پنجابی لوک گیتوں کی اصناف میں ”ماہیا“ ایک اہم صنف ہے۔ یہ نام لفظ ”ماہی“ سے مشتق ہے۔ بھینس کو پنجابی میں ”مہیں“ کہتے ہیں۔ بھینسیں چرانے والے کو اس نسبت سے ”ماہی“ کہا جاتا تھا۔ پنجاب کی محبت کی داستانوں میں رانجھا اور مہینوال (عزت بیگ) دو ایسے کردار ہیں جنہوں نے اپنے اپنے محبوب تک رسائی حاصل کرنے کے لئے بھینسیں چَرانے کاکام کیا۔ ان کرداروں کی رومانوی قوت نے لفظ ماہی کو صرف ہیر اور سوہنی ہی کا محبوب نہیں بنایا بلکہ ہر محبت کرنے والی مٹیار کا محبوب ماہی قرار پایا۔ محب اور محبوب کے تعلق اور معاملات کے اظہار کے لئے پنجابی لوک گیتوں میں ”ماہیا“ کی صنف پروان چڑھی۔
اس صنف میں محبوب کے حسن و جمال، پیار، محبت، ملن، جدائی، گلے، شکوے، چھیڑ چھاڑ کے موضوعات عام ملتے ہیں۔ پھر موضوعات میں وسعت پیدا ہوئی تو ان میں زندگی کے مسائل اور دکھوں کا اظہار بھی ہونے لگا۔ حمدیہ، نعتیہ، ماہیے کہے گئے اور بزرگان دین کی توصیف کی گئی۔ دعائیہ ماہیے بھی لکھے گئے۔ روزمرہ زندگی کے معاملات اور رشتہ داریوں کے تذکرے بھی ہونے لگے۔
”ماہیا“ کے چند اور نام بھی ہیں جن میں ”بگڑو“ اور ”ٹپا“ قابل ذکر ہیں تاہم بحیثیت شعری صنف ”ماہیا“ مقبول ہوا۔ ہئیت کے لحاظ سے ماہیا کی تین چار قسمیں ہیں جو معمولی سے ردوبدل کے ساتھ چھ سے سات مصرعوں پر مشتمل ہیں۔ دوسری ہئیت کے ماہیے، سننے والوں نے عام لوک گیتوں میں شمار کئے۔ تین مصرعوں کی ہئیت والے پنجابی ماہیوں کی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
سونے دا کِل ماہیا دو کاج قمیضاں دے
لوکا دیاں رون اکھیاں اساں کل ٹر جانا
ساڈا روندا اے دل ماہیا فرمیل نصیباں دے
اکھ رو رو سک گئی اے کوٹھے اتوں اڈ کانواں
لوکاں دی مویاں مکدی سد پٹواری نوں
ساڈی جیوندیاں مک گئی اے جند ماہئے دے ناں لانواں
آری اتے آری اے کوٹھے اتے رسیاں نیں
اک دَم یوسف دا کچئیے زبان دِیئے
سارا مصر و پاری اے گلاں گھر جا دسیاں نیں
باری وچ کھیس پیا دھارے دی کنڈی آ
اک دم سجناں دا منڈیا لہور دیا
اووی ٹر پردیس گیا تری اکھ بڑی گنڈی آ
ترے عاشق رل گئے نیں دندا بُھر گیا آری دا
زخم و چھوڑے دے نما نما سک سرمہ
چناں مڑ کے کھل گئے نیں مڈھ بنھ گیا یاری دا
اردو میں غیر ملفوظی حروف تقطیع میں شمار نہیں ہوتے اور ان حروف کی عروض میں وضاحت موجود ہے۔ پنجابی میں اس سلسلے میں کوئی قاعدہ کلیہ موجود نہیں۔ اردو کے بہت سارے ملفوظی حروف بھی پنجابی میں گرا دیئے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے پنجابی ماہیے کے وزن کا تعین کرنا شاید مشکل ہو لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے کیونکہ ”ماہیا“ بنیادی طور پر گائی جانے والی صنف ہے اور مختلف دھنوں میں گائے جانے کے باوجود ہر دھن میں اس کا اصل وزن واضح ہو جاتا ہے۔ مختلف گلوکاروں نے فلمی اور غیر فلمی ماہیوں میں الگ الگ دھنوں پر جو گیت گائے ہیں ان کی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
