ناصر عباس نیر (جھنگ)
صابر آفاقی کسی رسمی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اس لیے بغیر کسی تعارف و تمہید کے چند باتیں ان کے شعری مجموعے نئے موسموں کی بشارت (مطبوعہ ۲۰۰۰) پر ۔ اس مجموعے میں حسب رواج غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ اور یہاں صرف ان کی غزل کو موضوع گفتگو بنایا جا رہا ہے۔
صابر آفاقی کی غزلوں کا سب سے نمایاں وصف ان کا آفاقی وژن ہے ۔ آفاقی وژن صابر آفاقی کے ہاں ایک ایسا طرز ادراک نہیں جو کائنات گیر ہوتاہے۔ جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیرارضی اور اپنی افتاد کے لحاظ سے سرّی ہوتاہے۔ ان کے ہاں جو آفاقی زاویہ نظر ظاہر ہوا ہے ا س کی نوعیت سماجی ہے۔ جہاں کہیں اس زاویہ نظر کا کوئی تار ما بعد الطبیعات سے ملا بھی ہے تو وہ کسی نہ کسی سماجی سروکار کو روشن کر گیا ہے۔ صابر آفاقی ایک ایسے انسانی سماج کے تصور کو اپنے اشعار میں پیش کرتے ہیں جو تمام ایسے امتیازات سے ماورا ہوجو سماج کو گروہوں یا فرقوں میں بانٹتے ہیں، ان کے درمیان نفرتیں پھیلاتے اورانسانی امن و مسرت کی راہ مسدود کرتے ہیں۔انسان دوستی کا یہ تصور ۱۸ویں صدی میں خاصا مقبول ہوا تھا اور اسے ان حالات میں تقویت ملتی رہی ہے جومذہبی عدم رواداری سے عبارت ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ نقطہ نظر کسی حسی تجربے سے نہیں پھوٹا بلکہ اپنی اصل کے اعتبار سے اخلاقی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ از خود پیدا نہیں ہوتا اسے حقیقی عملی ضرورتوں کے تحت اختیار کیا جاتا ہے ۔ اس لیے صابر آفاقی کے ہاں کہیں کہیں اصلاحی رنگ پیدا ہو گیا ہے ۔ اس بات سے مقصود انسان دوستی کے تصور کی اہمیت کو گھٹانا نہیں بلکہ شاعری میں اس کی پیشکش کے اسلوب پر روشنی ڈالنا ہے۔
انسان دوستی صابر آفاقی کے ہاں شرف انسانی کے تلازمے کو بھی تحریک دیتی ہے ۔ ان کے ہاں ایسے اشعار کثیر تعداد میں ہیں جن میں انسانی عظمت وشرف کا احساس کرنے اور اس کی محافظت پر زور دیا گیا ہے۔ جدید معاشرے میں شرف انسانی کو باور کرانے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب اسے منصوبہ بند مخفی طریقوں سے مسخ کرنے کی روش عام ہو سیاسی اور معاشرتی ادارے اس امر کے مرتکب ہوتے ہیں۔ صابر آفاقی کی غزل میں در پردہ ان سیاسی حکمت عملیوں کو بے نقاب کیا گیا ہے جو انسانی عظمت کو تاراج کرتی ہیں۔ ان کے ہاں عظمت انساں کا پیچیدہ فلسفیانہ تصور نہیں ہے بلکہ وہ سادہ اور حقیقی تصور ہے جو روز مرہ کے تجربے سے پھوٹتا ہے۔
پیڑ سے جیسے گرا دیتی ہے آندھی پھل کو اس طرح ڈھیر ہوئیں شہر میں جانیں اب کے
اسلحے کی دوڑ میں انسان دیوانہ ہوا رقص میں ہے موت دنیا بھر میں رونق کچھ نہیں
لبو ں کے قفل گر کھل جائیں بھی جبر و تشدد سے تو وہ بازار جمہوری سے تالے ڈھونڈ لاتا ہے
جو گوراہے اسے تو ظلم کرنا ہے بہر صورت جہاں سے بھی ملیں دو چار کالے ڈھونڈ لاتا ہے
اس طرح صابر آفاقی کی غزل کا ایک سیاسی تناظر ہے اور یہ تناظر مقامی بھی ہے اور عالمی بھی کہ وہ انسانیت کا ایک غیر جغرافیائی تصور رکھتے ہیں ۔ انسانی سماج کے بنیادی مسائل پر لکھنے والوں نے با لعموم حاکم اور بالا دست طبقے کو ان مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بالخصوص ترقی پسندوں کی نظر میں سیاسی طاقت ہی تمام عوامی مسائل کا باعث ہے لہٰذا اگر سیاسی تبدیلی آ جائے (بلکہ لائی جائے) تو عوامی کلفتوں کا خود بخود خاتمہ ہو جائے گا ۔ چنانچہ و ہ بالا دست طبقے کو طنز و ملامت کا نشانہ بناتے اور اس کے خلاف رائے عامہ ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ پرولتاری کلاس سے ہمدردی کا اظہار کرتے اور انھیں جرات مندانہ اقدام کا حوصلہ دینے کی سعی کرتے ہیں مگر صابر آفاقی کی شاعری کا مطالعہ کریں تو یہ طرز فکر سادہ لوحی پر مبنی دکھائی دیتا ہے۔ صابر آفاقی انسانی سماج کے بڑے مسائل کی ذمہ داری بیک وقت حاکم طبقے اور عوام پر ڈالتے ہیں۔ ان کا سیاسی شعور انھیں باور کراتا ہے کہ ہر قسم کی بالادستی اس وقت تک اور اس حد تک ہے جب تک اور جس حد تک اسے قبول کیا جاتا ہے گویا وسیع عوامی شرکت کے بغیر کسی نا انصافی اور ظلم کا وجود نہیں ۔ ہر ظالم اور طاقت ور کی معاونت وہ خاموش اکثریت بھی کرتی ہے جو احتجاج اور مزاحمت کی بجائے خوئے تسلیمی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ صابر آفاقی کا تخاطب بالا دست اور زیر دست دونوں طبقوں سے ہے۔
