ابتدائیہ
(نوٹ:اسلام آباد میں اردو افسانہ کی ایک صدی پوری ہونے پر جو تقریب منعقد ہوئی تھی اس میں منشا یاد نے یہ ابتدائیہ پیش کیا تھا۔حمید شاہد نے یہ ابتدائیہ اور افتخار عارف کا مضمون [email protected]پردونوں بروقت ریلیز کئے۔ منشا یاد نے بعد میں اپنے ابتدائیہ کو اپ ڈیٹ کیا۔ امید ہے اس ابتدائیہ اور افتخار عارف کے خطاب سے افسانہ صدی کے سیمینار کو سمجھنے میں مثبت رنگ میں مدد ملے گی۔نذر خلیق)
خواتین و حضرات! سب سے پہلے میں آپ سب کوآج کی اس تقریب میں خوش آمدید کہتاہوں۔میں اکادمی ادبیات پاکستان کابھی شکرگزارہوں ۔جس کی معاونت سے یہ سیمینار منعقدہورہاہے۔میں خاص طور پر جناب افتخار عارف کاممنون ہوں جنہوں نے افسانے کے متعلق ہونے والے پروگراموں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے۔ گذشتہ برس انہوں نے ہماری فرمائش پر سعادت حسن منٹو کے بارے میں تقریب کاانعقادکیا۔اوراب آج کی تقریب کا انتظام کیاہے۔میں ان احباب کابھی شکرگزارہوں جو دوسرے شہروں سے تشریف لائے۔ہماری کوشش ہوگی جن لوگوں کو اس بار نہیں بلایاجاسکا انہیں آئندہ ایسے پروگراموں میں مدعو کیاجائے۔
بعض احبا ب کی طرف سے ا س تقریب کے مقاصد کے بارے میں غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے لیکن اس سیمینارکے کوئی گروہی یاسیاسی محرکات اورمقاصدنہیں ہیں۔ اورجیساکہ کہاجاتاہے۔ ذرا سی بات کاافسانہ کردیا۔تو آج کی یہ تقریب بھی اس کی ایک زندہ مثال ہے۔یہ سیمینار کسی لمبی چوڑی منصوبہ بندی کانتیجہ نہیں ہے ۔ہوایوں کہ میں ،حمید شاہد اورانورزاہدی میری لائبریری میں ایک اخبارکے ادبی صفحے کے لئے ۲۰۰۳ء کے فکشن پرگفتگو کررہے تھے۔ مقبول گوہر انچارج ادبی صفحہ نوٹس لے رہے تھے اور فوٹو گرافر اظہر خان تصویریں بنارہے تھے۔ اس دوران میں چائے آئی جس میں دو پونڈ کاایک چھوٹا ساکیک بھی تھا۔ حمید شاہدکی گفتگو کی مشین ابھی چل رہی تھی کہنے لگے ایک روایت کے مطابق پہلاافسانہ ۱۹۰۳ء میں لکھاگیا۔اس طرح افسانے کی عمر ایک سوبرس ہوگئی ہے۔اس پرانورزاہدی نے کہاپھرتو اسے مناناچاہئے۔ حمید شاہدنے کہا یہ کیک افسانے کی سوسالہ سالگرہ کابھی ہوسکتاہے۔میں نے کہااسے اسی سلسلے کاکیک سمجھئے ۔چھری حاضر ہے۔چنانچہ فوٹو گرافر نے کیمرے کے بٹن پرانگلی اور ہم نے چھری پرتین ہاتھ رکھے اور کیک کاٹا۔افسانے پرہماری گفتگو تو بعد میں شائع ہوئی اوراس میں بذریعہ ٹیلی فون رشید امجد بھی شامل ہوگئے لیکن اگلے روز اخبار میں کیک کاٹنے کی تصویراس عنوان کے ساتھ چھپ گئی۔
’’اردوافسانہ: یہ ایک صدی کاقصہ ہے ۔اردو افسانے نے۲۰۰۳ء میں ایک صدی کی عمرمکمل کرلی اس سلسلے میں شہرِافسانہ اسلام آباد میں معروف افسانہ نگارمنشایاد کی رہائش گاہ افسانہ منزل پرایک تقریب منعقد ہوئی جس میں منشایاد ،حمیدشاہداورانور زاہدی نے کیک بھی کاٹا‘‘۔میں نے اخبار کاتراشا حمیدشاہد اور انور زاہدی کو بھجوانے کی خاطر سکین کیا اورساتھ ہی حیدرقریشی،آصف فرخی ،رفعت مرتضیٰ اورچند ایک دوسرے دوستوں کوانٹرنیٹ پر بھجوادیا۔حیدرقریشی انٹرنیٹ کے سمندر کے بہت بڑے تیراک ہیں اورادبی خبروں کی مچھلیاں پکڑنے کے لئے ہمہ وقت کندھے پر جال اٹھائے رہتے ہیں۔انہوں نے یہ خبر طیور کی زبانی آگے پہنچادی اور مجھ سے اس خبر کے فالو اپ کے بارے میں تقاضہ کیاجانے لگا۔امریکہ سے رفعت مرتضیٰ نے ای میل پیغام میں پوچھا
