بھاٹی گیٹ سے ذرا اندر آئیں، یہی کوئی دس بارہ قدم تو بائیں جانب ایک ڈھائی تین فٹ اونچی دیوڑھی پر چھوٹا سے مزار بنا ہوا ہے، چھتر سائیں کا۔ اس کے برابر ایک کمرے کا میوزیم ہے جس میں شیشے کے پٹوں والی الماریوں میں چھتر سائیں کے عام استعمال کی اشیاء رکھی گئی ہیں جیسے ایک تو ان کی چھتری ہی ہے، جس کی وجہ سے انہیں چھتر سائیں کا نام ملا۔ مزار کے عقب میں ایک مسجد ہے جس کا دروازہ مزار کے برابر واقع ہے۔ مزار‘ مسجد اور میوزیم دو دو تین تین منزلہ مکانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ بازار سے ذرا ہٹ کر ہوتے تو بہت ممکن تھا اب تک کسی کٹٹری کے صحن کا حصہ بن چکے ہوتے۔ خیر میں اس مزار اور خود چھتر سائیں کو تب سے جانتا ہوں جب وہ کرامات والے چھتر سائیں نہیں بنے تھے بلکہ تب ان کا کوئی نام نہیں تھا۔ یہ ایک ننگ دھڑنگ رہنے کے شوقین مجذوب تھے۔
مسلم ماڈل سکول، جہاں میں نے چھٹی میں داخلہ لیا ، سے متعلق میری اولین یادوں میں چھتر سائیں سے جڑی ہوئی یادیں موجود ہیں۔ چھٹی جماعت مجھے اس لئے بھی اچھی طرح یاد ہے کہ اسی زمانے میں میں نے سکول سے ’پھُٹنے‘ کے سلسلے کا آغاز کیا۔ دو ایک دوست کلاس میں ہی ایسے مل گئے جن کے ساتھ میں ہفتے میں دو تین بار سکول سے ہوا ہوجاتا ۔تب یہیں بھاٹی گیٹ کے باغ میں نالے کے ساتھ ساتھ گھوما پھرا کرتے ۔ گندے نالے کے کنارے ایک جگہ چوڑا گڑھاتھا جہاں‘ مجھے یاد ہے ایک مجذوب بیٹھتا تھاجو ہر وقت بے تکان مغلظات بکتا۔ بچے اسے حیرت سے تکتے اور ڈرتے بھی مگر تجسس کے مارے دور بھی نہ ہٹتے تھے۔ وہ مغلظات بکتا تو بچے پتھر اٹھا کر اسے مارتے۔ وہ بھی غصے میں جوکچھ ہاتھ آتا‘ان کی طرف پھینکتا۔ بچے چیختے ’’ننگا پڑنگا۔ لوہے دا کنگا۔‘‘ وہ چڑتا اور منہ کو طرح طرح سے بناتا کچھ بکتا۔ لیکن اپنی جگہ سے ہلتا نہیں تھا۔ اس گڑھے میں جیسے وہ قید تھا۔ کسی جادو نے اسے مٹی پر جما دیا تھا۔ وہیں بول و براز کرتا۔ وہیں ایک کروٹ سو جاتا۔
میں عام طور پر صرف تبھی بھاٹی گیٹ کی طرف جاتا جب سکول سے رفو چکر ہوتا۔ وہیں باغ میں بنچ پر اینٹ کے ٹکڑے سے بارہ ٹینی کھینچ کر اور اس پر پتوں اور پھولوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے رکھ کر ہم دوست کھیلا کرتے ۔ ساتویں میں میرے یاروں کی ٹولی تتر بتر ہو گئی۔ عالی موٹا سکول چھوڑ گیا۔ اقبال گنجا چھٹی پاس ہی نہ کر سکا۔ اکرم لوٹا اور سعید میرے ساتھ رہے۔ لیکن ہم تینوں ہی ’لائی لگ‘ قسم کے لڑکے تھے۔ ہمیں ایسے جی دار لڑکوں کی ضرورت رہتی جن کی پیروی ہم کریں۔ خود سے کوئی قدم اٹھانے کی مجھ میں ہمت تھی نہ ان میں۔ یوں ہمارا اسکول سے ’پھُٹنا‘ بھی کم ہو گیا اور بھاٹی گیٹ جانا بھی۔
سو ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب چھتر سائیں کے دن پھر گئے۔ کب اسے فیکا پہلوان جیسا مجاور مل گیا جو اس کی گندگی دھوتا، اس سے مغلظات سنتا‘ اس سے مار بھی کھاتا اور اس کی روٹی پانی کا خیال کرتا ۔ وہیں چھتر سائیں کے گڑھے کے قریب ہی اس نے ٹین کی چادر کی آڑ سی بنا کر اپنے رہنے اور سونے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو وہ کوئی چھٹا ہوا بدمعاش معلوم ہوا۔ سوائے اس کی بھیگی ہوئی شربتی سی آنکھوں کے، اس کے جسم کے کسی حصے اور اس کی کسی عادت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا تقریباً ناممکن تھا کہ اس جناتی جثے والے انسان میں ایسا بیویوں جیسا برداشت کا مادہ موجود تھا۔ سوال یہ تھا کہ آخر کس لئے؟ وہ کس واسطے چھتر سائیں کے ناز اٹھاتا تھا؟ یہ بات کسی کو معلوم نہیں تھی۔
