جواز جعفری(لاہور)
جگر کو خون کیئے، آنکھ میں روانی لیئے
اداس پھرتا ہوں ، چہرے پہ رایئگانی لیئے
ہوا ہے شہر پہ قابض میرا عدو اور میں
بھٹکتا پھرتا ہوں جنگل میں راجدھانی لیئے
اُجڑنے والی تھی وہ داستاں سرائے، کہ پھر
پہنچ گیا میں وہاں اک نئی کہانی لیئے
اسیرِ رزق و مکاں ! بام سے کبھی مجھے دیکھ
میں تیرے کوچے میں پھرتا ہوں زندگانی لیئے
عدوُ کے نرغے میں ، دانتوں سے تھامے مشکیزہ
یہ کون ہے جو چلا آ رہا ہے پانی لیئے ؟
جمالِ دیر نما ! برف ہو گئے مرے بال
کبھی میں آیا تھا ا س شہر میں جوانی لیئے
جوازؔ میں تو ازل سے اسیرِ خاک ہوں اور
یہ کائنات ہے دامن میں بیکرانی لیئے
***
خواب کو گھول کے اشکوں میں ،بنائی ہوئی ہے
ایک تصویر جو آنکھوں میں سجائی ہوئی ہے
مہکی مہکی ہوئی آتی ہے سرِ شام ہوا
تازہ تازہ کہیں پھولوں کی چُنائی ہوئی ہے
مجھ سے کترا کے گزر ، قافلہء رنگِ بہار
کہ جنوں خیزی مری رنگ پہ آئی ہوئی ہے
ا
س لئے آنکھ بھر آئی ہے کہ مجھ کو یہ کتھا
مرے بچپن میں ، مری ماں نے سنائی ہوئی ہے
پھر سرِشام بدلنے لگا موسم کا مزاج
جانتا ہے ، مری فصلوں کی کٹائی ہوئی ہے
ا
سی مدفن سے ملے گا مرے ماضی کا سراغ
جس کھنڈر کی ابھی دو ہاتھ کھدائی ہوئی ہے
ایک دن آئیں گے تعبیر کے پھل پھول جوازؔ
قلمِ خواب ، سرِ چشم لگائی ہوئی ہے
***
فلک پہ گونج رہی ہے مری صدا کوئی ہے؟
مرے علاوہ بھی اس دہر میں بتا کوئی ہے؟
ترے ابد کے مضافا ت سے گزرتا ہوا
یہیں کہیں مری دنیا میں راستہ ، کوئی ہے
بغیر اس کے مری راکھ بُجھنے لگتی ہے
کھُلا کہ میر ا بھی سورج سے واسطہ ،کوئی ہے
سماعتوں پہ کب اترے گا اسکی چاپ کا رزق؟
میں کیوں جہاں میں اکیلا ہوں گر مرا کوئی ہے؟
ٹھہر سکی نہ کسی ایک چاک پر مری خاک
سو میرے پیشِ نظر اب بھی مرحلہ کوئی ہے
اکیلا کب ہے سرِریگ زار میرا جنوں
نواحِ جاں میں کہیں اور قافلہ کوئی ہے
جوازؔ آنکھ میں ٹُوٹا جو خواب کا کانٹا
کھلا کہ میرے تعاقب میں رتجگا کوئی ہے
***
وہ رو رہا تھا پسِ چشم ، مجھ کو کھوتے ہوئے
کہ میرا ہو نہ سکا وہ کسی کا ہوتے ہوئے
ہوائے تیرہ شبی کاٹنے کو آتی ہے
میں تار تار ہوا روشنی کو بوتے ہوئے
کِھلا ہوا تھا کسی چشمِ تر میں خواب اس کا
سو جاگ اٹھتا تھا وہ میرے ساتھ سوتے ہوئے
ترس رہا ہوں کسی نخلِ غم کے سائے کو
کہ تھک گیا ہوں میں بارِ نشاط ڈھو تے ہوئے
تمہارے بعد ، اِنہیں رزقِ خاک ہونا ہے
یہ میرے آنسو، تری آستیں بھگوتے ہوئے
ہوا پرانا جوازؔ آسمان کا چولا
