اکبر حمیدی(اسلام آباد)
نام لے لے کے رقیبوں کا سیاپا کرنا
اکبر اچھا نہیں ہر روز تماشا کرنا
جب یہ معلوم ہے ملنا نہیں اس کو منظور
کیا ضروری ہے پھر ایسوں کی تمنا کرنا
خواب کیوں دیکھتے جن کی کوئی تعبیر نہیں
جو نہ ہو پائے اسے کس لیے سوچا کرنا
وہ مراسم میں نہیں اس سے تو کس خواہش پر
اس گلی کے درودیوار کو دیکھا کرنا
عشق ہے یا ہیں یہ آغاز جنوں کے آثار
سب کے منہ لگنا ہر اک بات پہ الجھا کرنا
تم نے مانی ہے کبھی بات کسی کی پہلے
اب کے بھی ٹھان کے بیٹھے ہو جو کرنا ۔ کرنا
جیسے مقروض ہو سب عہد تمہارا اکبرؔ
یوں زمانے سے سر عام تقاضا کرنا
***
ہم شہر میں یوں رہتے ہیں جیسے نہیں رہتے
جس طرح کسی جیل میں بچے نہیں رہتے؟
ظالم یہی قانون مکافات عمل ہے
ہم سے تو رہا کرتے ہیں تم سے نہیں رہتے
ہم روک نہیں سکتے مگر اتنا بتا دیں
بڑھ جائے جہاں ظلم وہ خطے نہیں رہتے
مغرور نہ ہو زور ستم پر کہ ہمیشہ
اک طرح کے حالات کسی کے نہیں رہتے
ہر روز نیا دن، نیا سورج، نئے منظر
ہم ایک ہی دریا میں اترتے نہیں رہتے
آ پھر انہیں بھولے ہوئے رستوں پہ قدم رکھ
اگ آئے اگر گھاس تو رستے نہیں رہتے
پاؤں میں سدا سائے تھرکتے نہیں اکبرؔ
ماتھے میں سدا چاند چمکتے نہیں رہتے
***
کئی برسوں کی خشک سالی ہے
اب مری پیاس بے مثالی ہے
فصل گل سے ہوئی ہے شادی مری
رت خزاں کی شریر سالی ہے
دیکھتے دیکھتے قیامت کی
قامت اس شوخ نے نکالی ہے
پھول پتے بھی کانٹے بھی اس میں
وقت کے ہاتھ میں وہ ڈالی ہے
دیکھنا کیا کہ سب کے ہاتھوں میں
کوئی تصویر بے خیالی ہے
سوچتا ہوں یہ کس کے نام کروں
میرے ہونٹوں میں ایک گالی ہے
رات تو چودھویں کی ہے اکبرؔ
بادلوں کے سبب سے کالی ہے
***
زندگی کی اریڑ میں آئے
سانس کیسے تریڑ میں آئے
کیسے کیسے شجر تناور تھے
آندھیوں کی اکھیڑ میں آئے
دیدنی ہے وہ پہلا موسم گل
رنگ بھرنے جو پیڑ میں آئے
وہی تو وقت ہوتا ہے موزوں
جب حسیں کوئی چھیڑ میں آئے
سوچتا ہوں کہ وہ وچھیری بھی
ایک دن میری ایڑ میں آئے
جیسا اس کو کسی نے سوچا ہو
جو کسی کے گویڑ میں آئے
ہم ہیں موقع کے منتظر اکبرؔ
دیکھئے کب وہ گیڑ میں آئے
***
زندگی کوئی حسب حال نہیں
ایسی اس دلربا کی چال نہیں
عشق وابستہ رہنے کا ہے نام
ٹوٹ جانا کوئی کمال نہیں
کتنا سنسان ہوتا جاتا ہے
راستہ ہے، ترا خیال نہیں
تو حقیقت ہے میں صداقت ہوں
کوئی دنیائے امتثال نہیں
خوشیاں ہر سطح پر میسر ہیں
کم نصیبی کا روگ پال نہیں
اک ترا حسن لازوال ہوا
ورنہ کس چیز کو زوال نہیں
وقت تبدیل ہوتا ہے اکبرؔ
اپنا بھی پہلے جیسا حال نہیں
***
غم سے اسی لیے تو رہائی نہ ہو سکی
دشمن تھا اس سے صلح صفائی نہ ہو سکی
ہر جانے والی چیز نشاں چھوڑ جاتی ہے
جو آ ملا پھر اس سے جدائی نہ ہو سکی
سب چہروں میں تھے کچھ نہ کچھ آثار دوستی
اغیار کی بھی ہم سے برائی نہ ہو سکی
اس کو نصیب دوستاں ہم کہہ کے چھوڑ آئے
جس شاخ گل تک اپنی رسائی نہ ہو سکی
کچھ رہنما عجیب تھے کچھ راہرو عجیب
دونوں سے راستوں کی بھلائی نہ ہو سکی
ان موسموں میں لکھتے رہے خط کسی کے نام
جن موسموں میں نغمہ سرائی نہ ہو سکی
اب کے برس بھی مندا رہا کاروبار شوق
اب کے برس بھی کوئی کمائی نہ ہوسکی
اکبرؔ اگرچہ بدلے نہ حالات دشت کے
ہم سے تو ترک آبلہ پائی نہ ہو سکی
***
دیکھنے کو کوئی تیار نہیں ہے بھائی
دشت بھی بے درودیوار نہیں ہے بھائی
ایسا بھی صدق و صفا کا نہیں دعویٰ ہم کو
زندگی شیخ کی دستار نہیں ہے بھائی
پاکبازوں کی یہ بستی ہے فرشتوں کا نگر
کوئی اس شہر میں میخوار نہیں ہے بھائی
جان پیاری ہے تو بس چلتے چلے جاؤ میاں
کیوں کھڑے ہو یہ در یار نہیں ہے بھائی
جس قدر تھے وہ ہوئے اللہ کو پیارے کل شب
کوئی اب عشق کا بیمار نہیں ہے بھائی
عشق کرنا ہے تو چھٹی نہیں کرنی کوئی
عشق میں ایک بھی اتوار نہیں ہے بھائی
آپ نے بھی تو کیا ہو گا کچھ اکبرؔ ورنہ
ایسی اس شوخ کی گفتار نہیں ہے بھائی
***
مولا پانی دے
برکھا پانی دے
سوکھے ہونٹوں کو
سونا پانی دے
سونی نہروں کو
دریا پانی دے
اجڑے کھیتوں کو
دانہ پانی دے
جلتے جسموں کو
ٹھنڈا پانی دے
اس کی قربت کا
میٹھا پانی دے
میں اور وہ نہلائیں
ایسا پانی دے
کالے پانی کو
کالا پانی دے