جوگندر پال:اردوفکشن کی شان
جوگندر پال سے میرا تعلق ادبی محبت کا تعلق ہے۔اپنی ادبی زندگی کے اوائل میںان کا سب سے پہلا افسانہ جو میں نے پڑھا،اس کا نام تھا’’بھوک پریت‘‘۔یہ افسانہ نقوش لاہور کے کسی خاص شمارے میں شامل تھا۔ ان سے پہلے انتظار حسین اورانورسجادکو تھوڑا بہت پڑھا تھا۔انتظار حسین نسبتاََ اچھے لگے تھے ۔ لیکن جوگندر پال کی بات ہی کچھ اور تھی۔میرے لیے وہ واقعتاََ خود ایک دیومالائی کردار تھے۔ان کی کہانیاں ان کے اندر گم تھیں اور وہ اپنی کہانیوں کے اندر گم تھے۔بلراج کومل پہلی بار پاکستان آئے تو ان سے ملاقات کے دوران معلوم ہوا کہ وہ جوگندر پال کے سمدھی ہیں تومیری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔میں ان سے صرف جوگندر پال کی باتیں کررہا تھا اور انہیں کے بارے پوچھ رہا تھا۔انہوں نے بعد میں اپنے پاکستان کے سفرکی روداد میں میرے اس والہانہ پن کا کچھ ذکر بھی کیا تھا۔یہ روداد ’’اوراق‘‘لاہور میں شائع ہوئی تھی۔
پھر یوں ہوا کہ خود جوگندر پال پاکستان کی (اپنے آبائی علاقے کی)سیاحت نہیں بلکہ زیارت کرنے آنکلے۔ میری تو لاٹری نکل آئی۔ان کے لاہور پہنچنے کے ٹائم ٹیبل کے مطابق میں بھی لاہور پہنچ گیا۔پھر دو دن ان کے ساتھ رہنے کا موقعہ ملا۔جو ادبی تعلق قائم تھا،مزید مستحکم ہوا۔ان کی شخصیت کی سادگی اور بے نیازی ان کی شان تھی اور ان دونوں خوبیوں کے ہوتے ہوئے بھی ان کی شخصیت میں ایک طلسماتی آن بان تھی۔اردو افسانے کا ایک دور پریم چند سے شروع ہو کرراجندر سنگھ بیدی،کرشن چندراور منٹو پر مکمل ہوتاہے اور دوسرا دورانتظار حسین،انور سجاد اور رشید امجدسے شروع ہوتا ہے۔جوگندر پال ان دونوں ادوار کے سنگم پر اپنے پورے تخلیقی وجود کے ساتھ سر بلند کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔وہ پریم،چند سے منٹو تک ترقی پسند اور حقیقت پسند افسانہ نگاروں کے ساتھ ان کے عہد کی تکمیل کرتے دکھائی دیتے ہیں تو وہیںنئے افسانے کے آغاز پرنئے افسانے کے پیش رو کے طور پراسے بڑھاوا دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ترقی پسند افسانے اور جدید افسانے دونوں کے ساتھ پورے ادبی وقار کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کراپنے پورے اور اونچے ادبی قدکے ساتھ کھڑا ہونے والایہ تخلیق کار اردو کی ادبی تاریخ کا بے حد اہم کردار ہے۔ایسا اہم کردار جسے ابھی اس کا عہد پوری طرح جان نہیں سکا۔یہ زمانی سنگم کئی تخلیق کاروں نے دیکھا لیکن اس منفرد مقام کو جوگندر پال کے علاوہ کوئی نیا کہانی کار حاصل نہیں کر سکا۔
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
میں نے اوپر جوگندر پال کی سادگی اور بے نیازی کا ذکر کیا ہے۔ان کی بے نیازی دکھاوے کی نہیں تھی تھی،وہ اندر باہر سے واقعتاََ بڑے ہی بے نیاز ادیب تھے۔وہ نقاد جو سمجھتے ہیں کہ تخلیق کار ان کے در پر حاضری دیتا رہے تو وہ اس کی تعریف کریں گے،جوگندرپال نے ایسے بڑے نقادوں کو کبھی منہ نہیں لگایا۔اپنی دانست میں ان بڑے نقادوں نے جوگندر پال کو بری طرح نظر انداز کیالیکن جوگندرپال کو اپنے لکھے ہوئے پر جو اعتماد تھاوہ کبھی متزلزل نہیں ہوا۔آج وہ نام نہاد نقاد خود ادبی موت کا شکار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
