ستارہ سفر کو ڈھونڈ رہے ہیں
٭٭٭
ان کے نقش قدم پر چلو
جو ہم سے پہلے منزل کی طرف گئے
اور پرندوں پر بھی نظر رکھو
اقبال حیدر نے مساوی الاوزان ہائیکو بھی کہے ہیں۔
پھول بیچنے والی کب کی چلی گئی
لیکن اس کے ساتھ جو تتلی آئی تھی
اب بھی گل دانوں پر منڈلاتی ہے
خود کردہ را علاج نہ پاؤں کتاب میں
لوگوں پہ آسمان سے آتے ہیں سب عذاب
میں مبتلا ہوں اپنی زمین کے عذاب میں
انہوں نے مختلف بحروں میں بھی ہائیکو کہے ہیں:
خزاں کی ہوا ہے بڑی دھول ہے
جسے توڑنا چاہتی ہے میری پیاری بچی
وہ اک آخری لال سا پھول ہے
٭٭٭
خزاں کی سنہری سنہری راتوں میں
درختوں کی شاخوں سے پتے بچھڑنے لگے ہیں
مگر میرے دل کی کلی کھل رہی ہی
کبھی کبھی انہوں نے عنوان کے ساتھ بھی ہائیکو کہے ہیں اورپورا حق ادا کیا ہے۔
نیت
نیت نیک نہیں
اک بستی میں رہتے ہیں
لیکن ایک نہیں
مکان
اونچے ہوئے مکان
لیکن ہم سے روٹھ گئے
آنگن اور دالان
’مکان‘ کے عنوان سے جو ہائیکو ہے اس کا مضمون نادر ہے۔کسی فارسی شاعر نے یہ بات اس طرح کہی ہے: پیش خورشید پر مکش دیوار خواہی ازصنم خانہ نورانی
اگر تم چاہتے ہو کہ گھر کے صحن میں روشنی (دھوپ) رہے تو سورج کے رخ پر دیوار نہ بناؤ۔ شاہ لطیف بھٹائی نے بالکل وہی بات کہی ہے جو اس ہائیکو میں ہے مگر اپنے منفرد انداز میں :
ڈگھی اد ومنھی پکواؤ مدلا یہ
جنہین آذ ورادید سجد سوارو لڈیو
اتفاق سے اس بیت میں فارسی شعر او رہائیکو دونوں مضامین آگئے ہیں تم اپنے کچے اور پھونس کے مکان اور طویل نہ بناؤ کہ جنہوں نے ایسے بڑے اورطویل برآمدے بنائے۔ ان کے گھروں سے سورج وقت سے پہلے ہی رخصت ہوجاتا ہے۔
منظوم تعارف کی بنیاد شوکت تھانوی نے حیدرآباد کے ایک یادگار مشاعرے میں رکھی تھی لیکن اسے عروج راغب صاحب نے دیا۔ اقبال حیدر جیسے قادرالکلام شاعر سے فی البدیہہ شاعری بھی کوئی غیر معمولی بات نہ ہوگی۔ راغب مراد آبادی نے مشاعرے کی نظامت میں شاعر کے منظوم تعارف کی باقاعدہ ابتدا کی تھی جو ان کی بدیہہ گوئی کا ثبوت ہے۔ اقبال حیدر نے ہائیکو کے مشاعرے کی نظامت کرتے ہوئے شعراء کا تعارف ہائیکو میں کرایا یہاں سب شعراء کا منظوم تعارف کرانے والے راغب مراد آبادی کا تعارف دیکھئے جو اقبال حیدر نے ہائیکو کے ذریعے کرایا ہے۔ اچھی لگتی ہے
راغب صاحب کی ہائیکو
سچی لگتی ہے
اقبال حیدر نے جاپانی ہائیکو کے بہت کامیاب ترجمے بھی کیے ہیں۔ مشہور شاعر باشو کے ہائیکو کا ترجمہ دیکھئے: دلکش ہیں کتنے
دور پہاڑی رستے پر
پھول بنفشہ کے
شیکی کے ہائیکو کا ترجمہ دیکھئے اس پر ترجمے کا گمان نہیں ہوتا
پروا چلتی ہے
حد نظر تک وادی میں
برف پگھلتی ہی
بوساں، اسا‘سانتو کا اور یاماکوچی کے کلام کا تراجم کا بھی یہی رنگ ہے۔
شام دھندلکے میں
اس کی آنکھیں روشن ہیں
دل کے رستے میں
برف ہوا برسات