لوگ اسے چھتر سائیں کا سایہ، اس کا جانشین، ہم راز اور ایسے ہی نام دیتے ۔ سوائے ان موقعوں کے‘ جب چھتر سائیں کی گالیوں وغیرہ میں سے اعداد کی نشاندہی کرنے کے لئے لوگ اس سے رجوع کرتے اوروہ مستعد ہو کر چوکڑی مار کر بیٹھ جاتاکہ سائلوں کی بات سنے اور انہیں قسمت کے اعداد بتائے، وہ عام طور پراپنی ٹین کی آڑ والی کٹیا میں کسی پرانے ٹرک کے ٹائر کو سر کے نیچے رکھے لیٹا رہتا اور جانے کیا سوچتا۔ اس کی موٹی موٹی خوبصورت آنکھوں میں بڑی معصومیت اور جاذبیت تھی۔
میرے والد چھتر سائیں کے بڑے معتقد تھے۔ انہیں ان کی کئی کرامات بھی ازبر تھیں۔ اکثر ہمیں سائیں سے وابستہ معجزات سناتے۔ بات یہ تھی کہ اندرون لوہاری گیٹ میں سٹہ بازی کے دو اڈے تھے۔ ایک سوتر منڈی میں تھا، جھنڈے خان کی حویلی کے تہہ خانے میں۔ دوسرا سید مٹھا بازار میں الیاس ٹیناں والے کی بیٹھک میں۔ میرے والد صاحب دونوں ہی اڈوں پر جایا کرتے تھے۔ یہ باتیں ظاہر ہے تب ہمیں معلوم نہیں تھیں۔ آہستہ آہستہ ادھر ادھر سے علم میں آئیں۔ میرے والد صاحب ہی نہیں، شہر بھر سے سٹہ باز، لوٹا گھمانے والے اور حتیٰ کہ حصص کا کام کرنے والے بھی چھتر سائیں کے پاس آتے۔ ان سے مغلظات سنتے اور پھر ان کے ترجمان فیکا پہلوان کے حضور پہنچتے۔ وہ کہتا ’’سائیں ہوراں نے تنہہ واری آکھیا دفع ہو جا۔ دو واری آکھیا آ تیریاں لتا بھناں۔ تنہہ واری جان نوں آکھیا، دو واری آن نوں، رہ گیا اک نمبر۔‘‘
یا پھر یہ عُقدہ کچھ اس طرح حل ہوتا، ’’سائیں ہورا نے آکھیا تیری ماں نوں چار کتے۔۔۔۔۔ اک مظلوم تے چار ظالم۔ اک ظالم نوں مظلوم کھا گیا۔ باقی رہ گئے تنہہ۔‘‘
کسی کا نمبر لگ جاتا تو وہ خوش ہو کر نذرانہ لاتا۔ سائیں ہر شے کو اٹھا کر پھینکتے جاتے۔ فیکا صرف کھانے پینے کا سامان رکھ لیتا۔ باقی روپیہ کپڑا لتا سب لوٹا دیتا۔ ایسے ہی کسی سرخرو ہونے والے سائل نے رنگ برنگے کپڑوں سے بنا ایک بڑا چھتر لا کر سائیں کے گڑھے کے کنارے نصب کر دیا کہ دھوپ اور بارش میں بھی سائیں سائے میں رہیں۔ اسی رنگ برنگے چھتر کی وجہ سے ان کا نام چھتر سائیں پڑا۔
چھتر سائیں کی اعداد ظاہر کرنے کی شکتی کو، کہتے ہیں فیکے پہلوان نے ہی دریافت کیا۔ فیکا خود بڑا جواری تھا۔ گوجرانوالہ کا رہنے والا تھا اور پہلوانی کا شوق رکھتا تھا۔ جوئے میں اپنی جائیداد لٹا دی تو گھر والوں نے اسے نکال باہر کیا۔ یہ سائیں کے آستانے پر آ رہا۔ پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ ’’سائیں ہوراں نے میرے من وچ حق سچ دا دیوا بالیا اے۔ حق۔ حق۔‘‘ فیکا جناتی جثے کے ساتھ سائیں کی غلاظت دھوتا اور اس کی مار کھاتا ہوا ایک ایسے منظر کا حصہ معلوم ہوتا جو حقیقی نہیں لگتا تھا، کسی خواب یا کسی فلم کے سیٹ کا حصہ معلوم ہوتا ۔
میں ساتویں میں تھا جب میری والدہ کا انتقال ہوا۔ چھوٹا بھائی تیسری یا چوتھی میں ہو گا۔ بہن تین ساڑھے تین سال کی تھی۔ میرے والد نے اسی سال دوسری شادی کر لی۔ ہماری دوسری ماں مسلم ٹاؤن میں رہتی تھی۔ بڑی مال دار عورت تھی۔ اس کا بہت بڑا مکان تھا جہاں ہم ابو کی شادی کے کوئی ایک ڈیڑھ ماہ بعد ہی منتقل ہو ئے۔ ہماری کبھی اس سے نہیں بنی۔ ہمیں ہماری ماں کبھی نہیں بھولی، جو خون کی الٹیاں کرتے ہوئے مر گئی ۔ ہم اس عورت کو، جس کے ساتھ میں اس کی آخری سانس تک رہا، کبھی اپنی ماں کے طور پر قبول نہیں کر سکے۔
ہمارا باپ تو پہلے بھی کوئی باقاعدہ کام نہیں کرتا تھا۔ ماں ہی ٹیوشنیں پڑھا کر اورہاتھ سے کروشیا وغیرہ کا کام کر کے پیسے کماتی۔ اب امیر عورت کا ساتھ ہوا تو گاہے بگاہے کچھ کرنے کا تکلف بھی جاتا رہا۔ بلکہ ایک اور عادت شراب نوشی اپنا لی۔ روزانہ دھت ہو کر گھر آتا۔ اونچا بولتا تو دوسری ماں جو ذرا ’ہتھ چھٹ‘ واقع ہوئی تھی، اس پر پل پڑتی۔ پھر وہ گھر میں ہی بیٹھ کر پینے لگا۔ میں دسویں جماعت کا امتحان دے کر فارغ بیٹھا تھا، جب ہمارا باپ چل بسا۔ بیمار رہنے لگا۔ دو ایک بار ہسپتال میں بھی داخل ہوا۔ پتہ نہیں گردوں کا مسئلہ تھا یا کیا تھا۔ آخری بار ہسپتال گیا تو پھر اس کی لاش ہی ایمبولینس کے ذریعے واپس آئی۔
