لیبارٹری
گندہ تالا ب ، کیکڑے اور وہ
یہ قیاس لگانا بہت آسان ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوئے ہوں گے____ وہ سابرمتی آشرم سے دلی کے آشرم چوک تک کہیں بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ کہیں ، کسی بھی طرح، کسی بھی حال میں ____لیکن معاف کیجئے گا۔ اُنکی پیدائش کے عمل کو کسی بھی طرح میں ’کلوننگ پروسیس ‘سے جوڑنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ اس لئے کہ کلوننگ کے ذریعہ چاہے وہ بھیڑ، ہو یا انسان____ اور یقینا آپ تسلیم کریں گے کہ سائنس کی تجربہ گاہیں، انسانی تجربہ گاہوں کے مقابلے ، کم خطرناک ہیں ____نہیں، اس بحث کے لئے ڈولی بھیڑ‘ یا پہلے انسان ’مکاؤف‘ کے تصور سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ سائنس کا پیدا کردہ انسان بھی گوشت پوست کا ہی انسان ہوگا مگر اُس انسان سے کم خطرناک ہوگا ____جو انسان کے ذریعہ ، انسانی فضا میں ، انسانی گھر، انسانی کمرے میں اور انسانی عمل کے دوران ان عالم وجود میں آگیا ہے____ ( اس لئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ کلوننگ کا انسان دوم درجے کا انسان ہوگا، کہ اُس کے اندر جنگ اور تہذیب کے جراثیم وہ شدّت اختیار نہیں کر پائیں گے جو…………)
اس لیے فرض کرتے ہیں کہ وہ وہی تھے جو انسانی فضا میں، انسانی گھر میں، انسانی عمل کے دوران____
اور فرض کرتے ہیں کہ وہ سابرمتی آشرم سے دلّی کے آشرم چوک تک کہیں بھی پیدا، ہوسکتے ہیں ____
¡¡
وہ کئی تھے۔ چار ، پانچ چھ، سات، آٹھ …… یعنی کل ملا کر اتنے کہ اُنکی گنتی آسانی سے ہوسکتی ہے۔ وہ بیحد نرم ملائم ، سادہ لوح یا ایسے تھے، جن کو لے کر پانیوں کی مثال دی جاسکتی ہے ۔ یعنی کسی بھی برتن میں ڈال دو____ وہ ایسے تھے کہ آپ اُن کا کچھ بھی استعمال کرسکتے تھے____ اور جس دن کا واقعہ ہے، اُس دن دوپہر کا سورج آگ برساتا ہوا اپریل مہینے کو جلانے اور جھلسانے کی تیاری کررہا تھا۔ دو بجے کا وقت ہوگا۔ ’وہ ‘ بہر کیف، ساری رات کے تھکے ہوئے____ ایک چھوٹے سے تالاب کے کنارے بیٹھے، گندے پانی سے بار بار نکلتے اور اندر جاتے کیکڑے کا لطف لے رہے تھے____
’ کیکڑے کے کتنے پاؤں ہوتے ہیں۔‘
دوسرا زور سے قہقہہ لگا کر ہنسا____کیکڑے کی آنکھیں کہاں ہوتی ہیں، سمجھ میں نہیں آتا____‘
’ سالے میں نے پاؤں کے بارے میں پوچھا تھا۔
____’ اور میں نے آنکھوں کے بارے میں ۔‘
اُن میں ایک سن رسیدہ تھا۔ اُس کی بڑی بڑی دانشورانہ ، آنکھوں میں چمک لہرائی ۔ ’ دیکھو، کتّے کو……‘
’ کتّا نہیں کیکڑا‘
’ ایک ہی بات ہے۔‘
’ ایک ہی بات کیسے، تم اور میں کیا……‘
وہ ہمیشہ کی طرح سنجیدہ تھا____ایک ہی بات ہے…… دیکھو ……دیکھو کیکڑا مٹی سے پھر باہر نکل آیا۔
’ بارش ہوگی۔ ‘
’ اِن سالوں کو پتہ کیسے چل جاتا ہے۔‘
’ بارش کی اطلاع ملتے ہی کیکڑے اپنے بلوں سے باہر نکل آتے ہیں۔‘
’ اسی سنجیدہ قسم کے دانشور نے اطلاع بہم پہنچائی۔ کیکڑے کے بارہ پاؤں ہوتے ہیں۔ کینکڑے اپنے پاؤں کا حساب نہیں رکھ پاتے۔ انکے لئے زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ اپنی حفاظت بھی نہیں کرسکتے ۔ دیکھو ۔ دیکھو…… سالا گرا____
بارہ پاؤں نہیں۔ کینکڑے کے دس پاؤں ہوتے ہیں ____
’ آٹھ ……‘
’ چھ……‘
پہلے نے گفتگو کے رُخ کو ہی بدل دیا تھا۔ کیکڑے کے ہاتھ کہاں ہیں؟ آں ؟ ہاتھ____
’ہاں، ہاتھ کہاں ہیں؟ ‘
پہلا پُر اُمید تھا____ ’ در اصل آپ لوگ جسے پیر سمجھ رہے ہیں وہ ……‘
’ ممکن ہے ۔‘
’نہیں ____یا تو کیکڑے کے ہاتھ نہیں ہوتے یا پاؤں۔‘
¡¡
دھوپ سخت تھی، لیکن اچانک بادلوں کا ایک کارواں دھوپ کے آگے سے گزر گیا ۔
’ بارش ہوسکتی ہے ۔‘
’ نہیں بھی ۔‘
’ کیکڑے زمینوں سے باہر آرہے ہیں، اس لئے ممکن ہے……‘
کیکڑے زمینوں سے باہر نہیں آرہے ہیں، جان بچا کر بھاگ رہے ہیں۔ ‘
’ جان بچا کر____‘
’ بارش کے موٹے موٹے قطرے، پتھر بن کر …… ‘
