ساتویں جماعت کا نو ماہی امتحان ہورہا تھا ۔
میں نے ابھی آدھا پرچہ حل کیا ہوگا کہ ماسٹر فاروقی اپنی کرسی اٹھوا کر میرے قریب لے آئے۔مجھے لگا میں جو کچھ لکھتا ہوں وہ ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے ہیں۔مجھے اس سے الجھن ہونے لگی۔ کوئی لقمے گن رہا ہوتوآپ کھانا کیسے کھاسکتے ہیں۔پرچا حل کرنے کی میری رفتارسست پڑ گئی مگر ماسٹر صاحب آخرِ وقت تک میری گردن پر سوار رہے۔
خدا خدا کرکے پرچا مکمل ہوا۔ماسٹر صاحب نے چھیننے کے انداز میں پرچا میرے ہاتھ سے لیا اور بولے
’’ گاؤں کاکوئی آدمی باہرتمہارا انتظار کر رہا ہے‘‘
میرے قدم لڑکھڑاگئے۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور میرے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی ۔لڑکے جمع ہوگئے
’’کیاہوا؟‘‘
’’میری ماں مر گئی‘‘
ماسٹر صاحب نے شفقت سے میرا کندھا تھپتھپایا اور بولے’’یہ تم سے کس نے کہا؟‘‘
’’مجھے معلوم ہے ‘‘میں نے روتے ہوئے جواب دیا ’’گاؤں سے نواب مجھے لینے آیا ہے‘‘
انہوں نے گاؤں سے آنے والے آدمی کو بلواکراس کانام پوچھا۔وہ سچ مچ نواب ہی تھا۔مجھ سے پہلے وہ گاؤں کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا شخص اور ہر فن مولا قسم کاآدمی تھاجس نے پوری چار جماعتیں پڑھ رکھی تھیں۔ہمارا اس سے بھائی چارہ تھا۔اس نے ماسٹر صاحب کے سامنے قسم کھائی اور مجھے یقین دلایا
’’ تمہاری ماں جی زندہ اور سلامت ہیں ۔انہوں نے خود مجھے بھیجا ہے کہ تمہیں ساتھ لیتا آؤں ‘‘
ایسا پہلے بھی ہوتا تھا ۔ گاؤں میں اس کی کریانے کی دکان تھی ۔وہ جب بھی سودا سلف لینے آتا ،ماں جی کی ہدایت کے مطابق مجھ سے مل کراورخیریت معلوم کرکے جاتااور اگراگلے روز چھٹی ہوتی تو مجھے ساتھ لے جاتا ۔لیکن آج اس کی خورجین خالی تھی اوروہ صرف مجھے لینے آیا تھا۔تاہم اس کے باربار قسمیں کھانے کے بعد مجھے اس کی بات پر یقین آگیا۔اور ہم گاؤں کے لئے روانہ ہوگئے ۔
میں پچھلے دو تین برسوں سے پڑھائی کی خاطر خالہ کے پاس رہتا تھا۔ان کا گاؤں شہرکے مضافات میں تھا۔
شروع میں میرے پاس بائیسکل نہیں تھی اور نہ ہی میں چلا سکتاتھا۔ان دنوں مہینو ں بعد ریل گاڑی کے ذریعے اپنے گاؤں جاپاتا ۔چھٹی جماعت میں بائیسکل مل گئی مگر میری ٹانگیں پیڈلوں تک نہیں پہنچتی تھیں ۔پھر اس کا حل بھی نکل آیا ۔خالہ کے گاؤں سے اور بھی لڑکے پیدل سکول جاتے تھے۔ان میں ایک کو بائیسکل چلانا آتی تھی مگر اس کے پاس بائیسکل نہیں تھی ۔اس طرح مجھے ایک ڈرائیور مل گیا۔مگرساتویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے میں نے خودچلاناشروع کردی اوراب میں ہرویک اینڈ پر اپنے گاؤں چلا جاتا اور پیر کی صبح کو بیس اکیس میل کا سفر طے کرکے سکول پہنچ جاتاتھا۔بیمار ہونے اور بسترپرپڑجانے سے پہلے ماں جی ہفتہ کے دن میرے لئے اچھی اچھی چیزیں پکاکررکھ دیتیں اور اگر وقت بچ جاتاتو چرخہ اٹھا کر چھت پر لے جاتیں اور شہر سے آنے والے راستے کی طرف رخ کر کے انتظار کی پونیاں کاتنے لگتیں۔ میری بائیسکل کے پہیے اوران کا چرخہ ایک ساتھ گھومتے۔ ہوا مخالف ہوتی تب بھی لگتاپکی ڈور سے بندھا کھنچا چلا جا رہا ہوں۔