دوسری ماں کا رویہ یوں تو کبھی بھی ہمارے ساتھ بہتر نہیں رہا۔ ابو کی وفات کے بعد تو وہ بالکل ہی ہم سے بے زار ہو گئی۔ جیسا ایک سوتیلی ماں کے بارے میں سنا کرتے ‘ بس ویسی ہی جابر اور بات بات پر تذلیل کرنے والی۔ایک بوڑھی عورت‘ جو کبھی اس کے ہاں ملازم تھی‘ ماہ دو ماہ بعد اس سے ملنے آتی تھی۔ وہ آدھ ایک گھنٹہ وہاں بیٹھتی۔ گاؤں کی کوئی سوغات جیسے موسمی پھل‘ گھر کا بنا ہوا گھی‘ ساگ‘ مرونڈے‘ یا ایسی ہی کوئی شے جو عام طور پر اس کی صحت کے لیے موافق نہ ہوتی لیکن وہ اصرار کے ساتھ اسے کھاتی۔ ماں نے ہی بتایا کہ اس ملازمہ کی بیٹی کی شادی پر سارا خرچ اس نے اٹھایا تھا جس کا وہ احسان مانتی اور اس کے باوجود کہ وہ چونڈہ میں اپنے بیٹے کے پاس چلی گئی تھی۔ لاہور اپنی بیٹی سے ملنے آتی تو اسے سلام کرنے ضرور آتی۔ اس ملازمہ کے سامنے ہم تینوں بہن بھائیوں سے بالعموم اور مجھ سے بالخصوص اس کا رویہ بہت ہتک آمیز ہوتا۔ وہ ہمیں ایسے دیکھتی جیسے ہم کوئی ادنی اور حقیر مخلوق تھے جو کیچڑ میں لتھڑے ہوئے اس کے صاف ستھرے گھر میں پڑے اور گندگی پھیلا رہے تھے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جس کے سامنے وہ ہماری تذلیل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتی‘اس کا ہم سے برتاؤ بہت مشفقانہ تھا جیسے وہ ہماری حالت زار کا احساس کرتی اور اپنے رویے سے ماں کی بدسلوکی کا مداوا کرنے کی کوشش کرتی۔
میرا اندرون شہر جانا‘ جہاں میری کچھ سال پہلے تک کی ساری زندگی گزری تھی‘ مسلم ٹاؤن منتقل ہونے کے بعد قریب قریب موقوف ہو گیا۔ایف۔ اے کے ابھی داخلے نہیں کھلے تھے اور میرے پاس دن بھر میں کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔میں نے اس فارغ عرصے میں گاہے بگاہے وہاں جانا شروع کیا۔ گھومتا گھامتا، دوستوں سے ملتا ملاتا معلوم نہیں کیوں ہر پھر کر چھتر سائیں کے ڈیرے پر چلا جاتا ۔ وہاں اب تو کافی رونق ہو گئی تھی۔ چھتر سائیں کا گڑھا ویسا بدہیئت نہیں رہا تھا، جیسا پہلے کبھی ہوا کرتا تھا۔ سائیں کے اعداد سے سرخرو ہونے والے کسی سائل نے وہاں آس پاس مٹی ڈلوا کر کافی رقبے میں کچا پکا فرش بنا دیا جو سرکتا ہوا فٹ پاتھ کے سرے تک آ گیا تھا۔ یہ اتنا کشادہ تھا کہ وہاں ہم دس بارہ لڑکے آسانی سے کرکٹ کھیل سکتے تھے۔ اس رقبے کے اردگرد فیکے پہلوان نے جھاڑ جھنکار رکھ دی اور کہیں کہیں لکڑی کے شہتیر سے گاڑ کر رنگ برنگے جھنڈے لگا دئیے ۔ سائلوں کے لئے دو ایک چٹائیاں، دریاں اور موڑھے جیسی بیٹھنے کی چیزیں بھی کوئی سائل ہی وہاں رکھ گیا ہو گا یا پھر فیکا پہلوان خود ہی کسی کچرے کے ڈھیر سے اٹھا لایا ہو گا۔ خیر اب وہاں آنے والے سائلوں کو سائیں کے بدبودار گڑھے کے کنارے کھڑے ہو کر ان کی مغلظات سننے کا انتظار نہ کھینچتا پڑتا۔ وہ چٹائی یا موڑھا سرکا کر گڑھے کے پاس بیٹھ جاتے۔ چھتر سائیں سے اپنے حق میں دعا کرنے کی درخواست کرتے جس کے جواب میں، جیسا کہ انہیں توقع اور خواہش بھی ہوتی، سائیں انہیں فحش گالیوں سے نوازتے جن میں جنون کا رنگ نمایاں ہوتا اور جو باقاعدہ گالیاں نہیں ہوتی تھیں۔ اکثر مختلف جنسی اعضاء اور حرکات کو تکرار سے بیان کیا جاتا۔ یا وہ ایسی زبان میں اونچا بولتے جو کسی کو خاک بھی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ لیکن سائلوں کو یقین تھا کہ ان اجنبی آوازوں میں بھی کوئی پیغام تھا جسے شاید دنیا میں بس ایک ہی آدمی سمجھنے کی اہلیت رکھتا تھا، اور وہ تھا فیکا پہلوان۔
