نارسا لمحوں کی بات
ہزار دکھ اک خوشی کے پردے میں رو پڑے ہیں
جنم جنم کی مسافتوں کے
طویل رستوں کی داستاں ہے
کئی یبوست زدہ دنوں کی کہانیاں
چشم تر پہ لکھی ہوئی ہیں
(عنوان مانگتی ہیں)
کسے بتائیں
کہ خواب اترے
تو آنکھ میں رتجگوں کے کنکر جڑے ہوئے تھے
بجھے ہوئے سورجوں نے تھک کر
شبوں کی آغوش میں پنہ لی
تپش میں بھیگی ہوئی شبوں میں
بساط بھر جستجو سے شل بازوؤں پہ
کیسی تکھن لکھی تھی
نگر نگر کی سیاحتوں میں
ہوا بھی رستہ بھٹک چکی تھی
کٹے پھٹے منظروں میں گم کردہ راستوں پر
غبار سا تھا
نخیلِ سرسبز پر
کسی زرد رت کا سایہ
عذاب بن کر کھلا ہوا تھا
اڑان بھولے ہوئے پرندوں نے
ریت پر
(پانیوں کے دھوکے میں پر سمیٹے)
تو لوٹ کر آنہیں سکے تھے
بسے ہوئے گھونسلوں میں امید
پیاس بن کر سسک رہی تھی
ہمی تھے وہ بھی
جنہیں سیہ شب کی ناف سے
عطر صبح روشن
کشید کرنے کا اذن تھا
(جن کے ذہن پتلی گھروں کے رکھوالے
بن گئے تھے )