کھٹی میٹھی یادیں لکھنے کا سلسلہ میں نے ۱۹۹۶ء کے اواخر میں شروع کیا تھا۔پہلے یورپ میں ہی کہیں ادھر اُدھر چھپوانا چاہا۔لیکن جلد احساس ہو گیا کہ انہیں پاکستان یا انڈیا کے کسی ادبی رسالے میں چھپوانا زیادہ مناسب رہے گا۔۱۹۹۸ء میں انڈیا کے رسالہ گلبن احمد آباد میں اس کی پہلی قسط شائع ہوئی۔ اس کے بارہ باب گلبن میں شائع ہوتے رہے۔چار باب عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد میں اور باقی جدید ادب جرمنی میں چھپتے رہے۔
کتاب کی صورت میں”کھٹی میٹھی یادیں“کو الگ سے شائع نہیں کرایا لیکن ”عمرِ لاحاصل کا حاصل“کے پہلے عوامی ایڈیشن میں اس کتاب کو الگ طور پر شامل کیا گیا۔۲۰۰۵ء میں مطبوعہ اس ایڈیشن میں یادوں کے چودہ باب شامل تھے۔اس کے بعد ”عمرِ لاحاصل کا حاصل“کا لائبریری ایڈیشن ۲۰۰۹ء میں شائع کیا گیا تو اس میں ”کھٹی میٹھی یادیں“کے اٹھارہ باب شامل تھے۔گویا گیارہ کتابوں کے مجموعے میں شامل ہو کر ”کھٹی میٹھی یادیں“ ایک الگ کتاب کے طور پر موجود رہی۔
”کھٹی میٹھی یادیں“اصل میں میرے لکھے خاکوں کے مجموعہ”میری محبتیں“کا تسلسل ہے۔ صنف کی حیثیت میں خاکوں سے الگ ہو کر بھی یادوں کا یہ مجموعہ ”میری محبتیں“والے سفر ہی کا حصہ ہے۔”عمرِ لاحاصل کا حاصل“ کے دونوں ایڈیشن دہلی سے شائع ہوئے تھے،اس لیے انٹر نیٹ پر مکمل طور پر دستیاب ہونے کے باوجود پاکستان میں ”کھٹی میٹھی یادیں“ کی اشاعت کی ضرورت تھی،خصوصاً اس لیے بھی کہ ”میری محبتیں“کا پہلا ایڈیشن ۱۹۹۵ء میں پاکستان ہی سے شائع ہوا تھا۔ اور میر ی بیشتر یادوں کا تعلق وطنِ عزیزپاکستان سے ہے اور جو پاکستان سے باہر کی یادیں ہیں ان کا منبع بھی پاکستان ہی ہے۔ اب اس کتاب کو پاکستان سے شائع کیا جا رہا ہے تو یہ پہلے دونوں ایڈیشنوں سے زیادہ ابواب پر مشتمل ہے۔اس کتاب میں یادوں کے اکیس باب شامل ہیں۔
پاکستان سے اس کتاب کو شائع کرنے کا ایک بنیادی مقصد تو یہی ہے کہ ان یادوں کا بیشتر تعلق پاکستان سے ہے اوربیرون پاکستان کی یادوں کا منبع بھی پاکستان ہی ہے۔تاہم اس دوران ایک دلچسپ صورتِ حال دیکھنے میں آئی۔پاکستان میں بعض بڑے نام والوں کی نگارشات میں کچھ ایسی باتیں پڑھنے کو ملیں جو کسی نہ کسی رنگ میں میری یادوں میں لکھی جا چکی تھیں۔ایک ہی خطہ کے رہنے والوں کے بعض تجربات اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی سوچ میں ہم آہنگی پائی جا سکتی ہے۔اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن مجھے لگا کہ میری کمزور حیثیت کے باعث ایسی کسی ہم آہنگی کو میرے لیے”حسنِ توارد“قرار دیا جا سکتا ہے۔سو مجھے مناسب لگا کہ کسی سے کوئی الجھاؤ پیدا کیے بغیر اپنی یادوں کی اشاعت کرنے والے رسالوں کے شماروں کی نشان دہی کر دوں۔اس سے میرے لکھے ہوئے کو تھوڑا تحفظ مل جائے گا ۔چنانچہ یادوں کے ہر باب کے آخر میں اس رسالے کا پورا حوالہ دے دیا گیا ہے جس میں وہ باب شائع ہوا تھا۔”کھٹی میٹھی یادیں“میںایسا پہلی بار کیا جا رہا ہے۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ان ساری یادوں کو ان کے مقامی اور زمانی تناظر میں بھی آسانی سے دیکھا جا سکے گا۔
یادوں کے یہ ابواب جب ادبی رسائل میںشائع ہوتے رہے،تب بھی بہت سارے احباب ان پر اپنی پسندیدگی کا برملا اظہار کرتے رہے۔ یک جا صورت میں انہیں پڑھ کر بھی تفصیلی اظہار خیال کرتے رہے۔اب جب یہ کتاب تقریباً مکمل صورت میں پاکستان سے شائع ہو رہی ہے تو مجھے امید ہے کہ پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی اسے دلچسپی کے ساتھ پڑھا جائے گا۔یادوں کا یہ سارا کھٹا میٹھا سلسلہ میری زندگی کا حصہ ہے۔
برادرم سعید شباب اور برادرم ارشد خالد کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مل کر اس کتاب کی اشاعت کا ذمہ اُٹھایا ہے۔مخالفین کا معاملہ تو الگ ہے،حالیہ چندبرسوں میںمجھے جب اپنے بعض قریبی ساتھیوں نے بھی اکیلا کر دینا چاہا،تب بھی ان دوستوں نے مجھے اکیلا نہیں ہونے دیا۔
اللہ دونوں دوستوں کو خوش رکھے!
آخر میں اپنے بھائی نوید انجم مقیم امریکہ کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔نوید کی تحریک پر اس کتاب کو مرتب کرنے اور ٹائٹل کو فائنل کرنے میں خاصی سہولت ہوئی۔
حیدر قریشی
(جرمنی سے) ۲۳ مارچ ۲۰۱۳ء