ہمارے نامور ،عالمی شہرت یافتہ شاعر اور ترقی پسنددانشور فیض احمد فیض کی زندگی کا یہ پہلو اَن جانا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم (۱۹۴۵ء۔۱۹۳۹ء)کے دوران وہ کیوں اور کیسے برطانیہ کی سامراجی حکومت کی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہوئے اوربرطانوی حکومت نے فوج جیسے حساس ادارے میں انہیں کیوں قبول کیا؟اسی زمانے میں نہ صرف فیض احمد فیض بلکہ چراغ حسن حسرت اور مجید ملک بھی فوجی وردی پہن چکے تھے اور خان بہادر ابوالاثر حفیظ جالندھری کا یہ گیت آل انڈیا ریڈیو سے بار بارپیش کیا جا رہا تھا:
’’اڑوسن پڑوسن چاہے کچھ کہے ،میں تو چھورے کو بھرتی کراآئی رے
اٹلی ،جرمنی اور جاپان ،میں تو تینوں کا بھُرتابنا آئی رے
میں تو چھورے کو بھرتی کرا آئی رے‘‘
کیوں اور کیسے کی تلاش میں جب ہم اُس دور کی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انقلابِ روس ۱۹۱۷ء کے بعد سویت روس‘سامراج اور سرمایہ داری کے دشمن کے طور پر نمایاں ہوا اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قومیں اپنی آزادی اور فلاح کے لیے روس کی طرف دیکھنے لگیں ۔برصغیر اس وقت برطانوی سامراج کی زنجیروں میں جکڑا ہوا آزادی کے لیے ہاتھ پیر مار رہا تھا۔یہی وہ زمانہ تھا جب ساری دنیا میں بائیں بازو کی جماعتیں وجود میں آرہی تھیں اور کمیونسٹ پارٹی کم وبیش ہر ملک میں منظم ہورہی تھی۔۱۹۲۶ء میں جب لندن پولیس نے برطانیہ کی کمیونسٹ پارٹی کے دفتر پر چھاپا مارا تو جو کاغذات ہاتھ لگے ان سے یہ بات سامنے آئی کہ برطانیہ کی کمیونسٹ پارٹی آکسفورڈ اور کیمبرج کے ان ہندوستانی طلبہ کو متاثر اور ملانے کی کوشش کر رہی ہے جو وہاں اعلیٰ تعلیم کے لیے آئے ہیں ۔اس زمانے میں مالدار گھرانوں کے نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لیے عام طور پر آکسفورڈ یا پھر کیمبرج جاتے تھے ۔یہی وہ دور ہے جب ہندوستان میں بھی تیس کے ابتدائی عشرے میں کمیونسٹ پارٹی کی تنظیمِ نو کی جارہی تھی اور برطانوی حکومت کے خلاف ان کی سرگرمیاں اتنی بڑھ چکی تھیں کہ ۱۹۳۳ء میں برطانوی حکومتِ ہند نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو غیر قانونی جماعت قرار دے دیا تھااور اسی کے ساتھ پنجاب ‘مدراس اور بمبئی کی صوبائی حکومتوں نے بھی احکام جاری کردئیے تھے۔۱۹۳۴ء میں برصغیر میں ’’کانگرس سوشلسٹ پارٹی‘‘کی بنیاد رکھی گئی ۔یہ جماعت ایک طرح سے کانگرس ہی کا ایک حصہ تھی ۔۱۹۳۵ء میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کی ساتویں عالمی کانگرس ماسکو میں منعقد ہوئی جس میں یہ طے پایا کہ ۱۹۲۸ءکی حکمتِ عملی غلط تھی اور اب انڈین کمیونسٹوں کو چاہئے کہ وہ دو کام کریں ۔ایک یہ کہ ادبی انجمنیں بنائی جائیں اور انہیں اپنی نئی حکمتِ عملی کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا جائے تاکہ مارکسزم کے فلسفے کو نئی نسلوں میں مقبول بنایا جاسکے ۔دوسرے یہ کہ ہندوستان کے کمیونسٹ زیادہ سے زیادہ تعداد میں نیشنل کانگرس اور کانگرس سوشلسٹ پارٹی میں شامل ہوں اور وہاں اپنا کام انجام دیں ۔’