سوپھٹ نہ جائے کہیں بار بار دھوتے ہوئے
***
اُس کے گھر کا پتہ ، تبدیل بھی ہو سکتا ہے
دو قدم فاصلہ ، دو میل بھی ہو سکتا ہے
روک رکھا ہے جو آنسو، پسِ مژگاں ،ہم نے
وہ اگر چاہیں تو ترسیل بھی ہو سکتا ہے
فاختاؤں کے تعاقب میں یہاں آ تو گئے
یہ نگر ، شہرِ ابابیل بھی ہو سکتا ہے
شدتِ کار کے موسم میں معاً تیر ا وُروُد
شہر میں باعثِ تعطیل بھی ہو سکتا ہے
عین ممکن ہے وہ دشنام پہ خلعت دے دے
حرفِ ناگفتہ رکے فیل بھی ہو سکتا ہے
فیصلہ ، شہرِ محبت سے چلے جانے کا
آخری وقت میں تبدیل بھی ہو سکتا ہے
اسقدر شاد نہ ہو اِتنی پزیرائی سے
ترے ماں جایوں میں قابیل بھی ہو سکتاہے
***
پلٹ کے آؤ ں گا اور ترا ہدف رہوں گا
میں اپنے منصب سے کب تلک برطرف رہوں گا
میں حرفِ زندہ، دلوں سے ہونٹوں تک آگیا ہوں
ترے نصابوں سے کب تلک میں حذف رہوں گا
مجھے بہر حال اُس کا رستہ اُجالنا ہے
بجھے گا سورج تو میں ستار ہ بکف رہوں گا
اُدھر سے کوئی ستارہ مجھ کو بُلا رہا ہے
میں کب تلک آسمان کے اِس طرف رہوں گا؟
میں فاختاؤں کی فوج کا آخری علمدار
سو تیرے لشکر کے سامنے صف بہ صف رہوں گا
کوئی بُلاوا کہ میں زمیں کی کشش سے نکلوں
یہاں رہا تو اسیرِ شام و نجف رہوں گا
جوازؔ میرے بدن میں پنچھی سے اڑ رہے ہیں
میں اور کتنے دنوں یونہی زیرِکف رہوں گا
***
ترے پہلو میں لے آئی بچھڑ جانے کی خواہش
کہ گل کو شاخ تک لاتی ہے جھڑ جانے کی خواہش
تمہیں بسنے نہیں دیتا ہے بربادی کا دھڑ کا
ہمیں آباد رکھتی ہے اُجڑ جانے کی خواہش
کسی کمزور لمحے میں ہمیں گرنے سے پہلے!
اُٹھا لیتی ہے تیرے پاؤں پڑ جانے کی خواہش
ہمیں اس کھال کی کھڑکی سے باہر کودنا ہے
کہا ں تک روک پائے گی اُدھڑ جانے کی خواہش
خلاء میں جو ستاروں کے غبارے اُڑ ر ہے ہیں
انہیں پھیلائے رکھتی ہے سکڑ جانے کی خو ا ہش
کہاں تک دیکھتے ہیں، آسماں کی وسعتوں میں
اُڑاتی ہے ہمیں مٹی میں گڑ جانے کی خواہش
***
اب کے میدان رہا لشکرِ اغیار کے ہاتھ
گروی اُس پار پڑے تھے مرے سالار کے ہاتھ
سایہ سوزی میں تو ہم لوگ تھے سورج کے حلیف
اب ہدف ٹھہرے کہ جب جل گئے اشجار کے ہاتھ
ذہن اس خوف سے ہونے لگے بنجر کہ یہاں
اچھی تخلیق پہ کٹ جاتے ہیں معمار کے ہاتھ
اب سرِ قریہء بے دست ، پڑا ہے کشکول
روز کٹ جاتے تھے اِس شہر میں دو چار کے ہاتھ
لُوٹ کچھ ایسی مچی شہر کا در کھُلتے ہی
ہر طرف سے نکل آئے در و دیوار کے ہاتھ
ہم سرِ شاخِ سناں قریہ بہ قریہ مہکے
ہم نے اس جنگ میں سر جیت لیے ہار کے ہاتھ