ڈاکٹر جمیل جالبی(کراچی)
میں اس تفصیل میں تو اس وقت جانا نہیں چاہتا کہ ’’ اچھا ادب کیا ہے ؟ ‘‘ لیکن اچھے اد ب کے بارے میں ایک بات میں ضرور جانتا ہوں کہ اسے پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ لکھنے والے کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے ۔ اور وہ اسے ایسے لفظوں میں حسن ترتیب ، فنی شعور، تخلیقی سلیقے اور طرز ادا کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ وہ تحریر اپنے پڑھنے والوں سے کلام کرنے لگتی ہے ۔ کلام کرتے ہوئے اس کا لہجہ اور انداز ایسا ہوتا ہے کہ پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ یہ بات اس طور پر اور اس انداز سے اس سے پہلے نہیں کہی گئی۔ یہ بات بھی کہنے کی شاید ضرورت نہیں ہے کہ لکھنے والا شعور کی اس منزل تک جہاں خداداد تخلیقی و فکری صلاحیتوں سے پہنچتا ہے وہا ں وسیع مطالعہ اور فنی ریاض ا س کے وہ آلے ہیں جن کی مدد سے وہ اپنی تحریر کو ایسی صورت دینے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ پڑھنے والے کے لیے یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ لکھنے والے نے جو کچھ لکھا ہے اس کا ایک ہی مسودہ تیار کیا تھا یا اسے بار بار لکھا تھا۔ ٹا لسٹائی نے اپنا ناول ’’ وار اینڈ پیس‘‘ کئی بار لکھا اور اس عمل سے گزار کر اسے وہ صورت دی جس صور ت میں وہ آج ساری دنیامیں مشہور ہے۔ کاری گر اور تخلیقی فن کار میں یہی فرق ہے کہ کار ی گر ایک سی چیزیں یکساں مہارت کے ساتھ بناتا رہتا ہے لیکن فنکار ہر بار نئی چیز بناتا ہے اور اسے اس طور پر بناتا ہے کہ وہ پہلی تخلیق سے مختلف اور پہلے سے زیادہ دلکش ہوتی ہے ۔ اسی لیے ’’یکسانیت اور تکرار‘‘ ادب پارے کا وہ عیب ہے جو اسے اچھے ادب کے دائرے سے خار ج کر دیتاہے ۔
اس زاویے سے اپنے معاصر ادب کو دیکھیے تواس کا بڑا حصہ اس بنیادی خوبی سے عاری نظر آتا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والا جلدی میں ہے اور اسے لکھنے سے زیادہ کچھ اور ضروری کام ہیں۔ پڑھنے والا ادب اور ادیب سے یقینا یہ چاہتا ہے کہ وہ اسے دھڑکتی ، پھیلتی اور بدلتی زندگی کے وہ پہلو دکھائے جس سے اس کی بصیرت میں اضافہ اور اس میں وہ شعور پیدا ہو جو اس کے لیے مثالی زندگی کا خواب بن جائے ۔ اسی شعور سے فرد میں عمل کی قوت پیدا ہوتی ہے ۔ اس سطح پر ادب نہ صرف اپنے پڑھنے والے کے ذہن کو متاثر کر کے اسے بدلتا ہے بلکہ خواب دکھا کر عمل کی طرف بھی راغب کرتا ہے ۔ یہ وہ ادب ہے جس کا تعلق براہ راست زندگی سے ہوتا ہے ۔ وہ زندگی جو لکھنے والے کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے ۔ وہ زندگی جو ماضی میں بھی تھی اور وہ زندگی جو آج بھی ہے اور جو لکھنے والے کا بنیادی حوالہ ہے ۔ وہ زندگی جس کے خواب اس نے اپنی تحریروں میں دیکھے اور اپنے پڑھنے والوں کو دکھائے اور جو مستقبل کی زندگی ہے ۔ اچھا ادب یہی کا م کرتا ہے اور ہمیشہ سے یہی کرتا آیا ہے ۔ ہمارے معاصر ادب کی بیشتر تحریر یں چونکہ اس بنیادی خصوصیت سے عاری ہیں اس لیے ایک طرف ادب کا تعلق عمل سے کٹ گیا ہے دوسری طرف قاری سے اس کا رشتہ کمزور پڑ گیا ہے اور تیسرے ادب ایک بے اثر چیز بن کر رہ گیا ہے ۔ جب تک ہمارا لکھنے والا ان رشتوں کو دوبارہ بحال نہیں کر ے گا ،ہمارا ادب اسی طرح بے اثر پامال اور غیر اہم رہے گا۔ سائمن دی بووار نے ژاں پال سارتر سے پوچھا کہ عملاً اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ (سارتر ) فلسفہ لکھ رہا ہے یا ادب تحریر کر رہا ہے ؟سارتر نے جواب دیا کہ جب وہ ’’فلسفہ ‘‘ لکھتا ہے تو اس کے کئی مسودے تیار نہیں کرتا لیکن جب وہ ’’ادب‘‘ لکھتا ہے تو عام طور پر سات آٹھ مسودے تیار کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ درا اصل بات یہ ہے کہ فلسفہ ان الفاظ کا نا م ہے جن کی مدد سے وہ کسی سے مخاطب ہوتا ہے ۔ یہ ناول کی طرح نہیں ہے کہ جس میں آپ یقیناً کسی سے مخاطب ضرور ہوتے ہیں لیکن دوسرے انداز سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ فلسفے میں وہ اپنی بات کو دوسروں کے سامنے واضح کرتا ہے ۔ یہ وضاحت وہ لکھ کر تو ضرور کر تاہے لیکن یہ وضاحت وہ زبانی بھی کر سکتا ہے۔ فلسفے میں وہ اپنے ان خیالات کی وضاحت کرتا ہے جو ’’آج‘‘ اس کے ذہن میں موجود ہیں۔ فلسفہ کو وہ ٹیپ پر ریکارڈ کرا سکتا ہے لیکن ادب کو وہ ٹیپ پر ریکارڈ نہیں کرا سکتا ۔ سارتر نے یہ بھی بتایا کہ فلسفہ لکھتے وقت وہ کوری درین (Corydrane) کھاکر اس کے اثر میں رہتا تھا لیکن ادب اس نے کبھی کوری درین کھانے سے نہیں لکھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کوری درین کھانے سے ایک خاص قسم کی ذہنی و اعصابی سہولت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ سہولت ادبی تحریر کے ساتھ نہیں چل سکتی۔
میں یہاں ادب و فلسفہ کی بحث میں پڑے بغیر ، سارتر کے حوالے سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ادب ایک ایسے سلیقے اور ایک ایسے شعور کا طالب ہے، جس سے لکھنے والا اپنے پورے وجود اور توجہ کے ساتھ ہی عہدہ برآ ہو سکتا ہے۔ لکھنے والے نے جو کچھ کہا ہے یا جو زاویہ نظر اس نے پیش کیا ہے اگر وقت کے ساتھ وہ ازکار رفتہ ہو جائے تو بھی وہ تحریر دلچسپی سے پڑھی جا سکے یا پھر اس میں اتنی تہیں ہوں کہ آنے والے زمانے میں معنی و مفہوم کی اس سے نئی روشنی پھوٹ سگے ۔ میر امن نے ’’باغ و بہار ‘‘ لکھی تو اس کا سماجی پس منظر اس کا اپنا دور تھا لیکن اسے آج بھی پڑھیے تو وہ لطف دیتی ہے ۔ پچھلے دنوں جب اسے ٹیلی وژن پر پڑھ کر سنایا گیا تو اس نے آج بھی سننے والوں کو شدت سے متاثر کیا ۔ اس لیے ’’باغ و بہار‘‘ آج بھی ادب ہے۔
