(پیش لفظ)
ماہیا پنجابی زبان کا لوک گیت ہے۔ شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات میں پنجاب کے دیہات میں ماہیے بڑے شوق سے گائے جاتے ہیں۔ ماہیے کا پہلا اور تیسرا مصرعہ ہم وزن ہوتا ہے جبکہ درمیانی مصرعہ اس وزن سے ایک ”سبب“ یعنی دو حرف کم ہوتا ہے۔ پنجابی زبان اتنی لچکدار ہے کہ اس کے الفاظ کو ضرورت کے مطابق کھینچ کر لمبا بھی کر لیا جاتا ہے اور الانگ بھی لیا جاتا ہے۔ زبان کے اس لچکیلے پن کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ خیال کیا کہ پنجابی ماہیے کے تینوں مصرعے ہم وزن ہیں اور بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس کا دوسرا مصرعہ پہلے اور تیسرے مصرعے سے بڑھ بھی جاتا ہے۔ ایسی غلط فہمیاں ان لوگوں میں پیدا ہوئیں جنہوں نے ماہیے کو صرف تحریری صورت میں دیکھا لیکن جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا ہے کہ ماہیا پنجابی زبان کا لوک گیت ہے۔ اس لوک گیت کی اپنی ایک مخصوص دھن ہے بہت سارے فلمی گیتوں میں ماہیے پیش کرتے وقت نئے نئے تجربات بھی کئے گئے لیکن تمام تجربات میں ماہیے کی بنیادی دھن کو ملحوظ رکھا گیا چنانچہ ماہیے کی تمام فلمی اور غیر فلمی دھنوں میں اس کی بنیادی دھن کی روح موجود ہے اسی روح سے ماہیے کے وزن کا فیصلہ ہوتا ہے کہ اس کا دوسرا مصرعہ پہلے اور تیسرے مصرعے سے ایک سبب کم ہوتا ہے۔
اردو میں ماہیے کا وزن ابھی تک ان دو صورتوں میں سامنے آیا ہے اور یہ دونوں وزن پنجابی ماہیے کے مطابق درست ہیں۔
۱۔ فعلن فعلن فعلن کچھ رشتے ٹوٹ گئے
فعلن فعلن فع برتن مٹی کے
فعلن فعلن فعلن ہاتھوں سے چھوٹ گئے
۲۔ مفعول مفاعیلن مل مہکی فضاﺅں سے
فعل مفاعیلن یار نکل باہر
مفعول مفاعیلن اندر کے خلاﺅں سے
اردو میں ماہیا نگاری کی موجودہ لہر کا آغاز اَسی کی دہائی میں ہوا۔ تب شعرائے کرام نے پنجابی ماہیے کے وزن کی نزاکت پر غور کئے بغیر تین یکساں وزن کے مصرعوں کے انبار لگانے شروع کر دیئے۔ کسی بھلے مانس کو اتنا خیال بھی نہ آیا کہ کبھی اپنے ”ماہیوں“ کو ماہیے کی دھن میں گنگنا کر بھی دیکھ لے۔ 1990ءمیں جب ماہیے کے اصل وزن کی طرف توجہ دلائی گئی تو تین یکساں مصرعوں کے ثلاثی ماہیے کے نام سے پیش کرنے والے شعراءکرام نے بجائے اصلاح کے برہمی کا مظاہرہ شروع کر دیا۔ تب میں نے ایک طرف ادبی رسائل میں وضاحتی خطوط اور مضامین چھپوائے تو دوسری طرف پنجابی ماہیے کے وزن کے مطابق اردو میں بھی ماہیے پیش کرنا شروع کر دیئے۔
میں ابتدائی تین چار برسوں میں صرف ۴۲ماہیے کہہ سکا۔ وجہ یہ تھی کہ میں ماہیے کہنے کیلئے بھی اپنے تخلیقی لمحوں کی آمد کا منتظر رہتا تھا۔ یہ اولین بیالیس ماہیے میرے دوسرے شعری مجموعہ ”عمر گریزاں“ میں میری غزلوں اور نظموں کے ساتھ چھپ چکے ہیں۔ بعد میں ماہیے کی بحث مزید آگے بڑھی تو اس سے مجھے تحریک ملی اور جب شعراءکی بھاری اکثریت غلط وزن کو چھوڑ کر (میرے بیان کردہ) اصل پنجابی ماہیے والے وزن کو اپنانے لگی تو اس سے بھی مجھے داخلی طور پر خاصی تقویت ملی۔ چنانچہ وقفے وقفے سے آنے والی متعدد تخلیقی لہروں نے میری ماہیوں کی دو سینچریاں پوری کر دیں تو میں نے انہیں کتابی صورت میں پیش کرنے کا ارادہ کرلیا۔
پنجابی ماہیے کا پہلا موضوع تو اپنے ماہی سے باتیں کرنا اور اپنے ماہی کی باتیں کرنا ہی ہے۔ ان میں محبوب کے حسن و جمال کی باتیں، پیار کے اقرار اور پیار میں تکرار کی باتیں، عہد و پیمان، ہجر، وصال، گلے، شکوے اور معاملہ بندی کی حد تک پہنچی ہوئی چھیڑ چھاڑ کی باتیں شامل ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر مختلف انسانی جذبات کا اظہار بھی ماہیوں میں ہوتا ہے۔ ماہیے کے موضوعات میں وسعت پیدا ہوئی تو حمد، نعت، منقبت اور دعائیں بھی ماہیے کے روپ میں کہی گئیں۔ زندگی کے مسائل دکھ سکھ، غم اور خوشیاں اور رشتہ داریاں بھی ماہیے کا موضوع بنتی گئیں۔ ماہیے میں جو بات بھی کہی جاتی ہے فلسفیانہ انداز کے بجائے دل میں اتر جانے والے انداز سے کہی جاتی ہے۔ میرے اردو ماہیے، پنجابی ماہیے کی اسی روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔ سرائیکی النسل ہونے کے باوجود میری مادری زبان پنجابی ہے اس لئے پنجابی ماہیے کی روایت میرے اندر رچی بسی ہوئی ہے۔ اس روایت سے منسلک رہ کر اردو میں ماہیے کہنے کے بعد مجھے ہمیشہ تخلیقی آسودگی کا احساس ہوا ہے۔ باقی خوب سے خوب تر کی لگن تو آخر دم تک رہتی ہے۔
یوں تو ہر ماہیا اپنی جگہ مکمل نظم ہوتا ہے تاہم میرے بعض ماہیے ایک ہی موضوع کے تحت ایک ہی لڑی میں ہوتے گئے۔ اپنے مولا کے حضور، سوہنی دھرتی، مکالمے کی صورت میں، ایک باغ میں ملنے والی ایک لڑکی،۵جولائی ۱۹۷۷ئ، شادی بیاہ، پھر وہی داستاں اور اکتساب کے عنوان سے جو ماہیے اس کتاب میں شامل ہیں سب اپنی اپنی موضوعاتی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور یہ ماہیے اسی تسلسل میں ہوئے تھے جبکہ باقی سارے ماہیے لخت لخت ہوئے تھے ۔
”محبت کے پھول“ مرتب کرتے وقت میں نے ان ماہیوں کے موڈ اور موضوع کے مطابق الگ الگ سیٹ بنائے تو یہ بھی بڑی حد تک اپنے اپنے عنوان سے مربوط نظر آنے لگے۔ تاہم یہ ماہیے بنیادی طور پر الگ الگ ہیں۔ آپ جیسے چاہیں انہیں پڑھ سکتے ہیں۔
کیا ”محبت کے پھول“ کے ماہیے پنجابی ماہیے کے وزن، مزاج اور روح کے مطابق ہونے کے ساتھ ماہیا نگاری میں کسی نئی خوشبو کا احساس دلاتے ہیں؟ اس کا فیصلہ محبت کرنے والے قارئین نے کرنا ہے۔
(مطبوعہ ماہیوں کا مجموعہ “محبت کے پھول“ ۱۹۹۶ء)