تبصرہ نگار:حیدر قریشی
جوگندر پال،ذکر، فکر ، فن مرتب: ڈاکٹر ارتضیٰ کریم
صفحات:54 4 قیمت:30 0 روپے
تقسیم کار: موڈرن پبلشنگ ہاؤس۔۹۔اے گولا مارکیٹ۔دریا گنج۔نئی دہلی
ترقی پسند تحریک کے بعد جو افسانہ نگار اور ناول نگار اردو فکشن کی دنیا میں ابھرے ان میں جوگندر پال ایک بہت ہی اہم نام ہے۔ان کے ہاں ادب کی کسی ایک لہر سے لپٹ رہنے کا رجحان نہیں ہے۔وہ ادب کی آتی جاتی تمام لہروں کو دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ان سے لطف اٹھاتے ہیں۔سوچ میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر سوچ اور تخلیق کے سنگم پر ان کی کہانیاں جنم لینے لگتی ہیں۔جوگندر پال نے ترقی پسند روایت کو رد نہیں کیا لیکن اس کی لکیر کے فقیر بھی نہیں بنے۔اسی طرح جدید ادفسانے کے نام پر انہوں نے نہ تو جدیدیت کی بے راہروی کو قبول کیا اور نہ ہی اس کے مثبت اثرات سے انکار کیا۔اس لحاظ سے ان کے ہاں کسی ایک اندازِ نظر کو تلاش کرنا بے معنی ہو جاتا ہے۔ان کے افسانوں اور ناولوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ خالصتاَ جوگندر پال کے باطن سے رچے ہوئے تخلیق ہوئے ہیں۔ان پر ان کی شخصیت کی ،اور ان کے مخصوص(اور ناقابلِ تقلید حد تک)منفرد اسلوب کی چھاپ گہری ہے۔جوگندر پال کے ہاں کہانیوں کی رنگا رنگی اور موضوعاتی تنوع کے باوجود ان کا اسلوب اتنامنفرد اور بے تکلفانہ ہے کہ اس کی تقلید کرنا ممکن ہی نہیں لگتا۔انہوں نے کہانی لکھنے کا ایسا ڈھنگ نکالا ہے کہ بہت سے لوگ ویسا لکھنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن انہیں مکمل طور پر ادراک ہے کہ ایسا بے ساختہ انداز ان کے ہاں آ ہی نہیں سکتا۔جوگندر پال اپنی اس خوبی سے آشنا ہیں۔اسی لئے اپنے مداح نئے لکھنے والوں کی اس محبت اور بے بسی کی ملی جلی کیفیت کو مزے لے لے کر دیکھتے ہیں ۔
ڈاکٹرارتضیٰ کریم نے جوگندر کی گراں قدر ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر ایک کتاب مرتب کی ہے جس کا نام ہے’’جوگندر پال،ذکر،فکر ، فن‘‘۔۵۴۴صفحات کی اس ضخیم کتاب میں جوگندر پال کے فن کی مختلف جہات کا متعدد زاویوں سے جائزہ لیا گیا ہے۔ جوگندر پال کے بارے میں ڈاکٹر ارتضیٰ کریم کے دو ابتدائی مضاامین کے علاوہ یہ کتاب سات ابواب میں تقسیم کی گئی ہے۔پہلا باب ’’ذکر : بقلم خود‘‘کے تحت جوگندر کے چار اہم مضامین ’’شہر آرزو‘‘۔’’کتھا یاترا‘‘۔’’پل بھر زندگی‘‘اور ’’خود وفاتیہ‘‘سے مزین ہے۔ان چاروں مضامین سے جوگندر پال کی ذاتی زندگی روداد سامنے اتی ہے اور ان کے ادبی رویوں کی بنیاد کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔دوسرا باب’’ذکر:آئینہ‘‘کے تحت جوگندر پال کے فن کی مختلف جہات پر ان ادیبوں کے مضامین سے آراستہ ہے۔دیوندر ستیارتھی،کرشن چندر،فکر تونسوی،مجتبیٰ حسین،رتن سنگھ،کرشنا پال،عتیق اﷲ اور شہزاد منظر۔