عجیب بات یہ تھی کہ جسمانی طور پر فیکا پہلوان جتنا بے ڈھنگا اور بے ڈول واقع ہوا تھا، اس کے گلے میں اتنا ہی رچاؤ، سُر، اور سوز تھا۔ نعت پڑھے، یا ٹپے گائے، لوگ سننے کے لئے ٹھہر جاتے۔ گو کم ہی اونچی آواز میں کچھ گاتا۔ چھتر سائیں جتنا فحش گو اور طبیعت کا کھردرا تھا، اس کے بالکل برعکس فیکا پہلوان اتنا ہی خوش گلو، خوش گواور خوش اخلاق ۔ عوامی حافظے میں اخلاق سے گرا ہوا کوئی ایسا لفظ نہیں تھا جو کبھی اس کی زبان سے نکلا ہو۔ یہ اس کی آنکھوں کی حیا ہی تھی کہ عورتیں بھی اس ڈیرے پر آتی اور فیکے پہلوان سے ہی رجوع کرتی تھیں۔ اس سے اپنے بیمار بچوں پر ہاتھ پھرواتیں۔ اس سے تعویز گنڈا کرنے کو کہتیں جو وہ نہ کرتا۔ بس ہر ایک کو دیہاتی ڈسپنسری کے کمپاؤڈر کی طرح، جو ڈاکٹر کی جگہ بیٹھا ہو، ایک ہی طرح کی گولیاں تھما دیتا جو ہر بیماری میں تیر بہدف ثابت ہوتیں۔ فیکے کے پاس بھی ایسی ہی ایک گولی تھی، ’’سدا سکھی رہو۔ سب دلِدّر دور ہو جائیں گے۔ سب چکر ہے قسمت کا۔ اچھے دن آئیں گے۔ اس کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔وغیرہ وغیرہ۔‘‘ یہ ایسا دلاسہ تھا، اور ایسے معصومانہ اعتماد کے ساتھ دیا جاتا کہ آنے والی عورتوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دیتا۔ ان کی قسمت کے پھیر کا رخ تبدیل کر دیتا۔ ان ہی عورتوں میں ایک میری دوسری ماں بھی تھی۔
عجیب بات ہے مجھے کبھی پتہ ہی نہیں چل سکا کہ وہ اس ڈیرے پر منتیں ماننے آتی تھی۔ شاید اپنی دائمی بیماریوں کے علاج یا پھر کیا معلوم کس لیے۔ میں ذرا فاصلے پرفٹ پاتھ پرہی ایک کھوکھے کے باہر بنچ پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ شام کا وقت تھا۔ وہ چوک کے پرلی طرف رکشے سے اتری۔ پھر سڑک پار کر کے سیدھی فیکے پہلوان کے پاس گئی۔ فیکے پہلوان نے معصومیت کے ساتھ، جیسا کہ وہ ہمیشہ ایسے موقعوں پر کرتا تھا، اپنا سر جھکا لیا اور آنکھیں موند لیں اور یوں ظاہر کیا جیسے وہ اسی سائل کے انتظار میں تھا کہ کب وہ آئے اور اس سے اپنا دکھڑا بیان کرے۔
جانے وہ اس سے کیا کہتی رہی۔ پھرشاپنگ بیگ میں لپٹی مٹھائی کی پوٹلی سی اپنی چادر میں سے نکال کر اس کی طرف بڑھائی جو اس نے ہاتھ بڑھا کر تھام لی۔ پھر جو کچھ ایسے موقعوں پر وہ اکثر کہا کرتا ہے‘ ایسی ہی تسلی کی کوئی بات اس نے میری ماں سے کہی ہوگی۔ جسے اس نے سر جھکا کر اور شاید آنکھیں موند کر، پورے انہماک سے سنا۔ وہ اٹھی تو میں بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور کھوکھے کی اوٹ میں ہو گیا کہ اسے دکھائی نہ دوں۔ وہ چھتر کے قریب گئی۔ ایک دھاگہ، یا کپڑے کی پتلی کترن چھتر کے ایک کونے سے ٹنگے دھاگوں میں سے ایک کے ساتھ باندھ دی۔ چھتر ایسی رنگ برنگی کترنوں سے‘جو ہوا کے دوش پر لہرا رہی تھیں‘ لدا پھندا تھا۔
میرا ایف۔اے میں داخلہ ہو گیا۔تب میرا چھوٹا بھائی چھٹی میں تھا۔ بہن دوسری جماعت میں چڑھی تھی۔ ہم تینوں صبح سکول اور کالج چلے جاتے۔ کالج کی مصروفیت شروع ہونے سے میرا روز روز لوہاری اور بھاٹی گیٹ جانا چھٹ گیا۔ صرف جمعے کا دن میں وہاں دوستوں کے ساتھ گزارتا۔ کبھی کالج سے چھٹی کے بعد بھی چلا جاتا۔ چھتر سائیں کے ڈیرے میں ایک طرف اینٹوں کی تین کچی پکی دیواریں کھڑی کر کے بغیر چھت کے کمرہ سا بنا دیا گیا جہاں مرادیں حاصل کر لینے والے سائل دیگیں لے کر آتے۔ ایک لنگر سا بن گیا جہاں تقریباً روز ہی کبھی میٹھے اور کبھی نمکین چاولوں کی دیگیں آجاتی تھیں۔ جمعرات کی رات کو البتہ وہاں عام دنوں سے زیادہ رش ہوتا۔ اس لنگر خانے کی وجہ سے علاقے بھر میں رونق تو ہوئی‘ وہاں مفت کی روٹیاں توڑنے والے بھک منگوں اور نشئیوں کا ٹھٹھ رہنے لگا۔ وہ وہیں پڑے رہتے۔ کھانے کو مل گیا تو کھا لیا۔ ورنہ ایک طرف گندے نالے کے کنارے بیٹھ کر پنی لگائی یا چرس پی اور دنیا و مافیہا سے بے گانہ ہو کر پڑے رہے۔ کچھ خوانچہ فروش بھی وہاں فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ آن بیٹھے۔ اچھا خاصا میلے کا ماحول بن گیا۔
