(تحقیقی و تنقیدی جائزہ)
علامہ اقبال کے لائق اور اپنے والد کے بارے میں معروضی اندازِ نظر رکھنے والے فرزند کو اپنے والد کے مداحوں، مجاوروں، پرستاروں حتیٰ کہ عام لوگوں سے بھی گلہ ہے کہ وہ انہیں محض فرزندِ اقبال ہی سمجھتے ہیں اور ان کے شخصی /ذاتی اوصاف، لیاقت، اہلیت اور علم و فضل کو لائقِ اعتنا نہیں گردانتے۔ یہ سچ ہے کہ کسی بڑے درخت کے نیچے اُگنے والے پودے اس درخت کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں لیکن زندگی کے دیگر مظاہر کی طرح اس کلیے میں بھی استثنائی مثالیں موجود ہیں۔ اُردوادب میں امتیازعلی تاج اور قرۃالعین حیدر اسی ذیل میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ محمدی بیگم اور مولوی ممتازعلی کے لائق فرزند امتیاز علی تاج نے اُردو ادب میں اپنے کام کی وجہ سے علیحدہ شناخت قائم کی۔ نذرسجاد اور سجادحیدر کی ہونہار بیٹی قرۃالعین حیدر نے بھی اپنے ادبی کارناموں کی وجہ سے نام کمایا۔
قرۃالعین حیدر نے اپنے ناول ’’کارِجہاں دراز ہے‘‘ میں اپنے کٹم قبیلے کی ثقافتی روداد لکھ کر اپنے خاندان کا حق ادا کیا ہے۔ یہ ادبی کارنامہ کسی بھی عالمی فن پارے کے مقابل رکھا جاسکتا ہے(۱)۔ مظفرعلی سیّد اور وارث علوی(۲) کو چھوڑ کر اُردو کے تمام ناقدین نے قرۃالعین حیدر کی ادبی خدمات کو اعتبار نقد عطا کیا ہے۔ جب کوئی ادبی شخصیت شہرت عام کے نصف النہار پر ہوتی ہے تو اس سے عجیب و غریب باتیں اور روایتوں منسوب ہوجاتی ہیں۔ لوگ اس کی تخلیقات کے ساتھ کچھ الحاقی چیزیں بھی شامل کرلیتے ہیں یا پھر عام قاری کچھ تخلیقات کو اس بڑے تخلیق کار سے منسوب کردیتے ہیں۔ اُردو کی شعری روایت میں اس طرح کے دلچسپ قصے بہت زیادہ اور عام ہیں۔ بابافرید اور امیرخسرو سے بہت کچھ ایسا منسوب ہے جس کے بارے میں ہماری تحقیق کے واضح فیصلے بھی ان چیزوں کے انتساب کو بابافرید اور امیرخسرو سے دُور نہیں کرسکے۔ عام قاری انہیں ہی ان تخلیقات کا خالق مانتا ہے۔ ولی دکنی سے ایک ایسا سفرِدلی منسوب ہے جس کے بارے میں ہماری تحقیق ابھی تک گومگو کی کیفیت میں ہے۔ میرتقی میر کے نام کے ساتھ بھی اس معروف غزل کا انتساب ملتا ہے
آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد
تیز رکھیو سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں شاید آجائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
غالب کی سوانح میں بھی اس طرح کا ایک واقعہ موجود ہے جو ان کے تخلص کی تبدیلی کا باعث اور محرک بنا۔ کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر ان سے کسی اور اسدنامی شاعر کے شعر منسوب کرنے شروع کردئیے جو بہت لایعنی تھے اور غالب کے مشکل کلام کی طرف طنزیہ رویے کی تشکیل کا باعث بن رہے تھے۔ غالب نے یہ شعر سن کر اپنا تخلص اسد سے غالب کرلیا۔ ذیل کی سطور میں بھی ایک ایسی ہی صورت حال کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔
۱۹۸۵ء میں ڈاکٹرثریاحسین نے ہندوستان سے سجادحیدریلدرم کے تراجم اور طبع زاد تحریروں کا ایک انتخاب شائع کیا۔ یہ انتخاب اُترپردیش اُردو اکادمی لکھنؤ کے زیراہتمام شائع ہوا۔ اس انتخاب کا پیش لفظ پروفیسر محمودالٰہی، صدرشعبۂ اُردو گورکھ پور یونیورسٹی نے لکھا جب کہ ڈاکٹرثریاحسین نے ’’یلدرم اور اُردو افسانہ‘‘ اور قرۃالعین حیدر نے ’’داستانِ عہدِ گل‘‘ کے عنوان سے اس انتخاب کے لیے مضمون اور مقدمہ تحریر کیا۔ پروفیسر محمودالٰہی (جو اس وقت اترپردیش اکادمی کے چیئرمین تھے) نے اس کے پیش لفظ میں تحریر کیا:
’’پروفیسر ثریاحسین صاحبہ نے بڑی محنت سے یلدرم کی نایاب تحریروں کی جمع آوری کی اور ان کا نمائندہ انتخاب مرتب کیا۔ محترمہ قرۃالعین حیدر نے اس پر مقدمہ کیا لکھا، عہدِ یلدرم اور اس کے پس منظر کو آئینہ کردیا۔ یہ مقدمہ اپنی جگہ پر خود ایک بڑا کارنامہ ہے جو آج یلدرم کی تفہیم میں اور کل خود مصنفہ کی تعبیروتفسیر میں معاون ثابت ہوگا۔ اکادمی ان دونوں خواتین کا شکریہ ادا کرتی ہے۔‘‘ (۳)