Just a few lines and “kek katnay per baat khatam?.I am sure there were some papers read,some kind of discussion,some articles in some news papers? If possible,either guide me where to look for the write up otherwise ‘aap hee takleef kijiiae‘
مجھ سے اورتو کچھ ہونہ سکا میں نے اس خبر کی ایک کاپی ای میل کے ذریعے جناب افتخار عارف کو بھجوا دی ۔ان کافون آگیا کہ آجاؤ ،بیٹھ جاتے اورکچھ کرلیتے ہیں۔اگلے روز ہم آگئے اوربیٹھ گئے اورکچھ کرکے اٹھے ۔میں نے حمید شاہدکے علاوہ رشید امجد اورنیلوفر اقبال کوبھی فون کیاافتخار عارف نے ہمارے سامنے رشید امجد کوان کے گھراور یونیورسٹی میں فون کیا ۔اعجاز راہی ایک تقریب میں میرے ساتھ تھے میں نے ان سے بھی میٹنگ میں شرکت کے لئے کہامگر انہوں نے معذرت کرلی۔اکادمی میں ہم رشید امجدکاانتظارکرتے رہے مگروہ حسبِ معمول وعدہ کرکے نہیں آئے۔مگر ہم نے بعد میں ان سے اور اعجاز راہی سے پوچھ کران کے نام نمایاں مقام پر شامل کئے۔اکادمی میں نگہت سلیم بھی موجود تھیں ۔چنانچہ ہم نے جلدی جلدی میں ایک پروگرام بناڈالا۔اسی جلدی کی وجہ سے بعد میں ضروری تبدیلیاں کرناپڑیں۔نظر ثانی شدہ پروگرام میں وقار بن الٰہی ،یونس جاوید ،احمدجاوید اور نیلوفر اقبال کے نام بھی شامل کرلئے گئے۔ اور احباب کو یو ایم ایس سے یا دستی یہ پروگرام پہنچادیاگیا۔گوجرانوالہ سے محمود احمد قاضی اور اسلم سراج الدین کو میں نے فون پر سیمینار کے بارے میں بتایا تھا وہ اپنے طور پر آگئے مگر جب بعض دوستوں نے بائیکاٹ کیاتو انہیں پروگرام میں شامل کرلیاگیا۔ اگر ہمیں پہلے سے علم ہوتاکہ بعض دوست نہیں آئیں گے تو ہم بہت بہتر پروگرام بنا لیتے اور بہت سے دوستوں کو شکایت کاموقع نہ دیتے ۔ لیکن آپ خود دیکھ لیں گے کہ یہ سیمینار کسی کے خلاف نہیں اورنہ ہی اس سے کوئی گروہی ،سیاسی یاذاتی مقاصدحاصل کئے جائیں گے۔ہم دوسرے دوستوں کوبھی ساتھ لے کرچلناچاہتے ہیں اورانشاء اللہ آئندہ اس سے بہتر پروگرام بنائیں گے۔ آپ سب اس امرکے گواہ رہیں ۔
میں نے جناب احمدندیم قاسمی ،ڈاکٹر وزیرآغااور اشفاق احمد صاحب سے کو بھی فون کئے۔قاسمی صاحب علیل تھے۔ڈاکٹروزیر آغاکی اہلیہ بیمارتھیں اورایک روز پہلے اشفاق احمد صاحب کی ہمشیرہ فوت ہوگئی تھیں۔میں نے انہیں دو بار فون کیامگربانو آپانے کہاکہ ان کو صدارت کے لئے کہنا مناسب نہ ہوگا۔انتظار حسین صاحب نے بھی کارڈچھپنے کے بعداس خدشے کااظہار کیاتھاکہ ان کی اہلیہ بیمار ہیں اوروہ شائدانہیں اکیلانہ چھوڑ سکیں۔مگر ایک موہوم سی امید تھی کہ شائد وہ آجائیں۔مگر۲۵؍جنوری کوان کی اہلیہ کاانتقال ہوگیااوران کے آنے کی رہی سہی امید بھی جاتی رہی۔ڈاکٹر انور سجاد بھی اپنی بیماری یاکسی اور وجہ سے نہ آسکے۔میں نے جنابِ احمدندیم قاسمی،ڈاکٹر وزیر آغا،اشفاق احمداوربانوقدسیہ کو اس موقع پراپنے پیغامات بھیجنے کے لئے خطوط لکھے ۔ڈاکٹرگوپی چند نارنگ ،محمد عمر میمن اورشمس الرحمٰن فاروقی کو بھی پیغامات کی درخواست کے ساتھ ای میل کے ذریعے اطلاع دی گئی ۔ فاروقی صاحب اور مرزا حامد بیگ کوبھیجی گئی ای میل واپس آگئیں۔شائد کوئی مل بھی گئی ہو جناب احمدندیم قاسمی کا پیغام پرسوں ڈاک سے موصول ہوگیاتھااورڈاکٹر وزیر آغا نے گذشتہ رات کو اپناپیغام مجھے ٹیلی فون پرلکھوادیا۔ان دونوں پیغامات سے ہماری بہت حوصلہ افزائی ہوئی ہے اوریہ ہمارے پروگرام کاحصہ بنیں گے اورپڑھ کرسنائے جائیں گے۔
خواتین و حضرات ایک صدی کے قصے کی بات یہاں ختم نہیں ہوگئی۔اس دوران میں حمید شاہدکو اپنے سرکاری دورے پر کراچی جاناپڑا۔ وہاں افسانے کی ایک صدی مکمل ہونے پر رسالہ مکالمہ کے دفترمیں ایک مذاکرہ ہوا جس میں مظہرجمیل،مبین مرزا،سحرانصاری،صبااکرام اورحسن عابدی نے شرکت کی اور افسانے کے صدسالہ سفر کاجائزہ لیا۔یہ کاروائی مکالمہ کے آئندہ شمارے میں شائع ہوگی۔ڈاکٹر آصف فرخی بھی چست تخلیقی ذہن رکھتے ہیں ۔ادبی رابطوں اور سرگرمیوں میں بہت فعال ہیں اورانٹرنیٹ کے آسمان پر کمندیں ڈالتے رہتے ہیں۔مجھے سب سے پہلے انہی کی طرف سے Responseملاتھا۔حمیدشاہدکراچی گئے توان دونوں کی تفصیلی ملاقات ہوئی اورانہوں نے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور شہرزاد کے تعاون سے فروری میں ایک لٹریری فیسٹیول منانے کا پروگرام بنالیا۔جس میں ’’ افسانہ : ایک صدی کاقصہ‘‘ بھی پروگرام کاحصہ ہوگا۔ہماری خواہش ہے کہ اکادمی ادبیات ۲۰۰۴ء کو افسانے کاسال قرار دے اوراس کے چاروں صوبائی دفاتر بھی اس سلسلے کوآگے بڑھائیں اور دوسرے بہت سے اہم افسانہ نگاروں کو بھی شرکت کی دعوت دیں۔اگر پریم چند کواردو کاپہلاافسانہ نگارماننے والوں نے برانہ ماناتوہوسکتاہے بھارت میں بھی اس سلسلے میں پروگرام منعقدکئے جائیں۔
خواتین و حضرات !اکثر احباب ہم سے پوچھتے ہیں کہ افسانے کی عمر ایک سو سال ہونے کاہمارے پاس کیاثبوت یاماخذہے۔اس سلسلے میں عرض ہے کہ ۱۹۶۵ء میں پنجاب یونیورسٹی کے ایک سکالر ڈاکٹر آغا مسعود رضا خاکی نے اپنے تحقیقی مقالے میں راشد الخیری کے افسانے ’’نصیر اور خدیجہ ‘‘ کو اردو کاپہلا افسانہ قرار دیاتھا۔جس کاحوالہ اکادمی ادبیات پاکستان کی کتاب’’اردو افسانے کی روایت(۱۹۰۳ء سے ۱۹۹۰ء)‘‘مرتبہ ڈاکٹر مرزاحامدبیگ’’(مطبوعہ ۱۹۹۱ء) میں بھی دیاگیاہے بلکہ یہ کتاب انہی کے نام معنون ہے’’اردو کے پہلے افسانہ نگار راشدالخیری کے نام‘‘ ہوسکتاہے کسی کو اس سے ختلاف ہواور وہ ااس میں کوئی کمی یابیشی کرناچاہے تو بھی اس سے کیافرق پڑتاہے۔ہم راشد الخیری کا دن نہیں افسانے کی صدی منانااور اس کی رفتار اورمعیار کاجائزہ لینا چاہتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیاہے ایسی تقریبات میں سب کو بلانااورمطمئن کرناممکن نہیں ہوتا۔