’ معصوم کیکڑے۔‘
’ قطعی نہیں ____‘ بیحد سنجیدہ نظر آنے والے دانشور نے منطق کا حوالہ دیا ____ ایسے بدنما، بدصورت، بدہیئت اور اس گندے آکٹوپس کی چھوٹی قسم کو کیا نام دیں گے۔ یہ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن معصوم نہیں ہوسکتا ۔
وہ دیر تک سر جوڑے بے بنیاد ، غیردلچسپ گفتگو میں الجھے رہے کہ کیکڑہ عالم وجودمیں کیسے آتا ہے۔ کیکڑہ دیکھتا کیسے ہے؟ ۔ کیکڑا زندہ کیسے رہتا ہے۔ کیکڑے کی زندگی کتنے دنوں کی ہوتی ہے۔ یا ، کیکڑوں کے پاس زندگی کا تصور کیوں نہیں ہے۔ کیکڑے اپنی حفاظت کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے ۔ وہ دیر تک سر جوڑے بیٹھے تھے کہ بادلوں کی اوٹ میں گم ہوتے سورج نے اِن کی تفریح طبع کے لئے بارش کی کچھ موٹی بوند یں آسمان سے بھیج دیں۔ کیکڑا کچھ لمحے تک تڑپا۔ پانی کے چھوٹے سے گڈھے میں ’ اچھلا‘ کودا____ اوپر نیچے کیا۔ بارش زرا تیز ہوئی تو چھوٹے سے گڈھے میں کیکڑے کی لاش تیر رہی تھی۔
وہ قہقہہ لگاتے ہوئے اُٹھے____
____’ جو اپنی حفاظت نہیں کر پاتے ہیں‘
دوسرے نے جوڑا____جوزندہ رہنا نہیں جانتے ہیں۔
تیسرا مسکرایا____اور جو اقلیت میں ہوتے ہیں…… اقلیت ، وہ اس لفظ پر دل کھول کر ہنسا۔
’ ہم نے جو کچھ دیکھا ، وہی اس کی زندگی تھی۔ یعنی بس اُتنی ہی زندگی ، جتنی ہم دیکھ سکے۔ اُس نے زرا سا ہاتھ پاؤں مارا اور ____‘
’ اس کی لاش کا کیا کیا جائے ۔‘ دانشور، سنجیدہ تھا۔ بارش سے گیلی ہوئی مٹی اُس نے دونوں ہاتھوں میں بھری۔ کیکڑے کے ’جسم ‘ پر ڈالی۔ عقیدت سے آنکھیں بند کرتے ہوئے بولا ۔
’ رام نام ستیہ ہے۔‘
دوسرے نے تڑکہ لگایا۔‘ جھوم کے بولو سیتہ ہے۔
’ ناچ کے بولو ستیہ ہے‘
’ گا کے بولو ستیہ ہے۔‘
’ رام نام ستیہ ہے……‘
بارش کی رم جھم جاری تھی۔ کپڑے بھیگ چکے تھے۔ چلتے چلتے ’ یہ کئی‘ ٹھہر گئے۔ پہلے نے دوسرے کو____ دوسرے نے تیسرے …… تیسرے نے چوتھے …… یعنی سب نے ایک دوسرے کو باری باری سے دیکھا____
پہلے کی آواز مدھم تھی…… ’ رام نام……‘
اس کے بعد کوئی کچھ نہیں۔ سب خاموش ہوگئے ۔ اور اٹھ کر یونہی آوارہ گردی کے لیے نکل گئے____
کالی رات‘ مہذب لوگ اور تجربہ گاہ
وہ مہذب لوگ تھے۔ وہ اتنے مہذّب تھے کہ اپنے مہذب ہونے کی دلیلیں دے سکتے تھے۔ اور اُن کی دلیلیں اتنی باوزن ہوا کرتی تھیں کہ اُن دلیلوں پر چپ چاپ لوگ سرجھکا لیا کرتے تھے۔
محترم قارئین، یہاں اُن بہت ساری سیاہ راتوں کا ذکر ضروری نہیں ہے، جو ’تجربے ‘کے لئے اُن کی لیبارٹری میں رکھی ہوئی تھیں۔ لیبارٹری ۔ وہ تہذیب سے جڑی ہوئی ہرشئے کو اپنی تجربہ گاہ میں لے جاتے تھے۔ اُنہیں سائنس میں مکمل یقین تھا۔ ردرفورڈ ‘ سے آئن اسٹائین اور گر اہم بیل سے نیوٹنس لاء کے بارے میں اُن کی معلومات خاصہ وسیع تھیں۔ جیسے وہ جانتے تھے کہ ہر ایک عمل کا اُس کے مساوی اور مخالف ایک ردّعمل ہوتا ہے۔ مادّہ کے فزیکل اور کیمیکل ریئکشن پر اُن کی خاص نظرہوا کرتی تھی۔ اور وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم آج تک کی ،اس سب سے زیادہ مہذب دنیا کے، سب سے زیادہ مہذب باشندے ہیں۔ اور یہ بات اُنہوں نے اپنی گرہ میں باندھ لی تھی کہ اِس مہذب دنیا کا اصول ہے، جو طاقتور ہیں، وہی زندہ رہیں گے۔ یعنی جو اقلیت میں ہیں ، کیڑے مکوڑے یا کیکڑے وہ ویسے بھی مُردہ ہیں اور اُنہیں جینے کا کوئی حق نہیں۔
تو یہ مہذب لوگوں کی لیبارٹری تھی، جہاں یہ جاننے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کہ تہذیب اور جنگوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یعنی جنگیں ہی وہ بیش قیمت زیور ہیں، جن سے ہمیشہ سے تہذیبوں کو آراستہ کرنے کا کام لیا جاتا رہا ہے۔
تو فرض کرلیتے ہیں، یہ وہی تھے جو انسانی فضا میں ، انسانی گھر میں اور انسانی عمل کے دوران____
اور فرض کرلیتے ہیں کہ وہ سابرمتی آشرم سے دلّی کے آشرم چوک تک کہیں بھی پیدا ہوسکتے تھے____