کتاب کے تیسرے باب’’فکر:مکالمے‘‘میں جوگندر پال سے لئے گئے سکریتا پال ،رنویر رانگڑہ،سنیل ترویدی اور ارتضیٰ کریم کے چار انٹرویوز شامل ہیں۔ان انٹرویوز سے جوگندر پال کی تفہیم کے کئی نئے گوشے سامنے آتے ہیں۔چوتھا باب’’فکر:مقالے‘‘کے زیر عنوان ہے۔اس میں جوگندر پال کے چھ تنقیدی و تاثراتی مضامین شامل ہیں۔ان سے جوگندر پال کی تنقیدی بصیرت اور ان کے تنقیدی معیارات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
پانچویں باب’’فن:افسانے؍ا فسانچے‘‘ میں ان کے افسانوں اور افسانچوں کے مختلف مجموعوں پر ان ادباء کے مضامین شامل کئے گئے ہیں۔وہاب اشرفی،محمد علی صدیقی،قمر رئیس،صبا اکرام،شارب ردولوی،فردوس حیدر،انور سدید،شمیم احمد،وزیر آغا،حامدی کاشمیری،بشر نواز،فہیم اعظمی،اکبر حمیدی،رعنا حیدری،ابو ظہیر ربانی،ممتاز احمد خان اور حیدر قریشی۔چھٹے باب ’’فن:ناول؍ناولٹ‘‘ میں جوگندر پال کے ناولوں اور ناولٹس کے بارے میں ان ادیبوں کے مضامین شامل ہیں۔لطف الرحمن،وزیر آغا،عتیق اﷲ،شفیق احمد شفیق،انور سدید،حیدر قریشی،پیغام آفاقی،ممتاز احمد خاں اور حمید سہروردی۔آخری اور ساتویں باب’’زبان تنقید‘‘میں محمود واجد اور مبین مرزا نے جوگندر پال کی کتاب’’بے اصطلاح‘‘کا جائزہ لیا ہے۔
جوگندر پال کے فن اور ان کی شخصیت کے بارے میں یہ کتاب ایک دستاویزی اہمیت کی حامل ہے۔جوگندر پال پر آنے والے وقت میں جو اہم کام ہوگا اس کے لئے یہ کتاب بہترین گائیڈ ثابت ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد خزانہ مصنف:جمیل زبیری
صفحات:40 0 قیمت:125 روپے
ناشر: دہلی مکتبہ دانیال۔عبداﷲ ہارون روڈ۔کراچی
جمیل زبیری اردو کے معروف سفرنامہ نگار اور افسانہ نگار ہیں۔آپ طویل عرصہ تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ریڈیو پاکستان بجائے خود ایک ایسا ادارہ ہے جہاں زندگی کے ہر شعبہ سے وابستہ افراد سے رابطہ رہتا ہے۔
جمیل زبیری کی زندگی ادب اور ریڈیو کے دائروں میں پھیلی ہوئی تھی۔ریڈیو نے ان کے لئے مشاہدہ اورافراد کے مطالعہ کے اسبا ب فراہم کئے۔علمائے کرام اور مذہبی اسکالرز سے لے کرشاعروں،ادیبوں،فنکاروں،صحافیوں،
سازندوں،کھلاڑیوں ،افسروں،سائنسدانوں، سیاستدانوں،فوجیوں،دانشوروں تک ہزارہا قسم کے لوگوں سے ان کا واسطہ رہا۔کسی سے براہ راست پروگرام کرنے کی وجہ سے کسی کا انٹرویو کرنے کی وجہ سے کسی سے ریڈیو اسٹیشن پر آمد کی وجہ سے ۔بہت سوں سے ان کا وقتی میل ہوا۔۔۔بہت ساروں کے ساتھ طویل ساتھ رہا۔ اپنی زندگی کی ان ساری یادوں کو انہوں نے ’’یاد خزانہ‘‘کے نام سے کتابی صورت میں یکجا کیا ہے۔ان یادوں کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ :
’’میں نے جو کچھ لکھا ہے ایمان داری سے لکھا ہے۔ نہ مبالغے سے کام لیا ہے،نہ جھوٹ سے اور نہ میرا مقصد کسی کی دلآزاری ہے۔مجھے افسوس ہے کہ ملازمت کے دوران مجھے اس کتاب کے لکھنے کا خیال ہی نہ آیا ورنہ میں ایک ڈائری بنا لیتا اور چونکہ پوری کتاب صرف یادداشت پر لکھی ہے اس لئے کچھ واقعات اور کچھ لوگوں کے نام یقیناَ رہ گئے ہوں گے جو ایک مجبوری ہے‘‘