یہی کتاب ۱۹۹۰ء میں سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے شائع کی تو اس کے مرتب کے طور پر قرۃ العین حیدر کا نام بیرونی اور اندرونی سرورق پردیا اور اس امر کا ذکر ہی سرے سے غائب کردیا گیا کہ یہ کتاب ڈاکٹرثریا حسین (سابق صدرشعبۂ اُردو، علی گڑھ یونیورسٹی) کی مرتبہ ہے۔ ممکن ہے کہ ایسا سہواً ہوا ہو لیکن غالب گمان یہی ہے کہ کتاب کے مرتب کے طور پر قرۃالعین حیدر کا نام ان کی ادبی و علمی شہرت کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس کتاب کی اشاعت کے چودہ برس بعد تک بھی کسی محقق نے اس طرف توجہ مبذول نہیں کرائی۔ پاکستان کی ادبی دُنیا یا تو اس معاملے سے لاعلم ہے یا پھر نہ معلوم وجوہات کی بنیاد پر خاموش ہے۔ اس کتاب کا قرۃالعین حیدر سے منسوب ہونا اس حد تک درست تسلیم کرلیا گیا ہے کہ قرۃالعین حیدر کی شخصیت اور فن پر ملتان سے شائع ہونے والی شاندار کتاب ’’قرۃالعین حیدر۔خصوصی مطالعہ‘‘ میں محترمہ زرغونہ کنول نے قرۃالعین حیدر کے کوائف نامے میں اس کتاب کو انہی کی تصنیفات میں شمار کیا ہے۔(۴)
سنگ میل پبلی کیشنز لاہور کے کارپردازان کی ذمہ داری ہے کہ اگلے ایڈیشن میں ڈاکٹرثریاحسین کا نام ہی بطور مرتب کے شائع کریں۔ قرۃالعین حیدر بلاشبہ ایک اعلیٰ درجے کی تخلیق کار ہیں۔ انہوں نے انگریزی سے اُردو، اُردو سے انگریزی اور فارسی سے انگریزی میں تراجم بھی کیے ہیں لیکن انہوں نے زندگی میں کبھی بھی تحقیق و تدوین کا کام اس طور پر نہیں کیا جس طرح سے یہ کتاب پاکستان میں ان کے نام سے شائع کردی گئی ہے۔
اب آئیے ذرا دو ایک باتیں اس کتاب کی اہمیت کے حوالے سے کرتے ہیں۔ اس کتاب کی سب سے بڑی اہمیت تو یہ ہے کہ ’’خیالستان‘‘ اور ’’حکایات و احتساسات‘‘ کے علاوہ یلدرم کی چیزیں عام قاری تو ایک طرف محققین کی رسائی سے بھی دُور تھیں۔ ڈاکٹرثریاحسین کے اس انتخاب سے یلدرم کی کچھ چیزیں مدون ہو کر منظرعام پر آگئیں یوں ہماری تنقید اب یلدرم، ان کی تخلیقات، فکر اور اُسلوب کے حوالے سے بہترطور پر محاکمہ کرسکنے کی اہل ہوگی۔
کتاب کی فاضل مرتب نے اپنے مقدمے ’’یلدرم اور اُردوافسانہ‘‘ کا آغاز جس گلہ مندی سے کیا ہے (’’سیدسجادحیدریلدرم، ص۷) یہ کتاب اس کا کفارہ قرار دی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹرثریاحسین نے یلدرم کی کل ۶۲طبع زاد تخلیقات اور تراجم کا تذکرہ کیا ہے لیکن اس انتخاب میں انہوں نے ۱۴افسانے، مضامین اور تراجم شامل کیے ہیں جب کہ دو ترکی ڈراموں ایک ناولٹ کے تراجم کو ان صفحات میں جگہ دی ہے۔
ڈاکٹرثریاحسین نے اپنے فاضلانہ مضمون میں یلدرم کے حوالے سے بے حد اہم باتیں کی ہیں۔ ہمارے ہاں رومانویت کو محض محبت کے نغموں اور ایک خاص جمالیاتی لَے کے حامل اُسلوب تک محدود سمجھا جاتا ہے اور رومانوی ادیبوں کو زندگی سے دُوری رکھنے والے عینیت پسند لیکھک قرار دیا جاتا ہے۔ رومانوی تخلیق کار کے موجود سے غیرمطمئن رویے اور تبدیلی کی خواہش کی عینی تشکیل کو فراموش کردیا جاتا ہے جو بنیادی طور پر باغیانہ رویے کی حامل ہوتی ہے۔ یلدرم جس نئی سماجی تشکیل اور نئے عمرانی معاہدے کے خواب دیکھتا اور دکھاتا ہے وہ برصغیر کے معاشرے میں مرد اور عورت کے رشتہ کی اس صورت حال کے خلاف احتجاج ہے جس میں ستی کی رسم کی انتہا اور پردے کی وہ شکل بگاڑ کے سبب کے طور پر موجود تھی جسے سیدسلیمان ندوی نے مذہبی نہیں بلکہ رواجی قراردیا ہے۔ جس معاشرے میں عورت کو ایک مرد کے لیے جل مرنے یا پھر ایک مرد کی خاطر ساری زندگی اپنے آپ کو تین گز کپڑے میں چھپا کر رکھنے کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہو وہاں تخلیق کار کا کسی عینی دنیا کو تخلیق کرنا بلاجواز نہیں ہوتا۔ یلدرم کی کہانیوں کی یہ مثالی ترکیب ہماری عملی زندگی سے ضرور دُور ہے لیکن ہماری ذہنی زندگی اور خوابوں سے دُور نہیں ہے، ڈاکٹرثریا حسین نے بجاطور پر کہا ہے کہ
