نذیر فتح پوری(پونہ)
کیوں آئینے میں جرأ تِ تشکیل بھی نہیں
اب میں نہیں تو کیا مِری تمثیل بھی نہیں
ہم اپنی آبرو کے محافظ ضرور ہیں
لیکن گوارا غیر کی تذلیل بھی نہیں
پامال ہو رہی ہیں مقدس نشانیاں
ظالم کے سر پہ خوفِ ابابیل بھی نہیں
ایسا نہیں کہ قافلے پیاسے نہیں مگر
جنگل میں دور دور کوئی جھیل بھی نہیں
ہم ہس پہ اپنے خواب کی تختی لگا سکیں
دیوارِ کائنات میں وہ کیل بھی نہیں
مانوس ہو چکے ہو اندھیروں سے یوں نذیرؔ
اب تو تمہارے ہاتھ میں قندیل بھی نہیں
***
ہر راز زندگی کا وہ مکشوف کر گیا
خود تو چلا گیا مجھے مصروف کر گیا
سورج گیا تو روشنی موقوف کر گیا
دن کو اندھیری رات میں ملفوف کر گیا
بستی سے جب بھی گزرا کسی شہر کا جلوس
ہر آدمی کے ذہن کو ماؤف کر گیا
دیوانہ چند لمحوں کو آکر گیا مگر
بستی کے بچے بچے کو مصروف کر گیا
ایسا گیا نذیرؔ بچھڑ کر وہ ہمسفر
خود مجھ کو میری ذات سے محزوف کر گیا
***
اک ایک حرف سے تحریر ہو رہا ہوں میں
عجیب کرب کی تصویر ہو رہا ہوں میں
جسے بھی دیکھو وہ تقسیم چاہتا ہے مِری
یہ کیسے حرف کی جاگیر ہو رہا ہوں میں
خود اپنے آپ ہی روکے ہیں راستے اپنے
خود اپنے پیروں کی زنجیر ہو رہا ہوں میں
یہ کیسے’’نیندہیولے‘‘ ہیں میری آنکھوں میں
یہ کیسے خواب کی تعبیر ہو رہا ہوں میں
نذیرؔ جن کا سنورنا محال ہے شاید
اب ایسے لوگوں کی تقدیر ہو رہا ہوں میں
***
بھگوئے گا کیا تشنہ منظر میاں
کہ پیاسا ہے خود ہی سمندر میاں
جہاں حکمراں تھے اجالے کبھی
اندھیروں کے در آئے لشکر میاں
ہمیں بھی بہت خوف ہے دھوپ سے
ہمارا بھی ہے برف کا گھر میاں
یہ کیا پیٹھ پر زخم دیتے ہو تم
کرو وار سینے پہ کھل کر میاں
یہ باہر کی آبادیاں کیا کریں
ہیں ویرانیاں دل کے اندر میاں
نذیرؔ اب ذرا ضبط سے کام لو
بہت رو چکے آج کھل کر میاں
***
یوں سفر کا کوئی سلسلہ تو چلے
میں اگر رُک گیا ،دوسرا تو چلے
پیڑ سے تم پرندے اڑا تو چلے
اور تہمت ہوا پر لگا تو چلے
دوریاں ایک دن ختم ہو جائیں گی
کچھ ملاقات کا سلسلہ تو چلے
دیکھئے کون سیراب ہوتا ہے اب
ہم سخن کا سمندر بہا تو چلے
اور کیا کام آتی ہماری صدا
شہر سویا ہوا تھا جگا تو چلے
اس صدی میں تو یہ بھی بہت ہے نذیرؔ
ہم صلیب اپنی اپنی اٹھا تو چلے