نذیر ناجی صاحب نے ایک ہی موضوع پر لکھے گئے اپنے ایک ہی کالم کی تین اقساط میں روایتی کالم نگاری سے ہٹ کر علمی مکالمہ کی راہ نکالی تھی۔انہیں پڑھنے کے بعد میں نے ان کی خدمت میں یہ خط نماردِ عمل بھیجاتھا۔قارئین کرام نذیر ناجی صاحب کے زیر گفتگو کالم کی تین اقساط ان تین لنکس پر مطالعہ کر سکتے ہیں۔
http://dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji
/2015-10-04/12839/44324739#.Vhyw6ytsF1g
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji
/2015-10-06/12860/56319882#.VhyxkitsF1g
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji
/2015-10-07/12872/58120410#.VhyxtCtsF1g
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کسی بحث یا مناظرہ کا مقام نہیں ہے،صرف اپنے اپنے طور پرمزید غور و فکرکرکے سنجیدہ علمی مکالمہ کی گنجائش پیدا کرنامقصودہے۔(ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمی ایڈیٹر صاحب روزنامہ دنیالاہور
سلام مسنون
’’نظریہ اور جغرافیہ دونوں کو خدا حافظ‘‘کے زیرِ عنوان نذیر ناجی صاحب کے تین کالم (مطبوعہ روزنامہ دنیا 7,6,4 اکتوبر2015)مسرت آمیز حیرت کے ساتھ پڑھے۔صحافت کے خار زار میں کھو جانے والا تخلیق کاراپنے سارے فکری سرمایہ کی خوشبو کے ساتھ ان کالموں میں دکھائی دے رہا ہے۔ان کالموں میں نذیر ناجی صاحب کی زندگی بھر کی سوچ اورزندگی بھر کا مطالعہ جیسے ہم آمیز ہو گیا ہے۔سائنس،فلسفہ(یہ بھی سائنس ہی کی ذیلی شاخ ہے)،میٹا فزکس کے امتزاج نے بعض فکری گرہیں کھولی ہیں تومزید غور و فکر کے لیے بعض اچٹتے اشارے بھی دے دئیے ہیں۔انہوں نے اس سارے فکری تناظر میں تخلیقی عمل کی اہمیت کو بھی بیان کیا ہے۔یوں ان کے ہاںادب،سائنس اور الہٰیات کا ایک دلچسپ امتزاج دیکھنے کو ملا ہے۔لیکن چونکہ بنیادی طور پر وہ اپنی صحافیانہ ذمہ داری نبھا رہے تھے اس لیے سارے غور و فکر کا رُخ سیاسی و سماجی سطح پر آج کے انسانی مسائل کی طرف موڑ دیا۔یہ بھی کارِ خیر ہی ہے اورمختلف علوم کے امتزاج کی برکت بھی کہ ان کے ذریعے آج کے عالمی سیاسی ومعاشرتی مسائل کے حل ڈھونڈنے کی کاوش کی گئی ہے۔ایسی باتوں پر مقامی یا عالمی مقتدر قوتیں اپنا دماغ نہیں کھپاتیں،وہ اپنی طاقت کے نشہ میں مست ہوتی ہیں۔تاہم معاشرے میں کسی نہ کسی سطح پر مزید غور و فکر کی تحریک ضرور ملتی ہے۔