ہجرت رُت میں کوچ کریں
آؤ سب کے ساتھ
طائر کہتے ہیں
اڑتے طیارے کے پر
ساکت رہتے ہیں
اقبال حیدر نے پنجابی ،پشتو، بلوچی، سرائیکی، براہوی ،ہندکو اور سندھی زبانوں میں لکھی جانے والے ہائیکو کا اردو منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ شیخ ایاز کے ایک سندھی ہائیکو کا ترجمہ دیکھئے:
شیخ ایاز
تتربولن تھا
کی دوراز ڈنڈم
مون لئے کولن تا
ترجمہ
تیتر بولتے ہیں
دھند میں بھی کچھ دروازے
مجھ پر کھولتے ہیں
اور آخرمیں اقبال حیدر کے کہے ہوئے اردو واکا (تنکا) کے ایک ترجمے پر اقبال حیدر کے اس جائزے کو ختم کرتے ہیں کہ اس کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ اس جاپانی صنف شاعری کے اول تین مصرعوں کو جدا کرکے ہائیکو کی صنف کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
شہروں کا آزار
ہمسایوں کے بیچ میں ہے
اونچی سی دیوار
بے خوابی کی راتیں ہیں
دیہاتوں کی باتیں ہیں
یہ ہے اقبال حیدر کے ہائیکو شاعری کا ایک طائرانہ سا جائزہ، اگر چہ وہ ایک مفصل مربوط مقدمے کا تقاضا کرتا ہے اور وہ اس کی مستحق ہے۔
اقبال حیدر کی شخصیت اور اس کے ہائیکو کے متعدی مرض کا جس نے پاکستان کی تمام زبانوں کے شعراء میں یہ بیماری پھیلادی ہے‘ میں اس وقت قائل ہوا جب اس مضمون کے ختم ہوتے ہوتے اس مرض کا مجھ پر بھی حملہ ہوا اور میں نے بھی کچھ ہائیکو کہہ ڈالے جو ثبوت میں پیش کرتا ہوں۔ اللہ مجھ پر رحم کرے۔
دیکھ کے تیرا روپ
ساون کی دوپہر میں
ہوئی سنہری دھوپ
٭٭٭
دیس سے دور ہے تو
پھر بھی ہے تجھ میں بسی
مٹی کی خوشبو
٭٭٭
کسی کا اشارا ہے
دل دریا میں ڈوب جا
وہیں کنارا ہے
٭٭٭
چند ا ہالے میں
روتا بچہ ہنس پڑا
دیکھ کے پیالے میں
٭٭٭
ہر دکھ سہنا ہے
منزل کی خاطر ہمیں
چلتے رہنا ہے
٭٭٭
صحبت ہے بیکار
مذہب عشق میں ایک ہیں
کافر اور دیندار
٭٭٭
تارو لمحے چند
دریا میں وہ نہا ئے گی
کرلو آنکھیں بند
تھے جو گھٹا کی مثال
جن میں بیلا البیلا تھا
بیلا سے ہیں وہ بال
٭٭٭
رہ کر تجھ سے دور
اب بھی مزاج گلابی سا ہے
اے شہر جے پور
٭٭٭
سہتی کامن روگی
وہ جو اتر پہاڑ سے آیا
رانجھا ہے یا جوگی
٭٭٭
اٹھ محنت سے کات
کٹے گا اچھا سوت
جائے گا ہاتھوں ہات
٭٭٭
خواب ہے یا تعبیر
وینس کے پیکر میں امر ہے
پتھر کی تقدیر
٭٭٭
کہا بھکارن نے
اللہ جوڑی سلامت رکھے
چاند سا بیٹا دے
٭٭٭
دریا میں ہے طوفان
کچے گھڑے سے عشق کا
کس نے رکھا مان
٭٭٭
اجرت ہے یا پریت
ہر مٹکے والی پنہاری
تیری کونسی ریت
٭٭٭
کیا ہے تجھے منظور
دھر منل دھر کوچ چل
ابھی ہے دلّی دور
٭٭٭
عشق کی جان سے دور
تاج محل کا مدعی
شاہ ہے یا مزدور
٭٭٭
ہونے کا آزار
مچھلی کی تقدیر ازل سے
کانٹا، ڈور ،شکار
٭٭٭
ہنستا ہے بچہ
خواب وہ شاید دیکھ رہا ہے
تتلی، جگنو کا
٭٭٭
ہادیٔ اسلام
دین ہو یا دنیا مری
سب کچھ آپ کے نام
٭٭٭