وہ ’کئی‘ تھے اور پچھلی کئی راتوں سے لیبارٹری کے لئے کام کر رہے تھے____
اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ وہ کوئی بہت دل سے اپنے کا م کو انجام نہیں دے رہے تھے۔ نہ اُنہیں مجبور کیا گیا تھا۔ بلکہ وہ ایک ’چھوٹے‘ سے خوف کی بنیاد پر، کہ اس طرح مہذب لوگوں کی دُنیا سے اُنہیں ’دیش نکالا ‘مل سکتا ہے____ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر اس کام کے لئے تیار ہوگئے تھے____
اور اس لئے بھی ____ کہ ان میں سے سب کے پاس ایک خاندان تھا___ خاندان میں ماں باپ تھے____بھائی بہن تھے۔ بیوی تھی اور بچے تھے……
اور اس لئے بھی …… کہ بچے معصوم ہوتے ہیں ____
اور اُن سے کہا گیا تھا۔ جو مضبوط ہوتے ہیں، بس اُنہیں ہی جینے کا حق ہوتا ہے۔ تہذیب کا فرمان بھی یہی ہے۔ اکثریت کی آواز بھی یہی____ اور اقلیتوں کو……
اُنہیں چانکیہ کے اشلوک پڑھائے گئے تھے……
nqjtZuLFk p liZL; oja liksZ u nqtZu %A
likZs na’kfr dkys rq nqtZuLrq ins insAA
(بُرے انسان اور سانپوں میں اگر موازنہ کیا جائے تو سانپ بہتر ہے کیونکہ سانپ اُسی وقت ڈستا ہے جب موت آتی ہے اور انسان تو قدم قدم پر ڈستا رہتا ہے___)
اور اُنہیں بتایا گیا، اس سے پہلے کہ وہ آپ کو ڈسیں، آپ کی تہذیب کو۔ آپ ……
¡¡
وہ کئی تھے____
اور کئی ‘ گیس کے سلنڈروں سے بھرے ٹرک پر ’لد‘ کر ساری رات تہذیب کے نام نئی نئی فنتاسی کو جنم دیتے رہے۔ یعنی ایسی فنتاسیوں کو جن کے تذکرے نہیں ہوسکتے ۔ جن پر گفتگو نہیں ہوسکتی۔ زندہ معصوم بچوں کو نئے نئے دلچسپ طریقوں سے آگ میں زندہ جلانے سے لے کر، آبروریزی اور حاملہ عورتوں کی کوکھ میں ہاتھ ڈال کر____
نہیں جانے دیجئے۔ فنتاسی لفظوں کا لباس اوڑھ لے تو ذائقہ جاتا رہتا ہے۔
آپ ایسا کیجئے ۔ آپ خود ہی اچھی سی فنتاسی گڑھ لیجئے۔ کیونکہ آپ نے ایک طرف جہاں ’ اتہاس‘ کے قصے پڑھے ہیں، وہیں ہٹلر، مسولینی، چنگیز خاں اور نریندر مودی کے نام بھی سُنے ہیں۔ آپ بابر سے بابری مسجد تک سب کچھ جانتے ہیں ____
اس لئے ذائقہ دار فنتاسیاں گڑھ لیجئے ۔ جس قدر چاہیے ’ رس‘ یا ’گھول‘ ملالیں۔ آپ کی مرضی____
¡¡
محترم قارئین،
وہ کئی تھے____
اور وہ وہی تھے جو سابرمتی آشرم سے دلّی آشرم چوک تک……
اور وہ وہی تھے جو انسانی فضا، انسانی گھر اور انسانی……
¡¡
سب کچھ آناً فاناً ہوگیا تھا____
پچھلے کئی دنوں سے وہ ’ تہذیب‘ کو بچانے میں لگے تھے۔ اور آپ جانتے ہیں، تہذیبوں کی حفاظت میں ایسی ہزاروں جانوں کا نقصان تو ہوتا ہی ہے____ ہزاروں جانیں لی گئی تھیں۔ وہ بھی ہزاروں طریقوں سے____ مگر____ اُس گھر میں جو کچھ ہوا، وہ نیا تھا۔ ایک اکثریتی فرقہ کے شخص نے اقلیتی فرقہ کے کچھ لوگوں کو ’ پناہ‘ دی تھی ، کہانی بس یہیں سے پیدا ہوئی تھی۔
وہ بس اُس آدمی کو دیکھ رہے تھے جو گھگھیائی ہوئی آواز میں اِن لوگوں کو دیکھ کر چیخ پڑا تھا۔
’ مجھے نہیں۔ میں تو اکثریت ……‘
’ اکثریت! ‘
’ ہاں۔ میری متی ماری گئی تھی……‘ وہ پاگلوں کی طرح چیخا___یہ میری بیوی ہے یہ بہن۔ یہ بیٹی ہے ۔ اور یہ بیٹا۔ یہ سب میرے ہیں۔ ہاں اُنہیں۔ انہیں لے جاؤ ۔ جو بھی کرنا ہے کرو۔ کرو ۔ میری متی ماری گئی تھی ۔ میں بیوی کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ دوست ہے ۔ بچالو۔ میں گھر لے آیا۔ مجھے کیا معلوم تھا۔ وہ چاروں …… لے جاؤ…… لے جاؤ…… ‘ وہ اپنے گھر کے لوگوں کو ایسے گھیر کر کھڑا تھا، جیسے چڑیا انڈے سیتی ہے۔ اُس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ بدن ڈول رہا تھا۔ آواز میں گھبراہٹ تھی۔ بیوی ، بہن، اور بچوں کی حالت بھی وہی تھی۔
’ تم نے بچایا کیوں؟‘
’ میں نے کہا نا۔ بیوی نے ……‘
’ میں نے نہیں۔ ‘ بیوی چیخی۔ جھوٹے ہو تم۔‘
’ م…… م…… میری بیٹی نے ……‘
’ خیر جو بھی ہو ۔ ‘ یہ کئی ‘ اُن کی طرف گھومے۔ وجہ جو بھی ہو لیکن تم نے بچانے کی کوشش کی۔ اس لئے کہ …… دوست!