مجھے ان تین کالموں کے مطالعہ کے دوران کئی مقامات پر کہیں ہلکے سے اختلاف کی گنجائش محسوس ہوئی تو کہیں اسی منظر کا دوسرا رُخ دیکھنے(سوچنے)کا موقعہ ملا۔تاہم یہ اختلافی پہلو بھی نذیر ناجی صاحب کی سوچ ہی کی توسیع ہیں۔مولانا رومی کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ’’عشق عقل ہی کی اعلیٰ،برتر اور ترقی یافتہ صورت ہے۔‘‘نذیر ناجی صاحب نے مختلف مفکرین کی آراء سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے عقل استدلالی،عقل وجدانی اور عقل خالص کی جو درجہ بندی پیش کی ہے وہ قابلِ فہم ہے۔ اس سب کو اگر دماغ کی ہئیت اور کارکردگی سے منسلک کر دیا جائے تو ان باتوں کا سائنس سے تعلق واضح ہوجائے گا۔انسانی دماغ کا اسی ،نوے فیصد حصہ جو بظاہر خاموش پڑا ہوا ہے شاید وہی عقل وجدانی اور عقل خالص کامرکزی دفتر ہواورانسانی( روح کی) عقل کو روحِ اعظم کی عقلِ عظیم سے جوڑتاہو۔
نذیر ناجی صاحب نے روح اور مادے کی دوئی کو رد کیا ہے۔یہ بڑی زبردست بات ہے۔روح مادے کے اندر موجود ہوتی ہے اور مادے کی پرتیں اتارنے لگیں تو ایٹم کے پارٹیکلز کے ابھی تک کے دریافت شدہ آخری سرے تک پہنچتے پہنچتے ہی ’’عدم‘‘ دریافت ہونے لگتا ہے۔ناجی صاحب نے اسے روح کہا ہے،وہ بھی تفہیم کے لیے ایک حد تک ٹھیک ہے۔مولانا رومی نے ارتقائے حیات کے جو چار مدارج بیان فرمائے ہیں(جماداتی،نباتاتی،حیوانی اور انسانی)،علامہ اقبال نے بھی انہیں اسی طرح خودی کی تعمیر میں شامل کر لیا۔انہیں علامتی پیرائے میں تو لیا جا سکتا ہے لیکن کرۂ ارض پر حیات کے ارتقاء کے حوالے سے اسے تسلسل کے طور پر لینا شاید ممکن نہیں رہا۔ ہاں داخلی تعمیر کے سلسلہ میں ان مدارج کو بیان کیا جا سکتا ہے لیکن غور کیا جائے تو داخلی سطح پر یہ چار نہیں بلکہ تین مدارج بنتے ہیں۔نفسِ امّارہ،نفسِ لوّامہ اور نفسِ مطمئنہ۔قرآن شریف میں ان تین کیفیات کا ذکر موجود ہے۔بلکہ مجھے تو پہلے پارہ کے آغاز میںحروف مقطعات الم میں بھی ان تینوں نفسی کیفیات ہی کا سرا ملتادکھائی دیتا ہے۔
نذیر ناجی صاحب نے نور اور نار کا ذکر کیا ہے۔میں ایک عرصہ سے نور اور نار کے فرق کو سمجھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں۔ایک دوست نے بتایا کہ نار جلا دیتی ہے جبکہ نور میں سے تپش منہا ہو جاتی ہے۔میں نے عرض کیا کہ جس نور کی ہلکی سی تجلی نے کوہ طور کو جلا کر راکھ کر دیا،اس میں سے تپش کیسے منہا ہو گئی؟وہ دوست مسکرا کر رہ گئے۔ابھی تک یہی گمان کر پایا ہوں کہ جیسے بجلی سے ہیٹر بھی چلتے ہیں اور فرج اور فریزر بھی،اسی طرح نور اپنے اندرہر تخلیقی قوت لیے ہوئے ہے۔
نذیر ناجی صاحب کے کالم میں حضرت ابن العربی کے ہاں فصوص الحکم میں اللہ تعالیٰ کی تجسیم میں مونث جہت کا ذکرپڑھ کر مجھے ہندو ؤں کے بھگوت پران یاد آگئے۔اپنی یادوں کے ایک باب میں ان کا ذکر کرچکا ہوں سو وہیں سے اقتباس یہاں درج کر دیتا ہوں۔مونث جہت کے حوالے سے یہ روداداپنی جگہ غور طلب بھی ہے اور دلچسپ بھی۔