میرے راستے میں پندرہ میل لمبی نہرپڑتی تھی۔جب یہ کناروں تک بھری بہہ رہی ہوتی۔اس سے ایک عجیب طرح کی دہشت محسوس ہوتی ۔ماں جی کو گھر بیٹھے اس سے ہول آتا رہتا۔خود مجھے بھی پندرہ میل لمبائی میں بہتے پانی کو دیکھ دیکھ کر اکثر اپنے یا دوسروں کے ڈوبنے کے خواب دکھائی دیتے رہتے بعض اوقات میں دیکھتا۔ میں سوکھی پڑی نہر میں پانی کے آگے آگے بھاگ رہاہوں اور کئی گز اونچاپانی میرے پیچھے شوکتا لپکتاچلاآتاہے۔۔گذشتہ رات بھی میں نے ایسا ہی ہولناک خواب دیکھا تھا۔
میں نے دیکھا کہ وہ گہرے پانی میں ڈوب رہی ہیں۔ہاتھ پاؤں مارتے مارتے ان کا سانس پھول گیا ہے مگر ہر لحظہ وہ پانی میں چھپتی جارہی ہیں ۔میں کنارے پر کھڑا روتا اور مدد کے لئے پکارتا ہوں مگر کوئی میری مدد کو نہیں آتا نہ ہی دور تک کوئی ذی نفس دکھائی دیتا ہے۔پھر وہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے غرقِآب ہوجاتی ہیں۔میں چیخ مارکر اٹھ بیٹھا ۔
یہ خواب اصل صورتِ حال کے عین مطابق تھا
وہ کئی مہینوں سے بیمار تھیں مگر ان کا تسلی بخش علاج نہیں ہورہا تھا۔ابا جی خود حکیم تھے مگر ان کے علاج سے ا نہیں کوئی فائدہ نہ ہوا۔ان کے علاج سے کسی کو فائدہ ہوتا یا نہ ہوتا مگرمریضوں کے انجام کے بارے میں ان کی پیش گوئی ہمیشہ درست ثابت ہوتی ۔ماں جی کے بارے میں بھی انہوں نے صاف صاف بتا دیا تھا کہ ان کا بچنا محال ہے۔شاید یہی وجہ تھی کہ وہ ان کے علاج پر بھی پوری توجہ نہیں دیتے تھے۔تاہم انہوں نے اپنے علاج پر اکتفا نہ کیا او ر ایک مشہور حکیم کا علاج شروع کرادیا جوچندمیل کے فاصلے پر رہتے تھے مگر ماں جی کوان کے علاج سے بھی کوئی خاص افاقہ نہیں ہو رہاتھا۔انہیں تپ دق تشخیص ہوئی تھی جسے اس زمانے میں لا علاج مرض سمجھا جاتاتھا۔ ڈاکٹری علاج میسر نہیں تھااور پاکستان اور امریکہ کے بہترین ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور پروفیسر آف میڈیسنز کے فرائض سر انجام دینے والے ان کے پوتوں کو ابھی بہت بعد میں پیدا ہونا تھا۔
خالہ ان دنوں پہلے ہی ماں جی کے پاس تھیں ہم شہر سے نکلے تو ظہر کی اذانیں ہورہی تھیں۔
نومبر کی آخری تاریخ تھی اور خزاں کا موسم اپنے جوبن پر تھا۔ہرطرف درختوں کے سوکھے ہوئے پتے،اداسی اور گردو غبار ۔تنگ سی پکی سڑک کا راستہ صرف تین میل لمباتھامگر نہایت تکلیف دہ ۔ایک تو ہوا مخالف دوسرے کوئی بس یا ٹرک گزرتا تو اتنا گردوغبار اٹھتا کہ دیر تک کچھ دکھائی سجھائی نہ دیتا۔مگر جب ہم نہر کی پٹڑی پر آئے۔ہوا کا رخ تبدیل ہو گیا اور پیڈل مارنے میں نسبتاً آسانی محسوس ہونے لگی۔