’’یلدرم کو مکمل طور پر رومانی ادیب اور ’’فن برائے فن‘‘ کے نظریے کا پرستار بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں لکھے ہوئے مقالوں سے ان کے حیرت انگیز طور پر وسیع مطالعے اور وسیع النظری کا اندازہ ہوتا ہے اور دور طالب علمی کے فوراً بعد کے تخلیقی تراجم طبع زاد انشائیوں، افسانوں اور نظموں میں ایک ترقی پسند سیاسی اور سماجی شعور واضح طور پر نظر آتا ہے۔ وہ جاپان کی فتح پر اپنی نظم (مخزنؔ ۱۹۰۵ء) پر خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں۔ ’’نوجوان ترکوں‘‘ اور ہندوستان کی سیاسی تحریکوں سے ذہنی اور درپردہ عملی وابستگی، پردے کی شدید مخالفت تعلیم نسواں کی پُرجوش عملی حمایت، مسلم معاشرے میں انقلابی قسم کی سماجی اور دینی اصلاحات، اُردو ٹائپ کی ترویج، نظم و نثر میں نئے تجربات کے لیے بذریعہ تقریروتحریر مسلسل جدوجہد یلدرمؔ کو کسی طرح بھی ایک فرارپرست رومینٹک ثابت نہیں کرتے۔ یلدرمؔ علی گڑھ کے شیدائی تھے لیکن حسرتؔ موہانی کی گرفتاری کے متعلق مضمون میں جو اُنہوں نے ’’خانی خان‘‘ کے فرضی نام سے لکھا (اور جو زمانہؔ کان پور دسمبر۱۹۰۸ء میں شائع ہوا) انہوں نے علی گڑھ کو ’’وفاداری کا گوسالہ‘‘ قرار دیا۔‘‘ (۵)
یلدرم کی بعض تخلیقات (خاص طور پر خیالستان اور حکایات و احتساسات) کے حوالے سے ہماری تحقیق ابھی تک اس بات کا جواب نہیں دے پائی کہ آیا یہ محض تراجم ہیں یا یہ ان کی طبع زاد تخلیقات ہیں یا پھر ان کے کچھ حصے ترجمہ ہیں اور کچھ حصے طبع زاد۔ ڈاکٹرایرکن ترکمان کی فاضلا نہ مساعی کے باوجود ابھی بہت کچھ ایسا ہے کہ جس کے بارے میں فیصلہ ہونا باقی ہے۔ ڈاکٹرثریاحسین نے اپنے اس مضمون میں داخلی شہادتوں کو بنیاد بناتے ہوئے یلدرم کے ہاں طبع زاد تخلیق اور ترجمے کے فرق کو سمجھنے کی ایک کسوٹی بنائی ہے۔ یہ یلدرم کی تخلیقات کی تفہیم کا ایک انوکھا اور نادر زاویہ قرار دیا جاسکتا ہے:
’’چڑیا چڑے کی کہانی تمثیلی اور حکایۂ لیلیٰ و مجنوں سماجی طنزیے ’’احمد۔ علی گڑھ کا قصہ‘‘ سمیت ان تمام طبع زاد افسانوں کا اسٹائل رومانی ادب لطیف سے قطعاً مختلف ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یلدرم دوطرح کی نثر لکھ رہے تھے۔ سیدھی سادی بیانیہ جو ان کی طبع زاد کہانیوں میں ملتی ہے اور رومانی جذبات نگاری جو انہوں نے عصری ترکی ادب سے حاصل کی تھی۔‘‘(۶)
ڈاکٹرثریاحسین نے اس فکرانگیز لیکن مختصر مضمون میں ایک اور تحقیقی فروگذاشت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور تحقیقی دیانت کے ساتھ:
’’رپورتاژ ایک فرانسیسی لفظ ہے اور چند سال سے اُردو میں مستعمل ہوچکا ہے۔ رپورتاژ میں رپورٹر بیرونی حقائق کے ساتھ ساتھ ادبی رنگ میں اپنے ذاتی تاثرات بھی پیش کرتا ہے جب کہ رپورٹ یا سفرنامہ محض حقائق پر مشتمل ہوتا ہے۔ چند سال قبل ایک اُردو روزنامے میں شعبۂ اُردو الٰہ آباد یونیورسٹی کے ڈاکٹررفیق حسین نے لکھا تھا کہ گو کرشن چندر کے ’’پودے‘‘ کو اُردو کا پہلا رپورتاژ کہا جاتا ہے لیکن یلدرم کے ’’سفرِبغداد‘‘ کو جو ۱۹۰۴ء میں شائع ہوا اُردو کا اولین رپورتاژ کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔ ’’زیارت قاہرہ و قسطنطنیہ‘‘ (۱۹۱۱ء) یلدرم کا دوسرا ’’رپورتاژ‘‘ تھا۔‘‘ (۷)
یوں ہم سجادحیدریلدرم کے ایک اور ادبی امتیاز سے آشنا ہوتے ہیں۔ ہمیں اس تحقیقی پیش رفت کے لیے ڈاکٹرثریاحسین کا ممنون ہونا چاہیے۔
اس انتخاب کی دوسری اہم بات قرۃالعین حیدر کا مقدمہ بعنوان ’’داستانِ عہد گل‘‘ ہے۔ قرۃالعین حیدر نے اپنے باپ پر بہت لکھا ہے اور بڑی محبت لیکن تنقیدی دیانت کے ساتھ۔ یہ مقدمہ پانچ حوالوں سے اہم ہے۔
(الف) اُردو افسانے کے آغاز کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اپنے والد کے حوالے سے جذباتی نہیں ہوئیں بلکہ انہوں نے اُردوادب کی تاریخ کے ایک دور اور ایک صنف کے حوالے سے پھیلی ہوئی دھند کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔
’’اواخر انیسویں صدی سے ’’ایسے‘‘ اور ’’اسکیچ‘‘ اُردو میں مقبول ہوچکے تھے۔ منشی سجادحسین، منشی جوالاپرشاد برق، مرزا مچھوبیگ ظریف، نواب سیدمحمدآزاد اور علی محمود شمسی کے خاکوں نے مختصر افسانے کا بیج بودیا تھا۔ اُردوئے معلی ۱۹۰۳ء میں ’’سلسلہ افسانہ ہائے مختصرومکمل‘‘ از ’’شاہد‘‘، ’’حرماں نصیب‘‘ از ’’شاہد‘‘ اور ’’غریب الوطن‘‘ از ’’مانی‘‘ موجود ہیں۔ نہ معلوم یہ کون صاحبان تھے۔ مخزن دسمبر۱۹۰۳ء میں راشدالخیری (جو اس وقت تک منازل السائرہ لکھ چکے تھے) کا ’’نصیر اور خدیجہ‘‘ شائع ہوا جس میں دلّی کی بیگماتی زبان میں خدیجہ اپنے بھائی نصیر سے ایک بے ساختہ سے خط کے ذریعے بھائی کی کنبے کی طرف سے لاپروائی کا گلہ شکوہ کرتی ہے ’’نصیراور خدیجہ‘‘ میں یقینا مختصر افسانے کی جھلک موجود ہے۔‘‘ (۸)
(ب) ہماری تحقیق و تنقید چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر سرسید احمدخان اور ان کی تحریک کے حوالے سے توازن کی حامل نہیں ہے۔ قرۃالعین حیدر نے اس دیباچے میں کچھ ایسے اشارے کیے ہیں جو سرسید تحریک کی متوازن تفہیم میں ہماری معاونت کرسکتے ہیں۔ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں اکیسویں صدی کے آغاز میں بھی اس طرح کے مضامین لکھے جا رہے ہیں کہ سرسیدغدار تھے یا محب وطن۔ ایسی صورت حال میں ان تنقیدی اشاروں کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ اگرچہ اقتباسات طویل ہیں لیکن اوپر دئیے گئے موقف کی وضاحت کے لیے ناگزیر ہیں۔
’’۱۸۵۷ء ہمارے لیے ہر لحاظ سے ایک زبردست واٹرشیڈ ہے اس ہنگامے کے متعلق ڈپٹی نذیر احمدگواہ ہیں کہ جنگ آزادی کے ایک قائد نواب بہادرخاں سیروں زیورات سے لدے دولہا بنے گھوڑے پر سوار دلّی کی دوکانیں لوٹتے پھر رہے تھے۔
ہم سرسیّد کی بے پناہ وفاداری اور انگریزپرستی سے ذرا جھینپتے ہیں مگر ایام غدر میں ’’باغیوں‘‘ کی افراتفری ، نفاق، پسماندگی خودغرضی اور جہالت کے جو نظارے انہوں نے دیکھے تھے ان کے مقابلے میں صف آرا صاحبان فرنگ کی فتح سے سرسید کا متاثر ہونا لازمی تھا۔
۱۲۲۴ء میں فریڈرک دوئم نے یونیورسٹی آف نیپلز اس لیے قائم کی تھی کہ عرب سائنس و فلسفہ اطالیہ میں پھیل سکے۔
۱۸۷۷ء میں سرسیداحمدخاں نے اوکسفرڈ کے نمونے پر (جہاں سے طلباء چھ سو سال قبل بغرض اعلیٰ تعلیم اندلس جایا کرتے تے) ایم اے او کالج قائم کیا تاکہ مغربی سائنس و فلسفہ ہندی مسلمانوں میں پھیل سکے۔ انگلش لنگوئج اینڈ لٹریچر کے نمونے پر سلیس اُردو اور ’’نیچرل‘‘ شاعری، توہمات اور بدعتوں میں مبتلا قوم کے لیے اسلام کی نئی سائنٹفک توجیہہ اور نئی مسلم مڈل کلاس کے لیے اخلاقی و اصلاحی ’’ناول‘‘ ’’آرٹیکل‘‘ اور ’’ایسے‘‘ (لفظ ’’شارٹ اسٹوری‘‘ ابھی مستعمل نہ ہوا تھا۔)
اب مرزاغالبؔ کی عظمت یہ ہے کہ انگریزی سے نابلد ہوتے ہوئے بھی وہ ہمارے پہلے Modern Manہیں اور سرسیدہمارے Renaissance Manمصلح، صحافی، ادیب، عالم دین، انسان دوست کرم یوگی۔‘‘ (۹)
’’انگریز سارے ایشیائیوں سارے مسلمانوں کو وحشی اور کمتر سمجھتا تھا۔ اب دیکھئے کہ سرسید کس شدید جذباتی اور ذہنی کشمکش سے دوچار رہے ہوں گے۔ وہی انگریز جس کے وہ اتنے مداح ہیں وہ اُٹھتے بیٹھتے ہندوستانیوں کی تحقیر کرتا ہے۔ انگریز مشنری اورمورخ اسلام اور پیغمبراسلام کے خلاف زہرافشانی میں مصروف ہے۔ سرسیدلندن سے اپنے گھر خط لکھتے ہیں میرے برتن فروخت کرکے روپیہ بھیجو تاکہ لندن میں مزید قیام کرکے ولیم میور کی کتاب کا جواب لکھ سکوں۔ اس وقت ساری دنیا میں محض ایک مسلم قوم باقی رہ گئی ہے۔ سربلند آزاد۔ ایک وسیع سلطنت کی مالک۔ جو پانچ سو سال سے ان کمینی گوری اقوام پر حکومت کر رہی ہے۔ عثمانی ترک! چنانچہ سرسیّد کے سامنے اب دو آئیڈیل ہیں۔ برطانیہ اور ترکی۔‘‘ (۱۰)
