خواتین و حضرات!
میں اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اُردو شاعری میں جس طرح دیگر اصنافِ سخن کے مقابلے میں غزل کی صنف نے خاص طور پر اپنے تخلیقی جوہر کا لوہا منوایا ہے اُسی طرح اُردو نثر میں افسانے نے اپنی شناخت کا اعتبار و وقار قائم کیا ہے ۔اُردو ادب کے پچھلے سو برس کا زمانہ، افسانے کی بطورِ صنف ،نشوونما سے لیکر عروج وترقی کے مختلف مراحل کو پیش کرتا ہے ۔ کہانی کو ’’ داستان ‘‘ کے تسلسل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے اور اس کو ایک یکسرجُداگانہ حیثیت میں بھی سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔
راشدالخیری ،پریم چند کہ سجاد حیدر یلدرم ۔ اوّلیت کے تعین میں محققین کے درمیان یہ نام ہمیشہ زیرِ بحث رہے ہیں مگر راشدالخیری والی بات دل کو لگتی ہے کہ اُن کے حق میں دلائل ذرا زیادہ قوی ہیں ۔ سرسیّد تحریک کے سائے میں ظہور پانے والے راشدالخیری کی کہانی ’’ نصیر اور خدیجہ ‘‘ جو ’’ مخزن ‘‘ لاہور کے دسمبر 1903ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی ،کو اُردو کا پہلا افسانہ قرار دیا جاتا ہے جس میں بہن نے بھائی کو خط لکھ کر مسلم معاشرے کے بعض مسائل پر گفتگو کی تھی ۔ یہ در اصل اُردو کہانی میں مسلم معاشرتی اصلاحی پس منظر کی نشاندہی کرتی تھی ۔ یہ کہانی بعد میں راشدالخیری کے مجموعے ’’ مسلی ہوئی پتیاں ‘‘( مطبوعہ ۔1937ء دہلی )میں شائع ہوئی ۔
آج کی اس محفل میں اُردو کے ممتاز افسانہ نگار اورصاحبانِ علم تشریف فرما ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس سیمینار میں پچھلے سو سال کے افسانوی ادب کا تفصیلی جائزہ پیش کریں گے ،میں سمجھتا ہوں زیادتی ہوگی ۔ اہم افسانہ نگاروں کے اگر صرف نام ہی لیے جائیں تو بھی اس کے لیے کافی وقت چاہیے ۔ پریم چند ، سدرشن ، یلدرم ،علی عباس حسینی ، نیازفتحپوری ، اوپندر ناتھ اشک ، اختراورینوی ، احمد ندیم قاسمی ، مسز عبدالقادر ، حجاب امتیاز علی ، احمد علی ، کرشن چندر ، عزیزاحمد ، رشیدجہاں ، منٹو، ممتاز شیریں، غلام عباس، بیدی ، عصمت ، شوکت صدیقی ، بلونت سنگھ ، حسن عسکری ، ابوالفضل صدیقی، خدیجہ مستور ، حاجرہ مسرور، ممتازمفتی ، قدرت اللہ شہاب ، قرۃ العین حیدر ،شفیق الرحمن، محمد خالد اختر،انتظار حسین ، آغا بابر،اشفاق احمد ،جوگیندر پال، احمد ہمیش ،جمیلہ ہاشمی ، بانوقدسیہ ، رحمن مذنب ، سید انور،سریندر پرکاش ، انور سجاد، خالدہ حسین ، غیاث احمد گدی ، مسعود مفتی، منشایاد ، رشید امجد ، مرزا حامد بیگ، مظہرالاسلام ،اسد محمد خان ، احمد داؤد ، بلراج مین را وغیرہ ۔
میں جب سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ابھی تو نہ جانے کتنے نام ہیں جو رہ گئے ہوں گے ،مثلاً سید رفیق حسین ، خواجہ احمد عباس ، اشرف صبُوحی ،حسن منظر ، وقار بن الٰہی ، صادق حسین ، قیصرتمکین، فہمیدہ اختر ، زاہدہ حنا ، اختر جمال ، رضیہ فصیح احمد ، رضیہ سجاد ظہیر، سلام بن رزاق،انور خان ، جیتندر بلّو۔۔۔خواتین و حضرات!یہ معاملہ ہمیشہ بہت حساس ہوتا ہے ۔ کتنے نام رہ جاتے ہیں اور رہ گئے ہیں ۔ نام ہیں ہی اتنے کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں ۔ مراد صرف یہ ہے کہ ہمارا فکشن اردو نثر کی آبرُو ہے اور دُنیا کے ادب میں ہمارے افتخار و اعتبار کا سبب بنا ہے ۔
خواتین و حضرات ! یہ بتاتا چلوں کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے کراچی ، لاہور ، کوئٹہ اور پشاور کے مراکز اپنے اپنے طور پر افسانے کے حوالے سے قومی سیمینارز منعقد کر رہے ہیں ۔
میرا یہ منصب تو نہیں ہے لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس سال کو ’’ افسانے کا سال ‘‘ قرار دیا جاتا ۔افسانہ بلاشُبہ اُن منتخب اصنافِ ادب میں سے ہے کہ جس نے 20ویں صدی کے جہانِ ادب میں ہماری شناخت اور پہچان بنانے میں بُنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ اسالیب ، لحن ، موضوعات اور تجربات کے تنوّع، سب حوالوں سے جس تخلیقی توانائی کا اظہارہوا ہے اُس نے ہمارے افسانے ہی کو نہیں ادب کو بھی عوام و خواص میں بے حد مقبولیت عطا کی ہے ۔ آج کا یہ قومی مذاکرہ ایک بڑی صنف کے بڑے لکھنے والے کو خراجِ عقیدت پیش کرنے اور اُن کی خدمات کے اعتراف کے لیے منعقد کیا گیا ہے ۔ ٭٭٭
’’ادب کسی قوم کی تہذیبی اور تاریخی آئینہ داری کرتا ہو یا نہ کرتا ہو لیکن پاکستانی ادب اپنے دامن میں زیر زمین بہنے والے چشمے کی طرح نمناک مٹی رکھتا ہے۔۔۔فی الواقت اردو افسانہ کی صورتحال یہی ہے کہ شور شرابہ تقریباََ ختم ہو چکا ہے یعنی اب راتوں رات شہرت کا امکان نہیں کے برابر ہے۔اس دور میں اردو افسانے کے مختلف امکانات سامنے آئے ہیں،اور آج کا افسانہ نگار آنے والی واضح اور روشن صورتحال کا خام مواد بنتا جا رہا ہے۔۔اس تمام بیخ و بُن کے نتیجہ میں جوصورت کل سامنے آئے گی وہی جدید تر افسانے کی شناخت بنے گی۔‘‘
( قمر احسن بحوالہ پیش لفظ ’’ نیا پاکستانی افسانہ۔نئے دستخط‘‘۔معیار پبلی کیشنز۔دہلی۔۱۹۸۳ء)