سفر کہاں سے کب اور کیوں شروع ہوا تھا ، اب اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا،اب گھور اندھیرا تھا اور گردن گردن اندھیرے میں ڈوبا ہوا طویل راستہ‘ جس پر چلتے رہنے کا ایک احساس تھااور اندھیرا چٹکیاں کاٹتا تھا،وقت کے ساتھ ساتھ یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ وقت گزر رہا ہے،ٹھہر گیا ہے یاوہی رک گئے ہیں یا چلے جا رہے ہیں۔بس وقت کے ساتھ ساتھ اندھیرے کے ناخن تیز ہوتے جا رہے تھے۔اور اس کی چٹکیوں سے اٹھنے والی درد کی ٹیس بڑھتی جا رہی تھی۔یہی ٹیس ہونے کی علامت بھی تھی،کہ تھے یا نہیں تھے کا احساس کسی اور سطح پر موجود نہیں تھا۔
وہ بھی ان میں سے ایک تھا جنھوں نے اندھیرے میں سفر کا آغاز کیا تھا۔اسے جتنا کچھ یاد تھا وہ یہی کہ اندھیرا اب چٹکیاں کاٹتے کاٹتے تند ہوا جا رہا ہے۔شاید کبھی اندھیرا نرم گدا زہو اور شاید کبھی اس کی تہوں میں کوئی لچکیلا پن ہو‘ لیکن عرصہ سے جب سے اسے کچھ کچھ یاد ہونا شروع ہوا تھا،اندھیرے کا انداز اور خراج یہی تھا۔روشنی کے بارے میں اس کے اور اس جیسے دوسروں کے تصوّر ایک سے تھے۔
وہ ہاتھ سے دائرہ سا بناتے ہوئے سوچتا‘روشنی بھی اندھیرے کی طرح ٹکورتی ہے۔ایک دن اسے خیال آیا کہ جب اس نے اور اس جیسے دوسروں نے کبھی روشنی کو دیکھا ہی نہیں تو یہ کیسے معلوم ہوا کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ اندھیرا ہے۔
وہ بہت دیر سوچتا رہا۔ہو سکتا ہے یہ روشنی ہو اور اندھیرا کچھ اور ہو۔بہت دنوں تک جب اسے سوال کا جواب نہ ملا۔تو ایک دن اس نے ڈرتے ڈرتے ایک بزرگ سے پوچھ لیا‘
وہ کچھ دیر چپ رہے پھر بولے۔۔۔’’معلوم تو مجھے بھی نہیں لیکن میں نے سنا ہے کہ ایک بار باہر کی دنیا سے کوئی یہاں آیا تھا۔جس نے اس اندھیرے کا احساس کرایا تھا۔‘‘
’’اور تب سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ہم اندھیرے میں رہ رہے ہیں‘‘
’’شاید ہاں‘‘
’’اور اندھیرا اس لئے ہے کہ ہم ہر شے کو ٹٹول کر دیکھتے ہیں اس کی پہچان نہیں رکھتے‘‘
’’شاید ہاں‘‘
’’اور میرے باپ نے بھی اسی اندھیرے میں زندگی گزار دی اور میں نے بھی اسی میں آنکھ کھولی اور زندگی گزار رہا ہوں۔او ر میرے بعد میرا بیٹا بھی۔۔۔۔۔‘‘
’’شاید ہاں‘‘
’’اور میرے باپ کے لئے یہ اندھیرا اتنا کرخت نہیں تھاشاید اس میں کوئی ملائمیت ہو‘ میرے لئے وہ چٹکیاں کاٹنے والا ہے۔جس کی ٹیس کئی کئی دن محسوس ہوتی ہے‘اس کے ناخن اب کافی بڑھ گئے ہیں اور تیز ہیں اور میرے بیٹے تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’شاید ہاں‘‘
اُس نے جھنجلا کر بزرگ کے ہاتھ کو جھٹکا دیا۔۔۔’’آپ کے ہر جواب میں شاید کیوں ہے‘‘؟
بزرگ ہنسے۔۔۔’’تمہارا ہر سوال بھی تو ادھورا ہے‘ تمہارا جملہ بھی مکمل نہیں‘‘
اب خیالوں اور سوالوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔اس کے باپ نے اس اندھیرے سے نکلنے کی جدوجہد کیوں نہیں کی۔کیا اسے اپنے بیٹے کا خیال نہیں تھا۔۔۔۔نہیں تھا تو اس کے ذہن میں یہ خیال کہاں سے آیا،کیسے آیا۔بس سوال ہی سوال تھے اور جواب نہیں تھا‘ صرف اندھیرا تھا اور سفر تھا کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا تھا۔تھا بھی یا نہیں ،اب تو اسے بار بار یہ خیال بھی آتا کہ سفر ہے بھی کہ نہیں۔وہ چل بھی رہے ہیں یا ایک ہی جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔دکھائی تو کچھ دیتا نہیں پھر یہ کون بتائے کہ وہ چل رہے ہیں یا ایک ہی جگہ رکے ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے کبھی چل رہے ہوں اور اب رک گئے ہوں۔اس گھور اندھیرے میں نہ کچھ سوجھتا تھا‘ نہ کچھ سمجھ میں آتا تھا، اور بتانے والا کوئی نہ تھا۔جس سے بھی کچھ پوچھنے کی کوشش کرتا ‘وہ اپنے سوال لئے ہوئے ہوتا۔بس سوالوں کا ایک دائرہ تھا اور جواب۔۔۔۔۔۔‘‘