(ج) یلدرم کا زمانہ ادبی حوالے سے ہماری نئی روایت کا تشکیلی دَور ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب پیرویٔ مغرب اور مشرق کی بازیافت کے درمیان ایک عجیب و غریب کش مکش موجود تھی۔ یہ ایک ایسا زمانہ تھا جہاں ایک طرف مغرب کی طرف سے عقلیت پسندی اور رومانویت ادبی رجحانات کے طور ہماری ادبی روایت کو متاثر کر رہی تھی تو دوسری طرف رینالڈ وغیرہ کے ناول کے تراجم ہورہے تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر عبدالحلیم شرر، قیسی رام پوری، رئیس احمدجعفری اور نسیم حجازی پیدا کرنے تھے۔ یوں ناول کی صنف اور تاریخ دونوں پر اپنے منفی اثرات یوں مرتب کرنے تھے کہ ایک طرف تو اُردو میں کوئی بڑا تاریخی ناول نہ لکھا جا سکا اور دوسری طرف خود تاریخ کو ایک علم کے طور پر مسخ کرنے کا عمل بھی ہمارے معاشرے میں رواج پانے لگا۔ قرۃالعین حیدر نے اس تشکیلی دَور کا تجزیہ معروضی انداز میں کیا ہے۔
’’وہ تشکیلی دَور اُردو ادب کا عہد گل تھا، جب نوجوان اہل قلم، شاعر، افسانہ نویس، مضمون نگار اور ادبی رسالوں کے مدیر اُردو لٹریچر کی ترقی کی مساعی کو قومی اور تہذیبی فریضہ جانتے تھے۔ نئے اسالیب ادب سرسید اور مولاناحالی کے مشن کی توسیع بھی تھے اور مغرب کی نت نئی ایجادوں کی طرح تازہ اور انوکھے انکشاف بھی نئے ادبی تجربے وہ خود بھی کر رہے تھے اور مغرب سے بھی اخذ کرنے میں مصروف تھے۔ گویا اپنے گپتا، ایرانی، مغل راجپوت مجسموں، تصویروں اور ظروف کے گرد آلود گودام میں موجود مغرب کی سمت دریچے وا کرکے تازہ دم ہونے کے بعد اپنے ذخیرے کی جھاڑپونچھ کر رہے تھے اور ولایتی فن پاروں کو بھی اپنے سامنے رکھنے میں مصروف تھے۔‘‘ (ص۲۳) (۱۱)
’’اُردو میں سراج الدولہ یا ٹیپو یا حافظ رحمت خاں یا نواب حضرت محل یا بہادرشاہ ظفر کے متعلق ناول لکھنے کی کس میں ہمت تھی۔ چنانچہ شرر نے ایسے اسلامی تاریخی ناول لکھے جن کا اپنے عہد کی تاریخ سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ رومینٹک آئیڈیلزم قومی احیاء کا ایک لازمی عنصر ہے کولونیل مشرق میں یہ رومانویت آئرش نیشنلزم کی طرح قوم پرستی کے محرکات میں شامل ہوئی لیکن ادب میں بھی ہندو اور مسلم احیاء کا باہم تصادم ناگزیر تھا۔ چنانچہ ایک طرف شرر کے ناول تھے دوسری طرف بنکم چندچٹرجی کا ’’آنند مٹھ‘‘ جو بنگالی قوم پرستوں کی بائبل بنا، مسلمان اس سے اتنی ہی خفا ہوئے۔ سرکار انگلیشیہ سے وفاداری کی صورت حال یہ تھی سرشار کے ہیروآزاد پاشاترکوں کی حمایت میں روسیوں سے لڑ کر آتے ہیں تو بطور ایک ’’لائل‘‘ جانباز افغانوں سے لڑنے چل دیتے ہیں۔ ’’آنند مٹھ‘‘ کے خالق بنگال میں ڈپٹی مجسٹریٹ کا عہدہ سنبھالے رہے۔ اسی دَور میں محمدحسین آزاد، شرر، ریاض خیرآبادی اور میرناصر علی نے رنگین نثر اور تخیلی انشاپردازی کو فروغ دیا۔‘‘ (۱۲)
(د) اُردوفکشن کی روایت میں سجادحیدریلدرم کا کیا مقام ہے، اُردو تنقیداس حوالے سے کوئی خاطرخواہ فیصلہ نہیں کرسکی، وہ ابھی تک یہ طے کرنے میں مصروف ہے کہ آیا یلدرم نے طبع زاد افسانے لکھے بھی ہیں یا وہ محض ایک مترجم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پطرس بخاری، ڈاکٹرقمررئیس، ڈاکٹرابوالکلام قاسمی، ڈاکٹرسیدمعین الرحمان اور ڈاکٹرانواراحمد کے مضامین / کتب اور مبارزالدین رفعت کی مرتب کردہ کتاب اور پگڈنڈی یلدرم نمبر یلدرم کی افسانہ نگاری کے حوالے سے اہم ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شمس الرحمان فاروقی اور محمدحسن عسکری جیسے ناقدین نے اپنے مضامین میں یلدرم سے انصاف نہیں کیا۔ قرۃالعین حیدر نے اُردوادب میں یلدرم کے مقام کے حوالے سے کارآمد بحث کی ہے اور ان پر ترکی ادیبوں کے اثرات کے ساتھ ساتھ انہوں نے یلدرم کی رومانویت سے وابستگی کے اسباب کا تعین بھی کیا ہے، ایک مختصر اقتباس دیکھئے:
’’اُردو والے Superlativesاستعمال کرنے کے بے حد عادی ہیں۔ یلدرم یا کسی اور قابل ذکر ادیب کو اُردو کا ’’عظیم ترین مضمون نگار‘‘ یا کسی افسانہ نگار کو ’’عظیم ترین افسانہ نگار‘‘ یا ناول نویس قرار دینے میں مجھے تامل ہوگا لیکن یقینا سرسیّد کے خشک عقلیت پرستی کے ردعمل کے طور پر ہی رومانیت ظہورپذیر ہوئی۔‘‘ (۱۳)
