(یہ خط صریر میں شائع نہیں کیا گیا)
محترم ڈاکٹر فہیم اعظمی صاحب، سلام مسنون
”صریر“ کے مارچ ۱۹۹۷ءکے شمارہ میں ماہیے کے تعلق سے چھپنے والی تحریروں کی فوٹو کاپی آج ہی ایک دوست کے توسط سے ملی ہے۔ ماہیے کی بحث کے ضمن میں آپ کا نوٹ پڑھ کر خوشی ہوئی چونکہ وقت کے ساتھ عموماً خیالات بھی بدل جاتے ہیں۔ اس لئے سچی بات ہے کہ مجھے آپ کی طرف سے ماہیے کے بارے میں رویہ بہت زیادہ تبدیل ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ آپ کی کرم فرمائی کا شکر گذار ہوں۔ اب ایک وضاحت(+شکایت) بھی ہو جائے۔
آپ نے میرے دو مضامین کو ایک بنا دیا ہے۔ نیز پہلے مضمون کو جو بشیر سیفی صاحب کے مضمون کے جواب میں تھا، بہت زیادہ سنسر کر دیا ہے۔ بالخصوص ان کے جس غیر تحقیقی رویئے کی میں نے نشاندہی کی تھی آپ نے اسے حذف کر دیا ہے۔ مناسب سمجھیں تو بشیر سیفی صاحب کے جواب والا مضمون دوبارہ پورا چھاپ دیں تاکہ اصل حقائق مسخ نہ ہوں۔ اب آپ نے بشیر سیفی صاحب کا جو موقف شائع کیا ہے اس میں نہ تو کوئی نئی بات ہے نہ کسی غلطی کی نشاندہی۔ ”صریر“ ہی کے صفحات پر آج سے ۴سال پہلے ایک مضمون(۱) شائع ہوا تھا۔ دونوں مضامین کا موازنہ کر کے فیصلہ کرلیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ مضمون ”ماہیے کی ہئیت اور وزن“ اور ”ماہیے کی ڈیڑھ مصرعے کی ہئیت“ کے مطالعہ سے اصل حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ میرے نزدیک بشیر سیفی صرف اپنے دوستوں کے ثلاثی کو ”ماہیے“ منوانے کی کوشش رائیگاں میں مصروف ہیں وہ صرف روپ بدل کر ثلاثی کو ماہیا منوانا چاہتے ہیں۔
کل تک یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ تین ہم وزن مصرعوں کے ”ماہیے“کے چار مضمون چھپ چکے ہیں۔ آج یہ حالت ہے کہ درست وزن کو اپنانے والوں کی تعداد ۵۰سے بھی بڑھ چکی ہے۔ درست وزن کے یہ مجموعے چھپ کر منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ۱۔ محبت کے پھول (حیدر قریشی)، ۲۔ باد سبز (قمر ساحری)، ۳۔ریگ رواں( نذیر فتح پوری)، ۴۔ پھول کہانی (ضمیر اظہر)، ۵۔ یادوں کے سفینے (امین خیال)، دو انتخاب ”رم جھم رم جھم“ (مرتب ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی) اور ”اردو ماہیے“ (مرتب سعید شباب) چھپ چکے ہیں۔ گوجرانوالہ کے پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ کا اردو ماہیا نمبر شائع ہو چکا ہے۔ میرے خیال میں تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی ”ماہیے“ کے نام سے اب یا تو صرف وہ لوگ پیش کر رہے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے نقادوں کے زور بازو سے انہیں ”ماہیے“ منوا لیں گے یا پھر وہ لوگ جو دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کی کمی کا التزام نہیں رکھ سکتے۔ وگرنہ ماہیا نگاروں کی بہت بڑی اکثریت درست وزن میں ماہیا نگاری کی طرف مائل ہے اور یہ رویہ مسلسل فروغ پا رہا ہے۔
ماہیے کے وزن کے تعین کے سلسلہ میں پنجابی دانشوروں میں بھی اختلاف رہا ہے اور وہ خود اپنی تحریروں میں لکھ چکے ہیں کہ شاید کل کلاں کوئی اور صاحب اس معاملے میں بہتر کام کرسکے۔ پتہ نہیں ہم نے بہتر کام کیا ہے یا نہیں لیکن ماہیے کی اصل دھنوں کی بنیاد پر اس کے وزن کی دریافت کا جو اصول ہم نے بیان کیا ہے، وہ اتنا موثر ضرور ہے کہ برادرم بشیر سیفی بھی اس سے انکار نہیں کرسکے۔ ماہیے کی کسی معروف لوک دھن پر اس کے بیان کردہ تمام اوزان کو گنگنا کر باآسانی پرکھا جا سکتا ہے اور اصل وزن کو دریافت کیا جاسکتا ہے…. یار لوگ ابھی تک ماہیے کے وزن کے سلسلے میں کج بحثی کر رہے ہیں جبکہ ماہیے کی بحث اس کے مزاج کے اجزاءتک پہنچ چکی ہے۔ پچھلے دنوں مجھے ڈاکٹر کرسٹینا نے ہائیڈل برگ سے ایک خط لکھا اس میں انہوں نے ماہیے کے بارے میں اب تک کی پیشرفت پر خوشی کے اظہار کے ساتھ ایک ایسا سوال پوچھا ہے جس نے خود مجھے حیران کر دیا کہ یہ ایک اہم نکتہ تھا جس کی طرف ابھی تک کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔ میں ڈاکٹر کرسٹینا کے سوال+ کی بنیاد پر جلد ہی ایک مضمون لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اس کے نتیجے میں ماہیے کی تفہیم کا وزن اور مزاج کے بعد ایک اور اہم مرحلہ سامنے آئے گا۔ ادارہ صریر کے لئے نیک تمنائیں۔
والسلام
آپ کا
حیدر قریشی
۹۷۔۵۔۱۷
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ ”ماہیے کی ہئیت اور وزن“ از غزالہ طلعت، مطبوعہ ”صریر“ شمارہ اکتوبر ۱۹۹۳ء
+۔ ڈاکٹر کرسٹینا نے بعد میں ایک اور خط میں مزید دو سوال کئے تھے اور ان تینوں سوالوں کے جواب ”ماہیے کی کہانی“ میں اپنی بساط کے مطابق لکھ چکا ہوں۔