عام طور پر میں ایک ہفتہ بعد گاؤں جاتا تھا مگر جب سے ماں جی علیل ہوئی تھیں ان کی تیمارداری اور چھوٹے بھائی بہن کی دلداری کے لئے ہر دوسرے تیسرے دن چلاجاتا ۔رات کو ماں جی کے پاؤں دباتا، انہیں دوا کھلاتا پلاتا اور ان کی طبیعت بہترہوتی تو کتابوں سے کہانیاں اور نظمیں پڑھ کر سناتا۔انہیں کہانیاں اور نظمیں بہت اچھی لگتی تھیں ۔انہیں خود بھی بہت یادتھیں اوروہ اپنی پڑھی سنی ہوئی ساری کہانیاں مجھے میرے بچپن ہی میں منتقل کرچکی تھیں۔کہانی سے میری دلچسپی انہی کی وجہ سے پیداہوئی۔ ان کی بے وقت موت کے بعدمیں نے کتابوں اورقصے کہانیوں میں پناہ لی اورجس سال وہ فوت ہوئیں اسی سال بچوں کے رسالے میں میری پہلی کہانی کے روپ میں طلوع ہوئیں۔
مجھے بعض اوقات اتوار کو ان کی دوا لینے اور کیفیت بتانے حکیم صاحب کے پاس جانا پڑتا ۔سردیوں کے چھوٹے چھوٹے دن تھے ۔گھر پہنچتے پہنچتے دیر ہوجاتی ۔ماں جی میری اس بھاگ دوڑ سے دکھی ہوتیں۔مگر مجبوری تھی کیوں کہ ابا کو بائیسکل چلانانہ آتی تھی ۔میں رات کودیرسے سوتا مگراگلی صبح منہ اندھیرے سکول کے لئے روانہ ہوجاتا۔ گھر کے کام کاج اور ماں جی کی دیکھ بھال کے لئے میری ایک پھوپھی زاد بہن موجود تھی۔ وہ ناشتہ بنا دیتی تھی ۔میں خوب تیز بائیسکل چلاتا مگر سکول پہنچنے میں اکثر دیر ہوجاتی۔کلاس ٹیچر ماسٹر فاروقی ابھی میرے گھر کے حالات سے آگاہ نہیں تھے انہوں نے مجھے کئی بار وارننگ دی مگر ہر بار کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا کہ مجھے سکول پہنچنے میں دیر ہوجاتی ۔تنگ آکر ایک روز انہوں نے میری پٹائی کر دی۔
اس روزہوامخالف اورسخت سردی تھی۔گھاس پر کہراجما ہوا تھااور اس قدر دھندچھائی ہوئی تھی کہ نہرکادوسراکنارہ تک نظرنہ آتاتھا۔ہاتھ پاؤں ٹھٹھر رہے تھے۔ میں نے دو تین بار سرکنڈوں کو آگ لگا کر ہاتھ تاپے اور بڑی مشکل سے سکول پہنچا۔ماسٹر صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، تابڑ توڑ میرے ٹھٹھر ے ہوئے ہاتھوں پر ڈنڈے بر سا نا شروع کردئیے ۔مجھے ڈنڈوں کی تکلیف سے زیادہ ندامت کا احساس مارے ڈال رہا تھاکیونکہ میں کلاس ما نیٹر تھا ا ورپڑھائی کی وجہ سے کبھی سزا کی نوبت نہیں آئی تھی۔
پیریڈ ختم ہونے تک ان کا غصہ اتر چکا تھا۔جاتے ہوئے وہ مجھے دفتر میں آنے کا اشارہ کر گئے۔میں ان کے دفتر پہنچا۔انہوں نے بار بار دیر سے آنے کی وجہ پوچھی۔میں نے والدہ کی بیماری اور بیس میل سفر طے کرکے سکول پہنچنے کا ذکر کیا تو ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔کہنے لگے ۔تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔اسکے بعد وہ مجھ سے خاص شفقت اور رعایت کرنے لگے اورمیرے گھر کے حالات اور ماں جی کی بیماری سے باخبر رہتے۔
اس سے پہلے جب کبھی میں نواب کے ہمراہ گاؤں جاتاتھاتو اس کے ساتھ ریس لگاتا۔ایک توواپسی کے سفرمیں وہ تھکاہواہوتادوسرے اس کی بائیسکل پربوجھ لدا ہوتا ۔اورمیں تازہ دم اور طفلانہ جوش سے لت پت۔ گھنٹیاں بجاتا،بکرے بلاتااور قکقاریاں مارتاآگے نکل نکل جاتا۔مگر آج ایسالگتاتھاجیسے میری ٹانگوں میں جان نہ ہویابائیسکل کے پہیوں کوگریس اورتیل کی سخت ضرورت ہو۔اگرچہ نواب کی باتوں پر مجھے یقین آگیاتھا لیکن گذشتہ رات کاخواب میرے ذہن سے چپکا ہوا تھا۔اورجیسے میرے اندرکوئی چیزکم ہوگئی یاچٹخ گئی تھی ۔