آخر کسی کو تو کچھ معلوم ہو گا،کوئی تو جواب دے سکتا ہو گا‘ وہ کون ہے‘ کہاں ہے؟
اب وہ اس کی تلاش میں تھا کوئی نہ کوئی ضرور اندر کی بات جانتا ہے لیکن چپ سادھے بیٹھا ہے،وہ اپنے آپ سے کہتا ‘ لیکن وہ ہے کون اور کیوں نہیں بولتا۔بولنے پر بظاہر کوئی پابندی بھی نہ تھی، بلکہ وہ سب ضرورت سے زیادہ بولتے تھے۔ہر وقت بولتے ہی رہتے تھے، بلکہ نیند میں بھی بڑبڑاتے رہتے تھے۔آوازیں تھیں اور شور تھالیکن ان میں پرندوں کی چہچہاہٹ نہ تھی کہ مدت سے پھولوں نے کھلنا بند کر دیا تھا، اور کوئی گیت نہیں تھا کہ عرصہ سے گیت نگار نے گیت لکھنا بند کر دیا تھا کہ کوئی گیت سننے والا نہیں تھا۔اسے خیال آیا کہ یہ جو عرصہ سے چپ ہیں ضرور کوئی بات جانتے ہیں۔پرندے تو جواب دے نہیں سکتے تھے، گیت نگارضرور کچھ جانتا ہو گا مگر وہ ہے کہاں؟اس گھور اندھیرے میں کہیں چھپا بیٹھا ہے۔کہ اب اس کے لئے چھپنے کے سوا اورکیا چارہ تھا ! وہ اس کی تلاش میں لگ گیا۔آوازوں سے ٹٹول کر ‘کبھی آوازیں دے کروہ اسے ڈھونڈتا رہا‘ لیکن وہ اسے نہ ملا۔پھر جب وہ مایوس ہو گیا تو ایک دن اچانک ہی وہ اس کے قریب آگیا۔اُس کے سوال کے جواب میں وہ چپ رہا ‘ دیر تک چپ رہا۔
اُس نے پھر سوال دہرایا۔۔۔۔’’تم چپ کیوں ہے، بتاتے کیوں نہیں ۔یہ اندھیرا کب ختم ہو گا؟
وہ پھر چپ رہا‘
’’کب ختم ہو گا یہ اندھیرا؟‘‘اس کی آواز میں اب ایک التجا تھی۔
دیر کی خاموشی کے بعد گیت نگار ایسی آواز میں جو بمشکل سنی جا سکتی تھی،بولا۔۔۔۔’’شاید کبھی نہیں‘‘
’’کبھی نہیں‘‘ وہ روہانسا ہو گیا۔۔۔۔’’کبھی بھی نہیں‘‘
’’شاید کبھی بھی نہیں‘‘گیت نگار کی آواز میں آنسو چھلک رہے تھے۔۔۔۔’’اندھیرا تو کبھی نہ کبھی ختم ہو ہی جاتا ہے لیکن آنکھیں ہی نہ ہوں تو۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا‘‘ وہ چیخا اور اپنی آنکھوں کو ٹٹولنے لگا۔۔۔۔’’کیا ہماری آنکھیں ہی۔۔۔۔۔۔‘‘
اور اسے لگا ‘ اُس کے کان بھی نہیں‘ اور یہ جو کچھ ہورہا ہے،ہوتا رہا ہے۔اس کے اندر ہی کوئی سرسراہٹ سی ہے‘ ایک آہٹ سی اور بس۔۔۔۔۔!یہ عجب انکشاف تھا کہ اس کی آنکھیں ہیں ،نہ کان، وہ روبھی نہیں سکتا،تو۔۔۔ہنس تو سکتا ہے اور غیر اردی طور پر قہقہہ ایک فوارے کی طرح اُس کے ہونٹوں سے پھُوٹ نکلا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتح محمد ملک کی زندگی مسلسل جدو جہد کی ایک علامت ہے۔گورنمنٹ کالج اصغر مال میں تدریس کے دوران
بھی وہ روزنامہ تعمیر سے وابستہ تھے کہ اپنے سفر کا آغاز انہوں نے یہیں سے کیا تھا۔صوبائی محکمہ اطلاعات
میں سکرپٹ ایڈیٹر بھی رہ چکے تھے۔انہی دنوں مساوات کے اجراء کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔حنیف رامے
اس کے انچارج تھے۔ملک صاحب کنیز فاطمہ کے ذریعے مساوات میں پہنچ گئے۔کالج سے چھٹی لی اور
مساوات کو چلا دیا۔پھر وزیر اعلیٰ پنجاب کے پریس سیکریٹری بنے۔اس دوران بھی انہوں نے ادیبوں
سے رابطہ قائم رکھا۔ رشید امجد کی خود نوشت سوانح
تمنا بے تاب کے صفحہ نمبر ۱۴۰۔۱۳۹ سے اقتباس)