’’ہستیٔ باری تعالیٰ جو اس کائنات کی حقیقتِ عظمیٰ بھی ہے اور روحِ اعظم بھی،اصلاََ ہم اس عظیم ترین ہستی کو بھی اپنے معاشرتی رویوں کے حوالے سے دیکھتے یا سمجھتے ہیں۔جبکہ وہ ہمارے سارے تصورات اور قیاسات سے بالا ہے۔چونکہ ہمارا معاشرہ مردانہ بالادستی کا معاشرہ ہے اسی لیے خدا کے بارے میں بھی عام طور پر مذکر کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ہمارے بر عکس قدیم ہندوستان کے مادری نظام کے اثرات کے نتیجہ میں ہندوؤں میں دیوتاؤں کے ساتھ دیویوںکا تصور بھی موجود رہا ہے۔شری دیوی ،بھگوت پُران میں خالقِ کائنات عورت کے روپ میں ہے۔ اس عقیدہ کے مطابق خالقِ کائنات شری دیوی اپنی تنہائی اور شدتِ جذبات سے مضطرب ہوئی تو اس نے اپنی ہتھیلیوں کو رگڑا۔اس کے نتیجہ میں ہاتھوں پر آبلے پڑ گئے،جو پھوٹ بہے تو پانی کا ایک سیلاب آگیا۔اس پانی سے برہما کی پیدائش ہوئی۔شری دیوی نے برہما سے جنسی ملن کی خواہش کا اظہار کیامگر برہما نے اسے اپنی پیدا کرنے والی کہہ کر اس عمل سے انکار کر دیا۔تب شری دیوی نے برہما کو فنا کر دیا۔ان کے بعد وشنو کو پیدا کیا گیا اور ان سے بھی وہی خواہش دہرائی گئی،وشنو نے بھی برہما کی طرح انکار کیا اور ان کو بھی برہماجیسے انجام سے دوچار ہونا پڑا۔وشنو کے بعد شنکر کا جنم ہوا۔شنکر اِن معاملات میں کافی معاملہ فہم نکلے۔انہوں نے دو شرطوں کے ساتھ شری دیوی کی بات ماننے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ ایک شرط یہ کہ برہما اور وشنو کو دوبارہ پیدا کریںاور ان کے لیے دو دیویاں بھی پیدا کی جائیں۔دوسری شرط یہ کہ شری دیوی خود دوسرا روپ اختیار کریں کیونکہ اس روپ میں بہر حال وہ ماں کا مرتبہ رکھتی ہیں۔چنانچہ شری دیوی نے برہما اور وشنو کو ان کے جوڑوں کے ساتھ دوبارہ خلق کیا اور خود بھی پاروتی کا دوسرا روپ اختیار کیا۔شنکر اور پاروتی کی داستان ہندؤں کے عقائد میں آج بھی کئی جہات سے اہمیت کی حامل ہے۔ہمارے پدری بالا دستی والے معاشروں میں خدا مردانہ صفات کا حامل دکھائی دیتا ہے تو مادری نظام کے قدیم ہندوستان میں خداکے عورت جیسے روپ کی بات دلچسپ ہونے کے ساتھ اپنے ثقافتی پس منظر میں قابلِ فہم بھی لگتی ہے۔باقی خالقِ حقیقی تو ہمارے ہر مردانہ و زنانہ تصور سے کہیں بلند و بالا ہے۔ یہاں تک کہ صفات بھی اس کو سمجھنے اور اس تک رسائی کا ایک وسیلہ تو ہیں لیکن اس عظیم تر حقیقت کے سامنے صفات بھی بہت نیچے رہ جاتی ہیں۔ صفات کا معاملہ یوں ہے کہ ذاتِ احد ہونے کے باوجود ہم صفات کے وسیلے سے اسے مخاطب کرتے ہیں۔مثلاََ:’’ اے میرے رحیم خدا ! مجھ پر رحم فرما‘‘کہیں گے۔رحیم خدا کی بجائے قہار خدا کہہ کر رحم نہیںمانگیں گے۔اسی طرح رزق مانگتے وقت رزاق خدا کہیں گے،جبار خدا نہیں کہیں گے۔علیٰ ھذالقیاس۔اب میرے سوچنے کا معاملہ یوں ہو جاتا ہے کہ بُت سامنے رکھا ہو یا ذہن میں بنایا ہوا ہو،اسے بُت ہی کہیں گے۔کہیں صفاتِ باری تعالیٰ کے معاملہ میں ہم بھی ذہن میں چھپائی ہوئی بت پرستی کا ارتکاب تو نہیںکر رہے؟
