ڈاکٹر الطاف یوسف زئی کا سفرنامہ’’تھائی لینڈ کے رنگ‘‘حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے مختلف یونیورسٹیوں کے ۲۴ پاکستانی اساتذہ کو تھائی لینڈکے مطالعاتی دورہ پر بھیجاگیا تھا۔ تھائی لینڈ میں ایشین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اس وفدکا سہولت کار تھا ان اساتذہ میں ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کے شعبہ اردو کے ڈاکٹر الطاف یوسف زئی بھی شامل تھے۔انہوں نے سفر سے واپسی پر اس سفر کی روداد کو ایک سفر نامہ کی صورت میں قلمبند کیااور اب یہ کتاب’’تھائی لینڈ کے رنگ‘‘کے نام سے شائع ہو گئی ہے۔ اس سفر نامہ میں دورہ کی مصروفیات کے ساتھ تھائی لینڈ کی تہذیب و ثقافت کی مختلف جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔تھائی لینڈکے ماضی کے احوال سے لے کر حال کی ترقیات تک کا ذکر اس سفرنامہ میں مل جاتا ہے۔خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر الطاف یوسف زئی نے ایک کمال یہ کیا ہے کہ تھائی لینڈ میں بساہوا ایک چھوٹا سا’’ کے پی کے‘‘دریافت کرکے دکھا دیا ہے۔بے شک تھائی لینڈ کا سفر نامہ لکھنے والے دوسرے سفرنامہ نگاروں کے ہاں بھی اس کا کچھ ذکر ملتا ہوگالیکن مجھے پہلی بار ’’تھائی لینڈ کے رنگ‘‘کا مطالعہ کرتے ہوئے اس حقیقت کا علم ہوا کہ تھائی لینڈ میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں سے گئے ہوئے کئی لوگ نہ صرف وہاں آباد ہیں بلکہ اپنا تشخص قائم رکھتے ہوئے پوری طرح سے اُس سوسائٹی کا حصہ بن چکے ہیں۔
’’تھائی لینڈ کے رنگ‘‘کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری بھی ان کے ساتھ سفر میں شامل ہوجاتا ہے۔آئیے ہم مل کر ڈاکٹرالطاف یوسف زئی کے سفر میں شامل ہوتے ہیں۔سو تھائی لینڈ روانہ ہونے کے لیے جہاز میں سوار ہوجائیے۔
’’جہاز چڑھتے ہی تھائی ائیرہوسٹس نے جان بچانے کے طریقے سکھانے کے لیے جن اشاروں اور کنایوں کا سہارا لیا اُسی سے ہماری جان نکل گئی۔ اُن کی تھائیوں سے نظر ہٹانا ہمارے لیے جان جوکھوں کا کام تھا۔‘‘ (ص۲۰)
تھائی لینڈ میں نیرومن ایک اچھی گائیڈ اور استانی ثابت ہوئیں۔ پہلے ان کے بارے میں اور پھر ان کے توسط سے تھائی لینڈ کے بارے میں اچھی معلومات فراہم کر دی گئی ہے۔مثلاََ:
’’نیرومن ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پروگرام سپیشلسٹ اور علمی و تربیتی ترویجی شعبے کی صدر نشین ہیں۔ جن کی بنیادی ذمہ داری تربیتی کورس کا انتظام و انصرام اور اس کے بہتر نفاذ کے لیے سہولت کاری تھی۔ آٹھ سا ل سے اس ادارے سے منسلک نیرومن، امریکہ سے ہیومن ریسورس میں گریجویٹ ہیں۔ مزید برآں چنگ مائی یونیورسٹی تھائی لینڈ سے بی ایڈ اور چولا لونگ یونیورسٹی سے ایم ایڈ کی سندیں حاصل کر رکھی ہیں۔ ساتھ ساتھ امریکن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کا کورس ورک لرننگ ٹیکنالوجی کے خصوصی مطالعے کے ساتھ مکمل کیا ہے۔ نیرومن کو بدیسی زبانیں سیکھنے کا ازحد شوق تھا۔ بنکاک سے چنگ مائی سفر کے دوران وہ مجھ سے اکثر پشتو زبان کے الفاظ سیکھتی رہیں۔اُن کو پشتو لفظ ’’مننہ‘‘ بہ معنی تشکر خوب بھایا تھا۔ اس لیے دورانِ تربیت مجھ سے اُن کا مکالمہ ’’مننہ‘‘ پر ہی اختتام پذیر ہوتا۔نیرومن کا لباس انتہائی سادہ ہوتا تھا۔ تیئس دنوں کی اس ٹریننگ میں انھوں نے صرف تین شرٹس تبدیل کیں جبکہ ہمارے ساتھ آئی ہوئی بعض خواتین ایک دن میں تین دفعہ لباس تبدیل کرتی تھیں۔ ‘‘(ص۲۵۔۲۶)
’’نیرومن نے تھائی لینڈکے بارے میں چند ضروری باتیں بتائیں یہاں کی زبان، قومیت اور آب وہوا کے حوالے سے باخبر کیا۔ اُن کی دی گئی معلومات کے مطابق تھائی لینڈ کی پچانوے فی صد آبادی بدھ مت کی پیروکار ہے۔ یہاں کی کرنسی باٹ ہے۔ مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کا چار فی صد ہے۔ رقبے میں یہ ملک پاکستان سے تھوڑا کم لیکن آبادی کا تفاوت بہت زیادہ ہے۔ تھائی لینڈ کی آبادی سات کروڑ ہے۔‘‘(ص۲۸)
تھائی لینڈ کی ماہر تعلیم نیرومن اور ہمارے پاکستانی اساتذہ کی موضوعاتی ترجیحات مختلف ہونے لگیں تو ڈاکٹر الطاف یوسف زئی نے اس کا ذکر یوں کر دیا۔
’’نیرومن سیاسی گفتگو سے پرہیز برت رہی تھیں۔ جبکہ پاکستانی پروفیسر اسی موضوع پر گفتگو کو آگے بڑھناناچاہتے تھے۔ ہم پاکستانیوں کا سیاسی فشارِ خون دیگر اقوام سے بلند ہے۔ بات کو نیا رُخ دینے میں ماہر نیرومن نے کہا تھائی لینڈ ایک زرعی ملک ہے زراعت سے ہونے والی آمدنی باقی تمام شعبوں سے زیادہ ہے۔ نیرومن نے کئی زرعی اجناس کا ذکر کیا جو یہاں کاشت کی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ چاول کاشت ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی غذا کابڑا حصہ سمندر سے آتا ہے۔ مچھلی اور دیگر سمندری جانوروں کو پانی میں اُبال کر کھاتے ہیں۔ چکنائی اور مصالحہ جات کو زیادہ پسند نہیں کرتے پھلوں کا استعمال بھی زیادہ ہے سیب، امرود، کیلا، خربوزہ، تربوز،ناریل اور سب سے بڑھ کر انناس بھی فروخت ہوتے دیکھے۔‘‘
(ص ۴۸)
نیرومن کے ذریعے تھائی لینڈ کے بارے میں اس قسم کی معلومات بھی میسر آتی ہے۔
’’نیرومن نے بتایاکہ تھائی لینڈمیں بادشاہت ہے۔ا س وقت نوویں راما کا دور ہے۔ بادشاہ کے زیرِ سایہ ایک پارلیمنٹ بھی کام کر رہی ہے۔ مگر آج کل معطل ہے۔ وزیرِ اعظم معزول ہیں اور ملک میں فوجی حکومت قائم ہے نیرومن کو اپنی معزول خاتون وزیرِ اعظم سے ہمدردی تھی جس نے کچھ فلاحی کام کیے تھے اور خواتین کے حقوق کے لیے بعض عملی اقدامات اُٹھائے تھے۔ عام شہریوں کے لیے قرضہ سکیم شروع کی جس سے عوام مستفید ہو رہی ہے۔‘‘(ص۲۹)