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘اسی حکمتِ عملی کے تحت اسی زمانے میں وجود میں آئی اور اسی زمانے میں جے پرکاش نرائن کی حمایت و مدد سے متعدد سرکردہ کمیونسٹ نوجوان کانگرس اور کانگرس سوشلسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔اس طرح نئی حکمتِ عملی کے تحت ایک ’’متحدہ محاذ‘‘وجود میں آگیا۔جس کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ کمیونسٹ اورکانگرس مل کر سامراجی قوت سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے ۔۱۹۳۶ء میں جب ترقی پسند مصنفین کا پہلا اجلاس ہوا اور اس کا مینی فیسٹو پیش کیا گیا تو ’’متحدہ محاذ‘‘کی وجہ ہی سے پنڈت جواہر لعل نہرو،رابندر ناتھ ٹیگور ،مولانا حسرت موہانی ،منشی پریم چند ،مولوی عبدالحق وغیرہ کی حمایت انہیں حاصل ہوئی۔اسی متحدہ محاذ کی وجہ سے۳۸۔۱۹۳۷ء تک کانگرس سوشلسٹ پارٹی کی مجلسِ منتظمہ میں دو کمیونسٹ بطور رکن اور دو جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہو چکے تھے ۔ان میں سید سجاد ظہیر عرف بنے بھائی آل انڈیا کانگرس سوشلسٹ پارٹی کے جوائنٹ سیکرٹری اور آل انڈیا کانگرس کمیٹی کے رکن مقرر ہوئے۔ڈاکٹر زیڈ اے احمداور ڈاکٹر محمد اشرف آل انڈیا کانگرس کمیٹی کے صدر دفتر میں اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔اسی طرح نمبودری پَد،پی سندرایا اور گوپالن کانگرس سوشلسٹ پارٹی کے کلیدی عہدوں پر فائز ہوئے ،میاں افتخارالدین پنجاب صوبائی کانگرس کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے۔یہاں رہ کر کمیونسٹوں نے اس حکمتِ عملی پر عمل کیاجو ۱۹۳۵ء کی کمیونسٹ انٹر نیشنل ماسکو میں طے ہوئی تھی۔انہوں نے کانگرس اور سوشلسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اتنا کھلم کھلا استعمال کیا کہ ۱۹۳۷ء میں پٹنہ کے اجلاس میں کمیونسٹ اراکین نے یہ بیان پڑھ کر سنایا کہ کانگرس سوشلسٹ پارٹی دراصل کوئی سوشلسٹ پارٹی ہی نہیں ہے اور کمیونسٹ اسے صرف پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ۔
اس بیان سے دونوں فریقین میں اختلاف شدید تر ہوگئے اور کانگرس اور سوشلسٹ پارٹی نے محسوس کیا کہ کمیونسٹ دراصل کانگرس اور سوشلسٹ پارٹی پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں یہ اختلاف بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچے کہ ۱۹۲۰ء میں کانگرس سوشلسٹ پارٹی نے سارے کمیونسٹ ممبروں کو پارٹی سے خارج کردیا ۔اس عرصے میں کمیونسٹ طلبہ تنظیموں ،ٹریڈیونینوں اور دوسرے محاذوں پر قدم جما چکے تھے اور یہی ان کی بنیادی حکمتِ عملی تھی ۔
جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ جب ۱۹۳۳ء میں سوویٹ روس ’’لیگ اوف نیشنز‘‘کا رکن بنا تھا تو اس نے نازیوں اور فسطائی قوتوں کے خلاف اپنی حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا۔لیکن اگست ۱۹۳۹ء میں ایک نئی صورتِ حال یہ پیدا ہوئی کہ ہٹلر اور اسٹالن کے درمیان تعاون ودوستی کا معاہدہ ہوگیااور اسی کے ساتھ ۳ستمبر۱۹۳۹ء کو دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی۔