بر خلاف اس کے آج کی تخلیقی تحریریں پڑھیے تو ان میں سے اکثر و بیشتر میں جلدی جلدی کاتنے اور لے دوڑنے کا عمل نظر آئے گا۔ ان تحریروں میں پھوہڑپن کا احساس ہو گا ۔ یوں محسوس ہو گا کہ لکھنے والا نہ صرف زبان و بیان اور الفاظ کے رموز سے نا واقف ہے بلکہ وہ اپنے قدیم اور جدید ادب سے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہے ۔ وہ تخلیقی سطح پر زبان سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہے اور انگریزی مرکبات اور جملوں کے بھونڈے ترجموں سے عبارت کو خراب کر رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ پوری طرح اس کی گرفت میں نہیں ہیں اور لسانی تشکیلات کے حوالے سے وہ جو کچھ کر رہا ہے اس عمل میں وہ اس زبان سے تخلیقی سطح پر ناواقف ہے، جس میں وہ لکھ رہا ہے۔ معاصر ادب کی تحریریں پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مغرب کے رجحانات اور اس کے ادب کی پیروی کر کے وہاں کے ادبی فیشن کو پاکستان میں درآمد کر رہا ہے ۔ وہ اپنے معاشرے اور اس کے مسائل و رجحانات سے کٹا ہوا ہے اور صرف بدیسی اثر ات اور فیشن کی سود اگری کر رہا ہے ۔
اب ایک سوال یہاں یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا کوئی ادیب اس معاشرے سے کٹ کر جس کے لیے وہ لکھ رہا ہے، تخلیقی سطح پر وہ کام کر سکتا ہے جو اسے کرنا چاہیے؟ کیا اس صورت میں وہ اپنے معاشرے کی جدید حسیت کو اس کے اصل رنگ روپ میں پیش کر سکتا ہے؟ علامتی کہانی کے ساتھ بھی اس وقت یہی صورت ہے۔ لاطینی امریکہ کے فکشن کا اثر ہمارے ادب پر ترجموں کے ذریعے پڑ رہا ہے۔ یقینا یہ کوئی بری بات نہیں ہے لیکن صرف بیرونی فیشن کی پیروی سے آپ اچھا ادب تخلیق نہیں کر سکتے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آخر اس حسیت کا ہمارے اپنے معاشرے کی حسیت سے کیا تعلق ہے؟ لاطینی امریکہ میں آمر آج بھی موجود ہیں ۔ وہاں روز حکومتیں بدلتی ہیں ۔ ہر طرف انار کی ہے۔ فرانکو کے مرنے سے پہلے اسپین بھی مسلسل آمریت کا شکار رہا ہے ۔ لاطینی امریکہ اور اسپین کے ادیبوں نے وہاں کے حالات و مسائل کو سامنے رکھ کر اچھا ادب تحریر کیا لیکن اس ادب میں لاطینی امریکہ کے مختلف معاشروں کی حسیت اور وہاں کے مسائل اس طور پر پیش ہوئے ہیں کہ وہاں کے ادیبوں کی تحریریں اپنے معاشرے سے پوری طرح پیوستہ ہیں ۔ کیا ہمارے بیشتر ادیب اس بات کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟
ہمارے معاشرے کے بہت سے مسائل یقینا تیسری دنیا کے مسائل جیسے ہیں لیکن ان مسائل اور ہماری سماجی حسیت کی نوعیت یقینا ان سے مختلف ہے۔مثلاً ہمارے ہاں خواص کا محدود طبقہ ، پیروں فقیروں ، زمینداروں ، وڈیروں کی صورت میں جونک کی طرح، عوام اور سارے معاشرے کا مسلسل خون چوس رہا ہے۔ یہ طبقہ ہمارے سارے قانون ساز اور پالیسی ساز اداروں پر قابض ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔ سارا اقتدار اور کم و بیش سارے وسائل اس کے قبضے میں ہیں ۔ زندگی لہو لہان ہے ۔ مسائل و مصائب کا ایک سیلاب ہے جو مثبت قدروں کو بہائے لیے جا رہا ہے۔ انسانیت گلی کوچوں اور اسپتالوں میں دم توڑ رہی ہے، معالج مریض کا، خواص عوام کا، صنعت کار و تاجر مزدور و صارف کا، استاد شاگرد کا، افسر ما تحت کا ، زمیندار کسان کا خون چوس رہا ہے ۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں آندھی کی طرح ہر چیز کو اڑائے لیے جا رہی ہیں ۔نفرتوں کے عفریت منہ پھاڑے ہراچھی قدر کو ہڑپ کر رہے ہیں۔ ہر قسم کا انصاف عنقا ہو گیا ہے۔ استحصال ہمارا اجتماعی رویہ بن گیا ہے ۔ نا انصافیاں ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر پھیل کر ہمارا مزاج بن گئی ہیں۔
غیر معمولی باتیں معمول بن کر سارے معاشرے کی فضا میں خون کی پچکاریاں چھو ڑ رہی ہیں۔ بڑوں کی حماقتیں ملک کے استحکام کو داؤ پر لگا رہی ہیں ۔ ہمارے فکشن نگار ان مسائل سے آنکھیں بند کیے علامتی کہانیوں کی دیگ چڑھانے اور مغرب سے نئے نئے ادبی فیشن درآمد کر کے اپنی قابلیت و علمیت کی دھاک بٹھانے میں مصروف ہیں۔
میں اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا یہ دور بڑے فکشن کے لیے یقینا ایک بڑا دور ہے بشرطیکہ آپ اپنے دور کی حسیت کے ساتھ سانس لیں اور تیزی سے بدلتے ہوئے اپنے معاشرے کے مسائل اور آنے والی تبدیلیوں کو پورے شعور و بصیرت کے ساتھ اپنی تحریروں میں پیش کریں۔ یہ ایک ایسا دور ہے جو کئی استاں دال کو وجود بخش سکتا ہے ۔ وہ استاں دال جس کے ایک ناول کا ترجمہ آج سے پچاس سال پہلے محمد حسن عسکری مرحوم نے ’’سرخ و سیاہ‘‘ کے نام سے کیا تھا اور وہ استاں دال جو نہ صرف ژاں پال سارترکا محبوب مصنف تھا بلکہ خود سارتر بھی اس جیسا بننا چاہتا تھا ۔ ہمارے لکھنے والوں کے لیے اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ اگر وہ مغرب یا لاطینی امریکہ سے مشینوں، کاروں اور کھانے پینے کے ڈبوں کی طرح خیالات، رجحانات اور ادبی فیشن اسی طرح درآمد کرتے رہے تو اس کا نتیجہ وہی نکلے گاجو اب تک نکلتا آیا ہے یعنی ڈھاک کے تین پات ۔ ہم مغرب سے تکنیک ضرور سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن مسائل ، حسیت ، احساس و شعور ہمارے اپنے ہونے چاہئیں ۔ اسی صور ت میں ہمارے ادب کا رشتہ قاری سے دوبارہ قائم ہو سکے گا اور ہمارا لکھنے والا اپنے معاشرے کے لیے اجنبی نہیں رہے گا ۔ حال ہی میں میں نے مینڈوزا کا ایک جملہ کہیں پڑھا تھا جو اس نے جنرل فرانکو کے بعد کے اسپینی ادب کے بارے میں کہا تھا کہ سماجی تبدیلیوں کے حوالے سے ملک ایک بحران میں مبتلا ہے اور یہ وقت ایک مصنف کے لیے بہترین تخلیقی لمحہ ہے۔ آج کا چیلنج یہ ہے کہ ہمارا ادب اس صورت حال سے کس طرح نبرد آزما ہوتا ہے؟ یہی چیلنج آج ہمارے لکھنے والوں کے سامنے ہے۔
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق