۱۹۹۷ءکا سال اردو ماہیے کے لئے ادب میں استحکام کا سال ثابت ہوا ہے۔ شعراءکرام نے اس نئی شعری صنف کو محبت کی نظر سے دیکھا اور اپنی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے مطابق اس کے امکانات کو آزمایا۔ تحقیق اور تنقید کے میدان میں اہم اور بنیادی نوعیت کے کام ہوئے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنی تازہ تحقیق سے ثابت کیا کہ ساحر لدھیانوی اور قمر جلال آبادی سے بھی پہلے ۱۹۳۷ءمیں ہمت رائے شرما نے اردو ماہیے کہے جو ۱۹۳۹ءمیں ریلیز ہونے والی فلم ”خاموشی“ کے لئے ریکارڈ کئے گئے۔ اردو ماہیے کے اس اولین نقش کے چند ماہیے یہاں درج کر دینا مناسب ہوگا۔
اک بار تو مل ساجن
آ کر دیکھ ذرا
ٹوٹا ہوا دل ساجن
سہمی ہوئی آہوں نے کچھ کھو کر پائیں ہم
سب کچھ کہہ ڈالا دور کہیں جا کر
خاموش نگاہوں نے اک دنیا بسائیں ہم
میری تحقیق و تنقید کی یک موضوعی کتاب ”اردو میں ماہیا نگاری“ اسی برس شائع ہوئی، تحقیق و تنقید کے ساتھ تخلیقی فعالیت کا بھی بھرپور مظاہرہ ہوا، ضمیر اظہر (مرحوم) کے ماہیے ”پھول کہانی“ کے نام سے شائع ہوئے، نذیر فتح پوری کے ماہیوں کا مجموعہ ”ریگ رواں“ اور امین خیال کے ماہیوں کا مجموعہ ”یادوں کے سفینے“ اس سال منظر عام پر آئے، سعید شباب کا مرتب کردہ ۳۵ماہیا نگاروں کا انتخاب ”اردو ماہیے“ کے نام سے شائع ہوا۔ ان پانچ کتابوں کے علاوہ گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ نے اپنی ایک خاص اشاعت اردو ماہیا نمبر کے طور پر پیش کی جس میں مختلف مضامین کے ساتھ ۵۳ماہیا نگاروں کے ماہیے شامل کئے گئے۔
جن ادبی رسائل اور اخبارات میں ماہیے یا ماہیے پر مضمون یا خطوط شامل ہوئے ان کی ایک ناتمام فہرست یوں ہے۔ ”اوراق“ لاہور، ”تخلیق“ لاہور، ”صریر“ کراچی، ”ارتکاز“ کراچی، ”الفاظ“ کراچی، ”کوہسار“ بھاگلپور، ”تیر نیم کش“ مراد آباد، ”جدید اسلوب“ سہسرام، ”گلبن“ احمد آباد، ”کتاب نما“ نئی دہلی، ”عوامی منشور“ کراچی، ”اردو ادب“ راولپنڈی، ”شاہین“ کوپن ہیگن، ”اقدار“ کراچی، ”جنگ“ لندن، ”نوائے وقت“ راولپنڈی، ”الاخبار“ راولپنڈی، ”میرٹھ میلہ“ میرٹھ، ”دیش بدیش“ بھاگلپور، ”راوی“ بریڈ فورڈ…. جن اخبارات و رسائل کے نام اس فہرست میں نہیں آ سکے وہ محض میری ان تک نارسائی کا ثبوت ہے تاہم ماہیے کے فروغ کے سلسلے میں ان کی خدمات قابل تحسین ہیں۔
”اوراق“ نے سال کے آغاز میں میرے ایک مضمون کے ساتھ چار درست وزن والے ماہیا نگاروں کے ماہیے شائع کئے۔ یوں ماہیے کا ایک غیر رسمی چھوٹا سا گوشہ سجایا گیا۔ ”شاہین“ نے بھی ماہیے کے فروغ کے لئے خصوصی کردار ادا کیا۔ سہ ماہی ”کوہسار“ کے ایک شمارہ میں بھی ہمت رائے شرما کو اردو ماہیے کا بانی قرار دینے والے تحقیقی مضمون کے ساتھ ۹ماہیا نگاروں کے ماہیے شامل کئے گئے جبکہ ایک اور شمارہ میں ماہیے پر ایک مباحثہ کراتے ہوئے ۳۳ماہیا نگاروں کے ماہیے شائع کئے گئے۔
پاکستان اور انڈیا میں پہلے سے جو ماہیا نگار سرگرم عمل ہیں، ان سے ہٹ کر نئے ماہیا نگاروں کی ایک بڑی تعداد اس طرف آئی۔ اس برس ماہیا نگاری کی طرف مائل ہونے والے شعراءکرام میں نذیر قیصر، شاہد جمیل، سجاد مرزا، شارق جمال، فرحت قادری، مسعود ہاشمی، یاسمین سحر، شرون کمار ورما، ناوک حمزہ پوری، علقمہ شبلی، عارف حسن خان، منور احمد منور، عاصی کاشمیری، اشعر اورینوی، نادم بلخی، فیضی سمبلپوری، سلیم احمد سلیم، یاسمین مبارک، نوید امین اعظم، دلشاد علی دلشاد، امجد حمید محسن، رافق زماں، انور شمیم انور، محی الدین غنی، اسلم حنیف، نسیم عزیزی، کندن لاہوری، شارق عدیل، امان اﷲ امان، فراغ روہوی، جوثر ایاغ، عبدالجلیل عباد، نور الحسن میکش، ظفیر الدین ظفر، نیئر حسین نیئر، قمر الزمان قمر اور کوثر بلوچ کے نام شامل ہیں۔ جبکہ پہلے سے ماہیا نگاری کرنے والے شعراءکرام میں سے جن کے نئے ماہیے سامنے آئے اور جو تخلیقی میدان میں فعال رہے ان میں سے قابل ذکر ماہیا نگاروں میں ان ناموں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ امین خیال، عارف فرہاد، مناظر عاشق ہرگانوی، شاہدہ ناز، قاضی اعجاز محور، احمد حسین مجاہد، ڈاکٹر صابر آفاقی، پروفیسر قمر ساحری، خاور اعجاز، طفیل خلش، نذیر فتح پوری، یوسف اختر، انور مینائی، پروین کمار اشک، سعید شباب، ذوالفقار احسن۔ یہ صرف چند فعال ماہیا نگاروں کے نام ہیں وگرنہ مجموعی طور پر یہ فہرست ۱۰۰ماہیا نگاروں سے زیادہ ہو چکی ہے۔
اس برس ماہیے کے مجموعوں پر تبصروں اور مضامین کے ساتھ ماہیے کی تفہیم کی بحث کا سلسلہ جاری رہا۔ مجموعی طور پر ۲۵مضامین اور ۴تبصرے شائع ہوئے۔ ان میں سے سات مضامین میں نے، تین مضامین ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی نے اور دو مضامین سعید شباب نے لکھے۔ دیگر مضمون نگاروں کے نام یہ ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر انور مینائی، ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری، مشتاق احمد، نصرت یاسمین، اجمل پاشا، عاشق حسین عاشق، طیب احمد اور امین خیال۔ ڈاکٹر بشیر سیفی، یوسف علی لائق اور غلام مصطفی بسمل نے اختلافی زاویئے کو ابھارا جس سے بحث آگے بڑھی اور جواب الجواب کے نتیجہ میں سچائی مزید نکھر کر سامنے آئی۔ تبصرہ نگاروں میں ثریا شہاب، سید ظفر ہاشمی، مقصود الٰہی شیخ اور سید اختر الاسلام کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ اول الذکر دو نے ”محبت کے پھول“ پر اور آخر الذکر دو نے ”رم جھم رم جھم“ پر تبصرے کئے۔
اردو ماہیے کے سلسلے میں انڈیا میں بھاگلپور کے حلقہ ادب کے زیر اہتمام ماہیا مشاعرہ کیا گیا۔ یہ مشاعرہ بہار ایگریکلچر کالج کے آڈیٹوریم میں ہوا جس میں ہندوستان کے متعدد ماہیا نگاروں نے شرکت کی۔ دسمبر ۱۹۹۶ءمیں ریلیز ہونے والی انڈین فلم ”اف یہ محبت“ کی خبر مجھ تک ۱۹۹۷ءکے شروع میں پہنچی۔ اس فلم میں وپن ہانڈا نے اردو ماہیے پیش کئے ہیں جبکہ اسی برس ممتاز پاکستانی شاعر نذیر قیصر نے فلم ”کانٹا“ کے لئے ماہیے لکھے جو ترنم ناز اور حامد علی خان نے گائے ہیں۔
میری چھت پر آیا کرو آنچل میں ستارے ہیں
جب میں سو جاﺅں جب سے تمہیں دیکھا
میری مکھیاں اڑایا کرو اس دن سے تمہارے ہیں
(وپن ہانڈا) (نذیر قیصر)
ادبی رسائل کے خطوط کے صفحات پر بھی ماہیے کے حوالے سے اس برس خاصی گہما گہمی رہی۔ عبدالعزیز خالد اور ڈاکٹر محمد امین کے خطوط میں ”بادسبز“ کے ماہیوں کی تعریف کی گئی۔ غلام جیلانی اصغر نے ماہیے کے مزاج کا مسئلہ اپنے مخصوص دلچسپ انداز میں اٹھایا۔ احمد حسین مجاہد نے درست وزن کے مسئلے پر ٹھوس موقف اختیار کیا لیکن سب سے اہم خط پروفیسر آل احمد سرور کا رہا۔ انہوں نے اردو ماہیے میں ہمت رائے شرما کی اولیت کو درست قرار دیا اور چراغ حسن حسرت کے مبینہ ”ماہیوں“ کی بطور ماہیا نفی کی۔ دو ماہی ”گلبن“ احمد آباد نے اپنی ستمبر اکتوبر کی اشاعت میں اعلان کیا ہے کہ ان کا نئے سال کا پہلا شمارہ ماہیا نمبر ہوگا۔ توقع ہے کہ یہ جائزہ چھپنے تک گلبن کا ضخیم ماہیا نمبر چھپ چکا ہوگا۔
پنجابی ماہیے کے و زن والا ماہیا اب اردو میں نہ صرف ٹھیک طرح پہچانا جا چکا ہے بلکہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود شعراءکرام میں مسلسل مقبولیت بھی حاصل کر رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اب ماہیے کی تفہیم اور ترویج کے لئے بات اس کے وزن کی بحث سے آگے بڑھے گی اور ادب میں اس کے ادبی اور ثقافتی کردار کی اہمیت پر غوروفکر کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ہمارے ماہیا نگار اور ماہیے کے ناقدین اپنا ادبی فریضہ حسن و خوبی سے ادا کریں گے۔ انشاءاﷲ
(مطبوعہ : ۱۔ روزنامہ ”نوائے وقت“ راولپنڈی، شمارہ ۸۹۔۲۔۳
۲۔ روزنامہ ”جنگ“ لندن، شمارہ ۸۹۔۲۔۹۱۔
۳۔ سہ ماہی ”کوہسار“ بھاگل پور، شمارہ مئی ۱۹۹۸ئ)