’ میں نے کہا نا متی ماری گئی تھی۔‘
’ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اقلیت ہے۔‘
بیوی نے بیٹی کو ایک گندی سے گالی بکی ’ وہ اُس کے ساتھ پڑھتی ہے۔ اس لئے دوست لگتی ہے۔‘
دوست کوئی نہیں ہوتا۔‘ دانشور سنجیدہ تھا۔ دوستی برابر والوں میں ہوتی ہے۔ اکثریت کی اکثریت سے اور……‘
’ ہمیں چھوڑ دو…… چھوڑ دو…… انہیں لے جاؤ……‘
دانشور نے اقلیت کے چاروں گنہگاروں کی طرف دیکھا۔ وہ سچ مچ ایک لاش بن گئے تھے۔ چہرے سپید پڑ گئے تھے جسم میں خون نہیں۔ چاروں مذبح کے جانوروں کی طرح اُداس کھڑے تھے۔ یعنی کس کی باری پہلے آتی ہے۔ پھر کس کی باری___
دانشور نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا۔
’ باہر آؤ۔‘ اُس نے گھر کے لوگوں کو غصے میں اشارہ کیا۔ باہر کوئی نہیں بھاگے گا۔ جو جیسے ہے۔ جس حال میں ہے، ویسے ہی۔ میرا مطلب ……
اکثریت والا اب بھی چلاّ رہا تھا۔ انہیں لے جاؤ…… میری تو متی ماری گئی تھی۔
¡¡
یہ کئی ‘ اب باہر تھے۔ باہر ‘ ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے۔
’ دیکھو____‘ دانشور سنجیدہ تھا۔ زرا سوچو ۔ یہ ایک بے حد حسین تجربہ ہوگا، یعنی اس سے پہلے جتنے تجربے ہم کر چکے ہیں، یا ہم کریں گے۔ یا ہم کرنے والے ہیں۔‘
سب نے ایک دوسرے سے کانا پھوسیاں کیں۔ پھر پُر امید ہوگئے۔
’ اب کیا ارادہ ہے! ‘ ____دانشور جلد از جلد اپنی ’پیاس‘ کو انجام دینا چاہتا تھا۔
’ باس۔ مکان مالک کا کیا کیا جائے۔‘
’ وہ تو اکثریت کا……‘ پہلا بولتے بولتے ٹھہر گیا۔
دانشور غصے میں بولا۔ پریشانی اب ایسے ہی لوگوں سے پیدا ہوئی ہے ۔ ایسے ہی لوگ…… یہی لوگ ہمارے اب تک کے تجربے کو ناکام کرتے رہے ہیں۔‘
’ تو سب سے پہلے ……‘
دانشور نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’’ساری باتیں یہیں کر لوگے کیا۔ کچھ اُن لوگوں کے لئے چھوڑو۔ اُنہیں معلوم ہونا چاہئے۔ اُن کے ساتھ کچھ لمحوں میں، آنے والے کچھ لمحوں میں کیا ہونے والا ہے۔‘‘
اگلے ہی لمحے، یہ لوگ اندر تھے___ سامنے اکثریت اور اقلیت کے سہمے ہوئے 9افراد ان کے فیصلے کے منتظر تھے۔
’ آہ، فنتاسی۔‘ دانشور چلاّیا۔ دوسرے ہی لمحے اُس کی آواز بدل گئی____ تہذیب ہر بار انصاف کرتی ہے۔ جیسے کوتیا۔ یہ تہذیب کا اصول ہے۔یہ، یہ بہت زیادہ چلاّرہا تھا۔ اس کے منہ میں تیزاب کے قطرے ٹپکاؤ۔ تیزاب کے قطرے …… آہ، اور اُس کی بیوی۔ وہ بہت تیز بولتی ہے۔ مرچی کی طرح ۔ پہلے اُس کے جسم پر، آنکھوں میں مرچی کے پاؤڈر ڈالو____ بیٹی نے بچانے کی کوشش کی تھی۔ ہے نا۔ ایک بیحد پیاری عمر۔ اور اس عمر میں ایک بیحد پیارا چہرہ۔ جیسا ہونا چاہئے____ اسے بانٹ لو۔ ایسا کرو۔ دونوں بچیوں کو بانٹ لو۔ اِن کے سامنے ۔ تفریح کرو____ اِن میں سے کوئی کچھ نہیں بولے گا۔ جسم تفریح کے لئے ہوتا ہے۔ کمسن کے گوشت زیادہ ذائقہ دار ہوتے ہیں۔
’ اور ___ اقلیت والوں کے لئے باس۔‘
ایک بار میں ایک فنتاسی۔ ان کے لئے کچھ الگ سوچتے ہیں۔ سب سے پہلے اُس سنپولئے کو۔ اس کا بھیجا اُڑا دو۔ اقلیتی طبقے کا سنپو لیا خطرناک ہوتا ہے۔ حرامی۔
بچے نے تھوک دیا تھا۔
پہلے نے ریوالور تان لیا____اور اس درمیان ایک گندی گالی بکتا ہوا اکثریت کا بچہ سامنے آگیا تھا۔
’’ تو بھاگ جا____‘‘
’ دھائیں۔‘
دوسرا بچہ ایک لمحے کے لئے دوسرے کمرے میں پھر …… رہو گیا ۔ گولی دوسرے بچے کے سینے پر لگی تھی۔ سینے سے خون کے فوّارے چھوٹ پڑے تھے۔ کوئی بھی نہیں چیخا____