’’یاد خزانہ‘‘ میں بہت سا معلوماتی مواد بھی ملتا ہے۔مثلاَ پاکستان کا سب سے پہلا ریڈیو اسٹیشن جو ’’سندھ گورنمنٹ براڈکاسٹنگ اسٹیشن‘‘کے نام سے شروع ہوا،اسے چند محب وطن پاکستانیوں نے محض اپنے جذبے اور لگن کے باعث شروع کیا۔۵اگست ۱۹۴۷ء کو شروع ہونے والے اس ریڈیو اسٹیشن نے ۱۰اگست کو باقاعدہ نشریات کا آغاز کیا۔۱۴؍اگست کو پاکستان کے قیام اور قائد اعظم کے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف اٹھانے کی کاروائی کا آنکھوں دیکھا حال نشر کیا۔۲۰اگست کو وائر لیس ایکٹ کے تحت اسے بند کر دیا گیا۔پھر ریڈیو پاکستان کے مختلف شعبوں کے بارے میں بھی اچھی خاصی معلومات فراہم کی گئی ہے۔تاہم اس کتاب کا بیشتر حصہ ریڈیو اور عام زندگی سے وبستہ دوستوں اور دیگر احباب کی یادوں پر ہی مشتمل ہے۔اس میں اوائل ہی سے پاکستان کے ’’طبقۂ اشرافیہ‘‘ کی عوام سے بے تعلقی ظاہر ہوتی ہے۔ایسے لوگوں کا ذکر بھی ہے جو بہت ترقی کرکے بھی سراپا انکسار رہے اور ایسے افراد کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو پوش علاقے میں چلے جانے کے بعد اپنے پرانے گھر کے کورنگی جیسے علاقے کو نہ صرف بھول گئے بلکہ اس سے بھی انکار کر گئے کہ وہ کبھی وہاں رہتے تھے۔ جمیل زبیری کی ریڈیو اسٹیشن کی ملازمت کے مختلف تجربے زندگی کے کئی پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہاں جمیل زبیری کا بیان کردہ ایک شگفتہ سا واقعہ پیش ہے :
ریڈیو پاکستان کراچی سے ایک فنکار غالب کی غزل گا رہا تھا۔اس میں غالب کا مصرعہ ہے
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
فنکار اسے یوں گارہا تھا قیدو حیات و بند و غم اصل میں دونوں ایک ہیں۔۔۔زیڈ اے بخاری ڈائریکٹر جنرل ریڈیو سن رہے تھے۔انہوں نے فوراَ ڈیوٹی آفیسر کو فون کیا۔قیدو حیات و بندو غم،دو کیسے؟ یہ تو چار ہوئے۔ڈیوٹی افسر نیا تھا اس نے کہا حضور ابھی ٹھیک کراتا ہوں۔ذرا ہی دیر میں فنکار اس مصرعہ کو یوں گا رہا تھا۔
قیدو حیات و بندو غم اصل میں چاروں ایک ہیں
یاد خزانہ میں جہاں زندگی کی بہت سی تلخ سچائیاں اور بے رحم حقائق ملتے ہیں وہیں ایسی ہلکی پھلکی شگفتہ باتیں بھی ساتھ ساتھ ملتی ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی میں ملنے والے بہت سے لوگوں کو بڑی محبت کے ساتھ یاد کیا ہے۔انہوں نے برملا اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں چار فراد سے مل کر بے حد متاثر ہوئے تھے۔تین امریکی خلا باز نیل آرمسٹرانگ،ایڈون الڈرن اور مائیکل کولنز۔۔۔اور چوتھے پاکستانی سائنسدان پروفیسر عبدالسلام۔وہ پروفیسر عبدالسلام کو نوبل انعام ملنے سے بہت پہلے ملے تھے،اس کے باوجود وہ ان کی شخصیت سے بیحد متاثر اور مرعوب ہوئے۔انہوں نے اس کا اعتراف فخریہ طورپر کیا ہے۔
