رضینہ خان کا مقالہ اور چند وضاحتیں
جواہر لال یونیورسٹی دہلی کی ریسرچ اسکالررضینہ خان نے12؍ستمبر2015ء کو قومی کونسل اور غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے ایک سیمینار میں اپنا مقالہ ’’اردو ماہیا اور حیدر قریشی‘‘(۱)پڑھا تھا۔انہوں نے تقریب کے بعد اپنا مقالہ مجھے بھی عنایت کیا۔جسے پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی۔تاہم تحقیقی زاویے سے ایک دو مقامات پر مجھے ایسے محسوس ہوا کہ بات پوری طرح واضح نہیں ہو پائی۔سیمینارز میں وقت کی کمی کے باعث مقالہ میںاختصار کی مجبوری بھی اس کا سبب ہو سکتی ہے۔اوربلا ارادہ تحقیق میں تھوڑی سی کمی رہ جانے کی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔یہاں یہ وضاحت بھی کردوں کہ رضینہ خان میرے افسانوں کے حوالے سے ایم فل کا مقالہ لکھ چکی ہیں(۲)۔یہ مقالہ میرے تئیں ان کے تحقیقی و تنقیدی اخلاص کا اظہار بھی ہے اور ان کے نگران پروفیسر مظہر مہدی کی علمی و ادبی محبت کا مظہربھی۔اس کے لیے میں ان دونوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔
اب میں مزید کسی تمہید کے بغیر براہِ راست اپنی وضاحتوں کی طرف آتا ہوں۔رضینہ خان نے مجھ سے منسوب یہ بات لکھی ہے کہ: ’’ ہمت رائے شرما نے فلم ڈائریکٹر آر۔سی۔تلوارکی مئی 1936ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ خاموشی ‘‘ کے لیے ماہیے لکھے تھے ۔‘‘(مقالہ:رضینہ خان)
میں نے کہیں بھی ایسا نہیں لکھا کہ فلم خاموشی 1936ء میں ریلیز ہوئی ہے۔1936ء میں اس پر کام شروع ہوا اور 1937ء میں یہ فلم ریلیز ہوئی۔ممکن ہے ایک آدھ سال کی مزید تاخیر بھی ہو گئی ہو۔1936ء میں ریلیز کیے جانے والی بات کی تصحیح ضروری ہے۔ویسے یہ معمولی سا سہو ہے۔
رضینہ خان نے مرزا حامد بیگ کے اس الزام کو پیش کیا ہے کہ:
’’ بُک لیٹ ہمت رائے شرما نے خود شائع کر دی یا کم از کم اس بُک کے سرورق کے مندرجات خصوصاً ’’ مئی 1936ء‘‘ کی تاریخ ان کے ذہن کی پیداوار ہو سکتی ہے۔‘‘
لیکن اس کے جواب میں میری وضاحت پورے پس منظر کے ساتھ سامنے نہیں آسکی۔ اس سلسلہ میں مرزا حامد بیگ کے اس الزام کو بھی سامنے رکھ لیا جائے ۔
’’اس جعل سازی سے پردہ اُٹھ جانے کے بعداب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فلم خاموشی کے لیے اردو ماہیے ہمت رائے شرما نے لکھے بھی تھے یا نہیں؟کیا فلم میں یہ ماہیے شامل کئے گئے؟اور اگر شامل کیے گئے تو فلم کا گیت کار ہمت رائے کون تھا؟‘‘(۳)
یہ ساری باتیں میرے پیش نظر تھیں اور تب میں نے اپنے جواب میں جولکھا تھااس کے تین اقتباس پیش ہیں۔
’’یہ گھٹیا الزام کہ ہمت رائے شرما جی نے فلم ’’خاموشی‘‘ کی بک لیٹ جعلی طور پر تیار کی ہے، یا کم از کم اس میں مئی 1936ء کی تاریخ انہوں نے خود لکھوالی ہے، سراسر بہتان ہے اور میں ذاتی طور پر اس کی کھلے لفظوں میں تردید کرتاہوں کیونکہ میں ان سے خط وکتابت کے علاوہ متعدد بار ٹیلی فون پر بات کر چکا ہوں۔ وہ طویل عرصہ سے فالج کا شکار ہیں۔ بات کرتے کرتے کئی بار بات بھول جاتے ہیں ذراسی بات پر بچوں کی طرح بلکنے لگتے ہیں۔ایسی حالت اور ایسی کیفیت کا حامل کوئی شخص ایسی کاریگری نہیں کرسکتا جو مرزا حامد بیگ نے ان سے منسوب کر دی ہے۔ حامد بیگ نے اگر شرما جی کے تعلق سے میری دوسری تحریریں بھی تحقیقی زاویے سے پڑھ لی ہوتیں تو اس تحقیقی جہالت اور بد اخلاقی کے مرتکب نہ ہوتے ۔ شرما جی کی علالت اور مذکورہ کیفیت کا میں اپنے مضمون’ اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما ‘ مطبوعہ’’انشاء‘‘ کلکتہ شمارہ ستمبر ۔ اکتوبر 1998ء اور ’’اوراق‘‘ لاہور شمارہ جنوری ۔ فروری 1999ء میں ذکر کر چکا ہوں۔ حامد بیگ نے وہ مضمون پڑھ رکھا ہوتا تو جعل سازی کا گھٹیا الزام لگانے میں اتنی دلیری نہ دکھاتے۔