اس معاہدے نے نازی دشمنی کو نازی دوستی میں بدل دیااور اس معاہدے کے مطابق ساری دنیا کی کمیونسٹ پارٹیوں نے بھی نازی دوستی کی حکمتِ عملی کو اختیار کرلیا ۔اب برطانیہ و فرانس سامراجی جنگ پسند قرار پائے اور جرمن ہٹلر دوست اور امن پسندٹھہرے۔۱۹۴۰ء میں کمیونسٹوں نے گاندھی اور نہرو کو آزادیٔ ہند کا دشمن اور برطانوی سامراج کا پٹھو قرار دیا۔اس نئی حکمتِ عملی کے تحت ۲اکتوبر۱۹۴۰ء کو بمبئی میں زبردست ہڑتال کرائی گئی جس کی وجہ سے چالیس کے قریب کپڑا بنانے کے کارخانے بند ہوگئے۔اس ہڑتال کا مقصد یہ تھا کہ جرمنی کے خلاف برطانیہ کی جنگی تیاریوں کو نقصان پہنچایا جائے۔مزدوروں کو کم سے کم کام کرنے یا نہ کرنے اور کسانوں کو کم غلّہ اگانے کی تلقین کی گئی ۔۱۹۴۰ء میں ڈیفنس اوف انڈیا آرڈیننس کے تحت کمیونسٹوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں اور کانگرس سوشلسٹ پارٹی کے سب اراکین ،جن میں جے پرکاش نرائن بھی شامل تھے ،گرفتار کرکے دیولی کی جیل میں بند کردئیے گئے۔
ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ ۲۲جون ۱۹۴۱ء کو یہ خبر آئی کہ اسٹالن، ہٹلر معاہدے کے باوجود ہٹلر نے سوویٹ روس پر حملہ کردیا ہے۔اور اس کی فوجیں تیزی سے پیش قدمی کررہی ہیں ۔اس صورتِ حال میں سوویٹ روس اور اسٹالن کے لیے کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ وہ اتحادی بن کر برطانیہ و فرانس کے ساتھ شامل ہوجائے اور یہی ہوا۔اسی کے ساتھ نازی جرمنی ،جو اَب تک دوست تھا ،دشمن بن گیا۔او ربرطانوی سامراج جو دشمن تھا ،دوست بن گیا۔اسی زمانے میں برطانیہ کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری کا خط ،برطانوی ہند کے ہوم سیکرٹری کے توسط سے کمیونسٹوں کو بھیجا گیا اور اسی کے ساتھ برطانیہ کی سامراجی جنگ عوامی جنگ(People’s War)بن گئی ۔اتحادیوں کے ساتھ سوویٹ روس کے معاہدے اور نئی حکمتِ عملی کے تحت کمیونسٹ جیلوں سے رہا کیے جانے لگے۔۲۴جولائی ۱۹۴۲ء کو کمیونسٹ پارٹی اوف انڈیا پر سے پابندی ہٹالی گئی اور تقریباًدس سال بعد کمیونسٹ پارٹی دوبارہ ایک باقاعدہ قانونی جماعت کے طور پر کام کرنے لگی۔اب کمیونسٹ برطانوی سامراج کے دوست بن چکے تھے اور کانگرس سوشلسٹ پارٹی کے خلاف اوربرطانیہ کی حمایت میں کام کر رہے تھے۔کمیونسٹوں کو اپنے اخبارات نکالنے اور انجمنیں بنانے کی بھی اجازت مل گئی ۔اسی زمانے میں ’’دی پیپلز وار‘‘(عوامی جنگ)کے نام سے ایک اخبار بھی نکالا گیا۔اس نئی حکمتِ عملی نے ہندوستان کی جنگ آزادی کو نقصان پہنچایا۔
جولائی ۱۹۴۲ء میں عوامی سطح پر برصغیر کی فضا نفرت وغصہ کے جذبات سے معمور تھی۔کرپس مشن ناکام ہوچکا تھا۔۸۔اگست ۱۹۴۲ء کو کانگرس نے بمبئی کے اجلاس میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کردیا۔۹۔اگست کو کانگرس کے سارے لیڈر گرفتار کرلیے گئے۔عوام سڑکوں پر نکل آئے اور’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘QUIT INDIA))کا نعرہ گلی کوچوں میں گونجنے لگا۔میں اس وقت دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔کلاس ہورہی تھی کہ اچانک سکول پر ایک بڑ ے جلوس نے ہلّہ بول دیا۔بہت دیر تک پتھراؤ ہوتا رہا ۔ایک پتھر میرے ماتھے پر لگا اور میں خون میں لت پت ہو گیا ۔پولیس کی بھاری نفری مشکل سے اس جلوس کو وہاں سے ہٹانے میں کامیاب ہوئی۔اس واقعہ کا اثر آج تک میرے ذہن پر نقش ہے ۔اس دن وہ شعور میرے اندر جاگا کہ مجھے بھی آزادی کے لیے جدوجہدا ور انگریز کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
