کرشن مہیشوری (راجکوٹ)
ــــ ـ’ بدنام ہونگے پر نام تو ہوگا ‘اس جملے سے شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو واقف نہ ہو۔مگرکبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ایسا کام کر جاتے ہیں کہ وہ نام و دام تو خوب کمالیتے ہیں مگر بدنامی سے نہیں بچ پاتے ہیں۔میری آج کی گفتگو ادب و ثقافت میں ہو رہی جعلسازی سے متعلق ہے۔جعلسازی کا صد فیصد سچا واقعہ آپکی خدمت پیش کر رہا ہوں۔
مشہور قوال الطاف راجہ کا ایک صوتی البم ’ دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے ‘ ۲۰۰۱ء میں ریلیز کیا گیا تھا،اس البم کے سائیڈ اے کا پہلا گیت ’ پہلے تو کبھی کبھی غم تھا ‘ بہت مشہور بھی ہوا تھا۔یہ گیت دراصل دو سال قبل یعنی ۱۹۹۹ء میں کراچی سے ریلیز صوتی البم ’ غم ‘ کے ہی پہلے گیت ’ غم ‘(مصرعہ : پہلے تو کبھی کبھی غم تھا )کا چربہ ہے۔ان دونوں گیتوں میں آواز کے سوا ساری چیزیں چوری کا کرشمہ ہیں،یعنی چوری کی گئی دھن کے ساتھ گیت کی شاعری میں کس حد تک یکسانیت ہے یا الطاف راجہ پہلے گیت سے کتنا Inspire ہوئے ہیں یہ آپ خود درج ذیل دونوں گیتوں کو پڑھکر اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
گلو کار : رحیم شاہ گلوکار : الطاف راجہ
گیت کار : انور رضوی گیت کار : ارون بھیرو
میوزک : رحیم شاہ اور سلمان علوی میوزک : الطاف راجہ اور ویشنو دیو
پہلے تو کبھی کبھی غم تھامگر اب ہر دم تیری یاد ستاتی ہے پہلے تو کبھی کبھی غم تھااب توہر پل ہی تیری یاد ستاتی ہے پہلے تو کبھی کبھی غم تھامگر اب ہر دم تیری یاد ہی آتی ہے پہلے تو کبھی کبھی غم تھا اب توہرپل ہی تیری یادرُلاتی ہے پہلے تو کبھی کبھی غم تھامگر یہ دردِ جدائی ہے ہر گھڑی اب پہلے تو کبھی کبھی غم تھامگر یہ دردِ جدائی ہے ہر گھڑی اب
پہلے تو کبھی کبھی غم تھامگر یہ داغِ جدائی ہے ہر گھڑی اب پہلے تو کبھی کبھی غم تھامگر یہ داغِ جدائی ہے ہر گھڑی اب
میں تجھ سے کیسے کہوں یہ بتا میں تجھ سے کیسے کہوں یہ بتا
کہ میرے دل میں تو بسا ہے ہر گھڑی اب کہ تیری یاد کے سہارے جی رہا ہوں
میں تجھ سے کیسے کہوں یہ بتا میں تجھ سے کیسے کہوں یہ بتا
کہ تیری یاد نے یہ آگ لگا دی اب کہ غم کے آنسوؤں کو خود ہی پی رہا ہوں
میں تجھ سے کیسے کہوں یہ بتا میں تجھ سے کیسے کہوں یہ بتا
نہ مار ڈالے تیری بے وفائی مجھکو نہ مار ڈالے تیری بے وفائی مجھکو
میں تجھ سے کیسے کہوں یہ بتا میں تجھ سے کیسے کہوں یہ بتا
نہ مار ڈالے کہیں یہ جدائی مجھکو نہ مار ڈالے کہیں یہ جدائی مجھکو
بتا دے مجھ کو بے وفا یہ بتا دے مجھ کو بے وفا یہ
میں تیری راہ میں کب تک کھڑا رہونگا میں تیری راہ میں کب تک کھڑا رہونگا
بتا دے مجھ کو بے وفا یہ بتا دے مجھ کو بے وفا یہ
میں تیرے در پہ یوں کب تک پڑا رہونگا میں تیرے در پریوں کب تک پڑا رہونگا
بتا دے مجھ کو بے وفا یہ بتا دے مجھ کو بے وفا یہ
تو مجھ کو کب تلک ایسے ہی رُلائیگا تو مجھ کو کب تلک ایسے ہی رُلائیگا
بتا دے مجھ کو بے وفا یہتو مجھ کو کب تلک اپنا نہ بنائیگا بتا دے مجھ کو بے وفا یہ۔۔تو مجھ کو کب تلک اپنا نہ بنائیگا
اے پگلی تو کیوں رو رہی ہے اے پگلی تو کیوں رو رہی ہی
کہ غم تو مجھکو یہ لگا ہے جدائی کا کہ غم تو مجھکو اٹھانا ہے جدائی کا
اے پگلی تو کیوں رو رہی ہے اے پگلی تو کیوں رو رہی ہے
تیرے لئے تو سماں ہے یہ شہنائی کا تیرے لئے تو سماں ہے یہ شہنائی کا
اے پگلی تو کیوں رو رہی ہے اے پگلی تو کیوں رو رہی ہے
کہ گاؤں چھوڑنا ہے میرے مقدر میں کہ گاؤں چھوڑنا ہے میرے مقدر میں
اے پگلی تو کیوں رو رہی ہے اے پگلی تو کیوں رو رہی ہے
کہ عمر گزرے گی اب میری یہ سفر میں کہ عمر گزرے گی اب میری یہ سفر میں
کسقدر دکھ کی بات ہے کہ رحیم شاہ کے گانے کو الطاف راجہ نے اپنی آواز میں نہ صرف چوری کی گئی دھن میں پیش کیا بلکہ اس گانے کی شاعری کو( جو انور رضوی نامی پاکستانی شاعر کی تخلیق ہے) کے دو مصرعوں اور چند الفاظ کی رد وبدل کے ساتھ ارون بھیرو نام کے جعلی شاعر کے نام کر دیا۔اس گیت نے الطاف راجہ کو کافی شہرت بخشی۔ادب و ثقافت میں اسقدر جعلسازی موجود ہے کہ اس پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے،جعلسازی کی یہ ایک ادنیٰ سی مثال ہے جو ادب کو جعلسازی کا گودام بنانے والوں کے خلاف ایک چھوٹا ساقدم ہے۔ میں پہلے بھی کئی بار یہ بات دہرا چکا ہوں کہ میرا مقصد کسی کی حوصلہ شکنی کرنا نہیں ہے بلکہ ادب وثقافت کی خدمت اور ایسے جعلی ادیبوں اور شاعروں کو ادب سے خارج کرکے ادب کو جعلسازی سے پاک و صاف کرنا ہے۔