سب جیسے اس کھیل کے خاتمے سے پہلے ہی انجام‘ کو جان چکے تھے۔
دانشور نے کھیل کا طریقہ سمجھایا____ اِسے پنکھے سے لٹکادو۔ اُس کی ساڑی ہٹاؤ۔ پہلے بلیڈ سے وہاں تک …… پھر____‘ اُس نے بچیوں کو جلتی آنکھوں سے دیکھا____یہ نئے کپڑے کی طرح ہیں ۔ قینچی سے کبھی نئے کپڑے کوکاٹا ہے۔ ان کی چھاتیاں ……‘ وہ مسکرا رہا تھا۔ بلیڈ گھماتے ہوئے‘ تم ایک عجیب سے نشے میں ڈوب جاؤ گے۔‘
تو یہ کمرہ اب ایک لیباٹری تھا۔ تجربے چل رہے تھے۔ نئے نئے تجربے____ موت۔ عورتیں اور مرد____ جوان بچیاں اور فنتاسی____ زندگی اور ایڈونچر____ زمین پر ایک گھنٹے کی تفریح کے بعد آٹھ لاشیں سجی تھیں۔
’ حکم باس۔‘ پہلا آہستہ سے بولا۔
یہ طے تھا کہ سب تھکن سے چور ہوگئے تھے۔
’ ابھی آحری فنتاسی باقی ہے۔ یعنی آخری تجربہ۔ دونوں مرد کی لاش چھوڑ دو۔ باقی گھسیٹ کر اندر لے جاؤ۔ ہم ایک نیا تجربہ کریں گے۔‘
’ ان کے عضو تناسل کاٹ دو۔‘ دانشور سنجیدہ تھا۔ اور تم____ تم سلائی جانتے ہو نا ۔ ماڈرن ٹیلرس کے بچے۔ کپڑے سیتے سیتے انگلیاں ٹیڑھی ہوگئیں تیری۔‘
’ حکم …… حکم باس ‘
’ ان کے عضو تناسل بدل دو۔‘
’ مطلب ۔ مطلب باس۔‘
’’اِن سالے سوکالڈ……‘ اُس نے پھر گندی سی گالی بکی ____ ان سالوں کو بتانا ہے اب۔ سمجھانا ہے ____ دھرم کو کھیل سمجھنے والوں کو مزہ چکھانا ہے____یہ ، جو ہر بار ہمارے تجربوں کو____ اُس نے پھر گالی کا سہارا لیا____ اچانک چونکا____ یہ آوازیں سن رہے ہو۔ ہمارے دوسرے ساتھی یہاں پہنچنے ہی والے ہیں ____ اُنہیں دیکھنے دو کہ ایسے لوگوں کے پاس نہ اپنا دماغ ہوتا ہے ، نہ عضوِ تناسل۔ اب آپریشن شروع کرو____‘
آپریشن شروع ہوگیا۔
پھر ٹیلر ماسٹر نے جیب سے قینچیاں، فیتے اور بلیڈ کا پیکٹ نکال دیا۔ وہ ایک منجھے ہوئے درزی کی طرح بدن کے ’چادر‘ کولے کر بیٹھ گیا____ چمڑے کی جھلّی، جو نئے انسانی وجود کے لئے زندگی کا امرت بن جاتی ہے۔ فنکاری اور صفائی سے بدل دی گئی تھیں۔ ٹیلر ماسٹر نے انتہائی مہارت سے اپنا کام انجام دیا تھا۔ ساتھیوں نے شاباشی دی۔ کندھے تھپتھپائے ۔ دونوں لاشیں ۔ باہر مین گیٹ پر ٹانگ دی گئیں ____‘
تجربہ کامیاب تھا۔
مگر کھیل اب شروع ہوا تھا____
تہذیب کے پیامبر ڈھول، تاشہ بجاتے آتے۔ عضو تناسل کو دیکھتے ۔ گندی گالیاں بکتے پھر گزر جاتے____ وہ دیر تک بلکہ کہنا چاہیے کئی گھنٹے تک اس کھیل سے مستفیض ہوتے رہے۔ چلتے وقت دانشور نے قہقہ لگا کر کہا۔
’ صرف بدن کی ایک چمڑی بدل دینے سے۔ تم سب سمجھ رہے ہونا____ آہ، کیا کیا دلکش کھیل تھا۔ ’ آہ ، اس کھیل کو ہم بہت دن تک بھول نہیں پائیں گے۔ اور ہمیں اُس ۔ اُس مکاّر مکان مالک کو اُس کے کئے کی سزا بھی دینی تھی۔ اب اُس کی لاش دیکھو۔ اُس کی لاش کی تکا بوٹی ہوچکی ہے۔ جبکہ اقلیت کی لاش۔‘
’ باس ‘ اُس پر تو پھول مالائیں چڑھی ہیں۔‘
’ اب چلو، اس کھیل کا سرور تازندگی قائم رکھنا ہے۔‘
وہ جھومتے ہوئے نشہ کی حالت میں آگے بڑھ گئے۔
¡¡
بچہ اور زندگی
’ تمہیں وہ بچہ یاد ہے‘
’ بچہ ؟ ‘
’ باس، وہ اقلیت کا بچہ، ہم تو اُس بچے کو بھول ہی گئے۔،
’ اُسے بچانے مکان مالک کا بچہ آگیا تھا۔‘
’ پھر ہم کھیل میں الجھ گئے۔‘
’ اوربچہ بھاگ گیا۔‘
’ وہ بچہ کہاں جاسکتا ہے____؟‘ دانشور کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔
’ اُس کی نیلی نیلی آنکھیں‘ پہلا مسکرایا۔ تمہیں اُس بچے کی یاد ہے۔ اُس کے چہرے پر زرا بھی ڈر یا گھبراہٹ نہیں تھی۔‘
’ اُس کے ہونٹ‘ دوسرا کہتے کہتے ٹھہرا……
’ بولو …… بولو……‘ دانشور کی آنکھیں مندگئی تھیں۔
’ کھٹّے کھٹے بیر جیسے تھے۔ اور پیار ے۔‘
’ اُس کا چہرہ ۔‘ تیسرے نے اپنے خیال کا اظہار کیا____ یقینا وہ ایک بہت خوبصورت بچے کا چہرہ کہا جاسکتا ہے۔‘
’ وہ کہاں چھپا ہوگا؟‘ دانشور کو اپنی غلطی پر غصہ آرہا تھا۔
’ اُسے چھوڑ نا مناسب نہیں ہے۔‘
’ اُسے مارنا……‘ پہلا کہتے کہتے ٹھہر گیا……
دانشور نے حیرانی سے پوچھا___ ’ کہیں تم سب اُس بچے پر رحم تو نہیں کر رہے۔‘
’ نہیں باس۔ قطعی نہیں ۔‘
’ مگر کیا اُسے مارنا……‘
دانشور غصے میں گھوم گیا۔ مطلب ۔ ’ تم لوگ کہنا کیا چاہتے ہو؟
’ بچہ ہے۔‘
’بچے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔‘
’ کیوں نہ ہم اُسے اکثریت کا بنا دیں؟‘
’ اکثریت____؟ ‘ دانشور چونک گیا تھا۔
’ ہاں۔ دھرم پریورتن۔ بچہ تو پانی ہوتا ہے۔
دانشور کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ ابھی زیادہ گھنٹے نہیں ہوئے۔ بچہ بھوک پیاس سے بے حال ہورہا ہوگا۔ وہ یقینا چھپا اور زندہ ہوگا۔ ہمیں بچے کو تلاش کرنا چاہہے۔
’ اور بچانا بھی۔‘
پہلا ابھی بھی مطمئن نہیں تھا۔ کیا وہ وہاں موجود ہوگا____ میرا مطلب ہے……‘
دانشور نے پُر امیدلہجے میں کہا۔ فضول کی باتیں نہیں۔ ہم اس مدعے پر بہت باتیں کر چکے ہیں۔
’ بچے کی زندگی ضروری ہے‘ ____ ٹیلر ماسٹر نے لمبی سانس لی۔
’ ہاں، اُس کی زندگی بیش قیمت ہے‘ ____یہ پہلا تھا۔
اُس کی زندگی سے، یعنی اب کی زندگی سے۔ نئی زندگی سے بہت کام لینے ہیں‘۔ یہ دانشور تھا۔
¡¡
محترم قارئین!
تو یہ سارا کچھ اُس چھوٹے سے بچے کے لئے ہوا____ اُس چھوٹے سے آٹھ سالہ بچے کے لئے، جس کی آنکھیں نیلی تھیں، چہرہ خوبصورت تھا اور جس کا تعلق اقلیت سے تھا۔ تو یہ سب کچھ اُس چھوٹے سے بچے کے لئے ہوا، جس کے لئے اکثریت کے بچے نے، بچاتے ہوئے اپنی جان دے دی اور جو تہذیب کی اس جنگ کے دوران جان، بچانے کے لئے اپنے گھر میں ہی لاپتہ ہوگیا تھا۔ اور یقینا ایسے بچے کو بچانا ایک اہم فریضہ تھا۔ اور جیسا کہ دانشور نے سوچا، تہذیب کے عروج کے لئے، مذہب کوہی واحد ہتھیار کے طور پر سوچا جاسکتا ہے۔ بچے کا دھرم پریورتن ہوجائے تو ……
اور یقینا یہ ساری جنگ تہذیب کے لئے ، تہذیب کے نام پر لڑی گئی تھی۔ اور اُن کے سوچنے کا پڑاؤ وہی گندہ نالہ یا تالاب تھا، جہاں اُنہیں وہ کینکڑا ملا تھا____ یا بلوں سے نکلتی برساتی کالی چیونٹیوں کو انہوں نے پاؤں تلے روند دیا تھا۔
وہ دوبارہ جلے ہوئے مکانوں اور جلی ہوئی شاہراہوں سے گزرتے ہوئے اُس مکان تک پہنچ چکے تھے ۔ آسمان پر کووّں اور گدّھوں کی اُڑان دور تک دیکھی جاسکتی تھی…… ابھی بھی آس پاس کئی مکانوں سے دھوئیں نکل رہے تھے۔
’ بچے طاقتور ہوتے ہیں۔‘
دانشور مسکرایا ____ ہاں‘۔
’ اوراسی لئے بچے سب کچھ سہہ لیتے ہیں۔ عذاب ، بارش اور جنگ!‘
’ ہاں۔‘
’ بچے مرتے نہیں ہیں‘
’ ہاں‘
’ بچے مر کر بھی نہیں مرتے ہیں، دانشور پھر مسکرایا ۔ ’اُسے آواز لگاؤ ۔ کھوجو‘
’ لیکن ہم پکار یں گے گیا؟
’ ہاں یہ مسئلہ تو ہے۔‘
’ بچہ ۔ ہم اُسے بچہ کیوں نہیں کہہ سکتے‘
’ بچے تو سب ہوتے ہیں…… اکثریت …… ‘ پہلا کہتے کہتے ٹھہر گیا۔
دانشور کا چہرہ بجھ گیا تھا۔’ نہیں‘ اُسے بچہ کہہ کر آواز لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’ پھر ____؟‘
