شمسہ اختر ضیاء
کتنے خوش فہم تھے کبھی ہم بھی
ہم نے راہوں کو بے خطر سمجھا
چاند تاروں کو ہم سفر سمجھا
زندگی کے گلاب لمحوں کو
اپنے دامن میں ڈالنا چاہا
دوستی کے حسین پر دے میں
دشمن جاں کو بارہا چاہا!
کہکشاں کے حسیں ستاروں کو
اپنے آنچل میں ٹانکنا چاہا
زندگی کی حسین راہوں پر
بے خطر ہم نے گھومنا چاہا
اور ارض و سما کی وسعت میں
اپنی ہستی کو ڈھونڈنا چاہا
خواب کے پر کشش جزیروں میں
کی تخیل سے اپنے ضو ہم نے
چاند اترے ہمارے آنگن میں
کی تصور میں آرزو ہم نے
پھول مہکیں ہمارے دامن میں
کی بہاروں کی جستجو ہم نے
باد سحری کو راز داں جانا
کی صبا سے بھی گفتگو ہم نے
زیست کو کس قدر حسیں سمجھا
ساز فطرت کا دلنشیں سمجھا
کتنے خوش فہم تھے کبھی ہم بھی
بعد مدت یہ بھید پایا ہے
دھوکہ ہر اک قدم پر کھایا ہے
دوست سمجھا جسے وہ دشمن تھا
راہبر ہی ہمارا رہزن تھا
جھوٹی باتوں پہ اعتبار کیا
بے وفاؤں پہ دل نثار کیا
پھول مانگے تو خار پائے ہیں
ایک تاریک شب کے سائے ہیں
زندگی ایک زرد صحرا ہے
جس میں اب حسرتوں کا ڈیرا ہے
جستجو کی خلوص کی جب بھی
ہم کو زخموں کی چاندنی ہی ملی
چاند تاروں کی آرزو کی تھی
اور بہاروں کی آرزو کی تھی
وہ تو سب اک سراب تھا جیسے!