میں ایک عرصہ سے دیکھ رہاتھاکہ وہ روز بروز کمزورہوتی جارہی تھیں۔وہ آہستہ آہستہ مر رہی تھیں مگرمیرے بس میں کچھ نہ تھا ۔کبھی کبھی انہیں دواسے عارضی طور پر افاقہ معلوم ہوتامگرپھر مرض دوبارہ غلبہ کرلیتا۔ہم کئی باران کے مرنے کامنظر دیکھ چکے تھے۔اچانک ان کا سانس اکھڑجاتااوروہ ہانپنے لگتیں۔آنکھیں ابل پڑتیں اورتیماردار عورتیں ان کے سرہانے بلند آوازمیں سورہ ءِ یاسین کی تلاوت کرنے لگتیں۔مگر ان میں زندہ رہنے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ وہ دوبارہ سنبھل جاتیں یاشاید قدرت کورحم آجاتااورانہیں کچھ اورمہلت مل جاتی۔میں تین روز پہلے ہی تو آیاتھا۔ان کی حالت اچھی نہیں تھی ۔میں انہیں اس حالت میں چھوڑکر سکول آنانہیں چاہتاتھامگرانہوں نے مجھے زبردستی بھیجا۔کہنے لگیں اگرتم امتحان دینے نہیں جاؤگے تومیرا خوا ب کیسے پوراہوگا۔میں نے کہا میں سکول چلا جاؤں گا۔توتم میرے پیچھے مرجاؤگی۔
’’نہیں مروں گی ‘‘وہ مسکرائیں’’تمہیں دیکھے بغیرکیسے مرسکتی ہوں‘‘
’’ایسی بات ہے تو میں کبھی آؤں گاہی نہیں ‘‘میں نے کہا’’تاکہ تم ہمیشہ زندہ رہو‘‘
’’نہ اڑیا‘‘ وہ بولیں ’’ایسی زندگی کاکیافائدہ؟‘‘
دراصل یہ ساری خرابی ابا کی وجہ ہی سے تھی جنہو ں نے ان کے مرنے کی پیش گوئی کر رکھی تھی۔
ماں جی ابھی زندہ تھیں ۔ ان کے مرنے میں ابھی بہت دن باقی تھے مگرمیں انہیں خوابوں میں ہرروز مرتے ہوئے دیکھتا۔خوابوں اورخیالوں کے کوہ قافوں میں آب حیات کی تلاش میں بھٹکتا پھرتا۔ کاش غیب سے کوئی مردِ حکیم یا کوئی فرشتہ آجائے اور انہیں پہلے کی طرح بھلاچنگاکردے۔کوئی معجزہ ؟ کوئی کرامت ؟میں چاہتاتھاان کی تصویربن جائے ۔چھوٹااس وقت چارسال کاتھا۔وہ بڑاہو کرپوچھے گاماں کیسی تھی تواسے کیابتائیں گے۔ کیاپتہ خود مجھے ماں جی کی صور ت بھول جائے ۔ مگرتصویر توشہر جاکر بنوائی جاسکتی تھی اور وہ سہارے کے بغیر بسترسے نہ اٹھ سکتی تھیں اورمیرے ہاتھ میں سٹل کیمرہ آٹھ ،مووی کیمرہ پینتیس اورویب کیم آنے میں ابھی چالیس سال پڑے تھے۔
ابامجھے شہربھیجنااورہائی سکول میں داخل کرانانہیں چاہتے تھے ۔ان کاارادہ مجھے قریبی قصبے کے ورنیکلر مڈل سکول میں داخل کرانے کاتھا۔مگرماں جی مجھے ہائی سکول میں داخل کرانااورانگریزی پڑھاناچاہتی تھیں۔عام طورپردیہات میں شوہروں کے فیصلوں کے سامنے بیویوں کی مرضی اورخواہش کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔لیکن ماں جی ڈٹ گئیں۔ انہوں نے میری خالہ کوپہلے ہی کہہ رکھاتھاکہ وہ اپنے بیٹے کو ان کے پاس پڑھنے کے لئے بھیجیں گی۔میں نے پرائمری کاامتحان پاس کرلیاتوابامجھے منڈی مویشیاں کامیلہ دکھانے شہرلے گئے۔ وہاں خوب رونق تھی سینما،تھئیٹر،سرکس اور موت کاکنواں۔ میں وہیں خالہ کے پاس رہ پڑا۔ابا کا خیال تھا میں کچھ دنوں میں اداس ہوجاؤں گااورخالہ ان کوخط لکھیں گی کہ آکرلڑکے کو لے جائیں ۔مگر خالہ نے ماں جی کی خواہش کے مطابق مجھے اپنے پاس رکھ لیا۔ خوش قسمتی سے ان کے سسرالی رشتہ داروں میں بہت سے سکول ٹیچرتھے ا نہوں نے میراٹسٹ دلوا کر مجھے پانچویں میں داخل کرادیا۔