جوگندر پال سے میرا تعلق سراسر ادبی نیازمندی کا تعلق تھااور ہے۔اسی لیے میں نے اور فرحت نواز نے ۱۹۸۵ء میں ’’جدید ادب‘‘کا جوگندر پال نمبر شائع کیا تھاجوتب تک انڈیا کے کسی زندہ ادیب کا پاکستان سے شائع ہونے والا پہلا نمبر تھا۔اسے میں اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہوں۔ہمارے ہاں بعض شاعروں؍ادیبوں نے یہ وطیرہ اختیار کر رکھا ہے کہ کسی بڑے ادیب کی وفات پر اس کا ذکر اس انداز سے کیا جائے کہ تعزیتی رپورتاژ مرنے والے کی توصیف سے زیادہ نوحہ لکھنے والے کی عظمت کو اجاگرکرنے لگے۔حقائق کی بنیاد پر ایسا کچھ لکھا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں،لیکن تھوڑے سے سچ میں بہت ساراجھوٹ ملا کر اپنی عظمت جتانے والوںنے عظیم بننے کے لیے یہی طریقہ واردات اختیار کر رکھا ہے۔قراۃ العین حیدر،امرتا پریتم،وزیر آغا،احمد فرازجیسے بڑے لکھنے والوں کی وفات پر ان سے زیادہ خود کو بڑا ظاہر کرنے والوں نے نام آوری کا روگ پال کرادب کا ستیا ناس کر کے رکھ دیا ہے۔ایسے ہی ایک ادبی وارداتیے نے جوگندر پال کے ایک مضمون کے ایک حصہ میں ایک ہی جنم میں چار جنموں کی بات پڑھ کر اپنی زندگی کا پی آر نامہ ایک جنم میںچارجنموں کا قصہ بنا لیا۔لیکن بے ساختہ تخلیقی انداز اور گھڑی ہوئی عظمت کا فرق از خود ظاہر ہواجاتا ہے۔
جوگندر پال کے ساتھ میرے ذاتی تعلق کے حوالے سے سچ مچ میں بہت کچھ موجود ہے لیکن میں صرف اپنے ایک ایسے رپورتاژ کے اقتباس پر اکتفا کروں گاجو انڈیا اور پاکستان میں دونوں طرف جوگندر پال کی زندگی میں شائع ہوا اور جسے انہوں نے پڑھا بھی۔یہ میرے لیے ایک بڑااعزازہے۔
’’جوگندر پال جی کے ہاں پہنچا تو وہ گھر کے دروازے کے باہر بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے۔بڑی محبت کے ساتھ ملے۔گھر کے اندر جا کر بیٹھے۔بھابی کرشنا پال کچھ دیر کے لیے کسی کام سے گئی تھیں،کچھ دیر کے بعد وہ بھی آگئیں۔جوگندر پال جی کے ساتھ بہت ساری باتیں ہوئیں لیکن مجھے احساس ہوا کہ وہ بات کرکے بھول جاتے ہیں اور پھر اسی بات کو بتانے لگتے ہیں۔ایک بات پوچھتے،جواب ملنے کے کچھ دیر بعد پھر وہی سوال پوچھنے لگتے۔اس سے اندازہ ہوا کہ یادداشت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔لیکن ایک اور تجربہ ایسا ہوا کہ بہت اداس کرنے والا بھی تھا اور خوشی کا ایک رنگ بھی اس میں شامل تھا۔میرے سامنے ایک دوست کا فون آیا۔ان کا نام راجکمار ملک تھا،میں نے تھوڑی سی بات کرکے فون جوگندر پال جی کو دے دیا۔ان سے کچھ دیر بات کرتے رہے۔بات ختم کرکے فون واپس کیا تو بھابی کرشنا نے ریسیور لے لیا،انہیں ریسیور دیتے ہوئے کہنے لگے ’’حیدر قریشی کا فون تھا‘‘۔اس پر بھابی کرشنا نے بتایا کہ پہلے بھی کئی بار ایسا ہوا ہے کہ فون پر کسی اور سے بات کرتے رہتے ہیں اور جب بات ختم ہوتی ہے تو کہتے ہیں حیدر قریشی کا فون تھا۔میں دہلی شہر میں جوگندر پال جی کوآج کے عہد کے ادبی تخلیقی سطح کے دلی کا دل سمجھتا ہوں،اور مجھے یہ دیکھ کر ایک لحاظ سے خوشی ہوئی کہ میں ادب کی دلی کے دل میں اس حد تک بستا ہوں۔