ادب میں نئے تجربات اس کی بقا اور ارتقا میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ بے جان اور پھیکے تجربات چند دنوں کے شور شرابے کے بعد اپنی موت آپ مر جاتے ہیں جبکہ صحت مند اور زبان سے موافقت رکھنے والے تجربات نئے ادب کی بنیاد بن جاتے ہیں۔ اردو میں ہائیکو کا مزاج جو جاپان کے فکری پس منظر سے مرتب ہوا تھا اسے نظر انداز کر دیا گیا بلکہ اس پر غور ہی نہیں کیا گیا۔ ہائیکو کے وزن کے معاملہ میں ۵، ۷، ۵سلیبلز کی پابندی تو درکنار یار لوگوں نے تین یکساں وزن کے مصرعوں کی نظمیں لکھ کر انہیں ہائیکو قرار دے دیا۔ جب ان غلطیوں کی نشاندہی کی گئی تو بعض شعراءنے ہائیکو کو چھوڑ کر ماہیا نگاری شروع کر دی۔ ہائیکو کے مزاج کے مسئلہ کے برعکس ماہیے میں یہ خوبی موجود ہے کہ اس کا مزاج پنجاب کی مٹی میں گندھا ہوا ہے اور اردو میں اسے آسانی سے اور خوبصورتی سے رائج کیا جاسکتا ہے لیکن تین یکساں مصرعوں کے ہائیکو لکھنے والوں نے ماہیے کے وزن پر بھی غور کئے بغیر تین یکساں مصرعوں کے ماہیے لکھنا شروع کر دیئے۔
ماہیا بنیادی طور پر لوک شاعری ہے۔ پنجاب کے دیہات میں شادی بیاہ کے مواقع پر آج بھی ماہیے بڑے شوق سے گائے جاتے ہیں۔ ماہیا کی اپنی ایک مخصوص دھن ہے۔ مسرت نذیر کے گائے ہوئے ماہیے ”چٹا ککڑ بنیرے تے“ اسی مخصوص دھن میں گائے گئے ہیں۔ متعدد پاکستانی اور بھارتی فلموں میں بھی ماہیے بطور گیت گائے گئے ہیں۔ ان فلمی گیتوں میں موسیقی کے مختلف تجربات کرنے کے باوجود ماہیے کی بنیادی دھن کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس دھن کے مطابق ماہیے کے پہلے اور تیسرے مصرعوں کا وزن برابر ہوتا ہے لیکن دوسرے مصرعے کا وزن اس سے دو حرف یعنی ”ایک سبب“ کم ہوتا ہے۔
کوٹھے اتوں اڈ کانواں
سد پٹواری نوں
جند ماہیے دے ناں لانواں
اردو زبان میں زحافات کی نشاندہی کر دی گئی ہے چنانچہ شاعری میں ایسے حروف کو حسب ضرورت گرایا جا سکتا ہے۔ پنجابی زبان میں چونکہ ایسا کوئی کلیہ موجود نہیں پھر اس زبان میں لچک بھی بہت ہے اس لئے اس میں متعدد ایسے حروف کو بھی گرا دیا جاتا ہے جو اردو میں زحافات میں شامل نہیں۔ زبان کی اس لچک کے باعث پنجابی کے بعض ماہیوں سے یہ دھوکہ ہوا کہ شاید تین یکساں وزن کے مصرعے پنجابی ماہیے میں رائج ہیں۔ اس مغالطے کو ماہیے کی مخصوص دھن پر آزما کر آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اپنی بات کو مثال دے کر واضح کرتا ہوں۔
چٹا ککڑ بنیرے تے
کاسنی دپٹے والیئے
منڈا صدقے تیرے تے