اس وقت کمیونسٹ پارٹی پوری طرح برطانوی سامراج کا ساتھ دے رہی تھی۔ایم آر مسانی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کمیونسٹ ،قومی وعوامی بغاوت کے خلاف ،برطانیہ کی حمایت کررہے تھے ۔ مزاحمت کرنے والے روپوش لیڈروں کو ففتھ کالمسٹ کا نام دے رہے تھے اور جاسوسی کرکے انہیں گرفتار کرارہے تھے———-وہ پولیس کے مخبر بن گئے تھے ۔اب کمیونسٹ ہڑتالوں کی بجائے مزدوروں سے زیادہ کام کرنے اور کسانوں سے زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے کہہ رہے تھے۔مسانی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس وقت کمیونسٹ پارٹی ملک کے اندر کام کرنے والی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی بالخصوص کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان ۔تحریکِ پاکستان کی بھی وہ اسی لیے مصلحتاً حمایت کر رہے تھے۔اسرارالحق مجازکا ترانۂ پاکستان بھی اسی زمانے میں لکھا گیا تھا۔کمیونسٹوں نے اس بات کا برملا اعلان کیا کہ سوویٹ روس کی طرح ہندوستان میں بھی ہر لسانی قومیت کو الگ ملک بنانے کا حق ہونا چاہئے۔
۱۹۴۲ء –۱۹۴۵ءتک کمیونسٹوں کی یہی حکمتِ عملی رہی اور برطانوی سامراج کی مدد وحمایت سے وہ ساری سیاسی فضا پر چھائے رہے۔انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن (IPTA)اسی زمانے میں وجود میں آئی۔جو پہلے سے موجود ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘کے ساتھ مل کر کام کرنے لگی ۔اس عرصے میں کمیونسٹ پارٹی برصغیر کے عوام سے کٹ چکے تھے۔قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے اس امر کے باوجود کہ کمیونسٹ تحریکِ پاکستان کی حمایت کررہے تھے‘انہیں اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔پاکستان ٹائمز کے نام سے اخبار نکالنے کا خیال بھی میاں افتخارالدین کو اسی زمانے میں آیا ۔اس وقت کمیونسٹ پارٹی کو صرف اعلیٰ طبقے کے ان دانشوروں کی حمایت حاصل تھی جن کے لیے خود کو کمیونسٹ کہلوانا ایک نئے فیشن کا درجہ رکھتا تھا۔اخلاق احمد دہلوی ؔنے ’’یادوں کا سفر ‘‘میں لکھا ہے کہ :
’’اس زمانے میں سجاد ظہیر عرف بنّے بھائی نے قائدِ اعظم سے انٹرویو حاصل کیا اور سننے میں آیا کہ سجاد ظہیر صاحب نے قائدِ اعظمؒ سے پاکستان کے اقتصادی مسائل پر گفتگو کی۔گفت وشنید اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ کہا جاتا ہے کہ قائدِ اعظمؒ نے فرمایا کہ’’ میں نے آپ کو وقت آپ کا نقطہ ء نظر سننے کے لیے دیا تھا سو وہ میں نے سُن لیا۔‘‘
یہی وہ زمانہ تھا کہ جب فیض احمد فیض برطانوی سامراج کی فوج میں داخل ہوئے اور فوجی وردی میں دلّی کی سڑکوں پر نظر آئے اور یہی وہ زمانہ تھا جب حفیظ ؔجالندھری کا یہ گیت سارے برصغیر کی فضاؤں میں گونج رہا تھا :۔
اڑوسن پڑوسن چاہے کچھ کہے ، میں تو چھورے کو بھرتی کراآئی رے