’ پھر۔ سوچتے ہیں۔‘
’ اُس کی آنکھیں نیلی تھیں‘
’ ہاں۔
’ بال بھورے تھے۔‘
’ ہاں۔
’ نیلی آنکھوں والا بچہ؟ ‘
’ یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔‘
’ بھوری آنکھوں والا ____؟ ‘
یہ بھی نہیں‘
وہ شاہزادے جیسا دکھتا تھا؟ کیا شاہزادہ کہہ کر……‘
’ نہیں۔ ‘ دانشور سنجیدہ تھا___ اقلیت پر شہنشاہیت برسوں پہلے ختم کردی گئی۔ نہ تاج نہ تخت____ نہ بادشاہ____ نہ شہزادے……‘
’ لیکن اب تو وہ ہمارے ہورہے ہیں۔ یعنی دھرم پریورتن ……‘
’ اس کے باوجود نہیں۔‘
پھر ____ ؟‘
’دانشور فیصلہ کرچکا تھا۔ اقلیت۔ یہ نام بہت ہے۔ چلو، ہم اُسے اسی نام سے پکارتے ہیں۔‘
’ اُس نے کسی فوجی کی طرح کمانڈر‘ کا رول نبھاتے ہوئے کہا۔ ’ ایسا کرو۔ تم اس طرف۔ تم اُس طرف۔ ایک میرے پیچھے پیچھے آئے…… اور …… ‘
باس، الگ الگ ہٹ کر ہم کمزور نہیں ہوجائیں گے___ ٹیلر ماسٹر کی آنکھوں میں چمک تھی۔
’ پوائنٹ‘
’ اس طرح تو بچہ ہم پر حملہ بول سکتا ہے۔ وہ آٹھ سال کا ہے ۔ آٹھ سال کے بچے کا دماغ انتہائی شیطان کا اور سازش سے بھرا ہوتا ہے۔‘
’ پوائنٹ‘
’ سب ایک ساتھ رہتے ہیں۔ بچہ سب کو ایک ساتھ دیکھ کر ڈر جائے گا۔‘ یہ بھی ٹیلر ماسٹر تھا……
’ بچے کو ڈرانا نہیں ہے ____بچانا ہے____‘ دانشور کا چہرہ غصے سے پیلا پڑگیا۔ چلو دیر مت کرو۔ تلاش کرتے ہیں۔ اقلیت…… اق لیت ۔ بیٹے ……؟
’ اقلیت…… ‘
’ میرے اقلیت……‘
’ اقلیت ڈارلنگ……‘
وہ بچے کو تلاش کر رہے تھے۔ گھر کی کوئی شئے سلامت کہاں تھی۔ زمین سے قالین ، دیوار سے لے کر کمرے اور کمرے کے مہنگے سامان____لاش کی ہڈیاں کتّے، گدھ اور کوّے کھا چکے تھے۔ سامانوں کے جنازے بکھرے تھے…… ٹوٹے ہوئے کھنڈر میں ان کی ملی جلی آوازیں باز گشت کر رہی تھیں۔
’ اق …… لیت ……‘
’ میرے بچے اقلیت……
’ یہاں تو کوئی نہیں ہے۔‘
’ اوپر ۔ اوپر دیکھتے ہیں۔‘
’ بالائی منزل کی سیڑھیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔‘
دانشور کی چیخ نکل گئی____ ’ سنبھل کر آنا‘۔
پہلا چیخا۔ ’ سربچاؤ۔
چھت کا ایک چھوٹا سا حصہ بھڑ بھڑا کر تیز آواز کے ساتھ گرا____
دانشور مطمئن تھا۔ بچہ اوپر نہیں ہوسکتا ۔‘
دوسرے کا خیال تھا۔ چھت بُری طرح بیٹھ چکی ہے۔ یعنی ایک کوّا بیٹھنے کے تصور سے بھی___ بچہ کا چھپنا تو دور کی چیز ہے۔‘
’ کیا بچہ اسی گھر میں ہوگا۔؟ ‘ ٹیلر ماسٹر نا امید تھا____’ یعنی وہ بھاگ کر کہیں اور بھی تو پناہ لے سکتا ہے۔ کہیں اور……‘
دانشور مطمئن تھا۔ ’ بچہ کہیں اور پناہ لے ہی نہیں سکتے۔‘
’ کیوں؟ ۔‘
’ کیونکہ آندھی تیز تھی۔ درخت سارے گر گئے تھے۔‘
دانشور اپنے جواب سے مکمل طور پر مطمئن تھا۔ ایسی صورت میں بچے کے سامنے اس کھنڈر میں چھپنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا ہے۔‘
’ آگے اندھیرا ہے۔‘
’ ٹارچ۔ ٹارچ نکالو۔‘
اُن میں ایک نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹارچ نکالا۔ ٹارچ نکالتے ہوئے پھپھسایا ___’’ سنتے ہیں، کچھ ملک ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں رات ہی رات ہوتی ہے، دن نہیں ہوتے۔‘
’ ہاں۔‘
’ باس یہاں بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔‘
دانشور کا لہجہ غصے سے بھرا تھا____ ’ ہم ایک نیک مقصد کے لئے ____سمجھ رہے ہونا، بچے کو بچانے کے لئے۔،
’ وہ زندہ ہوتا تو ہماری آواز ضرور سنتا۔‘
