شگفتہ الطاف(بھاولپور)
پھر گلاب کا موسم اس کی ترجمانی ہے
پھر وہی محبت ہے پھر وہی کہانی ہے
فیصلوں کے لمحوں میں یاد ہی نہیں ہم کو
کس نے سر جھکا یا تھا کس نے ہار مانی ہے
شجرۂ محبت سے نسبتیں نہیں مانگیں
ہم نے اس صحیفے میں دل کی بات مانی ہے
اختیار کو اس کے جبر کا بدل سمجھوں
یہ بھی تو بغاوت ہے یہ بھی بد گمانی ہے
اب تو اس کی آنکھوں میں اپنا گھر بنائیں گے
اب یہی محبت میں ہم نے بات ٹھانی ہے
منفرد تناسب ہے آج موسم گل میں
سرخ سرخ ہونٹوں پر بات دھانی دھانی ہے
منحرف طبیعت ہے چاہے جو کہے لیکن
پھول بھیج دینے کی ایک ہی کہانی ہے
تختِ بادشاہی سے حلقہء اسیری تک
وہ اتر کے آیا ہے اس کی مہربانی ہے
***
غزل کا بانکپن ترتیب دے گا
سخن موج سخن ترتیب دے گا
عجب ضد ہے کہ کھلتی دھوپ میں وہ
ستاروں کا بدن ترتیب دے گا
نہ چاہوں بھی تو ان آنکھوں کا موسم
مرے دل کی چبھن ترتیب دے گا
مسیحا ہے تو بے جا موسموں میں
تنفس کی پون ترتیب دے گا
ہوائے شام کا مخمور جھونکا
گلابوں پر تھکن ترتیب دے گا
محبت کا جنوں حد سے بڑھا تو
کئی دارورسن ترتیب دے گا
مرے الہامی ہاتھوں پر وہ اک دن
لبوں کے دو رتن ترتیب دے گا
گلابوں کے کوئی گہنے اٹھائے
خیالوں میں دلھن ترتیب دے گا
وہ میرے برف سے ہر فیصلے پر
بغاوت کی کرن ترتیب د ے گا
***
کوئی جو دل سے تمہارے سوا گزر جائے
خدا کرے کہ یہاں کربلا گزر جائے
ہمارے گھرمیں نہ اترے تمہارے ہجر کا چاند
دعا کرو کہ کوئی معجزہ گزر جائے
چمک رہا ہے کسی نور سے دعا کا بدن
کہ جیسے دست حنا سے خدا گزر جائے
بلاجواز ہی اک دوسرے کو پالیں اگر
تو ایک عمر کی پل میں سزا گزر جائے
تمہارے قصر محبت کی سرحدوں سے کبھی
مجال ہے کہ کوئی دوسرا گزر جائے
جب اس کو چھوڑ دیا ہے تو پھر ہے کیسا خیال
گلی سے چاہے کوئی بار ہا گزر جائے
***
شکستگی کے عذاب میں ہوں
میں موسم احتساب میں ہوں
مرے قبیلے کے چہرے گم ہیں
یا میں ہی دشت سراب میں ہوں
رفاقتوں سے ہے منحرف دل
بدن کے کس انقلاب میں ہوں
پس نظر جب سے پڑھنا سیکھا
شعور کے اضطراب میں ہوں
زمیں سے میرا نسب ہے لیکن
ستارہ گر کے حساب میں ہوں
اسے گنوا کر یقین ٹھہرا
خطاؤں کے ارتکاب میں ہوں
کتابوں کے لفظ مٹ چکے ہیں
مگر میں حرف نصاب میں ہوں
اب اپنی نسبت بھی سونپ مجھ کو
اگر ترے انتخاب میں ہوں
ستارہ سا ہاتھ کیا لگا ہے
کہ میں شب ماہتاب میں ہوں