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں لا الٰہ الا اللہ ‘‘
(’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب ’’زندگی در زندگی‘‘)
نذیر ناجی صاحب نے تجسیم الہٰی کی نفی کی ہے لیکن اس کے لیے ’’شخصیت‘‘کا لفظ قبول کیا ہے۔شخصیت میں پھر صرف اللہ کا نام ہی نہیں دوسرے صفاتی نام بھی آتے جائیں گے۔ اوراسی گفتگو کے پس منظر میں جب نذیر ناجی صاحب نے لکھا:’’کائناتوں کی تخلیق سے پہلے خلا کو وجود میں لایا گیا ہوگا‘‘تو میرا ذہن کسی اور طرف نکل گیا۔یہاں بھی اپنی ذہنی کشمکش کو اپنی یادوں کے ایک باب سے ہی نقل کر دیتا ہوں۔
’’ یہاں مجھے پاکستان سے سائنس کے ایک استاد ایم سلیم کی یاد آگئی۔پندرہ سولہ سال قبل ان کی ایک چھوٹی سی کتاب پڑھی تھی۔’’پُر اسرارکائنات کا معمہ‘‘۔اس میں کاسمالوجیکل حوالے سے بڑی زبردست معلومات درج کی گئی تھی۔لیکن میرے مطلب کا سب سے اہم حصہ وہ تھا جس میں خلا کی بعض صفات اور خدا کی صفات کا ذکر کیا گیا تھا۔میں نے خدا کو سمجھنے میں اس موازنہ سے زبردست استفادہ کیا۔پہلی سطح پر یہ موازنہ خدا کے بارے میں ہمارے معین تصورات پر کاری ضرب لگاتاہے۔لیکن میں نے (لا الہٰ۔۔) نفی کے اس مرحلہ سے گزر کر خدا کے بارے میں ایک برتر تصور (لا الہ الااللہ )تک رسائی حاصل کی۔نفی کا مرحلہ بجائے خود ایک دلچسپ سفر تھا۔خدا کی جتنی صفات ہیں انہیں ہم دو بڑے خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ایک خانے میں وہ صفات آتی ہیں جو انسان میں چھوٹی سطح پر پائی جاتی ہیں اور خدا میں بہت بڑی سطح پر ان صفات کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔جیسے ربوبیت، رحیمیت، رحمانیت، قہاریت، جباریت وغیرہا۔ ان صفات کے علاوہ ایسی جتنی بھی صفات ہیں جو انسان میں تو نہیں پائی جاتیں لیکن وہ ساری صفات خدا کے ساتھ خلا میں بھی پائی جاتی ہیں۔ایم سلیم نے مجھے ان صفات کا موازنہ کرکے ایک نئے فکری جہان کی سیر کرادی تھی۔چند مثالیں یہاں بھی درج کر دیتا ہوں۔
۱۔خدا سب سے بڑا ہے۔اس کی بڑائی کی کوئی حد نہیں ہے۔خلا بھی ساری کائنات سے بڑا ہے۔جہاں تک مادی کائنات ہے،خلا موجود ہے اور اس سے سوا بھی خلا ہی خلا ہے۔
۲۔خدا واحد ہے۔خلا بھی پوری کائنات میں ایک ہی ہے۔
۳۔خدا کسی سے پیدا نہیں ہوا۔خلا بھی کسی سے پیدا نہیں ہوا۔
۴۔خدا بے نیاز ہے۔اور بے نیاز کی تعریف یہ ہے کہ اسے کسی کی کوئی ضرورت نہ ہو لیکن سب کو اس کی ضرورت ہو۔اس مادی کائنات کو اپنے وجود کے قیام کے لئے خلا کی اشد ضرورت ہے۔لیکن خلا کو کسی کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ پرواہ۔