’ وہ زندہ ہے اور یقینا ہماری موجودگی سے گھبرایا ہوا ہے۔‘
’ اقلیت …… ‘
’ اقلیت بیٹے ……‘
مائی ڈارلنگ اقلیت،
آواز لگاتے ہوئے، وہ ایک بار پھر آگے بڑھ رہے تھے۔ آگے، ٹوٹے ہوئے کھنڈر کے ملبے میں ____ دروازے، کھڑکیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے۔ کہ اچانک……
’ کوئی ہے۔‘ آواز گونجی
’ ٹارچ ۔‘
’ کوئی ہے____‘ دانشور اندر ہی اندر خطرے کے سائرن ‘ کے طور پر کانپ گیا تھا۔ پہلے نے ٹارچ جلایا____‘
دوسری آواز اٹھی____ بچہ ہے۔‘
’ کہتا تھا، نا……‘
ٹارچ کی روشنی ٹوٹے ہوئے لاہوری اینٹے، بھربھرائی مٹی سے ہوتی ہوئی بچے کے چہرے پر ٹھہر گئی ہے……
’ باس …… ‘
ٹیلر ماسٹر نے چیخ کر کیا____’ باس بچہ ہی ہے۔‘
’ اوہ گاڈ۔‘
دوسری آواز آئی۔ ’ بچے کی نبض دیکھو ۔‘
’ کوئی ضرورت نہیں باس‘۔
ٹیلر ماسٹر کی آواز گونجی____ ’ بچے کی پیٹھ میں گولیاں لگی ہیں‘ ۔
پہلے نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا____ بچہ مرچکا ہے۔
دوسرا ٹارچ کی روشنی میں بھیانک بدبو دیتے ہوئے بچہ کی لاش پر جھک گیا۔ ’بچہ کو مرے ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے۔‘
¡¡
محترم قارئین!
کہانی ختم ہوچکی ہے۔ لیکن یقیناکچھ باتوں کا قیاس لگایا جاسکتا ہے۔ جیسے لوٹتے وقت یہ بہت مایوس رہے ہوں گے۔ ممکن ہے بچے کو نہیں بچاپانے کی صورت میں۔ یا اس سے زیادہ، ممکن ہے، دھرم پریورتن کے خیال کو عملی جامہ نہ پہناپانے کی صورت میں ____ یا ممکن ہے۔
کوئی اچھا سا قیاس آپ بھی کیوں نہیں لگالیتے۔
لوٹتے ہوئے ان کے چہرے جذبات سے عاری تھے اور ایسے چہروں کا فائدہ ہے کہ آپ کچھ بھی قیاس لگا سکتے ہیں۔
لیکن قارئین، سب سے ضروری جو بات ہے، وہ یہی ہے۔ کہ یہ وہی تھے جو سابر متی آشرم سے دلّی کے آشرم چوک تک____
اور جو انسانی فضا میں، انسانی گھر میں۔ انسانی کمرے میں…… اور انسانی عمل کے دوران____ کیا اب بھی آپ کو یقین نہیں ہے کہ یہ ’ کئی‘ کبھی پیدا بھی ہوئے ہونگے____!
…………………
حیدر قریشی کے بارے میں مرتب کی گئی ایک جامع کتاب
حیدر قریشی کی ادبی خدمات
صفحات ۳۰۶،قیمت ۳۰۰روپے
مرتب: پروفیسر نذر خلیق
چند اہم لکھنے والے:ڈاکٹر وزیر آغا،پروفیسر جیلانی کامران،جوگندر پال،مظہر امام،دیوندر اسر،
اکبر حمیدی،ڈاکٹر انور سدید،ڈاکٹر شفیق احمد،ڈاکٹر صابر آفاقی،پروفیسر آفاق صدیقی،ڈاکٹر سعادت سعید،
قیصر تمکین،ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی،ناصر عباس نیر،ڈاکٹر جمیلہ عرشی،سلطانہ مہر،ثریا شہاب،ڈاکٹر ظفر عمر قدوائی،قاضی اعجاز محور،ہرچرن چاولہ،جمیل زبیری،رؤف خیر،کرشن مہیشوری،انجلا ہمیش اور متعدد دیگر
ملنے کا پتہ:میاں محمد بخش پبلشرز۔محلہ رحیم آباد۔خانپور،ضلع رحیم یار خان(پاکستان)
حیدر قریشی کے فن کی چند اہم جہات کا جائزہ
حیدر قریشی فن اور شخصیت
صفحات:۱۹۲،قیمت:۱۵۰روپے
مرتبین:نذیر فتح پوری اور سنجئے گوڑ بولے
اہم لکھنے والے:کالیداس گپتا رضا،جوگندر پال،شارق جمال،ڈاکٹر محبوب راہی،ڈاکٹر جمیلہ عرشی،
ڈاکٹر فرازحامدی،اکبر حمیدی،قاضی مشتاق احمد،ڈاکٹر ذکاء الدین شایاں،ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی،
خاور اعجاز،ڈاکٹر نجمہ رحمانی،ڈاکٹر صابر آفاقی،طاہر مجید،سعید شباب اور دیگر
ملنے کا پتہ:اسباق پبلی کیشنز۔سائرہ منزل ۱۰۲؍بی؍۲۳۰۔ومان درشن،
سنجئے پارک۔لوہ گاؤں روڈ۔پُونہ۔۴۱۱۰۳۲۔۔انڈیا