بچپن کے خزانے میں
کتنے زمانے تھے
اُس ایک زمانے میں
اک یا د تھی بستے میں
کھو گئی جانے کہاں
اِس عمر کے رستے میں
جو چاہا بنا ڈالا
لکھا سلیٹوں پر
جب چاہا مٹا ڈالا
دن تو وہی اچھے تھے
جب اسکول کے ہم
چھوٹے سے بچے تھے
کوئی کچی پنسل تھا
پیار ہمارا بھی
سعئ لا حاصل تھا
تختی کو سُکھاتے تھے
خواب سہا نے تھے
پَر دِل کو دُکھاتے تھے
وہ سُر ، سنگیت گیا
قلم، دواتوں کا
اک دور تھا ، بیت گیا
ہر رسم اُٹھا دی ہے
’’کوکلا‘‘ کھیلے ہیں
بچپن کو صدا دی ہے
کچھ یادیں اُترتی ہیں
بکھری ٹھیکریاں
’’پِٹھُو‘‘ کی سنورتی ہیں
جیتا ، کبھی ہارا تھا
’’گلی ، ڈنڈا ‘‘ بھی
اک کھیل ہمارا تھا
’’فٹ بال ‘‘ میں تیکھے تھے
اور’’ کبڈی ‘‘کے
کچھ داؤ بھی سیکھے تھے
’’اشٹاپوُ‘‘ کے خانوں میں
قید ہے دل اب تک
بچپن کے زمانوں میں
چاہت کی گواہی کا
کھیل لڑکپن کا
تھا، ’’چور سپاہی‘‘ کا
مستی سے بھری پپلی
الہڑ مٹیاریں
جب کھیل گئیں ’’ککلی‘‘
جب کھیلنے ’’کھو‘‘ بیٹھے
دیکھ کے اک ساتھی
ہم اس کے ہو بیٹھے
تقدیر ہی پھوٹ گئی
’’پِینگ‘‘ چڑھا لی جب
تو رَسی ٹوٹ گئی