اسلام آباد کے افسانہ سیمینارمیں منشایاد نے مسعود رضا خاکی کے حوالے سے اولین اردو افسانہ ۱۹۰۳ء میں راشد الخیری کے’’نصیر اور خدیجہ ‘‘کو قرار دیا تھا۔اور اس کے لئے مرزا حامد بیگ کی ایک مرتب کردہ کتاب کا حوالہ دیا تھا۔اس کے بعد جب روزنامہ جناح اسلام آباد کی ۱۰ فروری کی اشاعتِ خاص میں افسانے کے سو سال کے حوالے سے افسانہ نگاروں کے تاثرات شائع کئے گئے تو اس میں مرزا حامد بیگ کے اس بیان سے کنفیوژن پیدا ہوا۔انہوں نے ۱۹۰۳ء میں اولین افسانہ کی تحقیق کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’میرے لئے تو خاص جذبات ہیں کہ میری تحقیق کے مطابق افسانے کے سو سال اب پورے ہوئے ۔مجھ سے بڑھ کر کوئی خوشی محسوس نہیں کر سکتا۔‘‘۔۔۔
مرزا حامد بیگ کی خوشی بجا ہے اور ان کے جذبات بھی قابلِ قدر ہیں لیکن اب محمد حمید شاہد کی کل کی لاہور کی افسانہ تقریب کی رپورٹ دیکھ کر وہ بات زیادہ واضح طور پر سامنے آئی جو منشا یاد کے ابتدائیہ میں موجود ہونے کے باوجودزیادہ توجہ نہیں کھینچ سکی تھی۔محمد حمید شاہد کی رپورٹ کے مطابق:
یاد رہے مرزا حامد بیگ ڈاکٹر مسعود خاکی کی اس تحقیق کے پرجوش حامی ہیں ۔ ڈاکٹر مسعو د خاکی نے اپنے تحقیقی مقالہ ’’ اردو افسانے کا ارتقاء ‘‘۱۹۶۵ء میں مکمل کیا تھا جس پر انہیں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ڈاکٹریٹ کا اعزاز دیا گیا ۔اس مقالے کے تیسرے باب میں ’’اردو کاپہلا افسانہ نگار‘‘ کا عنوان قائم کرکے ڈاکٹر مسعود خاکی نے لکھا ہے کہ :
علامہ راشد الخیری ( محمد عبد الرشید دہلوی ) کا سب سے پہلا افسانہ ’’نصیر اور خدیجہ‘‘ ۱۹۰۳ء میں مخزن میں چھپا ۔
سید سجاد حیدر یلدرم کا پہلا افسانہ ۱۹۰۷ میں شائع ہوا جو طبع زاد نہیں تھا۔
خواجہ حسن نظامی نے افسانہ نگاری کا آغاز ۱۹۱۰ کے بعد کیا ۔
منشی پریم چند(نواب رائے) کا پہلا افسانہ ’’روٹی رانی‘‘ ۱۹۰۷ میں شائع ہوا تھا جو ترجمہ تھا تاہم اسی سال ان کا طبع زاد افسانہ ’’دنیا کا سب سے انمول رتن ‘‘بھی شائع ہوا تھا۔
اسی تحقیق کو بعد ازاں تسلیم کر لیا گیا ۔ مرزا حامد بیگ نے بھی اسی تحقیق کو درست جانا ۔ ڈاکٹر مسعود خاکی کا یہ مقالہ کتابی صورت میں مکتبہ خیال لاہور سے اگست ۱۹۸۸ ء میں شائع ہوا تھا اس کتاب کا انتساب بھی ان کی تحقیق کے حوالے سے یوں ہے
’’علامہ راشد الخیری کے نام جنہوں نے اردو کا پہلا افسانہ ’’نصیر اور خدیجہ ‘‘ لکھا‘‘
اس وضاحت اور مرزا حامد بیگ کے بیان سے کنفیوژن پیدا ہورہا ہے۔اگر مسعود رضاخاکی نے اپنا تحقیقی مقالہ ۱۹۶۵ء میں مکمل کر لیا تھا اور اس میں واضح طور پر علامہ راشد الخیری کے افسانہ’’نصیر اور خدیجہ‘‘کو اردو کا پہلا افسانہ قرار دیا گیا تھا تو پھر مرزا حامد بیگ کا اسے اپنی تحقیق قرار دینا عجیب سا لگتا ہے۔حیرت ہے کہ انہوں نے روزنامہ جناح میں اپنے تاثرات میں وقار عظیم اور سید معین الرحمن کی تحقیق کا ذکر کرکے ان کو رد تو کیا ہے لیکن یہ کہیں ذکر نہیں کیا کہ میں جسے ۱۹۰۳ء کا پہلا افسانہ نگار کہہ کر اپنی تحقیق قرار دے رہا ہوں ،اس تحقیق میں مسعود رضا خاکی کا کوئی حصہ ہے۔ممکن ہے اخبار میں کتابت کی غلطی سے کوئی حصہ حذف ہو گیا ہو۔اس لئے امید ہے مرزا حامد بیگ خود اس سلسلے میں وضاحت فرمائیں گے کہ اس تحقیق میں مسعود رضا خاکی کا کتنا حصہ ہے اور ان کا اپنا کیا حصہ ہے۔تاکہ تحقیقی زاویے سے کوئی کنفیوژن نہ رہے۔شکریہ!
۲۳ مارچ ۲۰۰۴ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر عباس نیر
میں نے جناب حیدر قریشی کی بحث دیکھی ہے جو انہوں نے اردو کے پہلے افسانے کے بارے میں کی ہے۔حامد بیگ صاحب کا دعویٰ غلط ہے کہ راشد الخیری کو انہوں نے اردو کا پہلا افسانہ نگار ثابت کیا ہے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ اردو میں پہلا ترجمہ شدہ افسانہ یلدرم(سجاد حیدر یلدرم)نے ۱۹۰۱ء میںلکھا تھا ا اور راشد الخیری ۱۹۰۳ء میں طبع زاد لکھا تھا۔یہ تحقیق ڈاکٹر مسعود رضا خاکی کی ہے اور اس سے اتفاق ڈاکٹر انوار احمد نے بھی کیا ہے جنھوں نے اردو افسانے پر بہت اچھا کام کیا ہے۔انہوں نے مخزن کا وہ شمارہ (دسمبر ۱۹۰۳ء ،شمارہ ۲،جلد ۶)بھی تلاش کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس میں یہ افسانہ ’’نصیر اور خدیجہ‘‘ کے نام سے چھپا تھا۔ ۲۳؍مارچ ۲۰۰۴ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ:اردو افسانے کی اولیت کی تحقیق کے مسئلہ پرسائبر ادبی حلقہ اردو رائٹرز ایٹ یاہو گروپس پر ڈاکٹر مرزا حامد بیگ صاحب سے جو استفسار کیا گیا تھااس کا جواب وہاں نہیں مل سکا ۔شاید ڈاکٹر صاحب انٹرنیٹ پر اردو میں رابطہ نہیں کر سکتے۔ امید ہے اب جدید ادب میںچھپنے کے بعد ڈاکٹر مرزا حامد بیگ اس حوالے سے اپنی وضاحت عنایت فرمائیں گے،جدید ادب کے صفحات حاضر ہیں۔
حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدیدادب جرمنی۔شمارہ نمبر ۳۔جولائی تا دسمبر ۲۰۰۴ء
جدیدادب کے اسی شمارہ نمبر ۳،میں منشا یاد اور افتخار عارف کے مذکورہ مضامین بھی شائع کیے گئے ہیں۔