ساڈی عجب کہانی اے رُکھ ساوے ساوے نہراں دے
بھل کے پرانے دکھڑے ہن دلا تری مرضی
نویں دنیا و سانی اے جتھے آکھ دئیں گا ٹھہراں دے
گھڑا بھر لیا پانی دا
پنڈ ول منہ کر کے
راہ تکنی آں ہانی دا (فلم ”میرا ماہی“)
کیوں مڑ مڑ تک دے او لکناں ای پیندا اے
بھانویں لکھ پردے کرو دل جدوں لگ جاوے
ساتھوں لک نئیں سکدے او کدوں وس وچ رہندا اے
اسیں آپے ای بھل گئے آں
ترے پچھے سجناںوے
سڑکاں تے رُل گئے آں (فلم ”یکے والی“)
اسمانی تارے نیں اے چھوٹیاں راتاں نیں
بازی دل والی چناں عمراں مک جانیاں
اسی جِت کے وی ہارے وے نئیں اومکنیاں باتاں نیں
پھل پک گئے ککراں دے
رب سانوں میل دتا
اسیں کدی وی نہ وچھڑاں گے (فلم ”چن تارا“ )
تک چن پیا جاندا ای نی تو میرے نال سجنی ایں
ویکھ ویکھ میرے چن نوں کی میں مثال دیاں
پیا مکھڑا چھپاندا ای مینوں کنی چنگی لگنی ایں
(فلم ”دو پتر اناراں دے“)
ساڈا نازک دل ماہیا گلاں پچھ نہ تو رات دیاں
کلیاں نو ںملے بھنورے اجے تک مستیاں نیں
ساہنوں تو گئیوں مل ماہیا مینوں اوسے ملاقات دیاں
(فلم ”پیشہ ور بدمعاش“)
ساڈے دل نے گواہ ماہیا چٹا ککڑ بنیرے تے
تیری میری اک جندڑی کاسنی دپٹے والیئے
بھانویں بت نے جدا ماہیا منڈا صدقے تیرے تے
(فلم ”ذیلدار“) (غیر فلمی ”مسرت نذیر“)
یہ آٹھ گیت الگ الگ دھنوں میں گائے گئے ہیں تاہم ہر دھن سے ”ماہیے“ کا اصل وزن پوری طرح ظاہر ہو رہا ہے۔ کسی بھی گانے کی دھن میں ماہیے کا پہلا مصرعہ اٹھاتے وقت جو لَے ہوتی ہے تیسرے مصرعے کو بھی اسی طرح اٹھایا جا سکتا ہے لیکن دوسرے مصرعے کو پہلے مصرعہ کے انداز میں اٹھانا چاہیں تو لے ٹوٹ جاتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ماہیے کے پہلے اور آخری، دونوں مصرعے یکساں وزن کے ہیں لیکن دوسرا مصرعہ اس وزن میں نہیں ہے۔ میں نے پنجابی ماہیے کے بارے میں پنجابی ادبا کی کتب سے بھی استفادہ کیا ہے اور اپنے طور پر غور و خوض کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پنجابی ماہیے کا وزن پہلے مصرعے میں ”مفعول مفاعیلن“ کے مطابق ہے جبکہ دوسرے مصرعے کا وزن ”فعل مفاعیلن“ کے مطابق ہے۔ پنجاب زبان کی لچک کے باعث کہیں کہیں دوسرا مصرعہ ”فعلن مفاعیلن“ کے وزن پر بھی آ جاتا ہے۔ اردو میں یہ دونوں وزن غالباً کسی بحر میں نہیں آتے۔ اس کے باوجود پنجابی ماہیے میں مفعول/مفاعیلن/فعل مفاعیلن/مفعول مفاعیلن کے وزن میں جو روانی اور ترنم ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔ مذکورہ بالا گیتوں کی آٹھ مختلف دھنوں میں سے کسی دھن پر بھی اس وزن کو آزما کر دیکھ لیں روانی قائم رہے گی۔
