۱۹۹۶ءکے آخر تک میری کتاب” اردو میں ماہیا نگاری“ مکمل ہوئی اور ۱۹۹۷ءکی تیسری سہ ماہی تک چھپ گئی ۔ اور اب ۱۹۹۸ءمیں ماہیے کے تعلق سے لکھے گئے اپنے اب تک کے مضامین کا مجموعہ شائع کرا رہا ہوں۔
”اردو میں ماہیا نگاری“ یک موضوعی کتاب تھی اسے لکھتے وقت میں ۱۹۹۶ءکے پائیدان پر کھڑا ہو کر گزشتہ چھ برسوں کی بحث کا منظر دیکھ رہا تھا جبکہ ”اردو ماہیے کی تحریک“ کے مضامین فاصلے سے منظر کو دکھانے کی بجائے لمحہ لمحہ کی کہانی سناتے ہیں۔ ماہیے کی بحث کے ریکارڈ کی درستی کے لئے چند اہم خطوط بھی اس مجموعہ میں شامل ہیں۔ ان مضامین اور خطوط سے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ ماہیے کو سمجھنے کے عمل میں بتدریج بہتری آتی گئی ہے۔ جہاں اس کے وزن کا بنیادی اصول اپنی جگہ اٹل ثابت ہو اہے وہیں اس کے بعض ایسے گوشے بھی بحث سے روشن ہوتے چلے گئے ہیں جو اس سے پہلے نظروں سے اوجھل تھے۔ ابھی تک معترضین کا کوئی ایک بھی ایسا اہم اعتراض نہیں ہے جس کا مدلل جواب نہ دے دیا گیا ہو۔ لیکن معترضین کا یہ کمال رہا ہے کہ ہماری طرف سے دی گئی دلیل کے جواب میں کوئی مدلل بات کرنے کی بجائے گھما پھرا کر پھر اسی اعتراض کو دہرا دیتے ہیں۔ ایسے رویہ کے نتیجہ میں ہمارے جواب الجواب میںہمارے موقف کی تکرار بھی ہوئی، تاہم ہمارے موقف کی وضاحت میں جہاں کہیں پہلی بات دہرائی گئی ہے وہیںکوئی نہ کوئی نیا علمی نکتہ بھی سامنے آگیا ہے۔
٭ میں نے اپنی گزشتہ کتاب کے ”اختتامیہ“ میں اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ ”ماہیے کے خدوخال کو نکھارنے اور سنوارنے کے لئے تخلیقی اور تحقیقی دونوں لحاظ سے مزید پیش رفت ہو گی“۔ تخلیقی پیش رفت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ تب ماہیا نگاروں کی تعداد ۶۵تھی اور دو سال کے اندر اندر یہ تعداد دو سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ ماہیا ہر خاص وعام کو اپنا گرویدہ بنا رہاہے۔
٭ تحقیقی لحاظ سے بھی نئے انکشافات ہوئے ہیں۔میں نے تب تک کی معلومات کی بناءپر قمر جلال آبادی کو اردو کا پہلا ماہیا نگار قرار دیا تھا۔ اب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ۱۹۳۶ءمیںہمت رائے شرما نے سب سے پہلے ماہیے کہے تھے۔ سو وہ اردو ماہیے کے بانی ہیں۔
٭ تب میں نے مکالماتی ماہیے کا اولین نمونہ قمر جلال آبادی کے ماہیوں کو بیان کرنے کے ساتھ اپنے مکالماتی ماہیوں کو دوسرے نمبر پر اور قاضی اعجاز محور کے مکالماتی ماہیوں کو تیسرے نمبر پر قرار دیا تھا لیکن اب پاکستانی فلم ”حسرت“اور انڈین فلم ”پتی، پتنی اور وہ“ کے مکالماتی ماہیے بھی سامنے آگئے ہیں اور ہو سکتا ہے کل کلاں مزید ایسے مکالماتی ماہیے بھی دریافت ہو جائیں۔یہ امر خوش کن ہے کہ تخلیقی اور تحقیقی دونوں لحاظ سے اردو ماہیے میں پیش رفت ہو رہی ہے اور ماہیے کی تنقید لکھنے والوں کی ایک موثر تعداد بھی سامنے آگئی ہے جو ماہیے کے وزن کو بخوبی سمجھتے ہوئے اب تخلیق کئے گئے ماہیوں کے تنقیدی جائزہ اور ان کے محاسن پر توجہ کر رہی ہے۔
” اردو میں ماہیا نگاری“ کے ابتدائیہ میں۔۔ میں نے اختلاف رائے رکھنے والے تین طرح کے احباب کا ذکر کیا تھا۔
۱۔ وہ احباب جو خلوص اور نیک نیتی سے سمجھتے تھے کہ شاید ماہیے کا وزن دونوں طرح سے ہے۔ اس لئے ماہیے کے دونوں وزن ٹھیک ہیں۔
۲۔ وہ احباب جو پہلے تین ہم وزن مصرعوں کے ماہیے لکھ رہے تھے۔ بعض کی ایسے ماہیوں کی کتابیں تک چھپ گئی تھیں۔ انہوں نے حقیقت حال ظاہر ہوجانے کے بعد اپنے غلط وزن کے ماہیوںکو منوانے کے لئے امداد باہمی کے طور پر مہم چلائی تاہم ذاتی پریشانی کے باعث ان احباب نے طے شدہ نتائج حاصل کرنے والا تحقیقی انداز اختیار کرنے کے باوجود زیادہ تر ادبی زبان میں اپنا موقف پیش کیا۔
