آپ نے ”ایوان اردو“ کے شمارہ جولائی ۱۹۹۸ءمیں جناب ناوک حمزہ پوری کا مضمون ”ماہیا اور اس کے اوزان“ شائع کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ناوک حمزہ پوری صاحب نے نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ ماہیے کی عروضی جستجو کی ہے۔ انہوں نے بحیثیت لوک گیت پنجابی ماہیے کی لَے (آہنگ) کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے بجا طور پر لکھا ہے کہ ”عروض“ کو آہنگ کا تابع ہونا چاہئے نہ کہ آہنگ ہی کو عروض کا غلام بنا دیا جائے۔“
میں چند چھوٹی چھوٹی لیکن ضروری وضاحتیں کرنا چاہتا ہوں۔
(۱) جناب شرون کمار ورما کے اس بیان پر ناوک صاحب نے انحصار کیا ہے کہ ”پنجابی میں ماہیے لکھنے کا رواج نہیں ہے۔ میں نے پنجابی کے کسی رسالے میں ماہیے نہیں دیکھے۔“ چنانچہ پھر انہوں نے لکھ دیا کہ ”ماہیا ابھی پنجابی ادب کا بھی حصہ نہیں۔“ یہ دونوں بیانات لاعلمی کا نتیجہ ہیں۔ پنجابی میں ماہیوں کے کم از کم تین انتخاب تو میرے علم میں ہیں۔ پاکستان کے بیشتر پنجابی اخبارات و رسائل میں نئے پنجابی شعراءکے ماہیے چھپتے رہتے ہیں۔ اردو کے دو ادبی رسائل ”تخلیق“ لاہور اور ”تجدید نو“ اسلام آباد میں کبھی کبھار پنجابی ماہیے چھپ جاتے ہیں۔ پنجابی میں ایم اے کرنے کے لئے دیگر لوک گیتوں کے ساتھ ماہیے کا مطالعہ ضروری ہے۔ ماہیا پنجابی ادب کا بھی حصہ ہے اور شاید اس لحاظ سے واحد صنف ہے جو پورے پنجابی معاشرے کی ترجمان ہے۔
(۲) ناوک صاحب نے لکھا ہے ”عام روایت کے مطابق حسرت اولین ماہیا نگار ہیں۔“ اس سلسلے میں پہلی وضاحت یہ ہے کہ اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما جی ہیں جنہوں نے ۱۹۳۶ءمیں فلم ”خاموشی“ کے لئے اردو ماہیے لکھے تھے۔ دوسری وضاحت یہ کہ تین ہم وزن مصرعوں کے مبینہ ماہیے جو چراغ حسن حسرت سے منسوب کئے جاتے ہیں۔ ۱۹۳۷ءکی تخلیق ہیں۔ فلم ”باغباں“ میں استاد برکت علی خان نے اس گیت کو کلاسیکل انداز میں گایا تھا نہ کہ پنجابی ماہیے کے انداز میں۔ حسرت کے نام کے ساتھ یہ بہ عنوان ”ایک گیت“ ہفت روزہ ”شیرازہ“ میں شائع ہوئے تھے لیکن ادھر ممتاز موسیقار نوشاد صاحب نے ماہنامہ ”شمع“ نئی دہلی شمارہ اکتوبر ۱۹۸۹ءمیں لکھا تھا کہ ”باغباں“ میں نو گیت تھے جو سارے مرزا اشرف نے لکھے تھے، انہیں ان گیتوں کا معاوضہ نوے روپے ملا تھا۔ یوں حسرت سے منسوب مذکورہ ثلاثی کا معاملہ ہی مشکوک ہوا جاتا ہے۔
(۳) ماہیے کی جو اجمالی تصویر ناوک صاحب نے پیش کی ہے وہ بھی مزید وضاحت چاہتی ہے۔ دسمبر ۱۹۹۷ءتک کم از کم ۴۵مضامین اور تبصرے چھپ چکے تھے اور صرف ۱۹۹۸ءمیں آج کی تاریخ تک مزید ۳۲مضامین چھپ چکے ہیں۔ ۱۰وضاحتی خطوط اور ۸تبصرے ان کے علاوہ ہیں۔ قمر ساحری، امین خیال، ضمیر اظہر، نذیر فتح پوری اور حیدر قریشی کے ماہیوں کے مجموعوں کے علاوہ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا مرتب کردہ ماہیوں کا ایک اہم انتخاب اور سعید شباب کا مرتب کردہ ایک انتخاب بھی پچھلے برسوں میں شائع ہو ئے تھے۔ میری تحقیق و تنقید کی یک موضوعی کتاب ”اردو میں ماہیا نگاری“ گذشتہ برس شائع ہوئی۔ ۱۹۹۸ءکے دامن میں یوسف اختر اور انور مینائی کے ماہیوں کے مجموعوں کے ساتھ میرے مضامین کا مجموعہ ”اردو ماہیے کی تحریک“ ٭ بھی موجود ہے اور بعض دیگر مجموعوں کی اشاعت بھی متوقع ہے۔
میں جناب ناوک حمزہ پوری کو اپنا بزرگ سمجھتا ہوں، کہیں کہیں انہوں نے بعض جملوں میں چٹکیاں لی ہیں تو میں نے انہیں ناوک صاحب کی بزرگانہ شوخیوں میں شمار کر کے ان کا مزہ لیا ہے۔ میرا ایک ماہیا ہے
چڑھتے ہوئے جامن پر
داغ لگا بیٹھے
ترے پیار کے دامن پر
اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ناوک صاحب نے لکھا ہے ”جب ماہیے کے پیر دستگیر ہی جامُن اور دامُن کا قافیہ لا سکتے ہیں تو عاشقان ماہیا کی کیا بساط۔“ میں نے اس طنز ملیح کا لطف اٹھایا ہے۔ وضاحتًا اتنی عرض ہے کہ میں نے اپنے ماہیوں میں پنجابی الفاظ کا کہیں کہیں تڑکا لگایا ہے۔ ویسے ہمارے یہاں تو اردو میں بھی جامَن ہی مستعمل ہے۔ جامع فیروز اللغات (پروناﺅنسنگ ڈکشنری) جسے ”انجم بکڈپو، جامع مسجد“ نے دہلی سے شائع کیا ہے، اس کے صفحہ نمبر ۴۴۳پر (ایڈیشن مطبوعہ ۱۹۸۷ء) جامَن، میم پر واضح زبر کے ساتھ چھپا ہوا موجود ہے۔ آگے
جو مزاج یار میں آئے۔
اب میں اصل مسئلے کی طرف آتا ہوں۔ جناب شارق جمال نے ماہیے کے لئے عروضی حوالے سے دو متبادل اوزان پیش کئے تھے۔
(۱) مفعول مفاعیلن (۲) مفعول مفاعیلن
فاع مفاعیلن مفعول فعولن
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
جناب ناوک حمزہ پوری نے ماہیے کے آہنگ سے مطابقت کی بناءپر پہلے وزن کو قبول کیا ہے اور دوسرے وزن کو ماہیے کے آہنگ سے مطابقت نہ ہونے کی بنا پر یہ کہہ کر قبول نہیں کیا ”ایسا کرنا میرے خیال میں آہنگ کو عروض کا غلام بنانا ہے جو میری نگاہ میں مستحسن نہیں۔“ میں بھی ماہیے کی لَے کے اصول کی بنا پر شارق جمال صاحب کے بیان کردہ پہلے وزن سے متفق ہوں لیکن دوسرا وزن چونکہ لَے میں نہیں آ رہا اس لئے اسے ماہیے کا وزن کہنا ممکن نہیں ہے۔ ویسے میں شارق جمال صاحب کے ماہیے کے سلسلے میں خلوص کا معترف ہوں اور مجھے یقین ہے کہ شارق صاحب اور ناوک صاحب دونوں بزرگ اردو میں ماہیے کے عروضی خدوخال کو واضح کرنے کے لئے محبت کے ساتھ جستجو کر رہے ہیں۔ جناب ناوک حمزہ پوری نے اردو کے عروضی نظام کے حوالے سے جو دو متبادل اوزان پیش کئے ہیں وہ بھی ماہیے کی لوک لے کے عین مطابق ہیں۔