اردو میں ماہیے لکھنے والے شعرائے کرام نے پنجابی ماہیے کے دوسرے مصرعے کے حقیقی وزن پر غور کئے بغیر تین یکساں مصرعوں مفعول مفاعیلن/مفعول مفاعیلن/مفعول مفاعیلن میں ماہیے لکھے ہیں جو درست نہیں ہے۔ ابتداءمیں جن شعراءنے اسے اپنایا بعد میں آنے والوں نے انہی کی تقلید کی اور یوں گذشتہ چند برسوں میں اردو ماہیا بھیڑ چال کا شکار رہا۔ تین یکساں مصرعوں میں ماہیے لکھنے والوں کو ماہیا نگاری میں سہولت تو ہوگئی لیکن اس سے پنجابی ماہیے کی روح اور جسم دونوں کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ اصل پنجابی وزن کے مطابق ماہیے لکھ کر ہمیں تھوڑی بہت محنت ضرور کرنا پڑے گی لیکن اس سے جہاں ماہیے کی ثقافتی جڑوں سے ہم منسلک ہوں گے وہیں اردو میں بھی ایک انوکھا اضافہ ہوگا۔ ماہیے کے دوسرے مصرعے کا وزن فعل مفاعیلن کی صورت میں یقیناً ایک انوکھا اور دلچسپ اضافہ ہوگا۔
اردو میں تین یکساں مصرعوں کے غلط ماہیے کے رواج سے پہلے اردو میں ہی پنجابی وزن کے مطابق ماہیے کہنے کی دو عمدہ مثالیں موجود ہیں۔ پانچویں دہائی کے اخیر اور چھٹی دہائی کے آغاز میں بھارت کی دو فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔” پھاگن“ اور” نیا دور“۔ ان فلموں میں پنجابی وزن کے مطابق اردو ماہیے گیت کی صورت میں پیش کئے گئے تھے۔ فلم پھاگن کے ماہیے قمر جلال آبادی نے لکھے تھے اور نیا دور کے ساحر لدھیانوی نے۔ یہاں دونوں شعراءکے مذکورہ ماہیے درج کئے دیتا ہوں تاکہ میرے بیان کردہ ماہیے کے وزن کی مزید تصدیق ہوسکے۔
قمر جلال آبادی-:
تم روٹھ کے مت جانا کیوں ہوگیا بے گانہ
مجھ سے کیا شکوہ ترا مرا کیا رشتہ
دیوانہ ہے دیوانہ یہ تو نے نہیں جانا
میں لاکھ ہوں بیگانہ فرصت ہو تو آ جانا
پھر یہ تڑپ کیسی اپنے ہی ہاتھوں سے
اتنا تو بتا جانا مری دنیا مٹا جانا
ساحر لدھیانوی-:
دل لے کے دغا دیں گے دنیا کو دکھا دیں گے
یار ہیں مطلب کے یاروں کے پسینے پر
یہ دیں گے تو کیا دیں گے ہم خون بہا دیں گے
آج سے دو سال پہلے سرگودھا کے نوجوان شاعر ممتاز عارف نے ”اوراق“ شمارہ اگست 1990ءمیں اپنے ایک خط کے ذریعے اردو ماہیا نگاروں کو پنجابی کے اصل وزن کی طرف توجہ دلائی تھی۔ ”اوراق“ کے اس سے اگلے شمارے میں (بابت ماہ دسمبر 1990ئ) میں نے اپنے خط میں لکھا تھا۔
”ممتاز عارف نے اپنے خط میں ماہیے کے وزن کا مسئلہ اٹھایا ہے جو خاصا وزن رکھتا ہے۔ میرا خیال ہے ہمارے ماہیا نگاروں کو باہم طے کر لینا چاہئے کہ انہیں اردو ماہیے کو اصل پنجابی ماہیے کی طرف رکھنا ہے یا اس کا حشر بھی ہائیکو جیسا کرانا ہے۔“
یہاں یہ دلچسپ وضاحت بھی کر دوں کہ تین یکساں مصرعوں کے ماہیے لکھنے والے بیشتر شعراءوہی ہیں جو تین یکساں مصرعوں میں ہائیکو بھی لکھتے رہے ہیں۔ اب جہاں ہائیکو کے اصل وزن کا مسئلہ حل ہو رہا ہے، ماہیے کے وزن کا مسئلہ بھی طے ہو جانا چاہئے۔ اوراق میں اپنا مذکورہ بالا خط بھیجنے کے بعد میں نے اصلاح احوال کے لئے خود بھی اردو میں چند ماہیے کہے تاکہ اردو میں اصل وزن کی مثالیں سامنے آ سکیں۔ یہ ماہیے ”ادب لطیف“، ”تجدید نو“، ”صریر“ اور ”ابلاغ“ میں شائع ہوئے۔ اپنے چند ماہیے اسی وزن کے حوالے سے درج کر رہا ہوں۔
مسجد ہے نہ مندر ہے سوہنی ہے نہ ہیر ہے وہ
دل یہ ہمارا تو اس کی مثال کہاں