اس تمام ہنگامے کا مرکز چھتر سائیں تھے۔ لیکن وہ اس بڑھتی رونق سے دن بدن زیادہ نالاں ہوتے گئے۔ اب ان کی گالیاں فٹ پاتھ پر چلتے لوگ بھی سنتے اور جب کبھی انہیں دورہ پڑتا تو اپنے چھتر کے ڈنڈے کو جو لوہے کا تھا‘ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اکھاڑنے کو ہوتے۔ لوگ کہتے ہیں ایک بار انہوں نے زمین میں اندر تک گھڑے ڈنڈے کو باہر کھینچ ہی نکالا ۔ جس کے بعد فیکے پہلوان نے ایسا انتظام کیا کہ اسے اکھاڑنا تو کجا، اپنی جگہ سے ہلانا بھی سائیں تو کیا کسی بھی انسان کے بس سے باہر ہو گیا۔ زمین میں گہرا گڑھا کھود کر اس میں پہلے اینٹوں کے چورے اور سیمنٹ بجری کی بھرتی ڈال کر اندر ڈنڈا گاڑا گیا۔ پھرزمین کے اوپر چھوٹا سا تھڑا بنا دیا گیا۔ سائیں شاید اس اہتمام کو سمجھ گئے تھے۔ لہذا چند ایک بار کوشش کی۔ پھر اسے نہ چھوا بلکہ اپنا غصہ فیکے پہلوان کو دو ہتھڑوں سے پیٹ کر نکالتے۔ وہ دیو ہیکل آدمی اللہ کی گائے تھا۔ خاموشی سے مار کھاتا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں معصومیت کے ساتھ ساتھ مظلومیت کی سرخی بھر جاتی اور یوں معلوم ہوتا کہ وہ بس رو ہی دے گا۔ اوروں کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں، لیکن مجھے یہ منظر دیکھ کر طیش آجاتا۔سوچتا آخر وہ ایک ہاتھ اسے مار ہی کیوں نہیں دیتا۔ سنگل پسلی سائیں تو اس کا کڑکا سہارنے جوگا بھی نہیں تھا۔ لیکن دنیا کے رنگ نرالے ہیں۔ فیکا پہلوان بھی ایسا ہی ایک نرالا کردار تھا جس کے لئے میں ہمیشہ متجسس رہا۔
بی۔ کام کے بعد مجھے ایک جوتے بنانے والی کمپنی میں اکاؤنٹس کلرک کی نوکری مل گئی۔ اٹھارہ سو روپے تنخواہ مقرر ہوئی جو تب میرے جیسے اکیلے آدمی کے لئے تو بہت تھی۔ میری ماں کے لئے البتہ اس کی کیا حیثیت ممکن تھی۔ ستائیس سو روپے ماہوار تو وہ اپنے خانساماں کو دیتی۔ میں نے اسے اپنی نوکری کی بابت بتایا تو اس نے بڑے تحقیر آمیز لہجے میں مجھے محنت سے کام کرنے کی تلقین کی اور تاکید کرتے ہوئے کہا کہ دفتر میں اپنی روایتی کاہلی کا مظاہرہ نہ کروں۔ کیونکہ یہ صرف گھر میں ہی ممکن ہے کہ آدمی کچھ بھی نہ کرے اور پڑا بے کار کی مفت روٹیاں توڑتا رہے۔ دفتروں میں ایسا نہیں چلتا۔ مجھے اپنی کم تر حیثیت کا احساس دلانے، میری تحقیر کرنے اور میری سست طبیعت کو ہدف تنقید بنانے کا وہ کوئی موقع ضائع نہیں کرتی تھی۔ میرا بھائی البتہ ذرا مختلف طبیعت کا تھا۔ وہ اس کی بات نہ سنتا۔ آگے سے جواب تو نہ دیتا لیکن میری طرح تابعداری اور بے بسی سے سر جھکائے کھڑا بھی نہ رہتا۔لڑکے کی آنکھوں میں چھپی بغاوت کی چمک ماں کو کچھ بھی کہتے ہوئے محتاط رہنے پر مجبور کرتی۔ یوں بھی وہ ذہین اور پر اعتماد لڑکا تھا۔ میٹرک فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ پھر پری انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔ اپنی تمام تر خباثتوں کے باوجود ایک بات ہماری ماں میں اچھی تھی۔ ہماری تعلیم کا خرچہ وہ ذمہ داری کے ساتھ پورا کرتی ۔ چاہتی تو ہمیں کب کا نکال باہر کرتی۔ ابو کی وفات کے بعد ہمارا اس پر حق ہی کیا بنتا تھا۔ لیکن شاید اس لئے کہ وہ خود بھی تنہا اور بیمار تھی، وہ ہم بہن بھائیوں کو ساتھ رکھنے پر مصر رہی۔ ہم سوتیلے ہی سہی لیکن وہ ہمیں کھونا نہیں چاہتی تھی۔ وہ تنہائی کی ماری ہوئی تھی۔ اس کے سبھی جاننے والے اس کی بدکلامی کی وجہ سے اس سے دور بھاگتے۔اس کا کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تھا۔دور پار کا اگر کوئی عزیر تھا بھی تو وہ اس سے قطعی لاتعلق ہو چکا تھا۔ میرا چھوٹا بھائی بھی اس کے پاس نہ ٹکا۔ ایف ایس سی کرنے کے بعد وہ کراچی یونیور سٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں داخل ہوا۔ بس پھر کبھی لاہور واپس نہ آیا۔ کچھ عرصہ تو ماں سے خرچے کے لئے رقم منگواتا رہا۔ پھر شاید اس نے ٹیوشنیں وغیرہ پڑھانی شروع کر دیں اور اپنے خرچے کا بوجھ خود ہی اٹھانے لگا۔
مجھے نوکری کرتے چار سال ہو چکے تھے جب اس نے ہماری بہن کو جو میٹرک کا امتحان دے کر فارغ ہوئی تھی‘ اپنے پاس کراچی بلا لیا۔مجھے بھی کہتا رہا کہ چلاآؤں۔ کہیں نہ کہیں وہ میری نوکری کا بندوبست کر دے گا۔ لیکن میں اپنے کینچلی میں دبکا رہنے والا آدمی ہوں۔تجربات کرنے سے، رسک لینے سے ڈرتا ہوں۔ بس بیٹھا رہا۔ ماں کے گھر میں مجھے کرایہ دینے کی فکر تو نہیں تھی۔ وہ میرے ساتھ کیسی ہی بدسلوکی کرتی‘ مجھے گھر سے نکل جانے کو تو نہ کہتی۔ میرے لئے جیسا لاہور تھا، اس سے زیادہ غیر محفوظ اور اجنبی کراچی تھا۔ ایک دن ماں نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنے رشتہ داروں میں ایک لڑکی میرے لئے دیکھی تھی جس کے والدین سے اس نے میری شادی کی بات بھی پکی کر دی تھی۔ مجھے بس اس نے اطلاع دی۔ میں نے ہمیشہ کی طرح اس کی بات پر صاد کیا۔
منگنی کے وقت میں نے لڑکی کو دیکھا تومجھ سے اپنی خوشی اور حیرت چھپائی نہ گئی۔ وہ میری توقع کے برعکس خوبصورت تھی۔ شاید یہ پہلا اور آخری فیصلہ تھا جو ماں نے میرے حق میں درست کیا۔ ادھر چھوٹے بھائی نے‘ جو کیمیکل انجینئرنگ کی ڈگری لینے کے بعد ایک کمپنی میں خاصی معقول تنخواہ پر ملازم ہو گیا تھا‘ پھر سے مجھے وہاں آنے پر اصرار کیااور کہا کہ اس نے اپنی کمپنی میں ہی میرے لئے بات کر رکھی ہے۔ لیکن میں اپنا شہر، لوہاری گیٹ، فیکا پہلوان، چھتر سائیں اور اپنی سوتیلی ماں کا گھر کیسے چھوڑ سکتا تھا۔ میرا سبھی کچھ یہیں تھا۔ میں کسی دوسری مٹی میں کیسے جڑیں پکڑ سکتا تھا۔ پھر مجھے اس کا خط ملا کہ وہ ایک جگہ بہن کی شادی کر رہا ہے۔ شادی پر میں بھی گیا۔ ماں کو اس نے بلایا، نہ وہ گئی۔ مجھے البتہ اس نے جانے دیا، پتہ نہیں کیوں۔ حالانکہ اسے چھوٹے بھائی کی رکھائی پر بڑا تاؤ آیا۔ خیر اس واقعہ کے کوئی چار ایک ماہ بعد ماں نے میری شادی بھی کردی۔ اس نے میرے چھوٹے بھائی یا بہن کو نہیں بلایا۔ لیکن میں نے انہیں اطلاع کر دی اور وہ خود ہی چلے آئے۔
ماں نے اوپر کی منزل مجھے دے دی۔ وہاں الگ سے باورچی خانہ بھی تھا۔ لیکن کھانا نیچے اکٹھا ہی پکتا تھا۔ یہ دستور ہمیشہ قائم رہا۔ میری تنخواہ پینتیس سو ہو گئی ۔ جبکہ ہمارا خانساماں تینتیس سو روپے لے رہا تھا۔ میرے اور میری بیوی کے خرچوں میں یہ رقم ختم ہو جاتی۔ ماں کو میں کیا دیتا۔ چند سو روپے دیتے ہوئے ویسے ہی شرم آتی تھی۔ اس نے خود ہی کہہ دیا کہ اپنے خرچے پورے کر لو تو یہی بہت ہے۔ اتنی تنخواہ میں تو ہمارا خانساماں بھی کہتا ہے کہ اس کی پوری نہیں پڑتی، تمہاری کیا پڑے گی۔ یہ بات جب وہ میری بیوی کے سامنے کہتی تو مجھے لگتا اس نے مجھے سر عام ننگا کر دیا ہو۔ ایسا مجھے اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا۔ یہی وہ تبدیلی تھی جو شادی کے بعد مجھ میں آئی۔ اب اس کی ذرا ذرا سی بات جو وہ میری بیوی کے سامنے مجھے کہتی،میرے دل پر چوٹ کرتی۔ مجھے طنز کے زہر میں ڈوبی ہوئی اور کسی نشتر سے زیادہ تیز لگتی۔ مجھے اپنا آپ اتنا حقیر محسوس ہوتا کہ میری زبان جیسے گنگ ہو جاتی۔ مجھ سے کوئی بات ہی نہ ہو پاتی۔
میری بیوی مجھ سے شکایت کرتی کہ آخر میں ایسی ذلت بھری زندگی کیوں گزار رہا ہوں۔ کہیں اور جا کر کیوں نہیں رہتا۔ لیکن میں پینتیس سو روپوں میں کہیں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مجھے ایک پرسکون ماحول کی عادت ہو گئی تھی۔ بڑا گھر، اٹیچ باتھ روم، اے سی، اچھا کھانا اور گھر کے بلوں اور دوسرے خرچوں کی ذمہ داری سے آزادی۔ ان آزادیوں کے ساتھ میں نے عمر کا بڑا حصہ اس گھر میں گزارہ تھا۔ جس قسم کے پورشن میں ہم میاں بیوی رہ رہے تھے‘ اگر ایسا ہی کرایے پر تلاش کریں تو پانچ چھ ہزار روپے سے کم کیا ہو گا۔ میں اپنی تنخواہ میں واجبی سا گھر نہیں لے سکتا، باقی خرچے کیسے اٹھاتا۔ میں نے بیوی کو یہ باتیں سمجھانے کی کوششں کی۔ وہ سمجھ تو گئی، غریب گھر سے آئی تھی۔ ان باتوں کو سمجھتی تھی۔ لیکن میری ڈھٹائی اور تن آسانی اس سے ہضم نہ ہوپاتی۔ ماں جب کچھ زیادہ سخت سست کہتی تو کئی کئی دن میری بیوی کی چڑھی تیوری نہ اترتی۔ جس طرح ماں کا نزلہ مجھ پر گرتا۔ اسی طرح بہو کا سینڈ بیگ بھی میں ہی بنتا۔ وہ مجھی کو اپنی تمام تر بدبختی کا ذمہ دار ٹھہراتی۔
’’تم کوئی اور اچھی نوکری کیوں نہیں تلاش کرتے۔ اپنے بھائی کے پاس کیوں نہیں چلے جاتے۔ کراچی کوئی بری جگہ تو نہیں ہے رہنے کے لئے۔کوئی پارٹ ٹائم کام ہی تلاش کرلو۔ یا مجھے کہیں نوکری دلوا دو۔ ہم پیسہ اکٹھا کر کے یہاں سے نکل جائیں گے۔‘‘
میں خاموشی سے جیسے ماں کو سنتا ‘ ویسے اسے بھی ۔ ماں کو میں نہیں چھوڑ سکتا تھا کہ اس سے میری زندگی کی آسائشیں جڑی تھیں۔ نہ بیوی سے علیحدہ ہونے کا سوچ سکتا تھا کہ اگر یہ نہ ہو تو پھر یہ آسائشیں کس کام کی۔ سو دونوں کی خاموشی سے سن لیتا۔ کسی ایک کو بھی ناراض کرنے کا یارا مجھ میں نہیں تھا۔ بہرحال پھر شاید اس لئے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ باہر کی دنیا میں میری دلچسپی کم ہو گئی تھی، میں گھر پر ہی رہتا۔ خاص طور پر بیٹے عمران کی پیدائش کے بعد مجھے لگا کہ جیسے میری زندگی میں سوائے عزت کے کسی بھی شے کی کمی نہیں رہی ۔
وہ بوڑھی ملازمہ اپنے معمول کے مطابق دو ایک ماہ بعد اس سے ملنے چلی آتی۔ اکثراس کا بیٹا بھی ساتھ ہوتا۔جب تک وہ وہاں رہتی‘ وہ بھی بیٹھا رہتا۔وہ کوئی آدھ ایک گھنٹہ بیٹھتے اور پھر رخصت ہوتے ۔ میں دکھائی دے جاتا تو ماں کی ناراضگی کے خوف سے ملازمہ مجھ سے سلام بھی نہ لیتی۔ میں بھی اس سے کنی کتراتا۔ نیچے ہی نہ اترتا۔ یا پتہ ہوتا کہ اس وقت وہ دونوں ہوں گے توگھر ہی نہ آتا۔ ادھر ادھر نکل جاتا۔ کسی دوست کے ہاں ٹھہر جاتایا دفتر میں زیادہ دیر بیٹھا رہتا۔ وہ کبھی بھی ایک گھنٹے سے زیادہ وہاں نہ ٹھہرتے۔ دراصل جب سے شادی ہوئی تھی، میری طبیعت بہت حساس اور کسی کنواری لڑکی کی عصمت کی طرح نازک ہو گئی تھی۔میں ڈرتاکہ ان دونوں کے سامنے ماں کہیں مجھے جھڑک ہی نہ دے۔ کتنی سبکی والی بات ہو گی۔
چار سال بیت گئے۔ ماں کو شوگر ہو گئی تھی۔ ایک روز اس کی چیخیں سنائی دیں تو میں بھاگتا ہوا اس کے کمرے میں گیا۔ اس کی ٹانگ بے جان ہوکر مڑی ہوئی تھی۔ اس پر فالج کا حملہ ہوا تھا۔ فوراً میں نے ڈاکٹر کو فون کر کے بلایا۔ اس کے کہنے پر ہی میں ماں کو ہسپتال لے گیا۔ کوئی ہفتہ بھر وہ نیورو سرجیکل وارڈ میں رہی۔ پھر چلنے پھرنے جوگی ہو گئی تو ڈاکٹروں نے واپس بھیج دیا۔ اس کے بعد وہ زیادہ تر اپنے بستر میں ہی لیٹی رہتی۔ چل پھر لیتی۔ لیکن زیادہ نہیں۔ بس شام کی واک کے لئے بیوی کے ساتھ دو گلیاں چھوڑ کر موجود پارک میں جاتی۔ میں گھر پر ہوتا تو مجھے ساتھ لے لیتی۔
وہ جتنی ہم میاں بیوی پر منحصر ہو گئی تھی، اس کے مزاج کی چڑچڑاہٹ اور زبان کی کڑواہٹ میں بھی اسی قدر اضافہ ہوا۔ لیکن جیسے وقت نے مجھے زیادہ ڈھیٹ اور اپنی نظر میں زیادہ حقیر بنا دیا۔ سو یوں ہوا کہ وہ مجھے میری بیوی اور بچے کے سامنے بھی ڈانٹتی، لعنت ملامت کرتی، میں خاموشی سے سنتا اور بعد میں ذرا سی کوشش سے خود کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو جاتا کہ بیمار آدمی کی پھٹکار سے بھلا کیا ذلت، کیسی بے عزتی۔
بچے کو سکول میں داخل کیا تو فیس کا ذمہ اس نے اپنے سر لے لیا۔ مجھے اپنی بیوی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں رہی تھی کہ ہمیں ہر صورت میں خود کو یہ زندگی جینے پر مجبور کرنا چاہئے، ایک اچھے مستقبل کی امید میں جو ہم سب کا تھا، میرا، میری بیوی اور میرے بچے کا۔ لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ یہ انتظار طویل سے طویل تر ہوتا جائے گا۔ صبر کے بعد میٹھا پھل تو ملتا ہے، لیکن جتنی کڑواہٹ انسان اس مٹھاس کی خواہش میں سہار جاتا ہے، اس کا تو کوئی بدل نہیں، اس کا تو کوئی مداوا نہیں۔ اور اگر اس انتظار کے بعد مٹھاس کو محسوس کرنے والی حس ہی مر چکی ہو تو وہ ایک الگ قصہ ہے۔