(ہ) قرۃالعین حیدر نے اپنے اس مقدمے میں مغرب اور مشرق کے تہذیبی لین دین کے حوالے سے بصیرت افروز نکتے اُٹھائے ہیں۔ ایڈورڈ سعید اور ہومی۔کے۔بھابھا کے زیراثر اُردوتنقید میں مابعدنوآبادیاتی رویے کو فروغ حاصل ہوا۔ ڈاکٹرمحمدعلی صدیقی اور ڈاکٹرسیدمحمدعقیل نے اس تناظر میں اہم کام کیا لیکن اس سے پہلے محمدحسن عسکری، سلیم احمد، فتح محمدملک وغیرہ مغرب کے زیراثر تخلیق ہونے والے ذہنی اور ادبی رویوں پر سوالیہ نشان قائم کرچکے تھے۔ قرۃالعین حیدر کے ہاں وہ شدت پسندی اور ردعمل نہیں ہے جو کہ محمدحسن عسکری، سلیم احمد کی تحریروں کا طرۂ امتیاز ہے بلکہ انہوں نے نسبتاً معروضی انداز میں مغرب اور مشرق کے تہذیبی اور ادبی رشتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ نہ تو بے جا طور پر مغرب سے مرعوب ہوئی ہیں اور نہ ہی انہوں نے مشرق کے نام نہاد تفوق کی بات کی ہے، انہوں نے واضح کیا ہے کہ جدید ہندی تہذیب مغربی تہذیب اور ہندوستان کی تہذیبی تجدیدیت کا امتزاجی روپ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مغرب مشرق کی طرف دیکھتا تھا لیکن مشرق کی تہذیب کے زوال کے بعد یہ صورت حال تبدیل ہوگئی۔ نئی صورت حال کے تقاضے اور طرح کے تھے جس سے نبردآزما ہونے کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت تھی۔
’’آج جب کہ ہماری طرزرہائش، ادبیات بول چال کی زبان افکار و خیالات، حرکات و سکنات تک پر مغرب کی اتنی گہری چھاپ پڑ چکی ہے کہ ہم کو فرزندانِ تثلیث کے اس عمیق نفسیاتی تصرف کا اس وقت بھی اندازہ یا احساس نہیں ہوتا جب ہم نیشنلزم یا حالیہ ’’اسلامی تجدیدیت اور بنیاد پرستی‘‘ کے زیراثر مغربیت سے خود کو آزاد کرانے کی سعی میں جدید علوم و اصطلاحات اور ذرائع ابلاغ بھی مغربی ہی استعمال کرتے ہیں۔‘‘ (۱۴)
’’کیا مشرقی ذہن واقعی اوریجنل نہیں رہا تھا؟ یہاں اُردوادب کی بات کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں چند تاریخی حقائق پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا اثر مجموعی طور پر ان کے شعروادب پر منعکس ہوتا ہے۔ سب رس ۱۶۳۸ء میں لکھی گئی تھی پلگرمز پروگریس ۱۶۷۸ء میں لیکن پادری جان بینن نے بے چارے ملّاوجہی کو مارگرایا لہٰذا دیکھئے انگریزی فکشن وہاں جا پہنچا جہاں وہ ہے اور اُردو جہاں وہ ہے۔ فارسی شاعری چاسر سے بہت قبل عروج پر پہنچ چکی تھی لیکن جدید عالمی ادبی اٹیلس پرچاسر کے ہم قوم و ہم زبان چھائے ہوئے ہیں۔‘‘ (۱۵)
مشرق آخر زوال کے اس لمحے کی گرفت میں کیوں کر آیا، قرۃ العین نے اس سوال کا بھی سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کرنے کی سعی کی ہے۔
’’ہم لوگ انیسویں صدی میں برطانیہ کی سیاسی تہذیبی اور ذہنی یلغار کا مقابلہ نہ کرسکے کیونکہ ہمارے ہاں آٹھ سو سال قبل باب اجتہاد بند کیا جاچکا تھا۔ حالانکہ عالم اسلام ہی۔۔۔۔ ذہنی اقتصادی اشتراکی تصورات و نظریات کا اولین گہوارہ رہ چکا تھا۔ یورپ کے سیاسی اور ذہنی انقلابات سے صدیوں قبل عراق و ایران میں وہ حیرت انگیز اشتراکی اور علمی تحریکیں ابھریں جن کو ’’مزدکی‘‘ اور ’’زندیقی‘‘ اور ’’مرتدانہ‘‘ قراردے کر کچلا گیا۔ صوفیائے کرام نے ایک طرف Establishmentکے خلاف آواز بلند کی دوسری طرف انہوں نے فرائیڈ اور ینگ سے سینکڑوں برس قبل نفسیات کے رموز آشکار کیے۔ فارسی شاعری میں ’’رندومیخانہ‘‘ آزادی و افکار کے اور ’’شیخ و محتسب‘‘ تنگ نظری کے سمبل بنے لیکن تنگ نظری کے خلاف اصل اور دُوررَس جیت اہل یورپ کی ہوئی۔‘‘(۱۶)
انہوں نے ان اُصولوں کا ادبی صورت حال پر بھی انطباق کیا ہے اور خوب کیا ہے۔
’’بات پھر وہیں قوموں کے عروج و زوال تک پہنچتی ہے۔ شیکسپیئر کو انگلستان کا کالی داس کیوں نہ کہا گیا۔ شیکسپیئرین ڈراموں کو دیسی جامہ پہنانے والے آغاحشر کاشمیری نہایت فخر سے ’’انڈین شیکسپیئر‘‘ کیوں کہلائے۔ سنسکرت ناٹک کی جنم بھومی میں آج ڈرامہ نگاری اس قدر کمزور اور پھسپھسی کیوں ہے؟ مہابھارت، جاتک، پُرانوں، الف لیلہ فارسی حکایات داستانوں اور ’’گنجی کی کہانی‘‘ وغیرہ وغیرہ کی سرزمین مشرق میں ’’ناول‘‘ اور ’’افسانہ‘‘ مغرب سے کیوں آیا۔ یہیں سے کیوں نہ اُگا؟ جب کہ اطالوی نوویلا کے اصل جنم داتا مُورشن اسپین کے قصے تھے۔‘‘ (۱۷)
