طاہر مجید(جرمنی)
’’دستِ دعا‘‘ صبا اکبر آبادی کی قلبی عقیدتوں کامجموعہ ہے۔اس میں انہوں نے حمد،قصیدے اور بہت ساری نعتیں شامل کی ہیں۔ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے سلطان جمیل نسیم نے یہ مجموعہ شائع کرایا ہے۔صبا صاحب ایک زود گو شاعر تھے۔انہوں نے خود لکھا ہے کہ ان کے استاد ان سے روزانہ سو سو شعر لکھوا کر مشقِ سخن کرواتے تھے۔لیکن جو شعر انہوں نے اُس شاگردی کے دوران لکھے تھے وہ اپنے کسی مجموعے میں شامل نہیں کئے۔اس کے باوجود جب ۱۹۷۰ء میں ان کا پہلا مجموعۂ غزل ’’اوراقِ گل‘‘شائع ہوا تو اس میں انہوں نے لکھا کہ غزل کی ایک لاکھ ابیات ان کے ذخیرۂ غزل میں موجود ہیں۔
صبا صاحب ادبی حیثیت کے علاوہ عملی زندگی میں بھی ایک سچے عاشقِ رسولؐ تھے۔ان کے اسی عشق رسول ؐ نے ان سے نعتیں کہلوائیں۔
دارالاماں یہی ہے حریمِ خدا کے بعد ہم کس کے در پہ جائیں درِ مصطفیؐ کے بعد
مجھ کو طلب نہیں ہے شراب طہور کی تر ہے زبان مدحتِ خیرالوریٰؐ کے بعد
ہم عاشقانِ آلِ محمدؐ ہیں اے صباؔ زندہ رہیں گے نام ہمارے فنا کے بعد
ان کے نعتیہ شعر عشقِ نبیؐ سے یوں معمور ہیں کہ پڑھتے ہوئے بھی وجد سا طاری ہونے لگتا ہے۔چند اشعار مزید ملاحظہ ہوں۔
چھڑ گیا بزمِ عقیدت میں بیانِ مصطفیؐ وجد میں آنے لگے ہیں عاشقانِ مصطفیؐ
ایک اک دل میں محمدؐ جلوہ گر ہیں حشر تک اس کو کہتے ہیں حیاتِ جاودانِ مصطفیؐ
ہیں ابوبکرؓ و عمرؓ،عثمانؓ و حیدرؓ سب شریک کس قدر پھیلا ہوا ہے خاندانِ مصطفیؐ
میں دیوانہ ہوں عشقِ مصطفیؐ میں جنوں میرا کمالِ آگہی ہے
زمیں پر جب سے وہ تشریف لائے فلک تک روشنی ہی روشنی ہے
محبت ساری دنیا کی مٹادے الہٰی دل کو عشقِ مصطفی ؐ دی
خدا کے گھر میں کس شے کی کمی ہے خدا کی راہ میں گھر بھر لٹا دے
کوئی ایسا بھی انساں دوست ہو گا عدو کے واسطے جس نے دعا کی
درودِ مستقل بھیجو نبیؐ پر مسلسل رحمتیں ہوں گی خدا کی
میرے لب پر حضورؐ کی باتیں تیرگی میں ہیں نور کی باتیں
مئے حبّ رسول پی لی ہے اب کروں گا سرور کی باتیں
عشق احمد ؐ میں اے صباؔ ہم نے دولتِ کائنات پائی ہے
محمدؐ جو تشریف لائے صباؔ خدا کا ہمیں اعتبار آگیا
ضبا کے اس مجموعہ کے کلام ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں اوّل سے آخر تک ایک احترام،ایک تقدس نظر آتا ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے وہ باوضو ،دربار نبوی میں دست بستہ کھڑے ہیں اور نہایت ادب سے سرکارِ دو عالَمؐ سے شفاعت کے طلبگار ہیں۔ادب و احترام کا یہ عالَم ہے کہ نظریں ہمیشہ نیچی رہتی ہیں اور کسی بھی جگہ بے احتیاطی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔
مدینے میں آداب ہیں گفتگو کے میں خاموش رہتا ہوں دل بولتا ہے
مجھ کو قسمت نے بڑا منصب دیا ہے اے صباؔ یعنی محبوبِ خدا کی مدح خوانی مل گئی
صبا کی خوبی یہ کہ انہوں نے نعت میں مدحت کے کمال باوجود شعری غلو سے خود کو بچائے رکھا ہے۔بہت سے نعت نگاروں نے حضور ﷺکے سراپا مبارک کو اپنا موضوع بنایا ہے مگر صبا اکبرآبادی نے زیادہ تر حضورؐ کے اخلاقِ مکارمہ کو مرکز بناتے ہوئے اپنے عشق کا اظہار کیا۔مولانا الطاف حسین حالی اور علامہ اقبال نے اپنے دور میں مسلمانوں کی حالتِ زار کا جو دردناک نقشہ کھینچا تھا،آج کے عہد میں مسلمانوں کی کسمپرسی پر صبا ویسے ہی التجا کرتے ہوئے یوں فریاد بلب ہیں ۔
گھِر رہا ہے پھر زمانہ تیرگیٔ کفر میں روشنی پھر روشنی یا رحمتہ اللعالمینؐ
پھر عطا ہوجائے ہم کو بادۂ وحدت کا جام دور کر دو تشنگی یا رحمتہ اللعالمینؐ
دل تڑپتا ہے آج سینے میں پھر مدینے کی یاد آئی ہے
تیری امت پہ ظلم ہوتے ہیں میرے آقاؐ ! تری دہائی ہی
فتنہ و شر کی زمانے میں ہوا چلتی ہے آج کل دشمنِ اسلام ہے دنیا ساری
وقتِ امدا د ہے اے رحمتِ عالم اس دَم تم جو چاہو تو پلٹ جائے زمانے کی ہوا
صبا صاحب بڑے قادرالکلام شاعر تھے۔ادب کی کوئی بھی صنف ہو اس میں انہوں نے اس بات کا ثبوت دیا ہے۔
انہوں نے اگر نظم لکھی تو اس میں کلاسیکی دریا کی روانی تھی،غزل کہی تو اس میں گہرائی تھی۔مرثیہ لکھا تو یوں ڈوب کر لکھا کہ پڑھنے اور سننے والوں کا دامن آنسوؤں سے تر ہو گیا۔نعت لکھی تو اس عشق ،محبت اور لگن سے کہ گویا ہر عاشقِ رسولؐ کی دل کی زبان بیان کر دی ہے۔اور کیوں نہ ایسا ہوتا کہ ان کا وسیلہ ہی بڑا معتبر ہے۔
مجھ کو الفاظ پہ قابو نہ معانی پہ عبور منطق و فلسفہ سے واسطہ کیا ہے میرا
مجھ کو ملتی ہے کسی در سے مضامین کی بھیک کسی دربار سے ہوتے ہیں مجھے لفظ عطا
اسی معتبر وسیلے نے انہیں اس عہد کے نعت گو شعراء کی صفِ اول میں کھڑا کر دیا ہے۔