لیکن ہم نے اپنی سی کوشش کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افسانہ نگاروں کونمائندگی دی جائے۔ہمیں انتظار حسین صاحب کی بہت کمی محسوس ہورہی ہے۔قیام پاکستان کے بعد نمایاں ہونے والے افسانہ نگاروں میں ان کانام بہت اہم ہے ۔خصوصاً جدید حسیت اور اپنے مخصوص داستانی ا سلوب میں انہوں نے اپنے عصرکی بھرپور ترجمانی کی۔میرے جیسے بعد میں آنے والوں پر ان کاایک احسان یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان اورپنجاب کی شہری اور دیہی معاشرت،تہذیب اورثقافت کو ہمارے لئے چھوڑ دیا۔اگر وہ اپنی خوبصورت زبان اور اسلوب میں ارد گرد کی زندگی کی عکاسی کرنے لگ جاتے تو ہم کہاں جاتے۔اور اگرچہ ان کے پہلے مجموعہ کانام گلی گوچے تھامگر ان گلی کوچوں کابھرپور ذکر اور حوالہ ہمیں پاکستان میں جدید افسانے کے بانی ڈاکٹر انورسجاد کے افسانوں میں ملتا ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد دوسرے اہم ترین افسانہ نگاروں میں اشفاق احمدسرِ فہرست ہیں۔اوران کاافسانہ گڈریا چندبہترین افسانوں میں شمارہوتاہے ۔گذشتہ دنوں ایک انگریزی اخبار نے پاکستانی ادب پر ایک سپیشل رپورٹ شائع کی تھی جس میں قیام پاکستان کے بعد اردو کے پانچ پانچ بہترین شاعروں، افسانوں،ناولوں اورنقادوں کے نام دئیے گئے تھے ۔جن پانچ افسانوں کو بہترین قراردیاگیاان میں سعادت حسن منٹوکاٹوبہ ٹیک سنگھ،اشفاق احمدکاگڈریا،غلام عباس کاگرم کوٹ،ممتازمفتی کاآپااورانتظار حسین کا آخری آدمی شامل تھے۔اس میں شک نہیں کہ یہ پانچ افسانے اردو افسانے کاباعثِ افتخار سرمایہ ہیں۔لیکن ہمارے قارئین اورنقادوں کو کچھ آگے بھی آناچاہئے۔بے شک انہوں نے کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی ،عصمت چغتائی،قرۃالعین حیدر،قدرت اللہ شہاب،احمدندیم قاسمی،عبداللہ حسین،خالدہ حسین،بانو قدسیہ،منشایاد اور مظہرالاسلام کے بارے میں لکھاہے کہ وہ آسانی سے ان کی بنائی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں
(are but a few names that can easily walk into any such company)۔مگر انہوں نے شامل کیانہیں ۔اس طرح انہوں نے آخری آدمی کے بعد لکھے جانے والے سارے اردو افسانے کونظرانداز کردیا۔ حالانکہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں علامتی یاجدید افسانے کی صورت جو فنی ،فکری اوراسلوبیاتی سطح پر انقلاب آیااسے نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔میرے خیال میں جن افسانوں کو کوئی بھی صاحبِ ذوق کسی بھی صورت میں نظراندازنہیں کرسکتا ان کاایک کڑا انتخاب( بغیر ترتیب) اس طرح کیاجاسکتاہے۔