’’نیرومن کا بادشاہ بھی غالب کے بادشاہ کی طرح موسیقی کا رسیا ہے Saxophone کو مہارت کے ساتھ بجا سکتا ہے۔ اُنیس سال کی عمر میں کئی مشکل اور پکے راگوں کو پیانو اور گٹار پر آسانی اور روانی کے ساتھ بجا سکتا ہے۔ اُن کی بنائی ہوئی دھنوں پر گائے جانے والے نغمے۔ “Love at Sun downs”, “Blues”, “Candle Light” اور “Falling Rain” لوگ شوق سے سنتے اور محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ ساری کہانی تو تاجوری سے پہلے کی ہے۔ بادشاہ بننے کے بعد بھی Jazz کے نام سے ایک بینڈ بنایا اور ریڈیو تھائی لینڈ پر باقاعدگی کے ساتھ پر فارم کرتے اور لوگوں کی ٹیلی فون کالز پر فرمائشیں پوری کرتے تھے۔‘‘
(ص ۳۳)
نیرومن سے باتوں کے بعد ڈاکٹر الطاف یوسف زئی نے تھائی لینڈ میں خیبر پختونخواہ دریافت کرنا شروع کیااور ایسا دریافت کیا کہ لگتا ہے تھائی لینڈ کا وہ علاقہ ہمارے قبائلی علاقہ میں ہی کہیں بسا ہوا ہے۔تھائی لینڈ میں آباد صوبہ خیبر پختونخواہ کی چند جھلکیاں ان اقتباسات میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
’’شلوار قمیص تھائی لوگوںکے لیے کوئی نیا لباس نہیں۔ یہاں صدیوں سے پٹھانوں کا آنا جانا ہے پٹھانوں کی ایک بڑی تعداد یہاں کی شہری ہے۔ یہاں تک کہ جنوبی تھائی لینڈ میں تو ایک صوبے کا نام بھی پٹھانی ہے۔ اسی طرح شمال میں چائنا کی طرف فٹ سانولوک اور چنگ مائی صوبوں میں کثیرتعدادمیں پشتون آباد ہیں۔ فٹ سانو لوک کے امپریل میائوپنگ ہوٹل کے سامنے ایک بہت بڑی پاکستانی مسجد ہے۔ مس اے نے کہا کہ مسجد کے سامنے حلال کھانا آسانی سے مل سکتا ہے۔‘‘ (ص۵۰)
’’تھائی لینڈ کے جنوب میں پانچ صوبے، نراتی وت، ہدجائے، ستون، یلہ اورپٹھانی خالص مسلم آبادی والے صوبے ہیں۔ پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا کی بہت بڑی آبادی یہاں مستقل آباد ہے۔ وہی بودوباش، اُسی طرح کے گھر، وہی حجرے، حجروں کے اندر دالان میں چار پائیاں، لگتا ہے خیبر پختونخوا میں آگئے ہیں۔ یلہ صوبے میں ایک بہت بڑی مسجد ہے۔‘‘(ص۵۵)
’’بنکاک سٹی کے اندر رام کم پینگ روڈ پر ایک چوڑی گلی میں تھوڑے فاصلے پر اسلامک سنٹر کی ایک عالی شان عمارت ہے جو وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ عمارت تھائی لینڈ میں مسلم آبادی کے اتحاد کی نشانی ہے۔ یہاں پانچ سے چھے ہزار آدمی آسانی سے نماز ادا کر سکتے ہیں۔ عام دنوں میں بھی نمازیوں کی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے مگر جمعہ کے دن تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ کئی منزلہ اس خوبصورت سنٹر کے بالا خانے میں بین المذاہب ہم آہنگی پر اکثر پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ (ص۵۷۔۵۸)
