خورشید اقبال(۲۴۔پرگنہ)
خوف طوفان کا اے دوست مرے دل میں نہیں
لطف جو موج تلاطم میں ہے ساحل میں نہیں
میرے حصے کی ہر اک سانس پہ میرا حق ہے
میری تقدیر کسی پنجۂ قاتل میں نہیں
کشتیاں پھونک دو پھر جیت تمہاری ہوگی
مجھ کو معلوم ہے یہ جوش مقابل میں نہیں
ہے ترے حسن کا معیار مری نظروں میں
دلکشی میرے لئے اب مہ کامل میں نہیں
راہ کی دھوپ کی خوگر ہے طبیعت میری
راحتِ قلب مجھے سایۂ منزل میں نہیں
ایک تم ہی نہیں خورشیدؔ پریشان یہاں
کون ایسا ہے یہاں،جو کسی مشکل میں نہیں
**
خورشید اقبال
چلو مانا کہ ہے پچھلے سفر کی کچھ تھکن باقی
مگر دل میں توہے آگے ہی بڑھنے کی لگن باقی
بڑی مدت ہوئی لیکن ابھی تک دل کے گوشے میں
کسی کی بھوری آنکھوں کی ہے ہلکی سی چبھن باقی
دکھاوے کے لئے آکر گلے تو لگ گئے لیکن
بڑی تلخی ہے لفظوں میں ، ہے لہجے میں جلن باقی
بڑھائے ہاتھ دشمن بھی تو بڑھ کر تھام لیں گے ہم
ابھی ہے شہر میں اپنے، مروت کا چلن باقی
محبت میں ضروری تو نہیں ہے سامنے رہنا
تری یادیں سلامت اور مرا دیوانہ پن باقی
نہیں مایوس میں حالات سے خورشیدؔ ،کچھ بھی ہو
ابھی ہے آس کی اس دل میں ہلکی سی کرن باقی