اوپر دئیے گے افسانوں کے علاوہ جناب پریم چند کاکفن، احمد ندیم قاسمی کے کئی معرکتہ الآرا افسانے ہیں گنڈاسا،الحمدللہ ،لارنس آف تھیلیبیا،رئیس خانہ اورپرمیشرسنگھ ۔غلام عباس کاآنندی ،راجندر سنگھ بیدی کے لاجونتی اوراپنے دکھ مجھے دے دو ،عصمت چغتائی کا مغل بچہ ،کرشن چندر کاآدھے گھنٹے کاخدا،رتن سنگھ کاہزاروں سال لمبی رات ،حیات االلہ انصاری کا آخری کوشش ،بلونت سنگھ کاجگا،علی عباس حسینی کامیلہ گھومنی ،عزیز احمد کاکالی رات ،محمدحسن عسکری کاحرام جادی ،شفیق ؛لرحمٰن کامدوجزر،رام لعل کاقبر،شمس آغاکا شکست،ابو الفضل صدیقی کاجوالامکھ۔ قرۃالعین حیدر کے قیدخانے میں طلاطم ہے اور لکڑ بگے کی ہنسی ،صادق حسین کا کچنار،شوکت صدیقی کادیوار کے پیچھے ،آغا بابر کے گلاب دین چٹھی رساں اوراوپرگوری کامکان،قدرت اللہ شہاب کا ماں جی،بانو قدسیہ کا توجہ کی طالب ،خدیجہ مستور کے نشیمن اوردادا ،ہاجرہ مسرو رکامنی میلے میں ،زاہدہ حناکازرد ہوائیں زرد آوازیں،عرش صدیقی کا باہرکفن سے پاؤں،احمدشریف کاچھڑکاؤ کی گاڑی اور چن ماہی کا کھوہ ،مسعود مفتی کے سالگرہ ،اور ’’میں‘‘، میرزاادیب کاساتواں چراغ ،عالم شاہ خان کا کرائے کی کوکھ،رحمان مذنب کا پتلی جان مسعود اشعر کا آنکھوں پر دونوں ہاتھ۔حسن منظر کامٹھل شاہ کاپڑ،غلام اثقلین نقوی کاکنواں،،جوگندر پال کے کھودو باباکامقبرہ اور دادیاں،محمد سلیم الرحمٰن کانیندکابچپن ،یونس جاوید کا اناج کی خوشبو،وقاربن الٰہی کا نگران اور اکرام اللہ کاسایہ۔،لطیف کاشمیری کا رسل جو،منیراحمدشیخ کاایک تھوکاگیاآدمی،جیلانی بانو کا موم کی مریم ،گلزار کاادھا،مستنصرحسین تارڑ کابابابگلوس، طارق محمود اتیل کی دھار،محمدسعیدشیخ کااندر والے،طارق محمو د کاشگاف اور شکیلہ رفیق کا گونجتی ہوئی خاموشیاں۔
دوسرے یا جدید اسلوب کے افسانوں میں سریندر پرکاش کے بجوکا اور رونے کی آواز۔، ، ، ، ،بلراج مینراکا ماچس ،سلام بن رزاق کاندی ،ساجد رشیدکاجلتے پروں سے اڑان ،انورسجاد کے گائے اور آج ،احمدہمیش کے مکھی اورکہانی مجھے لکھتی ہے ،خالدہ حسین کے سایہ اور اے ڈیڈ لیٹر آفس،اعجاز راہی کاتیسری ہجرت ،رشیدامجد کے سمندر قطرہ سمندراور دشتِ امکاں،مظہر الاسلام کے ریت کنارااور گھوڑوں کے شہرمیں اکیلا آدمی مرزا حامد بیگ کے مغل سرائے اورسونے کابچھو،اسد محمدخان کے باسودے کی مریم اور شہر کوفے کامحض ایک آدمی،محمد عمر میمن کاتاریک گلی،منیر الدین احمدکا انتالیسویں عورت، محمودا حمدقاضی کے ہوا اورٹھہرا ہواموسم ، احمدداؤد کاوہسکی اورپرندے کاگوشت ،زاہدہ حنا کاجل ہے ساراجال،ناصر بغدادی کا خضر کے ہم سفر،محمود واداجد کا خوشبو کاایک لمحہ ،مبین مرزا کاخواب ہارا ہوا آدمی ،احمدجاویدکاکولہو کابیل ، آغا سلیم قزلباش کے انگور کی بیل اور الگنی ،نجم الحسن رضوی کا عفریت ،رفعت مرتضٰی کا پھول چاند تارے اور درخت ،حیدر قریشی کا کاکروچ ،آصف فرخی کاآتش فشاں پرکھلے گلاب، اسلم سراج الدین کاکتاجو آدمی تھا اور ٹلے باشی کاموچی،محمد حمیدشاہد کاسورگ میں سور،نیلوفراقبال کے گھنٹی اورآپریشن مائیس ، احمد زین الدین کادریچے میں سجی حیرانی ،طاہرہ اقبال کا دیسوں میں،افتخار نسیم کاایک تھی لڑکی ،مصطفٰی کریم کا تسلسل ،امجد طفیل کامچھلیاں شکارکرتی ہیں،انورزاہدی کاکوئی موسم ہو ،یوسف چودھری کاپھول آئے کٹہرے میں،علی تنہا کاگائے اورنگہت سلیم کاآسیبِ مبرم ۔( حمید شاہد کااضافہ :۔۔۔منشایاد کاتماشا اور نظر آ لباسِ مجاز میں)