خالہ اگرچہ ماں جی کی طرح ہی مہربان اورمحبت کرنے والی تھیں اورانہوں نے ایثار اورمحبت کی شاندارمثال قائم کی ۔کھانے پینے کی چیز کم ہوتی تواپنے بچوں سے چھپاکرمجھے دے دیتیں۔ مگران دنوں ان کے معاشی حالات اچھے نہ تھے ۔خالو بہت اچھے اورشفیق آدمی تھے مگروہ دور پارکے رشتے داروں کے پاس سندھ چلے گئے تھے اوران کاخط تک نہ آتاتھا ۔ابا مجھے بہت تھوڑے پیسے دے کرگئے تھے ۔سکول کی فیس ،کپڑے اوردوسرے اخراجات خالہ جان ادا کرتیں۔ میں جانتا تھاان کاہاتھ تنگ ہے ۔اس لئے کسی طرح کی غیرضروری فرمائش نہ کرتا۔ہم ریلوے لائن کے ساتھ چارمیل پیدل چل کرسکول جاتے تھے۔ موسم سخت گرم اورراستہ پتھریلا تھا ۔جلد ہی میرے جوتے پھٹ گئے ۔ کچھ روز میں ان کی مرمت کروا کرکام چلاتارہاپھر وہ تکلیف دینے لگے ۔تلابالکل بیکار ہوگیاتھا۔میں انہیں جوتاکیوں نہ پہنا،سموساکیوں نہ کھایا،تلانہ تھا کے مصداق سرکنڈوں اورجھاڑیوں میں چھپا کر ننگے پاؤں سکول چلاجاتا۔واپسی پرپہن کرگھرآجاتا۔چونکہ ہم رات کوباہر کی حویلی میں جاکرسوتے تھے اس لئے خالہ کوپتہ ہی نہ چلا کہ میرے جوتے پھٹ چکے ہیں۔مجھے والدصاحب کاانتظاررہتامگر وہ توجیسے مجھے سزا دے رہے تھے ۔میرے خط کاجواب بھی نہ دیا۔
ان دنوں گرمی کی چھٹیاں جولائی میں ہوتی تھیں۔سخت گرمی پڑرہی تھی ۔ہرچیزجھلس رہی تھی لوگ بارش کے لئے دعائیں مانگتے اورہرروز اس انٹظارمیں رہتے کہ کب ہوائیں کالی بدلیوں کوگھیرلاتی ہیں۔بارش تونہ آئی لیکن میرے فلک پر ایک روز تتر کھمبی بدلی گھرآئی ۔ میری زندگی میں جو چندخوبصورت ترین اوریادگارلمحے ہیں ان میں اس ایک لمحے کابھی شمارہوتاہے۔میں سکول کے برآمدے میں خوش خطی کی مشق کر رہاتھاکہ غلام محمدگھڑی ساز کی دکان سے ان کاایک شاگرد اورخالہ کے سسرالی عزیزوں کالڑکارشید بائیسکل پراطلاع دینے آیاکہ تمہاری امی آئی ہیں ۔ مجھے لگاجیسے ٹھنڈی ہواچلنے اور ساون کی پھواربرسنے لگی ۔وہ پیغام دے کرچلاگیااسے کچھ اورکام بھی تھا۔میں بھاگم بھاگ دکان پرپہنچا۔ ۔وہ اس کے رہائشی کمرے میں بیٹھی میرا انتظارکررہی تھیں۔مجھے دیکھ کرکھل سی گئیں ۔میں نے سلام کیا۔انہوں نے دعادی اورمیراماتھاچومااوردیرتک میراہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے رکھاجیسے مجھے محسوس کر رہی ہوں یا جیسے میری موجودگی کایقین کررہی ہوں۔
’’اباکیسے ہیں ؟‘‘میں نے سلام دعا کے بعد پوچھا
’’ان کی آنکھیں آئی ہوئی تھیں ورنہ وہ آتے‘‘
میں نے چھوٹے بھائی اوربہن کے بارے میں پوچھا۔کہنے لگیں’’ تمہارے لئے بہت اداس ہیں‘‘
’’آپ کس کے ساتھ اورکیسے آئی ہیں ؟‘‘
کہنے لگیں’’ گاؤں کاحافظ تاجااوراس کی گھروالی یہاں آرہے تھے میں بھی ساتھ آگئی ۔خیال تھاکوٹ حسن خاں سے بس مل جائے گی مگر ہمارے پہنچنے سے پہلے وہ نکل گئی تھی۔اس لئے ہمیں پیدل ہی آناپڑا‘‘