۵۔خدا ہر جگہ موجود ہے اور ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ خلا بھی ہر جگہ موجود ہے اور ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے ۔
لیکن شاید اتنا کہہ دینے سے بات واضح نہیں ہو گی اس لئے اس سائنسی نکتے کی آسان لفظوں میں وضا حت کردینا ضروری ہے۔ ڈاکٹروزیر آغا سے زبانی طور پر بھی اور ان کی خود نوشت سوانح کے ذریعے بھی اتنا تو جان چکا ہوں کہ اگر کروڑوں نوری سال سے بھی زیادہ مسافت پر پھیلی ہوئی ساری مادی کائنات میں سے خلا کو نکال دیا جائے تو سارامادہ ایک گیند کے برابر یا اس سے بھی کم چمچ بھر رہ جائے گا۔بعض سائنس دانوں کے نزدیک اسے Compress کیا جائے تویہ اس سے بھی کم ہوکر سوئی کی نوک پر سما جائے گا ۔اگر کوئی اینٹی میٹر اس سے ٹکرا جائے تو یہ مادہ بھی گاما ریز میں تبدیل ہو کر غائب ہوجائے گا اور باقی صرف خلا رہ جائے گا۔اور خدا کی بجائے خلا کے لفظ سے بھی غالبؔ کا یہ شعر اپنے مفہوم میں غلط نہیں رہے گا۔
نہ تھا کچھ، تو خلا تھا، کچھ نہ ہوتا، تو خلا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں، تو کیا ہوتا!
شہ رگ سے قریب ہونے والی بات کی وضاحت رہی جا رہی ہے۔اسے بھی آسان لفظوں میں بیان کرنا ضروری ہے۔ایٹم کے اندر جو پارٹیکلز ہیں ان کے درمیان بھی خلا ہے۔ پروٹون اور الیکٹرون کے درمیان خلا کو سمجھنے کے لئے یہ جان لیں کہ اگر پروٹون کا سائز ایک فٹ بال جتنا تصور کر لیا جائے تو اس سے الیکٹرون تقریباََ دو میل کی دوری پر ہوگا۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے وجود کے ہر ذرے میں خلا کس حد تک سرایت کئے ہوئے ہے اور اسی مناسبت سے وہ واضح طور پر ہم سے ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔
سو یوں ایک سطح پر فکری طورپر میرا مسئلہ یہ بنا کہ خدا کو اس کی صفات کے ذریعے جانا جائے تو انسانی صفات اور خلا کی صفات جیسی مشترکہ صفات کو چھوڑ کر کوئی ایسی صفت بھی ہونی چاہئے جو صرف خدا ہی کا امتیاز ہو۔اور وہ صفت کونسی ہے؟۔۔۔میری زندگی کا بیشتر عرصہ ایک شوگر مل میں مزدوری کرتے گزرا ہے۔وہاں لیبارٹری میں گرمیوں کے دنوں میں بہت ہی چھوٹے چھوٹے روشنی کے کیڑے آجاتے تھے(ان کیڑوں کے کچھ احوال کے لئے میرا ایک پرانا افسانہ’’پتھر ہوتے وجود کا دُکھ‘‘ پڑھئے)۔ان میں سے کوئی کیڑا اگر پوری شوگر مل کی حقیقت جا ننا چاہے تو یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔انسان کی حقیقت خدا کے سامنے کیڑے اور شوگر مل کی مناسبت جیسی بھی نہیں ہے۔لیکن پھر بھی انسان میں اپنے خالق و مالک کو جاننے کی جستجو تو ہے۔