میرے خیال میں ساٹھ کی دہائی اور اس کے بعدا فسانے میں ادب کی ہر صنف سے زیادہ سیاسی اور سماجی زندگی اور معروضی حقائق کو پیش کیاگیا۔یہ ایک سرسری ساجائزہ ہے اورمیں جیسے جیسے یادکرتاجاتاہوں مجھے اوربہت سے اچھے اچھے افسانے یادآتے چلے جارہے ہیں۔لیکن وقت کم ہے اورمجھے ایک ضروری فرض ادا کرناہے
بے شک ادب کوشہروں کے حوالے سے نہیں دیکھناچاہئے لیکن حقیقت یہی ہے کہ کراچی اورلاہور کے بعد راولپنڈی اسلام آباد کے جڑواں شہرافسانے کا مرکز بن گئے۔ اس کی وجہ آپ جانتے ہی ہیں کہ دارالحکومت کی کراچی سے یہاں منتقلی کے ساتھ ہی بہت سے ادیب اورشاعرایک جگہ جمع ہوگئے۔ورنہ دارالحکومت کی منتقلی سے پہلے جب میں ۱۹۵۷ء کے آخرمیں یہاں ملازمت کی غرض سے آیاتو یہاں تین یا چار افسانہ نگار ہی موجود تھے آغابابر،احمدشریف اورمنصورقیصر ۔ آغابابر اوراحمدشریف اعلیٰ پائے کے افسانہ نگار تھے۔اس وقت توآغابابر سے ایک فاصلہ رہامگر اب وہ امریکہ سے جب بھی آتے تھے تو تندوری ریسٹوران میں میرے اورخاور نقوی کے ساتھ خوب گپ شپ کرتے تھے ۔ ۔احمدشریف نے پتہ نہیں کیوں اب تک اپنی کتاب نہیں چھپوائی اورگم سے ہوگئے ہیں۔منصورقیصرنے چنداچھے افسانے بھی لکھے مگران کازیادہ کام مضامین ادرکالموں وغیرہ پر مشتمل ہے۔مشتاق قمرنے بھی چندعمدہ افسانے لکھے معتوب شہر ا ن کے افسانوں کامجموعہ اورایک ناول بھی ہے مگروہ انشائیہ نگار کے طورپرزیادہ معروف ہوئے البتہ ایک سینئر ترین افسانہ نگار(انجمن داستان گویاں یعنی حلقہ اربابِ ذوق میں پہلا افسانہ پڑھنے والے) نسیم حجازی تھے جو افسانے کی بجائے ناولوں کی وجہ سے مشہور ومعروف تھے۔میرے فوراً بعد آنے والے بلکہ میرے ساتھی بن جانے والے افسانہ نگاروں میں رشیدامجداوراعجازراہی شامل ہیں۔ان کی وجہ سے مجھے تقویت ملی ورنہ آغابابر جیسے گردن میں سریارکھنے والوں کی موجودگی میں میراآگے بڑھنا محال ہوجاتا۔ صاحبِ صدارت فتح محمد ملک کو یاد ہوگاحلقہ ارباب ذوق میں ہم لوگ ایک گوشے میں چپ چاپ سہمے بیٹھے رہتے تھے۔ بہرحال جب ہمارے ساتھ کچھ دوسرے احباب مظہرالاسلام ،سرور کامران،احمدجاوید،احمدداؤد ،زہرہ جبیں،خالدہ ملک ،نثارناسک،اخترامام رضوی،سلیم الدین سلیم وغیرہ بھی شامل ہو گئے توہم نے حلقے کے مقابلے میں لکھنے والوں کی انجمن بنالی اوراسے اس قدرکامیاب بنایاکہ حلقہ میں الو بولنے لگے۔اوربالآخر اس پرہم افسانہ نگاروں کاقبضہ ہوگیا۔پھردونوں شہروں میں الگ الگ حلقے بن گئے اوردونوں جگہ کئی برس تک افسانہ نگار چھائے رہے۔خوب محفلیں،ہنگامے اور افسانے کی شامیں منائی گئیں۔کتابیں شائع ہوئیں اورادبی رسائل میں ہرجگہ راولپنڈی اسلام آبادکے افسانہ نگار نظرآنے لگے۔یہاں تک کہ ڈاکٹر انور سجاد کواپنے لاہوری انداز میں حشرات الارض والی پھبتی کسناپڑی۔