ماہیے کی بحث شروع ہونے سے کئی سال پہلے 1984ء میں ہمت رائے شرما جی کا شعری مجموعہ ’’شہاب ثاقب‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس میں شرما جی کے وہی دس ماہیے شامل ہیں جو فلم’’خاموشی‘‘ سے منسوب ہیں۔ اسی مجموعہ کے فلیپ پر شرما جی کے تعارف میں یہ الفاظ بھی درج ہیں:
’’ہمت رائے شرما ایک با کمال فنکار ہیں۔ 23نومبر 1919ء کو شرماصاحب نارودال ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ 17سال کی عمر میں فلم ’’خاموشی‘‘ کے گیت لکھے‘‘۔
1984ء میںہمت رائے شرما جی کویا ان کے تعارف نگار کو کوئی ایسی غرض لاحق نہ تھی کہ ایسی بات لکھ کر خود کو ماہیے کا بانی بنوانا ہے، کیونکہ تب ماہیے کا کوئی مسئلہ ہی نہ تھا ۔ ویسے مرزا حامد بیگ جیسے محقق یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ شرما جی نے تب سے ہی پلاننگ کرلی تھی۔‘‘(۴)
’’ تحقیقی حوالے سے مرزا حامد بیگ اس لئے بھی قابل اعتبار نہیں رہتے کہ وہ ماہیے کی اب تک کی تحقیقی پیش رفت سے ہی غافل ہیں۔ انہوں نے فلم ’’باغبان‘‘ بننے کا سال 1944-45ء بیان کیا ہے جبکہ یہ سال 1937ء ہے۔ جب دستیاب معلومات کے باوجود غفلت کا یہ عالم ہے تو پھر تحقیق کرنے اور ٹامک ٹوئیاں مارنے میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔‘‘(۵)
’’ ہمت رائے شرما جی کے سارے ماہیے ان کے شعری مجموعہ ’’ شہاب ثاقب‘‘ میں بھی شامل ہیں اور یہ مجموعہ ماہیے کی حالیہ بحث سے کہیں پہلے( بیس سال کی تاخیر کے باوجود ) 1984ء میں چھپ چکا ہے۔ ان حقائق کے ہوتے ہوئے مرزا حامد بیگ کا ایسے سوال اٹھانا ان کی جہالت ہے یا پھر دیدہ دانستہ شرارت ہے کہ:
’’ فلم ’’خاموشی‘‘ کے لئے اردو ماہیے ہمت رائے شرما نے لکھے بھی تھے یا نہیں؟ کیا فلم میںیہ ماہیے شامل کئے گئے؟ اور اگر فلم میںیہ ماہیے شامل کئے گئے تو فلم کا گیت کار ہمت رائے شرما کون تھا؟ جب تک سنیما اسکرین پر یا وڈیو کیسٹ کے ذریعے فلم ’’خاموشی‘‘ کے تعارفی ٹائٹلز میں ہمت رائے شرما کا نام نہ دیکھ لیا جائے تب تک یہ معاملہ التوا میں رہے گا‘‘۔
جب ہمت رائے نام ملنے پر بھی آپ نے یہ شرارت کرنی ہے کہ یہ گیت کار ہمت رائے کون ہے؟ تو ٹائٹل پر ان کا نام مل جانے کے بعد بھی آپ کا یہ سوال تو قائم رہے گا۔ سو تادمِ تحریر دستیاب حقائق کی بنیاد پر ہمت رائے شرما جی نے مئی 1936ء سے پہلے ، اردو میں سب سے پہلے ماہیے لکھے تھے اور وہی اردو ماہیے کے بانی ثابت ہوئے ہیں۔‘‘(۶)
رضینہ خان نے اپنے مقالہ میں لکھا ہے:
’’زمانی لحاظ سے ہمت رائے شرما کو فوقیت دینے کے لئے حیدر قریشی نے ’’مسلم انڈینز آف بائیوگرافیکل ڈکشنری‘‘ از احمد سعید ہیڈآف ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری ۔ایم اے او کالج لاہورکا حوالہ پیش کر کے اپنے موقف کو مضبوط بنا یاہے ۔‘‘(۷)
یہاں بے شک میری توصیف کی گئی ہے لیکن زمانی لحاظ سے ہمت رائے شرماجی کو فوقیت دینے کے حقائق سامعین؍قارئین کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔سو مناسب سمجھتا ہوں کہ مذکورہ حقائق کو بھی یہاں پیش کردوں۔
