مولا کی عنایت تھی
اپنے مقدر میں
جرمن کی ’’ولایت‘‘ تھی
خوش قسمتی کا مارا
دل کلّہم کلہا
اور کثرتِ نظارا
یورپ کا نگینہ ہے
اُبھرا ہوا دیکھو
اِس دھرتی کا سینہ ہے
خود کا ر نظام ملے
جرمنی میں آ کر
کتنے آرام ملے
یہ دیس حسینوں کا
حال نہیں پوچھو
گرمی کے مہینوں کا
رنگین نظاروں کا
پت جھڑ میں بھی یہاں
منظر ہے بہاروں کا
ٹھنڈک میں اُبلتے ہیں
برف پڑے جتنی
جسم اتنے مچلتے ہیں
یا کچھ بھی نہ بتلانا
اور اگر کھلنا
کھلتے ہی چلے جانا
پہنچا جو حسینوں میں
دل بھی ہوا شامل
خود کا ر مشینوں میں
ایسے دیوانے ہیں
پل بھر کے ساتھی
اور پھر بے گانے ہیں
دولت کی فراوانی
چھین گئی ان سے
جذبے اور حیرانی
پر قوم یہ اچھی ہے
دھُن کی بھی پکی
اور قول کی سچی ہے
اِس ملک میں گر آتے
یار مجید امجد!
تم پاگل ہو جا تے
رنگوں کی ہیں برساتیں
ڈھونڈنے نکلو تو
ہیں سینکڑوں شالاطیں٭
(٭شالاط ایک جرمن لڑکی تھی جس کی مجید امجد کی زندگی میں ایک خاص اہمیت ہے)
جلووں کی فراوانی
خاک مگر ہوگی
اس عمر میں نادانی