گاؤں کاپیدل سفر بارہ کوس یااٹھارہ میل تھا۔میں پریشان ہوگیا ’’آپ اتنی دورپیدل چل کر آئی ہیں؟‘‘
’’تو کیاہوا‘‘ وہ بولیں’’ آ توگئی‘‘
’’آپ تھک گئی ہوں گی ‘‘
’’تمہیں دیکھ کر ساری تھکاوٹ دور ہوگئی‘‘
ہم نے تین ماہ بعداکٹھے بیٹھ کرکھاناکھایا۔وہ منہ اندھیرے ناشتہ کرکے گھرسے نکلی تھیں اوراپنے اورمیرے حصے کے گھی ملے آٹے کے پراٹھے اورآم کااچارساتھ لائی تھیں۔یہ جگہ بازارکے عین درمیان میں تھی۔ ایک طرف پھلوں کی دکانیں تھیں۔آم ،آڑو،آلوچے ،آلوبخارا،اورخوبانیاں۔دوسری طرف حلوایوں کی دکانیں،جہاں طرح طرح کی خوشنمامٹھائیاں سجی تھیں۔دودھ سوڈے کی دکان تواتنی قریب تھی کی بوتلیں بھرنے کی چھک چھک کی آواز صاف سنائی دیتی تھی۔میراجی چاہتامیں شہرکی ساری نعمتیں لاکران کے سامنے ڈھیرکردوں۔مگر مجھے تواکنی کی شکل دیکھے بھی کئی ہفتے ہوگئے تھے ۔میں گلاس لے کرگھڑے سے ان کے لئے پانی لینے کو اٹھاتو ان کی نظرمیرے ننگے پیروں پرپڑگئی۔
’’تمہارے جوتے کہاں ہیں؟‘‘
میں چپ رہاتوانہوں نے پھرپوچھامیں پھربھی خاموش رہاتو وہ رونے لگیں
’’تم اساڑھ کی اس گرمی میں پتھریلے راستوں پر ننگے پاؤں چل کرسکول آتے جاتے ہو؟‘‘
وہ اتناروئیں کہ اگرمیں خالی گلاس ان کے سامنے رکھ دیتاتو وہ ان کے آنسوؤں سے بھرجاتا۔لیکن اچانک ایک خوشگوارخیال سے ان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔بولیں
’’آج مجھے یقین ہو گیا میراخواب ضرورپوراہوگاتم پہلی آزمائش میں پورا اترے ہو ‘‘
پھروہ مجھے جوتوں کی دکان پرلے گئیں اورنئے جوتے دلوائے۔اب مجھے اپنے پھٹے پرانے جوتوں کی جومیں نے رستے میں چھپائے ہوئے تھے ضرورت نہ تھی مگر خالہ کے گاؤں جاتے ہوئے انہوں نے اصرارکرکے وہ جوتے منگائے اوربعدمیں اپنے ساتھ گاؤں لے گئیں ۔یہاں بیچاری خالہ کورلایا وہاں اباکو۔ان کاخیال تھاوہ یہ جوتے کسی سندیاتمغے کی طرح سنبھال کررکھیں گی مگر جب وہ خودہی نہ رہیں توان کی محفوظ کی ہوئی چیزیں کہاں باقی رہتیں۔
ان کے ہمیشہ کے لئے چلے جانے کے بعد رشتے داروں کے تقاضے پرابانے میری شادی یامنگنی کرناچاہی۔ مگرمیں نے انکارکردیا۔ ابا کامجھ پرزیادہ زورنہ چلتاتھا ۔وہ مجھ پرسختی کرتے تو میں گھرآناچھوڑ سکتاتھا ۔مجھے خالہ کی مدد اورحمایت حاصل تھی۔میرابھائی اوربہن دونوں بہت چھوٹے تھے۔ ان کی دیکھ بھال کرنے والاکوئی نہ تھا۔ابانے میرے اورخالہ کے اصرار پر دوسری شادی کرلی۔لیکن وہ ماں جی کوہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد کرتے رہے۔ان کاکہناتھاکہ وہ ایک عام عورت نہ تھیں۔وہ ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے ہر قسم کا کالا اورسفید جادو ورثے میں پایاہوتاہے اور جنہیں دوسروں کوبس میں اور مطیع کرنے والے سارے منتر یادہوتے ہیں۔ماں جی کے چلے جانے کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے زیادہ قریب آگئے تھے اور ہرقسم کی گفتگو بے تکلفی سے کرلیتے تھے ۔ایک بار انہوں نے مجھے ماں جی سے اپنی پہلی ملاقات کاقصہ سنایا۔
