نئے تعینات ٹیچر نے بائیو کی اپنی پہلی کلاس میں ہی طلبا کو اپنا گرویدہ بنا لیاتھا۔
’’۔۔۔۔اس طرح ان سب شواہد سے اب یہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ ہم انسان، یا یوں کہہ لو کہ زندگی ،اپنی موجودہ شکل کوپہنچنے سے پہلے کئی مرحلوں سے گزری ہے۔۔۔۔۔‘‘
دوسری کلاس میں بھی اس نے نامیاتی ارتقا(EVOLUTION) پر ہی ڈسکشن آگے بڑھائی اور اس پر طلبا کو اپنی رائے اور تبصروں کا موقع دیا۔
’’خرد بینی اور یک خلیہ جانداروں سے آہستہ آہستہ بڑے جانداروں نے ترقی پائی ۔۔۔سادہ ساخت جانوروں سے پے چیدہ ساخت والے جانوروں نے اور پھر ان سے انسان تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسرے لفظوں میں ہم ایک لمبے پروسس کے بعد، جانور سے انسان بنے ہیں۔۔۔۔۔ اور پھر دھیرے دھیرے ، جنگلی اور وحشی انسان سے مہذب اور سماجی انسان بنے ہیں ‘‘
ایک بچہ جو ابھی تک صرف غور سے سن رہاتھا، پہلی بار کچھ پوچھنے کے لئے کھڑا ہوا، ’’سر یہ نامیاتی اِرتقا اب رِیورس (reverse) نہیں ہوسکتا ؟‘‘
ثواب
’پاپا یہ قربانی کیا ہوتی ہے؟‘ چوں کہ بقر عید قریب آ رہی تھی ، قربانی کی یہ اصطلاح مُنا کہیں سکول میں سن کر آیا تھا۔
’بیٹے قربانی ۔۔۔۔۔۔مطلب۔۔۔۔۔۔sacrifice ۔یعنی خدا کی خوش نودی کے لئے اپنی کسی پیاری سے پیاری چیز کو قربان کردینا‘
’مگر پاپا خدا ایساکیوں چاہتے ہیں کہ اس کے بندے اپنی پیاری سے پیاری چیز اُسے دے دیں، وہ بھی تو اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے نا‘
’نہیں بیٹا خدا کو بندوں سے کوئی چیز چاہئے نہیں ہوتی۔۔۔انسان اپنا یہ عہد تازہ کرنے کے لئے کہ وہ خدا کی رضا کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے،کچھ بھی چھوڑ سکتا ہے ،حتیٰ کہ اپنی پیاری سے پیاری چیز بھی قربان کر سکتا ہے۔۔۔۔۔سو ،وہ قربانی کرتا ہے تاکہ ثابت کرے کہ وہ دنیوی چیزوں اور خواہشوں کا غلام نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔‘
’اچھا ا ا ا ا‘ منا نے ایسے کہا جیسے ساری بات سمجھ کرمطمئن ہو گیا ہو۔
بقر عید کے دوسر ے روز مجھے پھر پکڑ لیا
’پاپا آپ کہتے تھے اپنی پیاری چیز قربان کرنا قربانی ہوتا ہے۔‘
ہاں تو؟‘
’مگر یہاں قربانی تو جانوروں نے دی اپنی پیاری جان کی۔۔۔۔اللہ کے بندوں نے توکچھ بھی قربان نہیں کیا۔۔۔۔الٹا قربان ہونے والے کو ہی مزے لے لے کر کھایا۔۔۔۔۔اب ثواب کس کو ملے گا۔۔۔ جانوروں کو یا انسانوں کو؟‘
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...