’’مسافر کو یہ جان کر خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی کہ یہاں ایک کلب ہے جو تھائی پٹھان کلب کے نام سے مشہور ہے۔ اس کلب کو تھائی لینڈ کے پٹھانوں کا ’’لویہ جرگہ‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔تھائی پٹھان کلب کے ایک ممبرلالہ ڈینگ ہیں۔ تھائی زبان میں ڈینگ سرخ کو کہتے ہیں لالہ کی عمر ستر سال کے لگ بھگ ہو گی۔ پاکستان بننے سے قبل ان کا خاندان یہاں آباد ہوا۔ لالہ ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں ان کی تقریباً چار سو ڈبل ڈیکر گاڑیاں بنکاک سے مختلف صوبوں اور قریبی ممالک برما اور لائوس وغیرہ میں چلتی ہیں۔ رمضان المبارک میں لالہ کی سخاوت اور فراخ دلی دیدنی ہوتی ہے۔ ہزاروں مسلمانوں کو روزانہ افطاری کرواتے ہیں۔ ۲۰۱۰ء کے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے لالہ پاکستان بھی آئے تھے۔ مونچھ داڑھی سے بے نیاز لالہ بنکاک کے ایک پوش علاقے میں رہائش پذیر ہے۔‘‘
(ص۵۹ )
’’تھائی پٹھانوں میں ایک بڑی شخصیت بائی خان کے نام سے مشہور ہے۔ جنوبی تھائی لینڈ کے رہائشی اس خان سے استادِ محترم ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کی اچھی دوستی تھی۔ ظہور اعوان صاحب اکثر ہماری کلاس میں بائی خان کا ذکرِ خیر کرتے تھے۔ وہ کہتے کہ اگر بندے میںصلاحیت ہوتو پردیس میں بھی بڑا نام پیدا کر سکتا اور بڑی دولت کما سکتا ہے۔(ص۶۲)
تھائی لینڈ میں اسلامک بنک کی دریافت بھی پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی کا موجب بنتی ہے۔لیکن تھائی لینڈ اور پاکستان کی اقتصادیات کا موازنہ مختلف ثقافتی نشیب و فراز یا ثقافتی پیچ و خم کے باعث زیادہ دلچسپ ہوجاتا ہے۔ایک اقتباس:
’’تھائی اسلامک بنک کے مرکزی دفتر میں مالا کنڈ کے رہائشی فہد یوسف زئی وائس پریذڈنٹ پراڈکٹ ڈویلپمنٹ کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پچھلے چار سال سے تھائی لینڈ میں مقیم متوازن قدوقامت کے اس خوش شکل پٹھان سے جب میں نے تھائی اور پاکستانی معیشت کے بارے میں سوال کیا تو ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں شرارت لا کر نفی میںسرہلاتے ہوئے کہنے لگے کوئی تقابل نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ تھائی لینڈ کا شمار بھی تیسری دنیا میں ہوتا ہے جہاں سو شیو اکانومک گروتھ میں ابھی بہتری کی گنجائش بھی ہے مگر پاکستان سے اس کا موازنہ خام خیالی ہو گی۔ جب میں نے احساسِ تفاخر کے ساتھ کہا کہ تھائی لینڈ ہم سے اتنا آگے تو نہیں ہمارے تین سوا تین روپے پر اِن کا ایک باٹ ہے۔ میں نے مزاقاً کہا اگر پاکستان کے گلی کوچوں میں ٹھیک طرح سے جھاڑو دی جائے توتھائی لینڈ بن جائے تو انھوں نے ایک چھوٹی سی مثال دی اور میرا احساس تفاخر کا فور ہو گیا۔ کہنے لگے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر جب دس بلین سے بڑھ گئے تو پاکستانیوں نے اس پر بغلیں بجائیں جبکہ عین اُس وقت تھائی زرِمبادلہ کے ذخائر ۲۰۰ ارب ڈالر سے زیادہ تھے۔ میں سوچنے لگا کہ پاکستان سے تین گناکم افرادی قوت نے بیس گنا زیادہ دولت کیسے جمع کر لی۔ خیر اس کا جواب تو مجھے بنکاک کی شبینہ بازاری سے مل گیا جہاں صرف ایک شہر میں لاکھ سے زیادہ قحبائیں ہیں۔ ہر ایک کی اوسط آمدنی پانچ سے دس ہزار باٹ شبانہ ہے۔ جس میں سے آدھی حکومتی کاروبار اور آدھی مضروبہ کے آنگن کے کاروبار میں خرچ ہوتی ہے۔‘‘