’’یاد خزانہ‘‘ کا انداز بیان سادہ ہے۔جمیل زبیری کی سادہ نثر اپنی سادگی میں لفظوں کا جادو تو نہیں جگاتی لیکن ان کے بیان کردہ واقعات میں ایک مٹتے ہوئے عہد کی یادوں کا انوکھا جادو ضرور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جست بھر زندگی(خود نوشت) مصنف: اکبر حمیدی
اکبر حمیدی ہمہ جہت شاعر اور ادیب ہیں۔شاعری،انشائیہ نگاری،خاکہ نگاری،کالم نگاری،کے مختلف مقامات سے کامیابی سے گزرنے کے بعد انہوں نے حال ہی میں اپنی خودنوشت سوانح ’’جست بھرزندگی‘‘ شائع کی ہے۔اس کتاب کے گیارہ ابواب ہیں۔اکبر حمیدی نے گوجرانوالہ کے ایک گاؤں سے شروع ہونے والے اپنی زندگی کے مہ و سال کا ایک گوشوارہ سا اس کتاب میں پیش کر دیا ہے۔اس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اکبر حمیدی نے کس ماحول میں آنکھ کھولی،کس طرح پلے بڑھے،تعلیم سے لے کر ملازمتوں تک کے احوال،عزیز و اقارب اور دوستوں ،دشمنوں کے حالات۔ادبی زندگی آغاز سے اب تک کس طرح گزری۔غرض اس میں ہمارے ایک عہد کی کئی اہم جھلکیاں اس طرح دکھائی دیتی ہیں کہ ان کے ذریعے سے پورے عہد کے بارے میں واضح تاثر قائم کرنا آسان ہوجاتا ہے۔اکبر حمیدی چونکہ بنیادی طور پر شاعر اور ادیب ہیں اس لئے ان کی زندگی کا یہی رُخ اس کتاب کا سب سے اہم پہلو ہے۔اس زاویے سے اس کتاب کے توسط سے پتہ چلتا ہے کہ اکبر حمیدی کو بعض غزلیں مکمل طور پر نہ صرف خواب میں ہوئیں بلکہ جاگنے کے بعد وہ غزلیں انہیں پوری یاد بھی رہیں۔ اسے یقینی طور پر ان کی وجدانی قوت کا کرشمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔بعض غزلیں بروقت نوٹ نہ کرنے کے باعث بھول بھی گئیں۔
وجدان کے حوالے سے اکبر حمیدی کی زندگی میں ایک درویش کی درویشی کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔اسے اکبر حمیدی کے الفاظ میں دیکھتے ہیں:’’ایک اور درویش ہمارے گاؤں میں آیا۔راتوں کو گلیوں میں پھرتا۔علامہ اقبال کے اشعار بلند آواز میں گاتا پھرتا ،اپنے آپ کو وقت کا قلندر کہتا۔گاؤں سے شمال کے قریبی قبرستان میں رہتاتھابہت
خوبصورت آدمی تھا۔پینتیس چالیس سال کا گورا چِٹا بھر پور جوان ۔کلین شیو ،بہت چمکتا دمکتا۔ہم محلے کے نوجوان اس کے گرویدہ ہو گئے۔ ایک روز اس نے سعید اختر کو جنوب کا اور مجھے شمال کا گورنر مقرر کیا۔اتفاق دیکھئے کہ سعید اختر سندھ میں جا بسا اور میں شمال میں اسلام آباد۔اس قلندر کے ساتھ ہم محلے کے لڑکے اکثرسردائی پیتے تھے۔‘‘