اوراحمدہمیش نے لکھا یااس کو باورکرایاگیاکہ راولپنڈی کے افسانہ نگاروں رشید امجد ،منشایاد،مظہرالاسلام،احمد داؤد،احمدجاوید،اورمرزاحامدبیگ وغیرہ کاایک گروپ ہے جس نے صفت زدہ تشبیہوں سے اٹی ہوئی ووکیبلری کورواج دیاہے۔ غالبا انہوں نے ہمارے افسانے نہیں پڑھے ہیں ورنہ وہ دیکھتے کہ اتفاق سے ہم سب ایک جگہ جمع توہوگئے ہیں مگرہم سب کا سوچنے اورلکھنے کاانداز بالکل جداجداہے۔اوریہ الزام ہم سب پر عائد نہیں ہوتا۔بعدمیں ان سب افسانہ نگاروں میں ایک دوسرے کونیچادکھانے اورآگے نکل جانے کی دوڑ شروع ہوگئی اورسارے تتربترہوگئے۔آپ جانتے ہی ہیں جن کو زیادہ جلدی ہوتی ہے وہ کہیں نہیں پہنچ پاتے ۔خیریہ توایک جملہٗ معترضہ تھابہرحال ایک دورتھا جب اسلام آباد اور راولپنڈی میں ایک ساتھ تقریباًپچہتر(۷۵) سے زیادہ افسانہ نگارجمع ہوگئے تھے جن میں سے بہت سے اب بھی موجود ہیں ۔ذیل میں کسی ترتیب کے بغیرصرف ریکارڈ کے لئے ایسے افسانہ نگاروں کی فہرست دی جارہی ہے جن میں سے دو ایک کے علاوہ سب کی کم از کم ایک کتاب شائع ہوچکی ہے
نسیم حجازی ،آغابابر،احمدشریف،مشتاق قمر،منصور قیصر،، قدرت اللہ شہاب ،ممتازمفتی ، صادق حسین، وقاربن الٰہی، نجم الحسن رضوی،لطیف کاشمیری،بلقیس ظفر،اعجاز احمد فاروقی،پنہاں انصاری،سید باقرعلیم،آغاناصر،اخترجمال ، خالدہ حسین،کہکشاں ملک،منشایاد،رشید امجد،اعجاز راہی ، ،مظہر الا سلام ،مرزاحامد بیگ ،احمد داؤد، ،احمدجاوید، شمس نغمان ،رشیدنثار، رحمٰن شاہ عزیز،تصدق حسین راجا،انور زاہدی،رخسانہ صولت،مسرت لغاری ،فریدہ حفیظ، شمیم اکرام الحق ،ثاقبہ ر حیم الدین،،عذراوقار،نیلوفراقبال،عذرااصغر،شمع خالد،،خالدہ ملک،زہرہ جبیں،یوسف چودھری ، محمدحمیدشاہد،شعیب خالق،ابدال بیلا،تصدق حسین راجا،اظہر نیاز،ڈاکٹر احسان احمد شیخ، عبدالوحید رانا،محمد عاصم بٹ، ارشدچہال، صدیق اثر،محمود شروانی ،حمید قیصر،امجدبھٹی ،حمید رازی ،عرفان عرفی،محسن عثمانی،عاطف علیم،میرتنہایوسفی اور امیر حسین چمن۔ افرخندہ شمیم،شبانہ حبیب ،فرحین چودھری (سابقہ شہابہ گیلانی)افشاں عباسی،ا،ثریاشہاب،ارجمندشاہین،شبنم شکیل،،عائشہ اسلم،محمودہ غازیہ،،فیروزہ بخاری ،زینت قاضی ۔نگہت سلیم ،عفت گل اعزازکل تعداد(۷۲)
اتنے بہت سے افسانہ نگاروں کی موجودگی میں ہم لوگ اس شہر کوبجاطورپرہم شہرِافسانہ کہنے لگے تھے۔مگر اب صورت حال آپ سب کے سامنے ہے۔ہم نے اسی لئے افسانے کی ایک صدی مکمل ہونے پر یہ ادبی سیمینار منعقد کیاکہ افسانے کی محفلوں اور سرگرمیوں کانئے سرے سے آغاز ہوجائے۔اس کے سوا ہمارے کچھ مقاصد نہیں ہیں۔اس اجلاس کی کاروائی آپ سب کی خدمت میں پیش کردی جائے گی۔اوراسے افسانے کی تاریخ کاحصہ بنایاجائے گا۔آپ سب کی شرکت کاایک بار پھر شکریہ ! (ابتدائیہ تمام شد)