(ص۳۸)
بنکاک کی شبینہ بازاری کا ذکرکرتے ہوئے تھائی لینڈ کی اقتصادی ترقی کا حال تو بیان ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی وہاں جسم فروشی کے کاروبار کے حوالے سے ایسی چشم دید معلومات فراہم کرتے ہیں کہ بندہ سوچتا رہ جائے کہ اس احوال سے عبرت حاصل کی جائے؟،لذت کشید کی جائے؟یا بنکاک کا سفر ہی کر لیا جائے تاکہ عبرت ہو یا لذت جو بھی حاصل ہو مکمل طور پر حاصل ہو۔ان اقتباسات سے صورتِ حال کی سنگینی و رنگینی دونوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
’’ یہاں کی رنگین راتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ عریانی کا اشتہار بنی دو شیزائیں سیاحوں کو غمزوں، عشوئوں اور ادائوں سے بوم بوم کی دعوت دیتی نظر آتی ہیں۔ دنیا بھر سے جسم فروش حسینائیں یہاں دولت لوٹنے اور عزت لٹانے آتی ہیں۔ پاتیہ کی رنگین زندگی سرِ شام شروع ہو جاتی ہیں اور صبح تک جاری رہتی ہے ہوٹلوں میں عریاں ڈانس پارٹیاں اور شراب کی محفلیں ساری رات چلتی ہیں پاتیہ میں حسینائیں سیاحوں سے لپٹ لپٹ کر ریٹ طے کرتی ہیں‘‘(ص۶۰)
’’بنکاک شہر کے کونے کونے میں ’’بوم بوم‘‘ کاوردسنائی دیتا ہے گلیوں، کوچوں، چوراہوں، بازاروں، ہوٹلوں، پلازوں، بسوں، ٹرینوں اور اس کے اڈوں میں تھائی حسینائیں بوم بوم کی صدائیں بلند کرتی نظر آتی ہیں۔ مسافر کو ن۔م۔راشد کی نظم ’’اس پیٹر پہ ہے بوم کا سایہ‘‘ یاد آگئی۔ گو کہ نظم میں راشد کا اِشارہ اُلّو نما انسانوں کی طرف ہے مگر لگتا ہے یہی بوم مراد ہے کیونکہ تھائی حسینائیں اپنی ادائوں سے لوگوں کو اُلو ہی تو بناتی ہیں۔یہاںکی راتیں سوتی نہیں بلکہ باٹ اور سونا اُگلتی ہیں شہرمیں کوئی ایسا کونا نہیں جہاں مخصوص بے لباسی میں حسینائیں کھڑی نظر نہ آئیں۔۔۔۔۔۔ اس جنسی عمل کو یہ خواتین بوم بوم کہتی ہیں۔ یہ لفظ سنتے ہی مسافر کو انڈیا اور پاکستان کا وہ کرکٹ میچ یاد آیا جس میں ہندوستانی کمنٹیٹر روی شاستری نے زیادہ چوکے چھکے لگانے پر شاہد خان آفریدی کو بوم بوم آفریدی کہا تھا۔ روی شاستری اور تھائی حسینائوں کے ہاتھ کے مخصوص اشاروں کے ساتھ بوم بوم بولنے سے اس لفظ کے معنی اور بھی واضح ہونے لگے۔‘‘ (ص۳۹۔۴۰)
ایک آسٹریلوی بوڑھا اپنی بیوی کی بے وفائی اور بچوں کی بے اعتنائی کا دکھ لیے ہوئے ہے اور ایک تھائی عورت اپنے بچوں کی محبت میں انہیں پڑھانے کے لیے جسم فروشی میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہی تھی۔ ایک طرف ’’بچوں کی بے اعتنائی‘‘کا دکھ اور دوسری طرف اپنے ’’بچوں سے محبت‘‘کا جذبہ ،دو ’’بے جوڑ روحوں کو کیسے تھوڑا سا جوڑ ‘‘دے رہے ہیں۔ڈاکٹر الطاف یوسف زئی نے اس منظر کو بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے۔اقتباس دیکھئے۔