ایک روز وہ اپنے مویشی چرانے پاڑمیں لے گئے۔پاڑ بمعنی تقسیم وہ علاقہ، جہاں ایک گاؤں کی حدختم اوردوسرے کی شروع ہوتی ہو۔وہاں ساتھ والے گاؤں کی دو جوان لڑکیاں اپنے کھیت سے ساگ توڑرہی تھیں۔اباکاکوئی مویشی ان کے کھیت میں چلاگیا۔وہ لٹھ لے کردوڑے اوراپنے مویشی کوواپس لے آئے مگر ان میں ایک جوقدرے بڑی تھی بہت خفاہوئی اوردیر تک انہیں برا بھلا کہتی رہی۔ مگر دوسری خاموش رہی۔صرف اتناکہا۔’’جانے دو آپا۔اس بے چارے کاکیاقصور‘‘
اباکہتے ہیں انہوں نے اپنے گھرمیں تو کیا پورے گاؤں میں اتنی حلیمی اور حلاوت سے بات کرنے والی عورت نہ دیکھی تھی۔ایک اجنبی لڑکی کے منہ سے ہمدردی،اپنائیت اورمحبت سے لبریز یہ سیدھاسادا سا جملہ ان کے دل میں اترگیا،اورکئی دن تک کانوں میں گونجتارہا۔آخرکارانہوں نے والد ہ سے اس واقعہ کاذکرکیا۔وہ اسی گاؤں اوربرادری کی تھیں اور سب کو جانتی تھیں ۔اگلے ہی روز اسے ان کے لئے مانگ آئیں
وہ اپنے سسرال آئیں توان کاپالا میری چاچیوں اورپھوپھیوں سے پڑااور بقول اباکے ایک معصوم ہرنی بھگیاڑیوں میں گھر گئی۔مگر انہوں نے اپنی وضع نہ بدلی۔میری ایک پھوپھی نے جو نوجوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں اوردنیاکی ہرسہاگن کواپنے جیسادیکھنا چاہتی تھیں، زبان کی قینچی چلاتے چلاتے ایک روزسچ مچ کی چھری سے انہیں زخمی کردیا۔مگر انہوں نے اباسے کہا سبزی کاٹتے ہوئے ان کاہاتھ کٹ گیا۔مجھے بھی منع کردیا کہ کسی سے اس کاذکر نہ کروں ۔ پھوپھی جان پر اس کابہت اچھااثر پڑا۔وہ ان کی اس کشادہ دلی اور درگزر سے خوفزدہ سی ہو گئیں۔کہتیں یہ کسی عام انسان کے بس کاکام نہیں ۔
میراخیال ہے اباٹھیک ہی کہتے تھے ان کے رویے میں بردباری اورلہجے میں ایک عجیب سی مٹھاس تھی۔ وہ سرتاپاشفقت اورمحبت تھیں جس سے بڑ ا جادو دنیامیں ابھی تک ایجادنہیں ہوا۔ اپنے شوہر اور بچوں سے ہی نہیں وہ اپنے والدین ،بھائی بہنوں اوردیگر رشتے داروں سے بھی بے حد محبت کرتی تھیں ۔ اپنے اکلوتے بھائی سے تو انہیں بہت ہی لگاؤ تھا۔مجھے یاد ہے ایک بار ماموں سے ملاقات کوکئی مہینے ہوگئے ۔وہ ان کے لئے بہت اداس رہتیں۔ ایک روز میکے گاؤں کاکوئی آدمی ملنے آیااورپوچھابہن جی کوئی سکھ سنیہا؟
مجھ سے کہاماموں کے نام خط لکھ دو ۔میں قلم دوات لے آیا اور کہالکھوائیں
انہوں نے صرف ایک مصرع لکھوایا:آقلمے منہ لاسیاہی متھاادب گھسا کے۔اورچپ ہوگئیں۔میں سمجھا انہیں دوسرا مصرعہ بھول گیاہے میں نے کہا۔آگے بھی توبولیں۔ بھرائی ہوئی آوازمیں کہنے لگیں’’مجھ سے نہیں لکھوایاجاتا۔تم خودہی کچھ لکھ دو‘‘
میں نے لکھ دیا۔ماموں جان اس کے بعد آپ کی بہن کی آواز بھراگئی۔
میں نے خط لفافے میں بندکرکے ننھیال کے آدمی کو دے دیا اور وہ چلاگیا۔اگلے روز ہم ابھی ناشتہ کررہے تھے جب ماموں جان کی گھوڑی کے ہنہنانے کی آوازسنائی دی۔پلٹ کردیکھاتووہ اندرآرہے تھے ۔ماں جی ننگے پاؤں دروازے کی طرف دوڑیں ۔’’بسم اللہ میراویر‘‘