(۱) فعلن فعلن فعلن/مفتعلن فعلن/فعلن فعلن فعلن
(۲) مفعولن مفعولن/مفعولن فعلن/مفعولن مفعولن
مجموعی طور پر اب تک آٹھ متبادل اوزان سامنے آ چکے ہیں۔ کسی عروضی بکھیڑے میں پڑے بغیر میرے لئے یہ سب کے سب اس لئے قابل قبول ہیں کہ یہ ماہیے کی پنجابی لَے میں فطری بہاﺅ کے ساتھ گنگنائے جا سکتے ہیں۔ ابھی تک کے دریافت شدہ آٹھ اوزان یہ بنتے ہیں۔
(۱) مفعول مفاعیلن (۲) فعلن فعلن فعلن
فعل مفاعیلن فعلن فعلن فع
مفعول مفاعیلن فعلن فعلن فعلن
(۳) فعلات مفاعیلن (۴) فعلاتن فعلاتن
فعل مفاعیلن فعلاتن فعلن
فعلات مفاعیلن فعلاتن فعلاتن
(۵) مفعول مفاعیلن (۶) مفعول مفاعیلن
فعل فعولن فع فاع مفاعیلن
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
(۷) فعلن فعلن فعلن (۸) مفعولن مفعولن
مفتعلن فعلن مفعولن فعلن
فعلن فعلن فعلن مفعولن مفعولن
پنجابی سے نآشنا اردو والے دوستوں کی آسانی کیلئے فلم پھاگن میں محمد رفیع اور آشا بھوسلے کے گائے ہوئے مکالماتی ماہیوں کا حوالہ دے رہا ہوں۔
تم روٹھ کے مت جانا/مجھ سے کیا شکوہ/دیوانہ ہے دیوانہ۔
اس دو گانے کی دھن کو معیار بنا لیں اور پھر مذکورہ بالا آٹھوں اوزان کو اس دھن پر گنگنا کر چیک کرلیں۔ یہ سارے اوزان اس دھن پر پورے اترتے ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے شعرایا پنجابی سے آشنا اردو شعراءکو اردو میں ماہیے کہتے وقت کسی عروضی حساب کتاب کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو ماہیے کی لَے کے بہاﺅ میں روانی سے ماہیے کہتے جاتے ہیں۔ یہ جو تھوڑا بہت عروضی تفہیم کا سلسلہ چلا ہے تو ان دوستوں کی سہولت کے لئے جو پنجابی ماہیے سے آشنا نہیں ہیں۔ ممکن ہے ان آٹھ اوزان کے علاوہ بھی مزید متبادل اوزان تلاش کرلئے جائیں۔ یوں ماہیے میں عروضی لحاظ سے خاصی آزادی مل جائے گی لیکن یہ ساری آزادی ماہیے کی لَے کے اندر ہی میسر ہوگی۔ جن دوستوں کو اردو کے عروضی قواعد سے ہٹنا اچھا نہیں لگتا وہ آخر الذکر تین اوزان کو آسانی سے اپنا سکتے ہیں۔
(مطبوعہ ماہنامہ ”ایوان اردو“ دہلی ستمبر ۱۹۹۸ء)
٭ ایک اہم وضاحت: میری کتاب ”اردو ماہیے کی تحریک“ ستمبر ۱۹۹۸ءتک چھپ کر ریلیز ہو جانا تھی لیکن محکمہ ڈاک کی خرابی کے باعث کمپوزنگ کی پروف ریڈنگ کیا ہوا سارا میٹر ناشر تک نہیں پہنچ پایا۔ تلاش اور انتظار کے بعد آخر نئی ڈمی نکلوائی گئی۔ اسی دوران کتاب کے مندرجات میں خط بنام ایڈیٹر ”ایوان اردو“ ”اردو ماہیا ۱۹۹۸ءمیں“ اور پنجابی لوک گیت۔ ماہیے کی تحریری ہیئت“ کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔ یوں کتاب قدرے تاخیر سے چھپ رہی ہے تاہم اس میں یہ تین تحریریں بھی شامل ہوگئی ہیں۔
٭٭٭٭