مشتاق قمرکومیں نے ’’اوراق‘‘میں پڑھنا شروع کیا تھا۔انشائیہ نگار اورافسانہ نگار کی حیثیت سے وہ ’’اوراق‘‘کے سینئر اور مستند لکھنے والوں میں شمار ہوتے تھے۔ان دونوں ادبی اصناف میں ان کی قابلِ قدر خدمات اردو ادب کا حصہ ہیںاور میں ہمیشہ سے ان خدمات کا معترف ہوں۔
میری کم علمی کہیں کہ مشتاق قمرکی ناول نگاری اور ڈرامانگاری کا جوہر مجھ سے مخفی تھا۔ کسی زمانے میں ڈاکٹروسیم انجم نے شاید ایک آدھ بار ناول کا کچھ ذکر کیا بھی تھا لیکن میں ان کی بات پرزیادہ دھیان نہ دے سکا۔اب جنیدمظفر کا ایم فل کا مقالہ’’مشتاق قمر کے ناول وڈراما کا خصوصی مطالعہ‘‘پڑھنے کا موقعہ ملاہے تواپنی لاعلمی اورعدم توجہی پر افسوس ہونے لگاہے۔
جنید مظفر نے اپنے مقالہ کو یونیورسٹی کے تحقیقی طریق کے مطابق چھ ابواب میں تقسیم کیاہے۔ پہلے باب میں ’’مشتاق قمر کی سوانح اور سیرت ‘‘کو موضوع بنایاہے۔دوسرے باب میں ’’اردو ناول – عہد بہ عہد ‘‘کے تحت اردو ناول نگاری کا عمومی جائزہ لیا گیا ہے۔جبکہ تیسرے باب میں ’’ایک دن کا آدمی – تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘کے زیر عنوان مشتاق قمر کے ناول کا خصوصی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔چوتھے باب میں’’اردو ڈراما کی روایت‘‘کواحسن طور پر بیان کرنے کی کاوش کی گئی ہے۔جبکہ پانچویں باب میں ’’مشتاق قمر کے ڈرامے- تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘کے تحت ان کے پانچ ڈراموں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ان میں سے اردو کے تین ڈرامے ’’نقاب‘‘، ’’ذرا نم ہو تو‘‘، اور ’’اس کارمحبت میں‘‘طبعزادہیں، ، ’’آخری سوٹ کیس‘‘انگریزی سے ترجمہ کیا گیا ہے اور ’’لیکھ‘‘پنجابی زبان میں لکھا گیا ہے۔ان ڈراموں کو جس طرح جنید مظفر نے اپنے مقالہ کا موضوع بنایا ہے،اس سے ان کی محنت اور لیاقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔آخری باب میں پورے مقالہ کا محاکمہ اور کتابیات کو شامل کیا گیا ہے۔
ایم فل کے مقالہ’’مشتاق قمر کے ناول وڈراما کا خصوصی مطالعہ‘‘کے ذریعے انشائیہ نگار اور افسانہ نگار مشتاق قمر کی ادبی شخصیت کے بطورناول نگار اور ڈراما نگاردو نئے پہلوسامنے لانے پر جنیدمظفراور ان کے نگران ڈاکٹر نذرخلیق مبارک باد کے مستحق ہیں۔مجھے امید ہے کہ اس تحقیقی مقالہ کی اشاعت کے بعد ہماری علمی و ادبی دنیا میںمشتاق قمرکے مجموعی ادبی کام کو ایک بار پھراہمیت دی جانے لگے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(کتاب میں درج تاثرات)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