اب کچھ باتیں خود اس انتخاب کے حوالے سے بھی ضروری ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹرثریا حسین نے یلدرم کی کل ۶۴طبع زاد تخلیقات (افسانے، مضامین اور تقاریر) اور تراجم کی فہرست دی ہے۔ اس فہرست میں ان کے افسانوی مجموعے ’’خیالستان‘‘ اور ’’حکایات و احتساسات‘‘ بھی شامل ہیں جنہوں نے ان تخلیقات و تراجم میں سے ۳۸کو اپنے اندر سمویا ہوا ہے۔ خیالستان میں کل ۱۳افسانے اور مضامین جب کہ حکایات و احتساسات میں تیرہ افسانے اور بارہ مضامین شامل ہیں۔ ’’مرزاپھویا کی یاد میں‘‘ کا ذکر فاضل مرتب نے نہیں کیا۔ ممکن ہے کہ سجادحیدریلدرم کی کچھ اور منظومات بھی ہوں لیکن وہ سامنے نہ آسکی ہوں۔ یہ ایک عمدہ انتخاب ہے اور سجادحیدریلدرم کی اُن تخلیقات کو ہمارے سامنے لاتا ہے جو زیادہ تر ان کے دو افسانوی مجموعوں میں شامل نہیں ہیں۔ یہ انتخاب دو حصوں میں منقسم ہے، پہلے حصے میں کل چودہ مضامین ، افسانے، رپورتاژ اور تراجم شامل ہیں۔
دوسرے حصے میں دو ترکی ڈراموں اور ایک ناولٹ (آسیب الفت) کا ترجمہ شامل ہے۔ جلال الدین خوارزم شاہ، نامق کمال کا طویل ڈرامہ ہے جب کہ ’’پرانا خواب‘‘ کے مصنف کے بارے میں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اسی طرح آسیب الفت کے اصل مصنف کے بارے میں یلدرم نے کچھ نہیں بتایا۔ ڈاکٹرثریا حسین نے اس ضمن میں لکھا ہے کہ
’’آسیب الفت (۱۹۱۹ء) پر مصنف کا نام درج نہیں مختصر پیش لفظ میں بھی یلدرم نے اصل مصنف کا کوئی ذکر نہیں کیا۔‘‘
’’بیسویں صدی کے تذکرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دبستان ثروت و فنون کے کسی ادیب کی تصنیف بھی نہیں شعبۂ ویسٹ ایشین اسٹڈیز (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کے کتب خانے میں باوجود تلاش بسیار اس پلاٹ کے کسی ناولٹ یا اس کے مصنف کا کچھ اتہ پتہ نہ مل سکا۔‘‘(۱۸)
’’جلال الدین خوارزم شاہ‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹرثریا حسین لکھتی ہیں:
’’جدید ترکی ادب کے باوا آدم نامق کمال نے یہ ڈرامہ ۱۸۷۵ء میں اس وقت لکھا تھا جب طاقت ور روس انحطاط پذیر دولت عثمانیہ کے صوبجات پر قبضہ کرتا جا رہا تھا۔ عالم اسلام پر چنگیز خاں کے حملے اور مسلمان فرمانرواؤں کے باہم نفاق سے پیدا کردہ حالات کی اس خوں چکاں داستان میں نامق کمال کا ہیرو جلال الدین خوارزم شاہ ایک Colossusکی طرح اسٹیج پر نمودار ہوتا ہے اور جواں مردی سے تاتاریوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک مسلمان کے ہاتھوں ہی شہید ہوتا ہے۔ انیسویں صدی میں مشرق بالخصوص ترکی کا جو حال زار تھا اس میں اور سات سو سال قبل کی اس حالت میں زیادہ فرق نہ تھا۔ مروّجہ وکٹورین میلوڈرامہ سے مختلف اور یونانی اور شیکسپیرین المیے کی سطح کے اس ڈرامے نے ترکوں میں وطن پرستی کی نئی روح پھونکی اور مصطفےٰ کمال اور ان کے ساتھیوں کو نیا عزم و ولولہ بخشا۔‘‘(۱۹)
’’آسیبِ اُلفت‘‘ ایک علامتی ناولٹ ہے جسے پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کی آخری دودہائیوں کا اُردو کا علامت نگار یہ ناولٹ لکھ رہا ہے۔ کچھ حصے دیکھئے
’’ہوا پتوں کو ڈرا کر پریشان کر رہی ہے۔ میدان کے درختوں میں، ایک وہم انگیز حرکت پیدا ہوتی ہے۔ سفید لباس والی عورت، اپنا سوکھا ہاتھ، اپنے چمکدار، شعلہ بار بالوں پر پھراتی ہے اس کی آنکھوں کی چمک، اس لیے مدہم تھی کہ اس نے آنکھیں بند کرلی تھیں لیکن اس کے دانت بات کرنے میں بجلیاں گرا رہے تھے اور وہ گہری آواز سے، جو بہت دُور سے آتی معلوم ہوتی تھی، اپنی سرگزشت کہہ رہی تھی۔‘‘ (۲۰)
’’سفید لباس والی عورت، تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو جاتی ہے۔ ہوا میں زور پیدا ہوتا جاتا ہے۔ رات کی مبہم و غیرمعین ہلکی ہلکی آوازیں آتی ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے رات ہونٹ بند کیے کراہ رہی ہے۔ پتوں میں حرکت بند ہے۔ سفید لباس والی عورت ایک ایسی آواز ہے جو اس رات کے شایان ہے ، جو اس رات کی وحشت کو پورا کرتی ہے، تاریکیوں میں سے کہہ رہی ہے۔‘‘ (ص۴۸۵) (۲۱)
یہ انتخاب جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے صرف اسی وجہ سے ممتازنہیں کہ اس میں یلدرم کی بعض بھولی بسری تحریریں یک جا کر دی گئی ہیں بلکہ اسے قرۃ العین کے مقدمے اور فاضل مرتب کے تفصیلی تحقیقی و تنقیدی مقدمے نے بامعنی بنا دیا ہے۔ یہ دو مضامین تفہیم یلدرم کے حوالے سے بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے پاکستان میں اس کتاب کی جب بھی مکرر اشاعت ہو اس پر مرتب کے طور پر ڈاکٹرثریا حسین کا نام درج ہونا ضروری ہے۔
حواشی و حوالہ جات
۱۔ قرۃالعین حیدر کے اکثر ناقدین اس امر پر متفق ہیں۔ خود انہوں نے اپنے اس ناول کے دیباچے میں اس ناول کی تخلیق کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’اس نوع کی درجنوں تازہ ترین کتابیں ہر مہینے انگلستان اور امریکہ میں چھپ رہی ہیں۔ اجتماعی ناول رائٹرز نوٹ بک اور فیملی ساگا ان کے علاوہ ہمارے ہاں ان اصنافِ ادب پر بہت کم توجہ دی گئی ہے، بالخصوص فیملی ساگا آج کل انگلستان میں ازحد مقبول ہیں کیونکہ وہاں فیملی ختم ہوچکی ہے۔ ہان سویان انقلاب سے پہلے کے اپنے چینی مشترکہ خاندان کا نقشہ کھینچ چکیں۔ امریکہ میں اشکنازی یہودی کتبوں کے قصوں کا زور ہے۔ اشکنازی یہودی اور اینگلوسیکسن مسیحی دونوں متوازی سماج اپنی اپنی کھوج میں مصروف ہیں۔ بازیافت کی یہ کوشش جب معاشرہ متزلزل ہو زیادہ تندہی سے کی جاتی ہے۔
ذاتی طور پر میرا بیشتر ادب پروستین Re Cherche Du Temps Perdu گمشدہ زمانوں کی تلاش پر مبنی ہے۔
جوں جوں یہ کہانی آگے بڑھتی گئی اس نے میرے لیے ایک ادبی ایڈونچر کی صورت اختیار کرلی۔ عرصہ ہوا جب رالف رسل نے مجھ سے کہا تھا کہ مجھے ایک ’’لائف اینڈ ٹائمز‘‘ قسم کی چیز لکھنا چاہیے۔ اس وقت اس کتاب کا کوئی تصور میرے ذہن میں نہ آیا تھا۔ لیکن جب لکھنے بیٹھئے تو تکنیک اور صنفِ ادب آپ سے آپ بن جاتی ہے اور حقیقت افسانے سے عجیب تر ہے۔ چنانچہ ایک ’’سوانحی ناول‘‘۔‘‘
(کارِ جہاں دراز ہے، دیباچہ، ص۳۷، مکتبہ اُردو ادب، لاہور)
۲۔ دیکھئے تنقید کی آزادی از مظفرعلی سید اور کچھ بچایا لایا ہوں از وارث علوی۔
۳۔ محمودالٰہی، پیش لفظ، مشمولہ انتخاب سجاد حیدریلدرم، مرتبہ ڈاکٹرثریا حسین، لکھنؤ، اترپردیش اُردو اکیڈمی اکادمی، ۱۹۸۵ء، ص۶۔
۴۔ زرغونہ کنول، قرۃ العین حیدر (کوائف نامہ)، مشمولہ قرۃالعین حیدر-خصوصی مطالعہ، مرتبہ سیدعامرسہیل و دیگر، ملتان، بیکن بکس، ۲۰۰۳ء، ص۱۶۔
۵۔ ڈاکٹرثریا حسین، ص۸۔
۶۔ ایضاً ص۱۵،۱۶۔ ۷۔ ایضاً ص۲۰،۲۱۔
۸۔ ایضاً ص۵۵۔ ۹۔ ایضاً ص۳۲، ۳۳۔
۱۰۔ ایضاً ص۳۶،۳۵۔ ۱۱۔ ایضاً ص۲۳۔
۱۲۔ ایضاً ص۴۵،۴۶۔ ۱۳۔ ایضاً ص۵۷۔
۱۴۔ ایضاً ص۲۴۔ ۱۵۔ ایضاً ص۲۵۔
۱۶۔ ایضاً ص۲۶۔ ۱۷۔ ایضاً ص۲۷،۲۸۔
۱۸۔ ایضاً ص۱۸۔ ۱۹۔ ایضاً ص۱۷۔
۲۰۔ ایضاً ص۴۸۲،۴۸۳۔ ۲۱۔ ایضاً ص۴۸۵۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’خواجہ حسن نظامی نے اردو میں انشائیہ کو رائج کرنے کی ایک بلیغ کوشش کی لیکن ان کی نظر خارجی عوامل پر
رہی اور وہ اپنی ذات پر سے دبیزپرتوں کو اتار نہ سکے۔چنانچہ اردو انشائیہ سطح پر آتے آتے رہ گیا۔البتہ
سجاد حیدر یلدرم نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بعض غیر ملکی انشائیوں کی رُوح کواردو کے قالب میں ڈھالنے
کی بھر پور کوشش کی۔اس ضمن میں ان کے مشہور مضمون ’’مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ‘‘کا ذکر ضروری
ہے لیکن یلدرم نے کوئی ایسا طبع زاد انشائیہ پیش نہیں کیا جس سے اردو میں انشائیہ نویسی کی روایت قائم ہو
جاتی۔ ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ڈاکٹر وزیر آغا بحوالہ ’’انشائیہ کے خدو خال‘‘۔ ص۱۹)