میری شادی کو کوئی گیارہ سال ہو گئے تھے جب ایک دن میں دفتر سے چھٹی کر کے کسی کام سے برانڈرتھ روڈ آیا۔ واپسی پر میں بھاٹی گیٹ گیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے وہاں چھتر سائیں کے ڈیرے کی جون ہی بدلی ہوئی دیکھی۔ سائیں کا وصال ہوئے دو سال ہو چکے تھے۔ گڑھے کی جگہ اس کا چھوٹا مگر وجیہہ مزار ایستادہ تھا۔ آس پاس کچھ رقبے میں سنگ مر مر کے فرش والا کشادہ صحن تھا۔ ایک طرف چھوٹی سی گلی بنی تھی جس میں لنگر خانہ تھا۔ باہر فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ کتنی ہی دکانیں پھولوں، قرآن مجید اور سپاروں اور مذہبی کتابوں اور طرح طرح کے پتھروں والی انگوٹھیوں‘ اور حمدوں، نعتوں کی کیسٹوں وغیرہ کی کھل چکی تھیں‘ روشنیوں میں نہائی اور خوشبوؤں میں بسی ہوئیں۔ میں مزار کے بڑے دروازے سے، جس کی پیشانی پر’’ حضرت علم دار حسین پیر چھتر سائیں سرکار رحمتہ اللہ علیہ‘‘ جلی حروف میں لکھا تھا، اندر کشادہ احاطے میں داخل ہوا۔ ایک طرف مزار کا حجرہ تھا جس کے دروازے کے باہر کچھ عورتیں اور مرد بیٹھے اور کھڑے تھے۔ اندر سبز چادر سے ڈھکی قبر دکھائی دیتی تھی۔ میں اس ارادے سے آگے بڑھا کہ فاتحہ پڑھوں کہ میری نظر بائیں جانب ایک چبوترے پر پڑی جو کافی کشادہ تھا اور جس پر بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔ اس کے باوجود کہ لوگوں کی کافی تعداد اس احاطے میں موجود تھی‘سارے میں تقدس بھری خاموشی کا راج تھا۔ چبوترے کے پرلے کنارے کے قریب میں نے پہلی نظر میں ہی پہچان لیا کہ فیکا پہلوان بیٹھا تھا۔
اس کے چہرے پر تو وقت نے کچھ اثرات نہیں چھوڑے تھے۔ لیکن اس کے سر کے گھنگھریالے بال سفید ہو گئے ۔ سفید داڑھی میں کالے بالوں کی دھاریاں تھیں۔ لیکن بہت نمایاں فرق اس کے جسم میں آیا جو بے طرح پھیل گیا تھا۔ وہ چوکڑی مارے بیٹھا تھا اور اس کی گود میں خوب ابھری ہوئی توند ایسے دھری تھی جیسے یہاں پڑی سستا رہی ہو۔ فیکے کے چہرے پر ایسا سکون اور شانتی تھی جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ کم از کم فیکے کا یہ روپ میرے لئے بالکل اجنبی تھا۔ میں چلتا ہوا اس کے قریب گیا۔ لوگ آتے تھے اور سبز چوڑی چنری اوڑھے اس سادھو کے گھٹنوں کو چھوتے ۔ تب میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا جہاں معصومیت اور طفلانہ حیرت تو بدستور موجود تھی لیکن ایک احساس اضافی اور بہت نمایاں تھا، کامیابی، افتخار اور اعتماد کا احساس۔ ایسا احساس جو زندگی بھر کی تپسیا کے بعد ملنے والی کامیابی سے انسان کی ذات میں ہویدا ہوتا ہے۔ اس احساس کی بڑی چکا چوند تھی جس نے میرے اندر بھی چانن بھر دیا۔ امید کا چانن۔ میں نے آگے بڑھ کر چھتر سائیں کے جانشین کے گھٹنے کو چھوا۔ وہ ایسی سرشاری اور ازخود رفتگی میں مست تھا کہ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ کوئی آیا اور کسی نے اس کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا تھا۔
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ مسجد میں مغرب کی اذان بلند ہوئی۔ میں جا کر صحن میں ایک طرف دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ مجھے مزار کے گنبد پر، جو اس وقت سورج کی سرخ ہوتی روشنی میں دہک رہا تھا‘ کبوتروں اور چڑیوں کے غول بیٹھے دکھائی دیئے۔ مجھے اپنا جسم تھکاوٹ سے چور محسوس ہوا۔ میری آنکھیں تھکن کے بوجھ تلے بند ہو نے لگی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو دوست ڈاٹ کام پر خورشید اقبال کی خاموش ادبی خدمت کا ایک اور ثبوت
انٹرنیٹ پر سب سے پہلا باقاعدہ ادبی ماہنامہ
کائنات
اب ہر تین ماہ کے بعد تین شمارے کتابی صورت میں یکجا کئے جا رہے ہیں۔
www.urdudost.com