تاہم یہ دکھ کی بات بھی تھی کہ ایسا ذہین تخلیق کار عمر گزرنے کے ساتھ اپنی یادداشت کھورہا تھا۔دراصل بعض باتیں ان کے اندر کھب کر رہ گئی تھیں ورنہ باقی ساری باتیں معمول کے مطابق ہی کر رہے تھے۔مثلاََ ڈاکٹر وزیر آغا کی باتیں،اکبرحمیدی کی باتیں،رشید امجد اور منشا یاد کا ذکر،اور بھی بہت ساری باتیں معمول کے حساب سے کر رہے تھے،بس چند باتیں اور سوال ایسے تھے جنہیں وقفے کے بعد پھر بتانے یاپوچھنے لگتے تھے۔ دوپہر کا کھاناجوگندر پال جی کے ہاں کھایا۔وہیں چند تصویریں بنائیں۔جوگندر پال جی کے سٹڈی روم میں، ڈرائنگ روم میں اور ڈائننگ ٹیبل سے تھوڑا سا ہٹ کر ۔۔۔تصویریں بنائیں۔بھابی کرشنا پال بہت زیادہ کمزور ہو گئی ہیں ،تاہم ان کی یادداشت ذرا بھی کمزور نہیں ہوئی۔اردو فکشن کے جدید تر اور اہم ترین فکشن رائٹر جوگندر پال جی سے زندگی میں ایک بار پھر ملنا میری خوش بختی تھی۔یہ ایک یادگار ملاقات تھی، خوشی اور اداسی کی مختلف کیفیتوں سے بھیگی ہوئی ملاقات۔چار بجے کے قریب ان کے گھر سے جانے کی اجازت طلب کی۔وہ نہ صرف گھر سے باہر تک بلکہ گلی کی سڑک کے آخری سرے تک چھوڑنے آئے۔ انہیں خدا حافظ کہا اور میری گاڑی منداکنی انکلیو سے غالب انسٹی ٹیوٹ کی طرف روانہ ہو گئی۔‘‘
(رپورتاژ’’زندگی کا یادگار سفر‘‘۔مشمولہ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘مطبوعہ ۲۰۱۳ء)
جوگندر پال کی وفات کی خبر ملتے ہی میں نے اردورائٹرزایٹ یاہو گروپس ڈاٹ کام فورم سے اسے ریلیز کیا۔میری خبر جن احباب تک پہنچی انہوں نے تعزیتی ای میلز بھیجیں۔ ۲۳اپریل کو جب جوگندر پال کی فیملی کے لوگ آخری رسومات ادا کرکے گھر پہنچے تو میں نے انہیں دوبارہ فون کیا اور سکریتا کے نام اپنی ای میلز کا بتایاجو میں انہیں بھیج چکا تھا۔ان ای میلز میں امریکہ ، آسٹریلیا اور ڈنمارک کی تین ویب سائٹس کے لنک تھے جہاں میری جاری کردہ خبر کو نمایاں کیا گیا تھا۔اسی روز زاہدہ حناکی جانب سے اسلام آباد کے ایک سیمینارمیں جوگندر پال کی وفات پر تعزیتی قراردادپیش کی گئی اور ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ انڈیا سے نذیر فتح پوری مدیر اسباق پونہ کو یہ خبر میرے ذریعے معلوم ہوئی اور پھر انڈیا کے کئی ادیبوں کو نذیر فتح پوری نے اس افسوس ناک خبر سے آگاہ کیا۔جو تب تک اس سے بے خبر تھے۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی برق رفتاری کے باوجود میری جاری کردہ خبر جس طرح ادبی دنیا تک پہنچی اور اس پر جس طرح ادیبوں کی طرف سے ردِ عمل آیا،اس سے اتنا احساس ضرورہوا کہ جوگندر پال کو زندگی کے آخری سفرمیں ہم نے اچھے سے الوداع کہہ دیاہے۔ اپنا یہ تعزیتی شذرہ جوگندر پال کے ایک افسانچے پر مکمل کرتا ہوں۔
’’زندگی تو اٹوٹ ہے،اسے کوئی ایک جنم میں کیسے پورا کرے۔ہاں،اسی لیے میرا کہنا ہے کہ میں ہی چیخوف ہوں،میں ہی پریم چند ،میں ہی منٹو۔۔۔اور وہ بھی کوئی،جسے ابھی پیدا ہونا ہے۔ہاں بابو،میں اسی لیے بار بار جنم لیتا ہوں کہ اپنا کام پورا کر لوں مگر میرا کام ہر بار ادھورا رہ جاتا ہے۔نہیں،اچھا ہی ہے کہ ادھورا رہ جاتا ہے،اسی لیے تو زندگی کو زوال نہیں،بابو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر۲۳۔جون۲۰۱۶ء