ماموں جان ان سے کچھ ہی بڑے تھے مگروہ ان کا والد کی طرح احترام کرتی تھیں۔علیک سلیک اورچائے ناشتے کے بعدماموں جان نے میرالکھاہوارقعہ جیب سے نکالااور خفگی سے بولے
’’ تم نے رقعے میں مجھے لکھاہے اس کے بعدآپ کی بہن کی آواز بھراگئی۔گرامرکے لحاظ سے توجملہ ٹھیک ہے مگر میں پوچھتاہوں میری بہن تمہاری کچھ نہیں لگتی؟‘‘
میں نے کہا’’ماموں جان آپ برانہ مانیں میراکوئی قصورنہیں انہوں نے مجھے منع کررکھاہے کہ آپ کے اورنانا جی کے سامنے ان کوماں جی کہہ کرنہ بلاؤں‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’یہ توآپ ان سے پوچھیں۔کہتی ہیں مجھے شرم آتی ہے‘‘
اس پرابا اورماموں دیرتک ہنستے رہے اوروہ محجوب ہوتی رہیں۔
نہر کے پندرہ میلوں میں چھے پل اورتین گدوں پلیاں آتی تھیں۔جب ہم تیسر ے پل پرتھے اور تقریباًنصف فاصلہ طے کرچکے تواچانک میری بائیسکل کے پہیے جام ہوگئے یاشائد ٹانگوں کی رہی سہی سکت بھی جاتی رہی ۔میں نیچے اترا اوربائیسکل کوسٹینڈ پرکھڑی کرکے اس کے وہیل گھمانے لگا۔نواب آگے چلاگیاتھاوہ پلٹ کرآیا۔اس نے پہیے اور فرائی وہیل چیک کیا اور ناراض ہوکربولا’’تمہیں یقین کیوں نہیں آتاکہ میں انہیں زندہ سلامت چھوڑکرآیاتھا‘‘
میں نے کہا’’نواب ایسالگتاہے کچھ ہوگیاہے ۔میرادل بیٹھاجارہاہے‘‘
’’کچھ نہیں ہوا تم یوں ہی دل چھوڑ بیٹھے ہو‘‘۔اس نے کہا۔پھرقریبی ٹیوب ویل سے پانی لاکرمجھے پلایا اورتسلی دی او ر مجھے اپناکندھاتھام کرچلنے کوکہا
میں کچھ دیر اس کا کندھا تھام کربائیسکل چلاتارہا۔پھرآہستہ آہستہ سب کچھ نارمل ہوگیا۔جب ہم گاؤں پہنچے۔لوگ جمع تھے۔ انہیں نہلایاجاچکاتھااور ان کاجنازہ ہمار ے انتظارمیں رکھاہوا تھا۔
بعدمیں ہمیں بتایاگیاکہ صبح سے ان کی آنکھیں دروازے پرلگی تھیں۔باربارطبییعت خراب ہوتی اورسانس اکھڑجاتامگروہ خود کوسنبھال لیتیں۔آخرکار تھک ہارکران کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بندہوگئیں۔اوریہ عین وہی لمحہ تھا جب ہم آدھاراستہ طے کرچکے تھے اورجب میری بائیسکل کے پہیے جام ہوگئے اوردل بیٹھ گیاتھا۔لیکن میں آج تک اسکی کوئی عقلی اورسائنسی توجیح نہیں کرپایا کہ ایساکیسے ہو گیاتھا۔ کیایہ بھی کوئی طلسم تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭اشاعت و ترسیل:آپ میگزین شروع کرنا چاہیں یا کتاب چھپوانا چاہیں تو اشاعت سی
متعلق سبھی ذمہ داریاں جیسے کمپوزنگ،ڈیزائننگ، پروف ریڈنگ۔بعدمیں چاہیں تو پوری دُنیا میں ترسیل
کی ذمّہ داری نبھانے کے لئے رابطہ کیجئے۔۔جدید ادب(جولائی تا دسمبر۲۰۰۳ء) کی ساری ذمے دار ی
دہلی میں رہتے ہوئے نبھائی۔جبکہ اس ادبی جریدے کے ذمہ داران مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔ویب
سائٹ بنوانے کے خواہشمند بھی رجوع کر سکتے ہیں۔پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کام مکمل کیا جاتا ہے۔
رابطہ کے لئے: محمد عمر کیرانوی
L-21/B, Abul Fazal Enclave, Okhla, New Delhi – 2 5(INDIA)
email : [email protected] ٭ Ph. 01398-26805 4(Sat. to Sun.)