’’تھائی لینڈ کی ایک مشہور سیر گاہ جو دریا کے ساحل پر واقع ہے میرے لیے دلچسپی کے نت نئے سامان پیدا کرنے کا سبب بنی۔ وہاں میری ملاقات ایک نیم برہنہ بوڑھے آسٹریلوی باشندے سے ہوئی جوایک تھائی لڑکی سے محض چوما چاٹی میں مصروف تھا۔ دونوں میں عمروں کا تفاوت باپ بیٹی جتنا تھا ۔ مسافر نے سوال کیا کہ کیا آپ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو دونوں نے نفی میں سر ہلایا۔ آسٹریلوی بوڑھا بولا میری بیوی کئی سال پہلے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ بچے اپنے اپنے گھروں اور کاروبار میں مصروف ہو گئے۔ مجھے حکومت سے جو ماہانہ گزارہ الائونس ملتا ہے اس پر وہاں گزر بسر مشکل ہے، میں یہاں آجاتا ہوں۔ بیس دنوں کے لیے ایک لڑکی پندرہ سولہ ہزار باٹ پر بک کرتا ہوں وہ میرے ساتھ جگہ جگہ گھومتی ہے اس کا کھانا پینا میرے ذمے ہوتاہے۔ اس کے بدلے یہ مجھ سے گپ شپ کرتی ہے خوش رکھتی ہے، مساج کرتی ہے اور بوم بوم بھی۔ اسی سوال کے جواب میں تھائی لڑکی نے کہا ہر رات نئی جاب کی تلاش سے بہتر ہوتا ہے کہ ایک ہی بندے کے ساتھ جاب کی جائے یوں ہمیں بر وقت پیسے بھی مل جاتے ہیں۔ جس سے ہمارے گھر کا دانہ پانی بھی آسانی سے نکل آتا ہے اور بچوں کی تعلیم بھی ہوجاتی ہے مجھے حیرت ہوئی جب اس نے کہا میرے دو بچے سکول میں پڑھتے ہیں۔ جب تک وہ پڑھ لکھ نہیں جاتے میں اس پیشے سے وابستہ رہوں گی۔ میںنے سوچا آسٹریلوی بابا کے بچوں کی بے اعتنائی اور تھائی ماں کی بچوں سے محبت نے ان دنوں کو کتنا قریب کر دیا تھا دونوں غرض مند بھی تھے اور ایک دوسرے سے لاتعلق بھی۔ عجیب لاتعلقی کا تعلق نبھائے چلے جا رہے تھے۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ کسی باعزت روزگار کے مقابلے میں تم نے اس جاب کو کیوں اپنایا ہے تو اس نے جواباً کہا اس جاب میں محنت کم اور محنتانہ زیادہ ہے۔ باقی رہی بات باعزت روزگار کی تو مرکزی شاہراہ پر بھیک مانگنے والی ایک خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیI am better than herساحل پر غیرمرد کے ساتھ نیم برہنہ لیٹی اس خاتون نے پہلی دفعہ مسافر کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ بھیک مانگنا جسم فروشی سے بھی بدتر اور معیوب فعل ہے۔‘‘
(ص۴۳۔۴۴)
گمان کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا قلم صرف دوسروں کے ایسے احوال میں ہی رواں ہوتا ہے۔لیکن ایسی بات نہیں ہے،ملتے جلتے احوال اپنوں میں بھی کہیں دکھائی دیتے ہیں تو ڈاکٹر الطاف یوسف زئی اس کا ذکر بھی ویسی ہی روانی سے کرتے ہیں جیسی روانی سے تھائی لینڈ کاذکر کر رہے ہیں۔ایک مثال پیش ہے۔
