سکشن آفیسر نے فون کریڈل پر رکھا اور میری طرف مڑتے ہوئے کہا۔
’’مسٹر ظفر۔چیف سکریٹری کا فون تھا۔ آپ نے اپنے برانچ کی assessment reportاب تک submitنہیں کی براہ کرم آج شام تک رپورٹ مکمل کرلیں۔‘‘
’’اوکے سر،میں کوشش کروں گا‘‘
دورسے آتی ہوئی کارکی ہیڈلائٹ کی روشنی دھیرے دھیرے قریب تر ہوتی گئی۔ انقلاب زندہ باد۔ انقلاب زندہ باد کے نعرے تیزہونے لگے۔
’’چھناک‘‘مضبوطی سے بندکھڑکی کے شیشے پتھر پھینک کر توڑ دیئے گئے۔باہر کی ہوا دندناتی ہوئی کمرے میں درآئی۔ ٹیبل پربکھرے ہوئے نئے پرانے پلان ادھر ادھر اڑنے لگے۔کسی تھیٹرکی بتیوں کی طرح کمرے کی بتیاں دھیرے دھیرے دم توڑنے لگیں۔ اورپھر اس تاریکی میں ایک سُرخ روشنی ابھری۔ اور پھیلتی گئی۔ آناً فاناًکمرہ کسی فوٹو گرافرکا ڈارک روم بن گیا۔ کمرے کی لال روشنی میں ہر قسم کے نگیٹو(negative)کو پازیٹو (positive)کیا جانے لگا۔جماعت کے لوگ بہت مطمئن تھے لیکن کچھ لوگ پریشان تھے۔ عالم بدحواسی میں گھبرا گھبراکر ادھر دوڑ رہے تھے۔ انہیں سانس تک لینے کی فرصت نہیں تھی۔ یوں لگتا تھاجیسے گھر میں بہت سے انجان مہمان آگئے ہوں۔
اس وقت میر ابھی جی چاہنے لگاکہ تھوڑی سی پی لوں اور قبرستان کی سی ننگی خاموشی میں کچھ ارتعاش پیداکردوں۔ عوام کی محنت اور اعتمادا پر آنسو بہاؤں میں سوچتارہاسوچتارہااپنی کرسی میں دبکاہوااور ابھی تک کھانے کے لئے مجھے آواز نہیں دی گئی تھی۔
ایک دن میں نے ایک فوٹو گرافرکو پکڑ ہی لیا۔
’’فوٹوگرافر۔اگر کوئی آدمی جھوٹ بول رہاہواور تمہیں پتہ چل جائے کہ وہ سراسر دروغ گوئی سے کام لے رہاہے۔تو کیا تم اسے ٹوک دوگے؟‘‘
اس نے کہا۔’’موقع کی بات ہے‘‘
بس مجھے غصّہ آگیا۔’’تمہارے سربراہوں نے یہی تعلیم دی ہے تمیں؟‘‘
اس نے برجستہ جواب دیا۔’’آج کل سربراہوں کے پیچھے کون چلتاہے۔ ہمارا ہر شخص بذاتِ خود ایک سربراہ ہے۔ اس کے اپنے نظریے ہیں۔ الگ اصول ہیں۔‘‘
فوٹوگرافر کی زبان سے نظریے اور اصول کی بات سن کر میراموڈ چوپٹ ہوگیا۔
’’کیا اصول ہیں تمہارے؟‘‘میں نے چڑچڑے پن سے کہا۔
’’سب کو سکھ ملے۔سب کے پیٹ بھرے ہوں۔ سب کے سروں پر چھت ہو۔ سبھی culturedہوں۔‘‘
’’سب سے مراد کون لوگ ہیں؟‘‘میں نے پوچھا
’’عوام‘‘
’’عوام یا ہم جماعت؟‘‘
’’تم مفت میں confusedہورہے ہو۔تمہاری عادت ہے کہ تم حالات کا مقابلہ کرنے سے جی چُراتے ہو۔مثلاً تمیں اپنے کرایہ دار سے کرایہ مانگنا پڑے تو تم اس سے نہیں مانگوگے تاکہ وقتیکہ وہ تمہیں خود نہ دیدے یا کوئی ایسی بات کہنے سے احتراز کروگے جس سے تمہارے دل کا سکون غارت ہوجائے۔لیکن ایسے میں ہم لوگ عین مقام پر پہنچ کر دو ٹوک فیصلہ کردیتے ہیں جہاں تم اپنے دل کا سکون کھو بیٹھتے ہو وہاں ہم لڑ جھگڑ کر ایک مستقل قسم کے سکون کی بنیاد رکھ دیتے ہیں‘‘
کوئی تیزلانچ پانی سے گزرجائے تو پانی میں ایک گھاؤسا پیداہوجاتاہے۔اسی طرح مجھے اس فوٹوگرافر کے پیچھے ایک گھاؤ سا نظرآرہا تھا اور اِرد گرد کی فضااس گھاؤ کو پاٹنے کے لئے چاروں طرف سے امڈتی دکھائی دیتی تھی۔