اس ماہیے کی گائیکی میں پہلے مصرعے کو معیار مقرر کر لیجئے۔ اسی لے میں اگر آپ تیسرے مصرعے ”منڈا صدقے تیرے تے“ کو اٹھانا چاہیں تو باآسانی اٹھا لیں گے کیونکہ پہلا مصرعہ اور تیسرا مصرعہ دونوں ہم وزن ہیں لیکن اسی لے پر اگر آپ دوسرے مصرعے (کاسنی دپٹے والیئے) کو اٹھانا چاہیں تو فوراً جھٹکا محسوس ہوگا اسی مقام پر ماہیے کے دوسرے مصرعہ کے فرق کی نزاکت کا پتہ چل جاتا ہے۔
اردو میں ماہیا نگاری کے شوق میں تین یکساں مصرعوں کی جو نظمیں لکھی گئیں ان میں بھی شعرائے کرام نے دریا دلی سے کام لیتے ہوئے من چاہی بحروں میں ماہیے ایجاد کر ڈالے۔ پنجابی ماہیے کے وزن کا خون کرنے والی چند مثالیں پیش ہیں۔
روشنی کا کہیں لشکر بھی نہیں
شب مرے شہر سے گذری لیکن
جاگتی صبح کا منظر بھی نہیں
(ماہیے از شارق جمال ناگپوری ۔مطبوعہ ماہنامہ ”نئی شناخت“ کٹک بھارت جلد نمبر ۱، شمارہ ۲)
اگرچہ اب قفس میں بھی نہیں ہوں
میں نیلے پانیوں پر کیا اڑوں گا
کہ اپنی دسترس میں بھی نہیں ہوں
(ماہیے از حسن عباس رضا۔ مطبوعہ ماہنامہ ”اوراق“ لاہور جون جولائی 1992ئ)
آوارہ خیالوں سے
کیا حال ہوا میرا
خود اپنی ہی سوچوں سے
(ماہیے از دیپک قمر مجموعہ کلام دیپک قمر)
شجر سے ٹوٹا
سکوت جیسے
حجر سے ٹوٹا
(ماہیے از فیروز مرزا مطبوعہ دو ماہی ”گلبن“ احمد آباد، جولائی، اگست 1993ئ)
پنجابی ماہیے کے دوسرے مصرعے میں دو حروف کم ہونے کا جو نازک سا فرق ہے اسے عام اردو دان اگر نہیں سمجھ پائے تھے تو اردو میں بھی ایسے ماہیوں کی مثالیں پہلے سے موجود تھیں جن میں پنجابی ماہیے والے وزن کو برتا گیا تھا۔ قمر جلال آبادی نے فلم پھاگن کے لئے اور ساحر لدھیانوی نے فلم ”نیا دور“ کے لئے جو ماہیے لکھے تھے وہ نہ صرف پنجابی وزن کے مطابق تھے بلکہ ان کی دھنوں میں بھی پنجابی ماہیے کی بنیادی دھن کو ملحوظ رکھا گیا تھا۔ اردو کے ماہیا نگار اگر ان کے ماہیوں کے وزن پر ہی غور کرلیتے تو ماہیے کے نام پر تین یکساں مصرعوں کے ثلاثی کے ڈھیر نہ لگا دیتے ۔مذکورہ دونوں شعراءکے اردو ماہیے دیکھ لیں جو پنجابی ماہیے کے وزن کے عین مطابق ہیں۔
دل لے کے دغا دیں گے تم روٹھ کے مت جانا
یار ہیں مطلب کے مجھ سے کیا شکوہ
یہ دیں گے تو کیا دیں گے دیوانہ ہے دیوانہ
(ساحر لدھیانوی) (قمر جلال آبادی)
اردو ماہیے میں وزن کی درستی کے مسئلہ کی طرف توجہ دلانے کے بعد متعدد ادباءنے ہمارے موقف کی تائید کی ہے۔ سعید شباب، افتخار احمد، خاور اعجاز، ملاپ چند، زاہد عباس، وحید انور، ناصر عباس نیر، غزالہ طلعت، پروفیسر عرش صدیقی اور ڈاکٹر فہیم اعظمی نے اس مسئلے کے مختلف پہلوﺅں پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ بیشتر مضامین اور تاثرات ماہنامہ ”صریر“، ماہنامہ ”تجدید نو“ ماہنامہ ”اوراق“ اور ”ہند سماچار“ (جالندھر) میں شائع ہوئے۔ بحث کھل کر ہوئی تو ماہیا نگاروں نے اصل وزن پر غور کیا چنانچہ اب ماہیا نگاروں کی اکثریت اصل وزن کو ملحوظ رکھنے لگی ہے۔ متعدد ماہیا نگاروں نے اصل وزن سے اپنی بے خبری کا اقرار کر کے درست وزن میں ماہیے کہے ایسے شعراءمیں خاص طور پر بھارت سے رسالہ ”اسباق“ کے مدیر نذیر فتح پوری اور پاکستان سے رسالہ ”تجدید نو“ کی مدیرہ شبہ طراز قابل ذکر ہیں۔ آخر میں درست وزن کو ملحوظ رکھنے والے ماہیا نگاروں کی چند مثالیں جن سے ماہیے کے وزن کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوگی۔
گیتوں کی روانی ہے امواج کے دھاروں تک
بحر یہی یارو اپنی کہانی ہے
ماہیے کی نشانی ہے طوفان سے کناروں تک
(سعید شباب) (نذیر فتح پوری)
لفظوں پہ نہ جا بابا بھادوں کا مہینہ ہے
عقل کی باتیں کیا حبس کی نگری میں
سن دل کی صدا بابا دم سادھ کے جینا ہے
(رشید اعجاز) (امین خیال)
ہر بات بنا لے گا آنکھوں میں اداسی ہے
اس کا زمانہ ہے میری طرح شاید
جو رنگ جما لے گا دھرتی بھی پیاسی ہے
(خاور اعجاز) (ارشد نعیم)
میں تم کو سزا دیتی مرشد سے نہ پیروں سے
پھول اگر ہوتے رفعت ملتی ہے
کاپی میں چھپا لیتی پاکیزہ ضمیروں سے
(شبہ طراز) (محمد اجمل جنڈیالوی)
کمرے میں پڑے صوفے سچائی گماں جیسی
درد جدائی کے رب نے بنائی نہیں
مرے ساجن کے تحفے نعمت کوئی ماں جیسی
(نوید رضا) (غزالہ طلعت)
ہم سہمے پرندے ہیں پھولوں سے بھری جھولی
سبز رُتوں میں بھی چاند ستاروں کی
پرواز سے ڈرتے ہیں پنگھٹ پہ کھڑی ٹولی
(حسن عباس) (نذر عباس)
کھیتوں میں کھلی سرسوں چمبیلی کی کلیاں تھیں
داغ جدائی کے اپنی جوانی تھی
مٹ سکتے نہیں برسوں اور شہر کی گلیاں تھیں
(رستم نامی) (حیدر قریشی)
ان تمام ماہیا نگاروں کے یہ ماہیے اور ایسے ہی دیگر ماہیے پنجابی کے وزن کے مطابق ہیں۔ ان سب کو ماہیے کی مخصوص دھن پر روانی سے گایا/گنگنایا جا سکتا ہے۔ ایسے تمام اردو ماہیے جو پنجابی کی دھن پر آسانی سے گنگنائے جا سکتے ہیں وہی درست ماہیے ہیں۔ اردو میں تین یکساں مصرعوں کے ثلاثی کو اور جو نام دے دیا جائے لیکن وہ ماہیے نہیں ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ ہماری تھوڑی سی محنت کے نتیجہ میں تین چار سال کے عرصہ میں ہی نہ صرف ماہیے کے وزن کے سلسلہ میں غلط فہمی دور ہوئی ہے بلکہ ماہیا نگاروں نے اصلاح احوال کے لئے درست وزن کو اپنا کر اردو ماہیے کے مزید امکانات کا در وا کر دیا ہے۔ وزن کی درستی کا مسئلہ طے ہونے کے بعد اب امید ہے کہ اردو ماہیا اپنے اصل مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے موضوعاتی تنوع کے ساتھ ارتقائی منزلیں طے کرتا ہوا اردو شاعری کی ایک مقبول صنف بن جائے گا لیکن اس کے لئے ہمارے ماہیا نگاروں کو خاصی ریاضت کرنا ہوگی۔
(مطبوعہ ڈیلی جنگ، لندن ادبی صفحہ 2 جون 1994ئ)