’’تھائی لینڈجانے سے قبل اکثر دوست مشورہ دیتے تھے کہ پینٹ کوٹ سلوا لو تم بین الاقوامی سفر پر جا رہے ہو، لباس بھی بین الاقوامی ہونا چاہیے۔میں کہتا مجھے پینٹ کوٹ سے بیر نہیں پر طبیعت ادھر نہیں جاتی۔میں نے اس بات کا ذکر فہد یوسف زئی سے کیا تو کہنے لگے۔ یہاں ہر طرح کے لوگ آتے ہیں لہٰذا کوئی کسی کو اس نظر سے نہیں دیکھتا کہ کیا پہنا ہے، مجھے مولانا رومؒ کی بات یاد آگئی کہ میں نے بہت سے انسان دیکھے ہیں جن کے بدن پر لباس نہیں ہوتا اور بہت سے لباس والے دیکھے ہیں جن کے اندر انسان نہیں ہوتا ۔‘‘(ص۴۹)
’’لباس پہننے کی ضرورت انسان کو اس لیے ہے کہ جسم کے وہ حصے جو وہ چھپانا چاہتا ہے پردے میں رہیں مگر ہمارے ساتھ ایک ایسی خاتون بھی تھی جو پابند صلوٰۃ تھی اور پردے کو زینتِ حیات سمجھتی تھی۔ دورانِ ٹریننگ کبھی سر سے دوپٹہ نہیں سرکا۔ بائیں بازو جس سے وہ اور بھی بہت سارے کام لیتی سے اپنی صراحی نما گردن (جس کو دیکھ کر ہمارے کوارڈنیٹر میر حسن کے رال ٹپکنے لگتے) کو دوپٹے کے پلو پکڑ کر ڈھانپتی تھی مگر شلوار کی بجائے جو جراب نما پاجامہ موصوفہ نے زیبِ تن کیا ہوتا تھا۔اس کی مستور اشیا اور نمایاں ہوتی اورجب بھی وہ پریزنٹیشن کے لیے کھڑی ہوتی تو سائیں عبدالجبار کی نظریں پاجامے سے اُوپر اُٹھتی ہی نہ تھی ہمارے ٹوکنے پر بولے سائیں کیا کروں۔‘‘ (ص۵۰)
اور اب اس سفرنامہ کی ’’سخن گسترانہ بات‘‘ اس مضمون کے’’ مقطع ‘‘میں آپڑی ہے۔آپ تھائی لینڈ کی اقتصادیات سے شروع کریں یا تہذیب و ثقافت سے اس سماج کا مطالعہ بالآخر تھائی مساج تک لے آتا ہے اوردنیا کے کسی خطے کے مساج کا ذکر کریں ،گفتگو عالمانہ ہو تواس میں تھائی مساج کا ذکر لازماََ آجائے گا اور جب تھائی مساج کا ذکرآئے گا توتھائی سماج کا ذکر بھی آئے گا۔یوں گویا تھائی سماج اور تھائی مساج ایک دوسرے سے لازم و ملزوم کا تعلق رکھتے ہیں۔ڈاکٹرالطاف یوسف زئی نے اس کے تہذیبی و ثقافتی سرے گوتم بدھ کے زمانے میں ڈھونڈ نکالے ہیں۔یوں لطافت و کثافت کا انوکھا منظر سامنے آتا ہے۔وہی بات کہ
؎ لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی۔
ان دو اقتباسات میں جیسے تھائی لینڈ کا پورا ماضی و حال اپنی تہذیبی اونچ نیچ کے ساتھ جلوہ گر ہوجاتا ہے۔
’’بنکاک شہر میں بادشاہ کا محل ہے جو سیکڑوںایکڑ پر مشتمل ہے۔ یہاں بھی بدھا کے مجسّمے اور ان کے سٹوپے کھڑے ہیں جو آبِ زر سے سجائے گئے ہیں۔ سٹوپا کے ساتھ ایک اور شخص کامجسمہ تھا۔ میں نے گائیڈ سے پوچھا۔ یہ کون ہیں تو اُس نے بتایا کہ یہ بدھا کے ڈاکٹر کا مجسمہ ہے۔ جس نے بیماری میں بدھا کا مساج کیا تھا اور وہ تندرست ہو گئے تھے۔ میںنے پوچھا یہ جو تھائی لینڈ میں مساج کی شہرت ہے اس کا ربط کہیں بدھا کے اس ڈاکٹر کے طریقۂ علاج سے تو نہیں۔ انھوں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا جی بالکل ایسا ہی ہے۔ مسافر تھائی لینڈ آنے سے پہلے اس حوالے سے بہت کچھ سن چکا تھا۔ آنکھوں دیکھا حال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ شہر میں بے تحاشا مساج سنٹرز ہیں۔ یہاں تک کہ ایئرپورٹ کے اندر بھی یہ سنٹر قائم ہیں۔ جہاں تھائی دوشیزائیں گاہکوں کا بُلا بُلا کر مساج کرتی ہیں۔ دوسرے ممالک سے آئے سیاح شاید ہی تھائی لینڈ کی کسی اور چیز سے اس قدر لطف اندوز ہوتے ہوں جتنا مساج سے۔ مختلف سنٹرز میں خاندانوں کے خاندان باپ، بیٹی، ماں، بیٹا الگ الگ چارپائیوں پر ایک ہی ہال میں لیٹے تھائی دوشیزائوں سے باجماعت مساج کروا رہے ہوتے ہیں۔ ‘‘(ص۷۳)
’’ تھائی لینڈ میں کئی طریقے مستعمل ہیں جن میں پانچ طریقے زیادہ مشہور ہیں ایک کو آئل مساج کہتے ہیں جس میں جسم پر تیل مَل کر خاص انداز میں مالش کی جاتی ہے۔ دوسراطریقہ ایرومامساج کا ہے جس میں جسم پر مخصوص اروماخو شبو کا عطر مَلا جاتا ہے۔ شبِ زفاف یا حبیبوں کی ملاقات سے پہلے یہ مساج کرایا جاتا ہے۔ تھائی مساج کا بھی ایک مخصوص طریقہ ہوتا ہے۔ جس کے بارے میں ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ مساج جس طریقے سے ہم تھائی کرتے ہیں دوسروں کو نہیں آتا۔ اسی طرح فش مساج بھی کروایا جاتا ہے جس میں پانی کے ٹب میں آدمی کو لیٹا کر یا اس کے جسم کا کوئی حصہ ٹب میں رکھ کر اس پر ایک خاص قسم کی کریم مَلی جاتی ہے پھر اُسی پانی میں سیکڑوں ہزاروں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں چھوڑی جاتی ہیں وہ مچھلیاں جسم پر لگی اس کریم کو چاٹتی رہتی ہیں۔ اس سے جسم کا خودبخود مساج ہو جاتا ہے۔ فٹ مساج بھی یہاں کا مشہور مساج ہے۔اس مساج میں باقی جسم کے بجائے صرف پائوں کا مساج کیا جاتا ہے۔ یہ مساج کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ دورانِ مساج اگر نیند نہ آ جائے تو پیسے واپس۔ مساج کی اور ایک مشہور قسم Body to Bodyمساج ہے۔ اس مساج میں دو شیزائیں اپنے بدن پر تیل یا ایروما عطر مَل کر گاہک کے بدن میں اپنا بدن اس طرح پیوست کرتی ہیں جس سے وہ تیل یا عطر گاہک کے بدن میں جذب ہوتا چلا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کوراحت اور سکون بھی مہیا ہوتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ من چلے شوقین جو ان ہی اس مساج سے لطف حاصل کرتے ہوں گے مگر میں نے بہت سے ایسے بوڑھے بوڑھیاں بھی دیکھے جو اپنے لرزہ براندام جسموں کو ان حسینائوں کے جسم سے مَس کرکے اپنے جسم میں بجلی پیدا کرنے کی سعی لاحاصل کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘(ص۷۴۔۷۵)
ڈاکٹر الطاف یوسف زئی کے اس دلچسپ اقتباس پر اپنا مضمون ختم کرتا ہوں۔مجھے امید ہے کہ ’’تھائی لینڈ کے رنگ‘‘کو نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھا جائے گا۔ادبی طور بھی اور عوامی سطح پر بھی اس سفر نامہ کی پذیرائی ہو گی۔انشاء اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ ۲۳۔جون ۲۰۱۶ء