۳۔ وہ کرم فرما جو مجھ سے کسی اور سبب سے ذاتی طور پر ناراض تھے انہوں نے محض مجھے نیچا دکھانے کی غرض سے خلط مبحث کیا۔ حقائق کو دیدہ دانستہ مسخ کیا ۔ ادبی فضا گرد آلود کی۔ یہ کرم فرما ماہیے کی آڑ میں اپنی زخمی انا کے لئے مرہم چاہتے ہیں۔ بصورت دیگر گرد اڑاتے رہیں گے“۔
اس میدان میں بھی پیش رفت ہوئی ہے۔ اول الذکر اختلاف رائے رکھنے والے دو طرح کے احباب میں سے بعض نے ہمارے اصولی موقف کی معقولیت کو تسلیم کیا ہے لیکن مزید دو طرح کے مخالفین بھی سامنے آگئے ہیں۔
٭ بعض ادبی یتیم قسم کے نقاد جو طویل عرصہ سے لکھنے کے باوجود اپنی کوئی شناخت نہیں بنا سکے تھے انہوں نے ماہیے کی تحریک کی اپوزیشن بن کر نام کمانے کو غنیمت سمجھا ہے لیکن علمی سطح پر انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ ماہیا مال غنیمت نہیں ہے۔
٭ ایسے لوگ جو کسی کی اچھی کار کردگی سے خواہ مخواہ حسد کرنے لگتے ہیں۔ ان میں اپنے بھی شامل ہیں اور پرائے بھی۔ بلکہ اپنے ہی زیادہ ہیں۔ اس سلسلہ میں بعض مہربانوں نے براہ راست اور بعض نے بالواسطہ طور پر اس غم وغصے کا اظہار بھی کر دیا ہے کہ یہ شخص ماہیے کے ذریعے شہرت پانا چاہتا ہے۔ ماہیے کا بانی بننا چاہتا ہے ۔۔وغیرہ۔
پنجابی ماہیے کے وزن کے بارے میں رواروی میں کہہ دیا جاتا ہے کہ پنجابی میں دونوں اوزان کے ماہیے ملتے ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ اگر پنجابی ماہیے کے الفاظ کو اردو عروض کے گھیرے میں لینے کی کوشش کی جائے تو صرف مذکورہ دو نہیں یہ ساری صورتیں پیش آتی ہیں۔
۱۔ ماہیے کا دوسرا مصرعہ، پہلے اور تیسرے مصرعوں کے وزن کے مقابلے میں ایک سبب کم بھی ہوتا ہے۔
۲۔ ماہیے کا دوسرا مصرعہ ، پہلے اور تیسرے مصرعوں کے وزن کے برابر بھی ہوتا ہے۔
۳۔ ماہیے کا دوسرا مصرعہ، پہلے اور تیسرے مصرعوں کے وزن کے مقابلہ میںایک سبب زائد بھی ہوتا ہے۔
۴۔ ماہیے کے دوسرے مصرعہ کی طرح ماہیے کے پہلے اور تیسرے مصرعوں کا وزن بھی کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتا رہتا ہے۔
ایسی پیچیدہ صورتحال میںہم نے اردو عروض کی ”تکنیکی کرتب بازی“ کرنے والوں کے برعکس ماہیے کے وزن کی دریافت کا ایسا سیدھا سادہ اصول بتایا ہے کہ سارے الجھاﺅ از خود ختم ہو جاتے ہیں اور وہ اصول یہ ہے کہ پنجابی ماہیے کے وزن کو اس کے الفاظ کی بجائے اس کی دھن سے دریافت کیا جائے ۔
اردو ماہیے کی حالیہ تحریک سے پہلے بھی جتنے اردو ماہیے(فلموں کے لئے) پنجابی ماہیے کی دھن کی بنیاد پر لکھے گئے ان کا وزن بھی ہمارے موقف کے مطابق دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کی کمی کے ساتھ ہے اور اب بھی فلموںکے لئے جتنے اردو ماہیے۔۔ پنجابی ماہیے کی دھن کی بنیاد پر لکھے جا رہے ہیں ان کا وزن بھی ہمارے موقف کی تصدیق کرتے ہوئے ماہیے کے فطری بہاﺅ اور روانی کو اجاگر کرتا ہے۔۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کوئی فیصلہ کن علمی بات کرنے والوں کو اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد کسی حتمی نتیجہ تک پہنچنا چاہئے۔
اگر ہمارا موقف مضبوط ہے تو سنجیدہ اختلاف رائے رکھنے والوں سے لے کر حاسدین تک۔۔ ہر ایک کے لب ولہجے کے مطابق ، اسی انداز میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے رہیں گے۔ اس مجموعے میں بھی ایسی مدلل وضاحتیں موجود ہیں۔ میں اپنے موقف کو پورے اعتماد کے ساتھ ادبی دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں اور ادبی تاریخ کے سپرد کرتا ہوں۔
حیدر قریشی