ایک فوٹوگرافر ہماری بستی میں بھی رہتاہے ایک دن ایک بیوہ کے پنشن فارم پر دستخط کرتے ہوئے اس نے کہاتھا۔
’’عورت کے لئے سب سے اچھی ورزش گھر کاکام ہے۔ جس سے اس کا جسم گٹھارہتاہے۔ اور وہ بیمار نہیں ہوتی۔ کپڑے دھونے سے بازوؤں اور چھاتی میں طاقت آتی ہے کام نہ کیا تو موٹی ہوجائے گی‘‘
’میں بہت پریشان ہوں، مجھے کسی کی نصیحت نہیں سننی‘‘بیوی سچ مچ پریشان لگ رہی تھی اُس کی آنکھوں میں اُداسی اور ویرانی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
’’کوئی بات نہیں۔‘‘فوٹوگرافر نے کہناشروع کیا’’لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔محنت کے ہتھوڑے سے ہی امیری اور غریبی کے درمیان حائل دیوار کو گرایا جاسکتاہے‘‘
بیوہ بہت زیادہ اداس نظر آنے لگی۔قدرے توقف کے بعد دھیرے سے بولی
’’ایرکنڈیشندکمرے میں بیٹھ کر اس قسم کی باتیں کرنابہت آسان ہے صاحب‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے منھ دوسری طرف گھمالیااور اپنے کلمے کی انگلی سے اپنی آنکھوں کے سمندرکو دیکھاکی موجیں کناریسے ٹکراکر جھک گئی تھیں۔
جیسے کچھ دیر روشنی کی طرف دیکھنے سے ہرچیز پرایک لال نیلااور کالا دھبّہ سا نظرآتاہے اور نگاہ کے ساتھ ساتھ حرکت کرتارہتاہے اسی طرح اس منظرنے مجھے ایک منحوس رنگ اور دھبّے کے پیچھے دھکیل دیا۔جہا ں ایک لمبی راہداری تھی جو شمشان کی طرح بھائیں بھائیں کررہی تھی۔
’’اس قدر مضمحل کیوں ہو۔آواز یقینا میری بیوی کی تھی کیونکہ میری پریشانیاں دور کرنے کا ٹینڈر غالباً اسی کے نام نکلاہے۔
میں نے اسے بتانا شروع کیا۔
’’ایک شاعریاادیب اسی سماج میں سانس لیتاہے جس میں اس کا قاری۔ دونوں کے درمیان ایک رشتہ ہوتاہے۔ سوال پیداہوتاہے کہ اس رشتے کو قائم و دائم رکھنے کے لئے فنکار پر کیا لازم ہوتاہے۔ کیا وہ ایسی چیزیں پیش کرے جن سے قاری کے حلق میں کونین بھرجائے‘
’’ہرگز نہیں‘ ‘اس نے مجھے ٹوکا
’’تو تمہارے خیال میں فنکار ہمیشہ جھوٹ کا سہارا لیتاہے؟‘‘
’’یہ بھی ٹھیک نہیں‘‘ اس نے برجستہ کہا۔
’’توپھر؟‘‘میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
’’شوگرکوٹیڈ(suger coated)گولیوں کااستعمال‘‘وہ شرارت سے مسکرائی۔
’’بکومت۔شوگرکوٹیڈگولیوں کا بھرم زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکتا‘‘
’’توپھر بیج ڈالنے سے پہلے کھیت اچھی طرح ہموار کرلو‘‘اس بار وہ سنجیدہ تھی۔
’’لیکن فوٹوگرافر کے ڈارک روم میں ہر نگیٹو کو بہ آسانی پازیٹو کرلیاجاتاہے‘‘
’’ہاں․․․․․یہ صحیح ہے لیکن۔چھری صحیح ہاتھ میں ہو تو زندگی بخشتی ہے اور غلط ہاتھ میں ہوتو زندگی سے محروم کردیتی ہے۔‘‘
’’مسٹر ظفر!میں چونک پڑااور گھبراہٹ میں میری زبان سے نکلا۔
’’یس سر‘‘
“as sessment report?”
’’ابھی لایا سر‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔او رمیں رپورٹ تیار کرنے میں منہمک ہوگیا۔