حضرت علیؓ کا ایک فرمان اس جستجو میں میری رہنمائی کر گیا۔کمال التوحید نفی عن الصفات۔۔۔توحید کی حقیقت اور کمال تب ظہور فرماتا ہے جب صفات کی بھی نفی ہوجاتی ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ صفات بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔اور اس حقیقتِ عظمیٰ کے سامنے صفاتی نام بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔پھر ایک حدیث شریف میں مذکور ایک دعا کے ذریعے بھی خدا کو جاننے کی جستجو کو تسکین سی ملی۔مسلم شریف کی اس دعا کا متعلقہ حصہ یہاں تبرکاََ درج کر دیتا ہوں۔اللھم ۔۔۔اسئا لک بکل اسمِِ ھو لک سمیت بہ نفسک او انزلتہ فی کتابک او علمتہ احدا من خلقک اواستاء ثرت بہ فی علم الغیب عندک ان تجعل القرآن العظیم ربیع قلبی اے اللہ !۔۔۔میں سوال کرتا ہوں تیرے اس نام کے ساتھ جو تونے اپنے لیے پسند کیا،یا اپنی کتاب میں تونے اتارا ہے،یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے،یا اپنے علم غیب میں تو نے اسے اختیار کر رکھا ہے،اس بات کا کہ تو کر دے قرآن مجید کو میرے دل کی فرحت و خوشی۔
گویا خدا کا کوئی ایک ایسا نام ابھی ہے جو بڑی بڑی صاحبِ عرفان ہستیوں کو بھی معلوم نہیں ہے۔‘‘(’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب ’’رہے نام اللہ کا!‘‘)
نذیر ناجی صاحب نے اقبال کے حوالے سے تخلیقی گناہ کی جو بات کی ہے،مزے کی لگی ہے۔اسی طرح اقبال کے حوالے سے دوزخ کی اصلاحی کیفیت کا ذکر بھی دلچسپ بلکہ امید افزاء لگا۔اسے میں اپنے طور پر یوں سوچتا ہوں کہ روح خالص سونا ہے۔انسان اپنے گناہوں سے اس میں کھوٹ شامل کرتا جاتا ہے۔سو دوزخ ایسی کٹھالی ہو گی جس میں گناہوں کا سارا کھوٹ نکل جائے گا اور خالص سونے جیسی روح اپنے اصل مسکن میں بھیج دی جائے گی۔باقی واللہ اعلم۔
خدا کا شکر ہے کہ نذیر ناجی صاحب نے اپنی اس تحریر کو ضائع نہیں کیا۔بے ساختہ لکھی گئی اس تحریر میں اگر کہیں ربط باہمی کی کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ بھی نذیر ناجی صاحب کے اخلاص کی مظہر ہے۔حقیقتاََ وہ ایسی کمی بھی نہیں ہے بلکہ فکری تسلسل میں ایک موضوع سے دوسری طرف جست بھرنے سے مشابہ ہے۔میں نے ان کے چند چیدہ چیدہ نکات کو اپنا موضوع بنایا ہے۔اگر ہر اہم نکتے پر مکالمہ کرنے لگتا تو شاید ان کے تینوں کالموں سے زیادہ لکھنا پڑجاتا۔ان کا شکر گزار ہوں کہ ان کے کالموں نے مجھے اپنے سوالات کی روشنی میں مزید غور و فکر کی طرف مائل کیا
نذیر ناجی صاحب کے ان کالموں کا خلاصہ اتحاد آدم اور ارفع مذہب کے جس تصور کو اجاگر کر رہا ہے،وہ آج کے عہد کی ضرورت ہے۔خدا کرے کہ عالمی سطح پر ایسی سوچ توانا ہو سکے اور انسانیت کی سلامتی اور بقا کو لاحق خدشات دور ہو جائیں۔آمین۔
والسلام
حیدر قریشی(جرمنی) ۷؍اکتوبر۲۰۱۵ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://punjnud.com/Aarticles_detail.aspx?ArticleID=55&
ArticleTitle=Nazeer%20Naji%20Ke%20Teen%20Column