اکبر حمیدی نے اپنی زندگی کی روداد لکھتے وقت جہاں زندگی کے بہت سے واقعات اور نشیب و فراز کو بیان کیا ہے وہیں اپنے تاثرات کو بھی خاصی تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔کسی واقعہ کی نسبت سے کوئی تاثر ایک حد تک مناسب رہتا ہے بعض اوقات اس تاثر یا تشریح کی کسی حد تک ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن جب وہ تاثر تقریر یا خطبہ بننے لگے تو اس سے اسکی ادبی قدر و قیمت پر بہر حال فرق پڑتا ہے۔’’جست بھر زندگی ‘‘میں یہ مسئلہ بار بار سامنے آتا ہے کہ وہ کسی تاثر یا تصور پر خاصی تفصیلی اور تشریحی گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ممکن ہے اس کا کوئی مثبت رُخ ہو جو سر دست میرے علم میں نہیں آپایا۔اس خامی کے باوجود اس میں شک نہیں کہ بعض مقامات پر اکبر حمیدی کے تاثرات نے ’’اقوالِ زرّیں‘‘کا مقام حاصل کر لیا ہے۔اس کی چند مثالیں کتاب سے پیش کرتا ہوں:
٭٭زیادہ فرمانبرداری اور صورتحال سے مرعوبیت انسان کی شخصیت کو کمزور کر دیتی ہے۔انسان فرمانبرداری وہاں کرتا ہے جہاں اس کا چارہ نہیں چلتا۔۔۔فرمانبرداری اور چیز ہے ،شکرگزاری اور بات۔فرمانبرداری میں اپنی ذات کی نفی ہے اور شکر گزاری میں اپنی ذات اور حیثیت کا اثبات‘‘(ص ۶۱)
٭٭میرا خیال ہے خواب ہماری نیندوں کے خیال ہیں اور خیال ہماری بیداری کے خواب۔(ص۵۴)
٭٭اعتقاد کی پختگی اکثر عقل کی خامی بن جاتی ہے۔(ص۳۲۸)
مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرنے والے ادیبوں کو عموماَ دوستوں اور کرمفرماؤں سے اس قسم کی باتیں سننا پڑتی ہیں کہ اگر خود کو ایک دو اصناف تک محدود رکھتے تو زیادہ بہتر تھا۔اس سلسلے میں میرا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ اچھا ادیب اپنی میلانِ طبع کے باعث جن اصناف میں بھی کچھ تخلیق کرتا ہے اس کا ایک کم از کم معیار ضرور دکھائی دے گا۔اور وہ اپنے اس کم از کم معیار سے نیچے جاتا دکھائی نہیں دے گا۔اس کے بر عکس کمزور یا برا ادیب ایک ہی صنف میں جان مارتا رہے اس میں بھی وہ کمزور یا برا ہی لکھتا رہے گا۔چونکہ اکبرحمیدی بھی کئی میدانوں میں طبع آزمائی کر چکے ہیں اس لئے انہیں بھی اس اعتراض کا سامنا رہا لیکن انہوں نے اس کا بالواسطہ طور پر بہت عمدہ جواب دیا ہے۔
اس جواب میں ان کی زمینداری ان کے بہت کام آئی ہے۔
’’ایک تخلیق کار زمین کی مانند ہے۔بنجر زمین تھور اگلتی رہتی ہیں۔بعض زمینیں کسی ایک فصل کے لئے مخصوص ہو جاتی ہیں ان میں کچھ اور نہیں اگتا۔بعض زمینیں بہت سی فصلوں کے لئے موزوں ہوتی ہیں۔اب کسان کی ہمت ہے کہ وہ کیا کیا کاشت کرتا ہے اور کون کون سی فصلیں اٹھاتا ہے۔مجھے یاد ہے ہماری تحصیل گوجرانوالہ کی زمین چاول،گندم،گنا،کپاس،مکئی،باجرہ،برسیم غرض کئی فصلوں کے لئے موزوں ہے۔۔کچھ ایسا ہی حال زرخیز ذہن تخلیق کار کا ہے’’ (ص۲۴۱)
اکبر حمیدی جیسے فعال اور زرخیزتخلیق کارکی یہ خود نوشت سوانح حیات ان کی زندگی کی روداد بھی ہے اور ان کے نظریۂ زندگی اور فن کے عقبی دیاروں کو سمجھنے کے لئے ایک معاون کتاب بھی ہے۔زندگی سے بھری ہوئی یہ کتاب موت کے بارے میں کچھ نہیں کہتی صرف زندگی کی بات کرتی ہے۔ مثبت طور پر جینے کی بات کرتی ہے۔