اردو افسانے کی اولیت کا مسئلہ اپنی جگہ تاہم اردو میں افسانے کے تین ابتدائی مرکزی نام ہیں راشد الخیری،سجاد حیدر یلدرم اور منشی پریم چند۔ان میں سے اولیت کا اعزاز بے شک اول الذکر دونوں ناموں کو علی الترتیب دیا جا سکتا ہے لیکن افسانے کے باب میں پریم چند کی جو تخیلقی خدمات ہیں ان کے باعث افسانے کے باوا آدم بہر حال پریم چند ہی ہیں۔اردو افسانہ ایک عرصہ تک مختلف اخلاقی،سیاسی اور سماجی و معاشی قسم کے مقاصد کے تابع رہا،تاہم ایسے رویوں میں بھی کئی اہم تخلیقات سامنے آئیں۔اخلاقی مقاصد کے تحت لکھنے والوں نے تہذیبی روایات کی بقا کے لئے جدو جہد کی ،تو رومان نگاروں نے خوابوں کی دنیا سجائے رکھی۔ترقی پسندوں نے سماجی اور معاشی انقلاب کی جدوجہد میں تخلیقی طور پر بھر پور شرکت کی تو کسی حد تک حقیقت پسندوں نے جنسی نفسیات کی گرہیں کھولنے میں قدم قدم پر چونکایا۔۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے نتیجہ میں جو انسانی المیہ سامنے آیا اسے دونوں طرف کے افسانہ نگاروں نے گہرے کرب کے ساتھ لیکن تخلیقی سطح پر بیان کیا۔اس کے بعد اردو افسانہ سارے پرانے رجحانات کے ملے جلے انداز کے ساتھ اپنا سفر کرتا رہا۔ اس سفر میں کمزور تخلیقی یا تقلیدی اذہان نے ان افسانوی رویوں کے بے تکے اظہار کے کئی نمونے بھی پیش کئے۔ اخلاقی موضوعات کو برتنے والے مصلحین غیر تخلیقی المیے سے دوچار ہوتے دکھائی دئیے تورومان نگاروں کی رومانویت بھی مریضانہ حد تک گئی۔معاشی انقلاب لانے والے نعرے بازی کی سطح پر اترآئے تو جنسی نفسیات پر لکھنے والوں نے جنسی چکا چوند پیدا کرنے کو ہی مطمع نظر بنالیا۔اس کے باوجود اردو افسانے کو قارئین کی ایک بڑی تعداد میسر رہی۔پھر یوں ہوا کہ 1958 ء میں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے معاَ بعد اردو افسانہ معمول سے زیادہ علامتی پیرایۂ اظہاراختیار کرنے کی طرف مائل ہوا۔سیاسی جبر کی فضا میں دل کی بات کہنے میں احتیاط کے باعث علامتی پیرایہ تجریدی افسانے کی سطح تک چلا گیااور یہیں سے قاری کا رشتہ افسانے سے ٹوٹ گیا۔چند برسوں کی تجریدی مارا ماری کے بعدکہانی نہ صرف افسانے میں واپس آئی بلکہ افسانہ مغربی دین ہونے کے باوجود اپنی مشرقی روایات (داستانیں،حکایات اور روایات وغیرہ)سے فیضیاب ہو کر بہتر روپ اختیار کرنے لگا۔آج کے افسانہ نگار کے سامنے جدید عہد کے مسائل اور ان سے متعلق اہم سوالات ہیں۔آج کے سارے اہم افسانہ نگار اپنے اپنے تخلیقی دائروں میں ان سوالات کے جواب تلاش کر رہے ہیں۔ بحیثیت کہانی کار اپنے مقامی مسائل سے لے کر عالمی صورتحال تک بہت کچھ ہمارے سامنے ہے۔ایک بات طے ہے کہ آج اردو میں اتنی ہی بڑی کہانی لکھی جا رہی ہے جتنی بڑی کسی دوسری زبان میں لکھی جا رہی ہے بلکہ بعض ’’بڑی عالمی کہانیوں ‘‘سے بڑی کہانی اردو میں لکھی جا رہی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ افسانے کے ناقدین اپنی اپنی مصلحتوں کے دائرے میں اسیر ہیں اوران کہانیوں کے بیشتر اصل قاری ٹی وی چینلز کی بھول بھلیاں میں کھوئے ہوئے ہیں ۔اردو افسانہ سو سالہ سفر میں تخلیقی طور پر سرخرو ہونے کے باوجود دیانتدار ناقدین اور اپنے کھوئے ہوئے قارئین کی تلاش میں ہے۔ (تاثراتحیدر قریشی ۔مطبوعہ روزنامہ جناح اسلام آباد ۱۰فروری ۲۰۰۴ء)