یہی کہنا ہے مجھ کو خود سروں سے کہ رشتہ جوڑ لیں پیغمبروں سے
رگوں میں زہرر وا اں ہے بجائے خون حیات وہ چل بسے جنہیں آتا تھا کار تریاقی
ہم اس دم ہاتھ پاؤں مارتے ہیں گزر جاتا ہے جب پانی سروں سے
نہ ہو دل میں اگر پرواز پیدا پرندہ اڑ نہیں سکتا پروں سے
سورج تو چمکتا ہے سوا نیزے پہ آکر ہمت ہے کہ ہم خود کو پگھلنے نہیں دیتے
میری صورت دیکھیں لیکن بات سنیں کب صا برؔ و ہ کیسی ساعت تھی جب بہری ملت کے گھر اترا ہوں
اس صورت حال میں جب وہ اہل سیاست سے بھی مایوس ہوتے ہیں اورملت کے بہرے پن پر بھی دل گرفتہ ہوتے ہیں تو خود کو آگے لاتے ہیں۔ تاکہ صورت حال کو بدلا جا سکے
صلح بشر اور امن جہاں کا پرچم لے کر اترا ہوں اس میدان میں دنیا کے میں دیکھ کے تیور اترا ہوں
خود بنیادی طور پر ایک تصور ہے جسے آدمی دو سطحوں پر قائم کرتا ہے ۔ انفرادی اور نوعی سطحوں پر ۔ آدمی جب اپنی ذات کی خلوت میں اتر کر اپنی انفرادی ہستی کا شعور حاصل کرتا ہے ۔اور جب وہ اپنی نوع کے ساتھ اپنے رشتوں پر غور کر کے اپنا تصور ذات قائم کرتا ہے۔ صابر آفاقی انسانی صور ت حال کو بدلنے کے لیے اپنے جس تصور خود کو آگے لاتے ہیں وہ انفرادی بھی ہے اور نوعی بھی ۔ نوعی تصور اصلاً سماجی ہے جبکہ انفرادی تصور ذات زیادہ گہرا
ہے ۔ یہ انسانی ہستی کے بنیادی جوہر کو منکشف کرتا ہے وہ جوہر جس کی بنیاد پر وہ دوسری انواع سے ممتاز اور جس کی بنا پر وہ ہر نوع کی صورت حال کو بدل سکنے پر قادر ہو سکتا ہے ۔ یہ اقبال کے تصور خودی کی طرف ذہن کو مبذول کرتاہے۔(صابر آفاقی کے ہاں اقبال کے اثرات بھی جھلکتے ہیں۔ )
میں نہ آیا تھاتو بحر و بر میں سناٹا سا تھا میں چلا جاؤ ں تو بحر وبر میں رونق کچھ نہیں
یہ اپنے آپ نکالے گا راستہ کوئی جو سنگ پارہ ہے اس دل کو اضطراب تو دے
بچ نکلا اگر حملۂ خورشید سے اب کے دریا کی طرح شعر کے قلزم میں بہوں گا
یہ کسی میں نظر آئی نہ کرامت مجھ کو ورنہ کیوں سونپتے دنیا کی امامت مجھ کو
خورشید جو بجھتا ہے جلا لیتے ہیں ہم چاند اپنی یہ نہیں خو کہ اندھیروں سے نباہیں
چنانچہ یہ جوہر ذات ہی زندگی کااصل راز اور انسان کی سب سے بڑ ی کرشماتی قوت ہے مگر یہ مخفی ہے، اسے دریافت کرنا پڑتا ہے، دل کو اضطراب دے کر ،دریا کی طرح شعر کے قلزم میں بہہ کر یعنی اس کے لیے کوشش شرط ہے ۔ صابر آفاقی کے اشعار میں اس امر پر اصرار موجود ہے کہ اس جوہر ذات سے شناسائی او رہم بستگی کے بغیر انسانی صورت حال کو بدلنا ممکن نہیں ۔ اپنے لمحہ انکشاف میں یہ جوہر شخصی اور نجی ہے مگر اپنے پھیلاؤ اور عمل میں یہ غیر شخصی اور اجتماعی صور ت اختیار کر جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں تبدیلی کا مرکز اندر اور محیط باہر ہے ۔ ظاہر ہے یہ اس زاویہ نظر سے بالکل مختلف بات ہے جو محض سیاسی تبدیلی سے پوری انسانی صورت حال کے بدل جانے کا خواب دیکھتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بھیڑ چال کا عمل ارتقاکی نفی ہے۔ترقی پذیرذہن تو ہمیشہ پگڈنڈی اختیار کرنے پر مائل ہوتا ہے اور پھر
یہی پگڈنڈی کسی روز ایک کشادہ شاہراہ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔لہٰذا میرے نزدیک حریت ذہن و قلم
سے مراد یہ ہے کہ قلم کار اپنے اوپر وارد ہونے والے آزادی کے لمحات میں اپنے قلم کو جنبش دے۔وہ
کسی سسٹم کا تتمہ اور کسی متشدد نظریے کا تابع مہمل بننے کے بجائے اس روشنی میں آگے بڑھے جو اس
کے اندر سے پھوٹ رہی ہو۔‘‘ ڈاکٹر وزیر آغا
(بحوالہ کتاب ’’ساختیات اور سائنس‘‘صفحہ نمبر ۱۶۶)