’’حمید نسیم نے اپنی کتاب ’’ناممکن کی جستجو‘‘ کے صفحہ 44اور 46پر جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔ ڈاکٹر تاثیر جنوری 1936ء میں ایم۔اے ۔او کالج امرتسر میں پرنسپل بن کر آئے۔ انہوں نے آتے ہی ایک مشاعرہ برپا کرایا جس میں صوفی تبسم، پنڈت ہری چند اختر ، مولانا سالک اور چراغ حسن حسرتؔ کو لاہور سے مدعو کیا گیا۔ اسی مشاعرہ میں حسرت نے اپنے مشہور مبینہ ’’ماہیے‘‘’ پہلی بار سنائے۔ اس بیان کے مطابق حسرتؔ نے اگر جنوری 1936ء میں ’’ماہیے‘‘ سنائے ہیں تو ان کا سالِ تخلیق بھی کم از کم جنوری 1936ء بنتا ہے۔ یوں انہیں زمانی طور پر شرما جی پر فوقیت مل سکتی ہے۔ لیکن ایک اور حوالہ ملنے سے حسرت کا سالِ تخلیق تو 1936ء رہتا ہے لیکن انہیں شرما جی پر زمانی فوقیت نہیں رہتی۔ ہر لحاظ سے شرما جی کو ان پر فوقیت رہتی ہے۔ اور وہ حوالہ ’’مسلم انڈینز آف بائیو گرافیکل ڈکشنری‘‘ از احمد سعید ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری ، ایم ۔ اے ۔ او کالج لاہور کا ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 327پر ڈاکٹر تاثیر کے جو کوائف درج کئے گئے ہیں ان میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ ڈاکٹر تاثیر نے ایم۔ اے ۔ او کالج امرتسر کے پرنسپل کی حیثیت سے 20مئی 1936ء کو کام شروع کیا۔ سو اگر انہوں نے آتے ہی مشاعرہ کرایا اور اس سلسلے میں آٹھ دس دن لگ گئے تو مشاعرہ کا مہینہ جون بنے گا۔ اگر حسرت نے جو ن 1936ء میں ’’ماہیے‘‘ سنائے تو یہ ’’ خاموشی‘‘ کے گیت تخلیق ہونے اور بک لٹ چھپنے کے بعد کی بات ہو جاتی ہے۔ تاہم اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حسرت نے اپنے ’’ماہیے‘‘ 1936ء میں تخلیق کئے تھے اور یہ 1937ء میں فلم ’’باغباں‘‘ میں شامل بھی کرلئے گئے تھے۔
اب ایک طرف تحقیق کا یہ مرحلہ ہے، دوسری طرف ہمارے ڈاکٹر مرزا حامد بیگ ہیں جو حسرتؔ کے ’’ماہیے‘‘ 1944-45ء میں ہونے کا حکم سنا رہے ہیں۔ اور ایسی تحقیق کے زعم میں ہم لوگوں کے کام کو ’’تحقیق پر آیاہوا برا وقت‘‘ کہہ کر طنز بھی فرما رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے ’’محقق ‘‘ ہی ایسا حکم صادر کر سکتے ہیں۔ پھر بھی انہیں یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ کسی کے ایک آدھ مضمون کو آدھا ادھورا پڑھ کر اور کسی اورآدھے ادھورے حوالے کی بنیاد پر نام نہاد تحقیق کی جائے تو ہلدی کی گانٹھ ملنے پر پنساری بننے والی مثال فٹ بیٹھ جاتی ہے۔‘‘(۸)
میری ان وضاحتوں کے بعد زیرِ بحث موضوع کے وہ سارے تحقیقی پہلو کھل کرسامنے آگئے ہیںجو رضینہ خان کے مقالہ میں ضمناََ یا اشارتاََبیان ہوئے تھے۔ان سارے حقائق کے سامنے ہونے کے بعد تحقیق کے طالب علم اور علماء بہتر طور پر نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔
آخر میں رضینہ خان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے دہلی کے ایک اہم سیمینار کے لیے ماہیا کو اپنا موضوع بنایا۔ان کے مقالہ سے مجھے مزید حقائق کو بیان کرنے کے لیے مثبت تحریک ملی ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ اب اردو ماہیا سے دلچسپی رکھنے والے تخلیق کاروں میں تخلیق کاری کی ایک نئی لہراُٹھے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
(۱) ’’اردو ماہیا اور حیدر قریشی‘‘ از رضینہ خان۔مطبوعہ ۔
(۲)رضینہ خان کا ایم فل کا مقالہ ان لنکس پر مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
http://work-on-haiderqureshi.blogspot.de/2014/05/blog-post_6154.html
https://archive.org/details/MaqalaM.PhilByRazeenaKhan
(۳)اردو ماہیا میں اولیت کا قضیہ از مرزا حامد بیگ۔مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔
شمارہ مئی 2000 ء ۔ص 34
(۴)مرزا صاحب کے جواب میں از حیدر قریشی۔بحوالہ’’ اردو ماہیا تحقیق و تنقید‘‘ص۔506-507
(۵) ایضاََ ص۔507
(۶) ایضاََ ص۔509-510
(۷) ’’اردو ماہیا اور حیدر قریشی‘‘ از رضینہ خان ۔مطبوعہ۔
(۸)مرزا صاحب کے جواب میں از حیدر قریشی۔بحوالہ’’ اردو ماہیا تحقیق و تنقید‘‘ص۔508-509
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہ ماہی اسباق پونہ۔اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۵ء