اک دکھ کا سمندر ہے آپ اپنی نظیر ہے وہ
جوگی کے نہیں پھیرے مل مہکی فضاﺅں سے
دل جہاں آ جائے یار نکل باہر
وہیں ڈال دیئے ڈیرے اندر کے خلاﺅں سے
دریا کی روانی ہے
اب مرے بیٹے میں
مری گذری جوانی ہے
تجدید نو کی مدیرہ شبہ طراز خود بھی ماہیے لکھتی ہیں۔ انہوں نے وزن کے معاملے میں گڑ بڑ کی نشاندہی پر حیرت کا اظہار کیا اور میرے ماہیے خوشی سے شائع کئے۔ میرے موقف سے اصولی اتفاق بھی کیا لیکن ایک اور رسالے ابلاغ کی مدیرہ نے جو بدقسمتی سے پہلے تین یکساں مصرعوں کے ہائیکو لکھتی رہی تھیں اور اب تین مصرعوں کے ماہیے لکھ رہی ہیں، میرے ماہیے تو چھاپ دیئے لیکن اس کے ساتھ ہی میرے خلاف محاذ کھول دیا۔ میرے لئے یہ تجربہ بیک وقت دلچسپ بھی تھا اور افسوسناک بھی۔ تاہم اس مخالفت کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ دوسرے شعرائے کرام اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوگئے اور ماہیے کے وزن پر سنجیدگی سے غور کرنے لگے۔ چند ماہ کی مختصر سی مدت میں اس مسئلے پر مضامین بھی چھپنے لگے اور بعض شعرائے کرام نے پنجابی وزن کے مطابق ماہیے لکھنے شروع کر دیئے۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح ہائیکو نگاروں کو اصل وزن ملحوظ رکھنا پڑا یا ہائیکو نگاری چھوڑنا پڑی اس طرح ماہیا نگار شعراءبھی جلد ہی پنجابی ماہیے کے اصل وزن کی طرف رجوع کر لیں گے اور خود ساختہ وزن ترک کر دیا جائے گا۔
جن شعراءکرام نے پنجابی ماہیے کے وزن کے مطابق اردو ماہیے کہے ہیں ان کے چند نمونے درج کر رہا ہوں۔
حسن عباس رضا -:
دل اپنے کشادہ تھے ہم سہمے پرندے ہیں
اس لئے رونا پڑا سبز رتوں میں بھی
ہم ہنستے زیادہ تھے پرواز سے ڈرتے ہیں
سعید شباب-:
ہنستا ہے نہ روتا ہے اک بوند کی ہستی ہے
دل کا محبت میں دل کی حقیقت کیا
یہ حال بھی ہوتا ہے بس خون کی مستی ہے
نذر عباس -:
دو لفظ کہانی کے یہ سلسلہ جاری ہے
کاٹے نہیں کٹتے پیار کی بازی تو
یہ لمحے جوانی کے جیتی کبھی ہاری ہے
اجمل جنڈیالوی-:
مرشد سے نہ پیروں سے مولا کی عطائیں ہوں
رفعت ملتی ہے سامنے آنکھوں کے
پاکیزہ ضمیروں سے طیبہ کی فضائیں ہوں
ارشد نعیم-:
شب ڈھلنے والی ہے ندیا کے کنارے ہیں
سورج نکلے گا ہار کے جیتے تم
ترے مکھ پر لالی ہے ہم جیت کے ہارے ہیں
نوید رضا -:
دھرتی پہ اُگے بوٹے کمرے میں پڑے صوفے
جاگ پڑی آنکھیں درد جدائی کے
پر خواب نہیں ٹوٹے مرے ساجن کے تحفے
مجھے امید ہے کہ یہ ماہیے بارش کے پہلے قطروں کی طرح ثابت ہوں گے اور وہ تمام ماہیا نگار جو اَب تک بے خبری کے باعث تین یکساں مصرعوں کے ماہیے لکھتے رہے ہیں اب ماہیے کے اصل وزن (مفعول مفاعیلن/فعل مفاعیلن/مفعول مفاعیلن/۔۔یا۔۔ مفعول مفاعیلن/فعلن مفاعیلن/مفعول مفاعیلن) میں ماہیے کہنے لگیں گے اور پھر اس کے اصل وزن میں اپنے بھرپور تخلیقی ممکنات کو کھل کر سامنے آنے کا موقع دیں گے۔
(مطبوعہ ماہنامہ ”صریر“ کراچی شمارہ ۔ دسمبر 1992ئ)
٭٭٭٭٭٭٭٭